عصری اسلوب کا نمائندہ شاعر : طارق متین
از : مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
شاعری کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے ، اس لیے کہ شاعری میں کسب سے زیادہ واردات کی اہمیت ہوتی ہے. شاعری ایک خدا داد عطیہ اور وجدانی کیفیت کانام ہے ۔شاعر کی وجدانی کیفیت، تدبر ودانش اور اس کے تخیل کی پرواز اسے مختلف موضوعات پر اشعار موزوں کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔جس شاعر میں یہ وجدانی و شعوری کیفیت جس قدر مستحکم ہوگی اس کی شاعری اتنی ہی مؤثر ہوگی. سرزمینِ بہار سے تعلق رکھنے والے وہ شعراء جن کے کلام میں بلا کی کشش اور دلنشیں تاثیر پائی جاتی ہے ان میں ایک نمایاں نام صاحبِ دیوان شاعر جناب طارق متین لکھمنیاوی کا ہے.

جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا. اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے آمین!
ان کے انتقال سے صرف بیگوسرائے ہی نہیں بلکہ پوری ریاست کا بڑا ادبی خسارہ ہوا. ادبی بزم پر بے رونقی چھا گئی، شاعری کی شامیں بے نور اور شعر وسخن کی مجلسیں سونی ہوگئیں۔
ضرورت ہے کہ مختصر انداز میں ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی جائے تا کہ نئی نسل ان کے ادبی کارناموں سے واقف ہوسکے جناب طارق متین ایک بلند پایہ شاعر ہیں اور ان کا کلام ادبیت وعلمیت کا مرقع ہے. بڑے شعراء کی شاعری کا عکس ان کے کلام میں نظر آتا ہے۔
ماضی میں کئی شعراء گذرے ہیں جن کا کلام سہل ممتنع کی مثال ہے، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے بہت سے اشعار ضرب المثل بن گئے.. مثلاً مزا غالب. میر تقی میر.جب کہ بعض شعراء کے کلام میں اتنی گہرائی ہے کہ اس کا صحیح ادراک غالب جیسے شعراء ہی کرسکتے ہیں۔
مرزا غالب نے مومن خان مومن کا جب یہ شعر سناکہ:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تو سن کر دیر تک سر دھنتے رہے اور کہنے لگے کہ یہ شعر تو اس اعلی معیار کا ہے کہ میں اس ایک شعر پر اپنا پورا دیوان قربان کرسکتا ہوں.
شاعری کی دنیا میں ہمیں الگ الگ مثالیں ملتی ہیں. کسی شاعر کے کلام میں جذبات کی عکاسی اور منظر کشی عمدگی سے ادا ہوتی ہے تو کسی شاعر میں یہ صفت معدوم ہوتی ہے ۔ اس عاجز نے جب بھی طارق متین کی شاعری کا مطالعہ کیا؛ اس میں غضب کی چاشنی اور بلا کی کشش محسوس ہوئی . عام طور پر ایسی چاشنی دیگر معاصر شعراء کے کلام میں نہیں محسوس ہوتی.
طارق متین کی غزل کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :
مجھ پر احسان ہے میرے نقطہ چینوں کا
میں اپنے کل کو آج سے بہتر بناتا ہوں
کتنا مؤثر اور عمدہ اسلوب ہے طارق متین کا
آپ سنجیدہ شاعری کرتے ہیں، ان کی زبان بھی عمدہ، انداز بھی سلیس اور پیرایہ بیان بھی مؤثر ہے ،یہ خوبیاں آپ کے کلام کے حسن کو مستزاد کرتی ہیں۔ طارق متین تہذیب و روحانیت کی سرزمین لکھمنیا ضلع بیگوسرائے میں 10 جولائی 1968ءکو پیدا ہوئے ۔اپنی جائے پیدائش لکھمنیا سے انہیں عشق تھا. اپنے کلام میں متعدد مقامات پر اس کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں. ایک جگہ لکھتے ہیں
جو لکھنوں سے ہے موسوم شہرِ لکھمنیا
اسی دیارِ محبت نشاں کے ہم بھی ہیں
جو ابتدا سے ہی تہذیب کا ہے گہوارہ
بڑا غرور ہے ہم کو، وہاں کے ہم بھی ہیں
بارہویں جماعت کے دوران انھیں شعرو ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی ؛یہ شوق اتنا پروان چڑھا کہ انھوں نے وقتی طور پر تعلیم ترک کردی کے اور اشعار موزوں کرنے میں منہمک ہوگئے ، انفرادیت اور جدت پسندی کے سبب بہت جلد ان کا کلام اردو کے معیاری اخبار و رسائل کی زینت بننے لگا اور لوگوں میں دلچسپی سے پڑھا جانے لگا. ۔چند سالوں تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہنے کے بعد انھوں نے دوبارہ تحصیل علم کا سلسلہ شروع کیا اور انگریزی زبان و ادب میں ماسٹر ڈگری تک تعلیم مکمل کی ۔
طارق متین نے لکھمنیاں کی ادبی انجمن ”حلقۂ اد ب“ میں پہلی مرتبہ ایک طرحی نشست میں شریک ہوکر اپنا کلام پڑھا ،وہ کلام صرف دو اشعار پر مشتمل تھا ۔
متاعِ غم کے سوا اس کو کیا ملا ہوگا
شبِ دبیرِ ستم جس کے سر گئی ہوگی
ہم آج جا نہ سکے بزمِ یار میں طارق
کسی رقیب کی قسمت سنور گئی ہوگی
طارق متین نے 1983 ءکے بعد باضابطہ غزلیں کہنی شرو ع کردی ،وہ برابر طرحی مشاعرے میں شرکت کرنے لگے ،وہ بتاتے ہیں ،ان کے بیشتر کلام ضائع ہوگئے ،اور بعض اوقات انھوں نے خودبھی اسے ضائع کردیا۔ اسی دور میں انھوں نے ایک غزل پڑھی تھی ، جس کا ایک شعر بہت مشہور ہوا:
رو رو کے کس کی یاد میں اے شمعِ بزم تو
اشکوں کی اوڑھتی ہے رِدا سر سے پاؤں تک
شعروادب کی روایت ان کی سرزمین لکھمنیا میں قبل سے موجود تھی. یہاں کے استاذ شعراء میں عبدالصمد تپش ،نصر حمید خلش،شمیم بیتابؔ، منظر حمید غم اورظفر حبیب وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں. اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھیں زبان وثقافت اور شعر وادب کا سرمایہ وراثت میں ملا۔اس وراثت کو انھوں نے نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس میں اپنی انفرادیت بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی ۔(مستفاد از شاہ عمران حسن)
طارق متین مسلسل تین دہائیوں تک پرورش لوح وقلم کرتے رہے اور زبان وقلم سے اپنی شاعری کا نقش قائم کرتے رہے ۔اس درمیان ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے
۔ جس کے نام بالترتیب اس طرح ہیں :
مشک ِسخن(1997)،
قندیلِ ہنر(2008ء)
اورغزالِ درد (2016ء)۔
صفدرامام قادری نے 2016 میں ان کے شعری مجموعہ کی کلیات کو ترتیب دیا ،اس کا نام ”ریاضت ِنیم شب‘ ‘ ہے ۔ یہ کتاب 210صفحات پر مشتمل ہے ۔نیز اسی سال طارق متین کی ایک سو ایک منتخب غزلیں بعنوان ”مسافت ِہجر‘ ‘ مکتبہ صدف انٹرنیشنل پٹنہ سے شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں ۔2016ءادبی اعتبار سے طارق متین کے لیے کافی زرخیزثابت ہوا۔
طارق متین نے اپنی ادارت میں کئی رسالے نکالنے کی کوشش کی ۔اب تک ان کی ادارت میں ”علم وادب“، ”آغاز“،’ ’گل و صنوبر“ اور ”سخن وراں“وغیرہ شائع ہوچکے ہیں ،اس کے کئی خاص نمبرات بھی شائع ہوئے ،تاہم کوئی بھی رسالہ دیرتک پابندی وقت کے ساتھ جاری نہیں رہ سکا۔ علم و ادب بارہا شائع ہوا۔ اس کا پہلا شمارہ 1992ءمیں شائع ہوا تھا۔ اس کے کئی سال بعد دوبارہ جاری ہوا،مگر وہ مستقل شائع نہ ہوسکا۔یہ رسائل معیاری رسائل تھے؛ مگر پابندی وقت کے ساتھ شائع نہ ہونے کے سبب ادبی پرچوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
طارق متین کی شاعری میں مذہب ، سیاست و ثقافت ، رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اور تصوف جیسے موضوعات شامل ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ایک باخبر شاعر ہیں ،جنہوں نے تمام چیزوں کو نظر میں رکھ کر اپنے احساسات و خیالات کو لفظی پیکر میں ڈھالا ہے ۔
جب طارق متین دیکھتے ہیں دنیا بدل رہی ہیں اور سماج سے اعلیٰ اقدار مٹ رہا لیکن ان کی فطرت چاہتی ہے کہ پرانی چیزیں برقرار رہیں، اس وقت ان کیفیات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نیا نیا ہے سبھی کچھ مگر سرشت مری
پرانی رسم پرانے رواج چاہتی ہے
اِسی بات کو ایک جگہ وہ یوں بیا ن کرتے ہیں :
اتنا آسان نہیں خود کو سنبھالے رکھنا
اپنی بنیاد نہ چھوڑو کہ بکھر جاؤ گے
گرچہ دکھ درد سے معمور ہے سینہ اپنا
پھر بھی بدلا نہیں جینے کا قرینہ اپنا
طارق متین کو ماضی سے اور ماضی کے اقدار و تہذیب سے بے حد لگاؤ ہے ،اس کا اظہار وہ جگہ جگہ اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں :
طارق مرے پرکھوں کی ہے میراث سلامت
تہذیب و تمدن کا یہ زیور نہیں اترا
ان کی شاعر ی میں تصوف ومذہب کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے ،اور عصر حاضر کی خود پرستی پر بھر پور انداز میں نقد بھی کرتے ہیں. ملاحظہ فرمائیں یہ اشعار :
گذارتا ہے شب و روز میکدے میں جو شخص
بہت بھلا سا لگا ہے اذان دیتے ہوئے
روزے کی اور نماز کی محبت سے آیا ہے
چہرے پہ میرے نور عبادت سے آیا ہے
جو پرائے تھے وہ ملتے رہے اپنوں کی طرح
کیا قیامت ہے کہ اپنا ہی پرایا نکلا
طارق متین کی شاعری میں رومانیت کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے ، لکہتے ہیں:
بے گھر ہوئے، تباہ ہوئے، دربدر ہوئے
لیکن تمہارے نام کو رسوا نہیں کیا
ہم نے گزاری عمر ترے انتظار میں
بے اعتباریاں ہی رہیں اعتبار میں
وصال یار کے بعد ان کا اندازِ تخیل کچھ اس طرح ہوتا ہے :
تم آگئے تو زمین آسمان لگنے لگی
قدم قدم پہ یہ جنت نشان لگنے لگی
میسر آئیں ہیں جب سے رفاقتیں اس کی
بہت حسین ہماری اُڑان لگنے لگی
کیا مجھ سے خفا ہو تم تکرار نہیں کرتی
کیوں اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتی
ساحل پہ کھڑی ہو کیوں حیراں و پریشاں تم
دریائے محبت کو کیوں پار نہیں کرتی
خودداری اور تمکنت ووقار انسانیت کی تکمیل کرنے والے اوصاف ہیں جب کہ دریوزہ گری اور تملق انسانیت کش عیوب ہیں افسوس کہ عصر حاضر میں خودداری کو بری طرح مجروح کیا جارہا ہے. ان احساسات کی ترجمانی بہترین انداز میں طاریق متین نے یوں ترجمانی کی ہے:
کوئی صورت ہی نہیں ترکِ تعلق کے سوا
رہ گیا ہے بس یہی اک راستہ میرے لیے
جہد مسلسل سے بھری زندگی میں انسان کبھی امید کس دامن چھوڑ دیتا ہے اور قنوطیت کا شکار ہوجاتے. لیکن ایک مرد مومن کی شان ناامیدی نہیں ہے. طارق متین قنوطیت پر اس طرح رد کرتے ہیں:
ٹوٹا ہوں مگر ٹوٹ کے بکھرا تو نہیں ہوں
اندھیر ہے اندھیر کا ماتم تو نہیں ہے
عذاب جھیلتے رہتے ہیں زندگی کا مگر
یہ حوصلہ ہے کہ ہم مسکرائے جاتے ہیں
طارق متین کو شعر ادب کی دنیا میں ایک سند حاصل ہوچکا ہے ۔جہاں ان کی غزلیں ہندوپاک تقریباً تمام معیاری اخبار ورسائل میں شائع کر قدر و منزلت کا مقام پا چکی ہیں۔وہیں انھیں عصر حاضر اکثر وبیشتر قلم کار قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی شاعری کو سراہتے ہیں . مشہور نقاد پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں :
طارق متین زندگی کے سارے ایسے نقوش کو اپنے جامہ فن کا جامہ پہنانا چاہتے ہیں جنھیں نہ تو اِکہرے طورپر مثبت کہا جاسکتا ہے اور نہ منفی ۔ احساس ہوتا کہ شاعرزندگی کی تمام سرشاری کے ساتھ ساتھ اس کی ناہموار کیفیتوں کو بھی مد ِ نظررکھے ہوئے ہے۔طارق متین ایک طرزِ خاص کے شاعر ہیں جن کے یہاں سہل ممتنع میں نکتہ آفرینی کے کتنے ہی پہلو دریافت کئے جاسکتے ہیں ۔ گویا طارق متین خیال اور فن کی ہم رشتگی کے علم بردارہیں ۔
شاہد کلیم رقم طراز ہیں : طارق متین کے یہاں ہمیں جہاں ظاہر و بیان میں خوش سلیقگی اور ندرت کا احساس ہوتا ہے ،وہیں موضوعات میں تنوع بھی دکھائی دیتا ہے ۔ یہ تنوع اس بات کا غماز ہے کہ طارق متین نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور تجربات و مشاہدات کی دنیا میں سفر کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اُن کی شاعری میں آج کے ماحول کی بھرپور عکاسی ہوئی ہے ۔ہر نیا نئی زبان وضع کرتا ہے ۔ نئی تشبیہیں اور نئی علامتیں تراشتا ہے جن کے ذریعے اظہار وبیان میں خوب صورتی آتی ہے اورشاعری کو ایک نیا روپ ملتا ہے ۔ طارق متین کی شاعری میں بھی فنی حسن ،سنجیدہ لب ولہجہ اوربیان کی تازگی ملتی ہے اور یہ جملہ خصوصیات جدید ترین نسل کے شعر ا کے درمیان انھیں ایک اہم مقام تفویض کرتی ہیں۔
مشہور ادب نواز شخصیت پروفیسرظفرحبیب لکھتے ہیں :الفاظ کو بازیچہ اطفال بنانا طارق متین کا بڑا کارنامہ ہے ۔ وہ شخص خوش نصیب سمجھا جاتاہے جو الفاظ کو کھلونا بنا کر کھیلتا ہے ۔ اس سے بڑا خوش نصیب میں اُس شخص کو تسلیم کرتا ہوں جس کے ہاتھوں میں الفاظ پہنچ کر خود انگڑائیاں لینے لگیں اور اترانے لگیں ۔ ایسا شخص جب کسی جذبے کوواشگاف کرنا چاہتا ہے تو الفاظ خودہی نوکِ قلم سے صفحہ قرطاس پر اُترنے لگتے ہیں ۔ جب یہ محسوس ہونے لگے تو سمجھئے کہ صفحہ دل سے صفحہ قرطاس کا گہرا تعلق قائم ہوگیا ہے اور تب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کا سہارا بن کر عمر گزارنے کا سفرشروع کردیا ہے ۔ شکر ادا کرنا چاہئے طارق متین کو کہ قسّامِ ازل نے اس مایہ ہنر سے سے اُنھیں مرصع کردیا ہے ۔
عرفان صدیقی کا خیال ہے کہ : طارق متین کو غزل کی زبان برتنے کا سلیقہ بھی ہے اور ان کے احساس اور فکرکی تازگی بھی تاثیر رکھتی ہے ۔
پروفیسر لطف الرحمٰن فرماتے ہیں :طارق متین نہ صرف یہ کہ نئے منطقوکی تلاش میں رہتے ہیں بلکہ زندہ تخلیقی استعاروں کی زرخیزی بھی ان کی اپنی انفرادیت ہے ۔ ان کے یہاں عصر ی حسیتوں کی متعددکیفیتوں کا احساس و اظہار اُن کی ذہنی وسعت اور نئے تخلیقی منظر نامے کا ثبوت ہے ۔
پروفیسر مظفر حنفی گویا ہیں :طارق متین کی چنندہ غزلوں کے بہت سے اشعار میری توجہ کا دامن کھینچنے میں کامیاب ہوئے اور میں اپنی اصابت ِ رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے کہہ سکتاہون کہ ان کے خالق کی نہ صرف زبان کے رموز سے خاطر خواہ شناسائی ہے بلکہ انھیں اظہار وبیان کا تخلیقی شعور بھی حاصل ہے ۔
طارق متین کی تازہ کاری کے لیے سماجی بصیرت اور عصری حسیت نے دروازے وا کیے ہیں توباطنی کیفیات اور جمالیاتی احساسات کے دریچوں پر بھی ان کی فکرونظر نے دستکیں دی ہیں۔
پروفیسرعلیم اللہ حالی آپ کو بہترین انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :طارق متین عہد ِ حاضر کے ان چند شعر ا میں ہیں جنھوں نے اپنے منفرد لہجے کے ذریعے اپنی شناخت مستحکم کی ہے ۔ ان کے اظہار و بیان کی سادگی بسا اوقات ہمیں دھوکہ دے جاتی ہے اور بادی النظر میں اس سادگی پر عمومیت کا اندازہ ہونے لگتاہے ۔ لیکن فی الواقعی طارق متین کے یہاں اظہار کی سادگی میں وہ کاٹ ہے جس سے میری کی یادتازہ ہونے لگتی ہے ۔(ماخوذ از مضمون شاہ عمران حسن)
طارق متین جدید احساسات کو تعمیری رخ دینے والے شاعر ہیں ،ان کی شاعری عوام و خواص دونوں کو متاثر کرتی ہے ، آپ کے کلام میں تاثیر بھی ہے اور نسل نو کے لیے تعمیری پیغام بھی. آپ نئی نسل کو بے کاری اور بے عملی سے نکال کر شاہین کی پرواز بخشنا چاہتے
سب کی قسمت میں نہیں ہوتیں فلک پیمائیاں
پھر بھی اُڑنے کے لیے شہپر بنانا چاہئے
نئی نسل اڑنے کے لیے شہپر بنائے، یہ آپ کی امید ہے.
طارق متین اپنے کلام سے تابانیاں بکھیر کر ہم سے جدا ہوچکے ہیں،
لیکن زبان حال سے مسلسل یہ اعلان کررہے ہیں :
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق.
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد.
بس رہے نام اللہ کا