قائدِ ہند الحاج محمد اختر باروی . عظیم مجاہدِ آزادی. جنہیں بھلادیا گیا
از: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
ہندوستان کو انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرانے کے لیے بے شمار جیالوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں . ہزاروں غیور اہل وطن نے جان ومال عہدہ و منصب، زمین و جائیداد اور گھر وبار کی قربانیاں پیش کی ہیں. قربانیوں کے انمٹ نقوش قائم کرنے کے بعد انھوں نے وطن عزیز کو آزاد کرایا۔
آزادی کے ان جیالوں میں ایک باوقار نام قائد ہند الحاج سید محمد اختر با روی کا بھی ہے۔ آزادی وطن کے لیے عظیم خدمات انجام دینے کے باوجود مجاہد آزادی کی حیثیت سے ان کا نام پردۂ گمنامی میں چھپا ہوا ہے، ضرورت ہے کہ ان جیسے گمنام مجاہدین آزادی کی خدمات کو نسل نو کے سامنے اجاگر کیا جائے، تاکہ نئی نسل اپنے ان محسنوں کی قربانیوں سے روشناس ہوکر انھیں خراج عقیدت بھی پیش کرے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک وملت کے لیے بے لوث خدمات بھی انجام دے سکے .
اختر باروی مرحوم کا تعلق بھی اسی قدیم مردم خیز خطے” بارو ” ضلع بیگوسرائے بہار سے تھا جس سے مشہورِ زمانہ اردو لغت "فرہنگ آصفیہ” کے مصنف جناب سید احمد دہلوی کی نسبت تھی. دہلوی نسبت نے بارو سے ان کی اور ان کے آباء واجداد کی نسبت کو پردۂ خفا میں ڈال دیا. سید احمد باروی ثم دہلوی کے والد تحریک شہیدین کے ایک فرد تھے اور امیر المومنین سید احمد شہید رائے بریلی اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھ جہاد حریت اور اعلاء کلمۃ کے لیے قتال فی سبیل اللہ کا مقدس فریضہ انجام دے چکے تھے.
بارو کے معنی قلعہ کے ہیں. بارو، برونی جنکشن ریلوے اسٹیشن کے جنوب کی جانب ایک قدیم و معروف قصبہ ہے. اسی قصبہ میں سید محمد اختر باروی 17 نومبر 1918ء میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام مولوی محمد عیسی ہے، جو ایک بڑے زمین دار تھے، ان کی شادی شہرۂ آفاق محدث اور "الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی المجددی” کے نامور مصنف علامہ شیخ محسن بن یحییٰ ترہتی خضر چک بیگوسرائے کے بھانجہ سید امیر الدین اشرف گیلانی عرف میاں جان بابو، سابق متولی خضرچک اسٹیٹ کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی . اختر باروی کے اجداد کا وطنی تعلق کھگڑیا ضلع کے ایک سب ڈویژن گوگری سے قریب واقع موضع” بورنا ” سے تھا. مولوی عیسی 1872ء میں بورنا سے ہجرت کر کے بارو میں قیام پذیر ہوگئے تھے. چار سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہو گیا تھا. جب کہ چوبیس سال میں والد کا بھی انتقال ہو گیا ۔.
اختر باروی اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے. اوائل میں سینٹ جو سف اسکول کلکتہ سے میٹرک پاس کیا، 1940ء میں بی – این کالج پٹنہ سے فارسی آنرس میں بی ۔ اے ۔ کی سند حاصل کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ آزادی شباب پر تھی اس تحریک نے کتنے ہی نوجوانوں کے دل و دماغ میں استخلاص وطن اور انگریزی اقتدار سے نفرت کی چنگاریاں بھر دی تھیں، محمد اختر باروی کے اندر بھی یہ چنگاریاں شعلہ جوالہ بن کر خرمنِ باطل کو خاکستر کرنے کو بے تاب تھیں. بقولِ شاعر :
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے؛ اک رقص تو ہے، بے چین سہی برباد سہی
(اکبر الہ آبادی)
گریجویشن مکمل ہونے کے فوراً بعد بعد جنگ آزادی میں کود پڑے ۔
اپنے بزرگوں کی روایات کے مطابق سید اختر باروی نے اپنی جوانی کے ایام کو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدو جہد میں صرف کیا ۔ موصوف دینی شعور سے لبریز، نیک وصالح کردار کے حامل نوجوان تھے ۔
ان مشاغل کے ساتھ قرآن کریم سے ان کی گہری وابستگی بھی تھی. اسی دوران خاکسار پارٹی کے پانی علامہ عنایت اللہ مشرقی کے افکار و خیالات سے بے حد متاثر ہوئے ۔
اس وقت کی خاکسار پارٹی گرمجوش جماعت میں شمار کی جاتی تھی.
سید اختر باروی خاکسار پارٹی کے نہ صرف رکنیت حاصل کی؛ بلکہ تنظیمی کاموں میں بلا کے جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ مشرقی کے دست راست کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ۔
انگریزوں نے انہیں کئی مرتبہ گرفتار کیا ۔کبھی پٹنہ تو کبھی ملتان جیل کی کالی کوٹھریوں میں اسیری کے ایام گزارنے پڑے ، لیکن پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوئی. ہر حال میں ہمت و جوانمردی کے ساتھ رہے. دلیرانہ انداز میں پارٹی میں نظم و ضبط قائم کیا اور بہار و یوپی میں زبر دست کار کردگی کی بنیاد پر پارٹی کمان نے انہیں بہار اور اتر پردیش کا(سیکرٹری جنرل) ناظم اعلیٰ مقر کیا : یہاں تک کہ خاکسار پارٹی نے موصوف کو "قائد اعظم ہند ” کے لقب سے بھی سرفراز کیا ۔
ملک کی آزادی کے بعد1948 میں اختر باروی اپنے وطن” بارو "واپس آئے ۔اس وقت انھوں نے اپنی زندگی کی اکتیس(31) بہاریں دیکھی تھیں.. آزادی کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے مجاہدین آزادی کے اکرامیہ کے طور پر وظیفہ جاری کیا، تو یہ وظیفہ تاحیات انھیں بھی ملتا رہا. ان کی وفات کے بعد یہ وظیفہ ان کی اہلیہ کو ملا کرتا تھا.
سنہ انیس سو بہتر (1972)میں وزیراعظم ہند محترمہ اندرا گاندھی نے مجاہد آزادی کی حیثیت سے ایک یادگار مومنٹو پیش کیا جس پر ہندی رسم الخط میں یہ تحریر کندہ ہے.
آزادی کے پچیسویں سال مکمل ہونے کے موقع پر جنگ آزادی میں جناب سید اختر باروی کی غیر معمولی سمرپیہ یوگدان کے لئے راشٹر کی طرف سے پردھان منتری شریمتی اندرا گاندھی نے بھینٹ کیا..
اپنے وطن بارو واپسی کے بعد اختر مرحوم کی
1950 ء میں پٹنہ سیٹی میں کے ایک معزز خانوادہ میں شادی ہوئی۔ یہاں سے بارو میں ان کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔
1950ء اپنی نانی اماں کے ساتھ آپ نے حج کے فریضہ کو انجام دیا ۔ دوران حج انہوں نےحج کے علاوہ طواف و عمرہ میں بھی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔
شوق کا یہ عالم تھا کہ ایک دن میں ایک درجن سے زیادہ طواف کرلیا کرتے تھے. ہر طواف سات شوط پر مشتمل ہوا کرتا ہے کبھی ایک دن میں کئی بار عمرے بھی کرلیا کرتے تھے ۔ یہ ان کے ایمانی جذ بے کا کمال تھا ! مقدس سفر حج سے واپسی کے بعد موصوف نے بارو میں سماجی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔
اس کے علاوہ دینی کتب بالخصوص قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمہ و تفسير کی مدد سے اسکو سمجھ کر پڑھنے کا بھی بڑا شوق تھا، اس طور پر آپ کے پاس وافر معلومات کا خزانہ تھا، اور قرآن فہمی میں بھی طاق تھے ۔ اپنی گفتگو میں میں بلا تکلف قرآن کریم کی آیات پیش کرکے ان سے استشہاد کرتے ۔ اخلاقی صفات سے بھی پھر پور حصہ پایا تھا. نرم دل تھے، سب کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ، کمزوروں اور غرباء کا خیال کرتے تھے، معاملہ فہم تھے ۔ آپس میں صلح صفائی کرانے میں مہارت تھی۔
خدمت خلق کی بدولت جس طرح مسلمانوں میں محبوب تھے، غیر مسلموں کے طبقہ میں بھی بڑی مقبولیت رکھتے تھے ،
1974 تک لگاتار گاؤں کے مکھیا منتخب ہوتے رہے. اس کے بعد ایک عرصہ تک سر پنج کی حثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے ، تقریری صلاحیت بہت عمدہ تھی ۔ اردو فارسی اور انگریزی زبان پر مہارت حاصل تھی ۔ حالات حاضرہ سے باخبر رہتے تھے اور عصر حاضر کے کے بین الاقوامی مسائل کو جاننے کے لیے اردو، اور ہندی اخبارات کے ساتھ انگریزی اخبار پابندی سے پڑھا کرتے تھے ۔ مسلسل تلاوت کی وجہ سے قرآن کریم کے کئی پارے انھیں حفظ ہوگئے تھے. جس کا نتیجہ تھا کہ بارو کی جامع مسجد میں امام کی غیر موجودگی میں میں پنج وقتہ جماعت کے علاوہ جمعہ کی نماز بھی پڑھایا کرتے تھے۔
کبھی کبھی جمعہ کے خطبہ سے قبل پر مغز تقریر کیا کرتے تھے. بارو کے مشہور عالم و مفسر قرآن حضرت مولانا محمد قریش باروی کے انتقال کے بعد سید اختر باروی تاحیات عیدین کی نماز کی امامت فرماتے رہے۔
پروفیسر شمیم احمد باروی محمد اختر باروی کے قریبی رشتہ دار ہیں اور بہت قریب سے ان کے اوصاف اور خدمات کا مشاہدہ کیا. مرحوم کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :موصوف میرے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ میں نے جیسے ہوش سنبھالا میں نے دیکھا کہ اختر بھائی روزانہ انتہائی محبت کے ساتھ میرے سلام اور میرے سوال کا جواب دیتے اور میری تحریر و املاء درست کراتے ، اس طرح وہ میرے مشفق استاد بھی تھے ۔ مجھ پر وہ بہت بھروسہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب میں نے اے۔ این ڈی کا لچ شاہ پور پٹوری جوائن کیا تھا۔
تو انہوں اپنے بڑے صاحبزادے شہاب الدین محمد سرور کو میٹرک پاس کرنے کے بعد میرے سپرد کر دیا اور اللہ کے فضل سے عزیزی سرور نے کامیابی کے ساتھ بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
ان کے متعلقین بتاتے ہیں کہ اختر باروی مرحوم کو شکار کا بڑا شغف تھا’ وہ بڑے شکاری تھے، ان کا نشانہ بے خطا تھا ۔ بندوق و رائفل دونوں رکھتے تھے ، نیل گائے اور پرندوں کے شکار کے علاوہ مچھلی کے شکار میں بھی مہارت حاصل تھی ۔ شکار کے لئے مختلف علاقوں میں جایا کرتے تھے ، شکار کے لئے باقاعدہ ان کی ٹیم تھی ، ۔ آپ کی شخصیت بڑی جاذب نظر تھی ، دراز قد صحت مند جسم تھا. شیروانی ، ٹوپی اور پا جامہ عام لباس تھا، ہاتھ میں ایک خاص قسم کی چھڑی ہوتی تھی، ۔ باغبانی کا بھی شوق تھا’ رہائش گاہ کے جنوب کی جانب ایک چھوٹا سا باغ تھا ۔ جس میں انواع و اقسام کے پودے اور درخت تھے : یہاں چہل قدمی بھی کیا کرتے تھے ۔ رکھ رکھاؤ میں بہت نفاست تھی ۔ اپنی ایک کار بھی تھی جسے خود ڈرائیو کیا کرتے تھے ۔ ہر لحاظ سے ایک ہشت پہل علمی وعملی شخصیت کے مالک تھے اور بجا طور وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔
اللہ رب العالمین نے آپ کو دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کیں ۔ بڑے صاحبزادہ کا نام شہاب الدین محمد سرور ہے جھوٹے کا نام سراج الدین محمد تا جور ہے ۔ دونوں اعلی تعلیم یافتہ اور صاحب اولاد ہیں اور بارو ہی میں رہتے ہیں۔سماجی و ملی مسائل سے دل چسپی رکھتے ہیں، اپنے والد کی نیک نامی کی وراثت سنبھال کر چل رہے ہیں ۔ دونوں بھائی ماشاء اللہ راقم السطور سے بڑی محبت رکھتے ہیں، سرور صاحب نے اپنی دونوں بچیوں کا عقد مسنون انجام دینے کے لیے اس عاجز کو اصرار مدعو فرمایا. دونوں بیٹیاں روحی ملیما اور رفعت امین اپنے شوہروں اور بال بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہیں ہیں۔
جناب محمد اختر صاحب سے متعلق بنیادی معلومات ہمیں آپ کے خانوادہ کی ایک دانشور شخصیت جناب پروفیسر شمیم احمد باروی صاحب اور ان کے صاحبزادگان سے حاصل ہوئیں. ہم ان کے شکر گذار ہیں۔
1987 ء رمضان المبارک میں بیمار ہیں ، ڈاکٹروں نے روزہ توڑنے کو کہا، لیکن آپ کی غیرت ایمانی نے اسے گوارا نہیں کیا اور آپ نے پورے مہینے کا روزہ رکھا ۔
عید کے بعد دہلی لے جائے گئے ۔ ڈیرھ مہینے کے علاج ومعالجہ کے بعد ڈاکٹر وں نے کینسر کے شبہ کا اظہار کیا، چنانچہ دہلی سے ویلور بغرض علاج لے جائے گئے۔
در ایں اثنا خاکسار پارٹی کے لوگوں کو خبر ہوگئی. چنانچہ بڑی تعداد میں خاکسار سے وابستہ لوگ عیادت کے لئے حاضر ہوگئے . یہاں تک کہ ویلور روانگی کے وقت سینکڑوں کا مجمع دہلی اسٹیشن پر موجود تھا ، سب نے اشکبار آنکھوں سے اپنے محبوب رہنما کو الوداع کہا۔ ویلور ہاسپٹیل میں بارہ تیرہ دن رہے ۔ یہاں بھی پارٹی کے لوگوں کا عبادت کے لئے موجود رہے ۔ 21 جولا ئی 1987 کو اس مجاہد آزادی نے غریب الدیاری کی حالت میں وطن سے بہت دور آخری سانس لی اور سفر آخرت پر روانہ ہو گیا ۔
ہزاروں سال نرگس اپنے بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔
غریب الدیار ہونے کے باوجود ویلور میں ان کے چاہنے والوں نے ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ، ایک عمارت ” اخوت منزل” میں جسد خاکی کو خاکسار پارٹی کے پرچم میں لپیٹ کر رکھا گیا ۔ نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ویلور کے قریب – ٹیپو سلطان کے قلعہ کے شمال کی جانب محلہ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ ان کے مزار پر جو کتبہ لگایا گیا اس میں نام پیدائش اور وفات کی تاریخ کے ساتھ ان کا لقب” قائد ھند” بھی تحریر ہے ۔
اللہ رب العالمین آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ۔