مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل اور ان کا حل

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مدارس اسلامیہ کو عصر حاضر میں جن مسائل وخطرات کا سامنا ہے، وہ داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، چنانچہ پہلے میں داخلی مسائل وخطرات کا ذکر کروں گا، پھر خارجی مسائل وخطرات پر روشنی ڈالوں گا، اس لئے کہ سڑک پر کنکر، پتھر بچھا ہوا ہو تو اچھے جوتے پہن کر اس پر چلنا اور آگے بڑھتے رہنا ممکن ہے، لیکن جب یہ کنکر موزے کے اندر گھس جائیں تو پاؤں بھی لہولہان ہوتا اور چلنے کا عمل دشوار ہی نہیں کبھی کبھی تو ناممکن ہو جاتا ہے۔

مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل اور ان کا حل
مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل اور ان کا حل

داخلی طورپر ایک بڑا خطرہ اُن مدارس کولاحق ہے جو شخصی ہیں، اور شخص واحد کے چشم وابرو کے سہارے چلتے ہیں، ان کا وجود عوام کے چندے پر منحصر ہے، لیکن ان کی زمین منقولہ، غیرمنقولہ جائیداد شخصِ واحد یا خاندان کے نام ہوتا ہے، اندیشہ ہے کہ اس شخص واحد کی موت کے بعد ان کے وارثان کی کوئی دلچسپی اس کام سے نہ ہو، اگر خاندان میں مدارس کے تعلیمی وتربیتی نظام سے دلچسپی رکھنے والا کوئی نہیں رہا تو یہ مدارس بند ہو سکتے ہیں اور ان کی آراضی اور جائیداد ترکہ میں تقسیم ہوکر ختم ہوجائے گی، اس لئے شخصی مدرسوں کی بھی ایک ایسی کمیٹی اور ایک ایسا قانونی و کاغذی دستاویز ہونا چاہئے جس کی مدد سے اس شخص کی وفات کے بعد بھی اس کام کو جاری رکھا جاسکے، کیوں کہ اس مدرسہ کی جو بھی منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد ہے، وہ عوام کی رقم سے ہی حاصل کی گئی ہے یا کسی نے ادارہ کے لئے وقف کیا ہے، اس لئے شخصی مدرسوں میں بھی کاغذات مدارس کے نام ہونے چاہئے اور نجی پروپرٹی کے طورپر استعمال کا رجحان ختم ہونا چاہئے۔

مدارس میں کمیٹی کے جھگڑے عام ہیں، یہ بھی مدارس کو کھوکھلا کر رہے ہیں، ملحقہ مدارس میں چوں کہ سرکار سے مراعات ملتی ہیں، اس لئے بیش تر مدارس نئی پرانی کمیٹی کے نام پر جھگڑوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، یا بنا دئے گئے ہیں، یہ جھگڑے عدالت میں جاتے ہیں اور کبھی کبھی تالابندی کی نوبت بھی آجاتی ہے، اس لئے کمیٹی بناتے وقت ارکان کے انتخاب میں حق وفاداری کے ساتھ صلاحیت اور صالحیت بھی دیکھنی چاہئے، نااہل ارکان سے ادارہ کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے نیز تعلیم وتعلم اور درس وتدریس کا کام تمام ہوجاتا ہے، جو اصلاً مدارس کے قیام کا مقصد ہے، کمیٹی اور اساتذہ کے جھگڑوں کا اثر طلبہ کی نفسیات اور ذہنی ساخت پر بھی پڑتا ہے بسا اوقات ذمہ داران طلبہ کو بھی استعمال کرلیتے ہیں، جس کا بڑا نقصان ادارے کو ہوتاہے اور لڑکوں کی تعلیم وتربیت پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔

مدارس کی تعلیم کا اپنا ایک موڈ ہے، اس کا اپنا ایک طریقۂ کار ہے، جو عرصہ سے رائج ہے، جسے ہم فقہ کی اصطلاح میں ’’تلقی بالقبول‘‘کہہ سکتے ہیں، دیکھا یہ جارہا ہے کہ بہت سارے احباب، مدارس کے اس موڈ اور طریقۂ کار کو ختم کرنے کے درپے ہیں، یہ دور اختصاص کا ہے، اسپسلائزیشن کا ہے، اس لئے مدرسہ میں جدید تدریسی آلات، بعض زبانیں، کمپوٹر وغیرہ سکھانے کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن اس قدر اس کے نصاب میں تبدیلی کرنا کہ مدرسہ ’’مدرسہ باقی نہ رہے‘‘ واقف کی منشا اور حضرت نانوتویؒ کے اصول ہشت گانہ کے خلاف ہوگا ، اس لئے نصاب میں عصری علوم کی کثرت سے شمولیت اور اس حد تک کہ مولوی آنرس، مولوی کامرس، مولوی سائنس ہوجائے، مدرسہ کے وجود کو خطرہ میں ڈالنے والی بات ہے، یہ ٹھیک ہے کہ علم ایک اکائی ہے اور اس کی تقسیم علم نافع اور غیرنافع کے طورپر حدیث میں کی گئی ہے اور قرآن کریم میں ’’اقراء باسم ربک‘‘کہا گیا، تعلیم سے رب کا نام غائب نہ ہوجائے، اس پر زور دیا گیا، لیکن انتظامی طورپر شریعت میں تخصص کے لئے ان مدارس کا وجود آج کی بڑی ضرورت ہے، اگر ہم نے مدارس کو عصری علوم کی درسگاہ میں تبدیلی کردیا، تو اس کا وجود خطرہ میں پڑجائے گا اور فقہ وحدیث کے اچھے اساتذہ اور تربیت یافتہ لوگ مدارس کو نہیں مل سکیں گے؛ بلکہ مسجد کے منبر ومحراب کے بھی سونے ہونے کا بڑا امکان ہے۔

ایک اور مسئلہ تربیت کا ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کارِ نبوت میں تلاوت کے معاًبعد تزکیہ کا ذکر کیا ہے، یہ تزکیہ مدارس میں اس قدر ہونا چاہئے کہ مدرسہ خانقاہ کا منظر پیش کرنے لگے، ہمارے مدارس میں تربیت وتزکیہ کا معیار کمزور پڑا ہے اور اس کمزوری کے نتیجہ میں تزکیہ وتربیت کا جو اختصاص مدارس کو حاصل تھا، وہ ختم ہوتا جارہا ہے، یہ کمزوری اس قدر آگئی ہے کہ آٹھ نو سال جن لڑکوں کی تربیت ہم اسلامی تہذیب وثقافت کے اختیار کرنے اور فرائض کی پابندی کے لئے کرتے ہیں، وہ جب ہمارے یہاں سے نکل کر کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں تو ان کی وضع قطع چند مہینوں میں بدل جاتی ہے اور دیکھنے سے لگتا ہی نہیں کہ انہوں نے کبھی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے، اسلامی اقدار سے بھی وہ کافی دور ہوجاتے ہیں اور ہمارے کام کے نہیں رہتے، ان کی دلچسپی کا محور ومرکز معاش ہوجاتا ہے، چاہے وہ جس قیمت پر ملے۔

حالیہ چند دنوں میں مدرسہ کی طرف طلبہ کا رجوع کم ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں سے بھی کم ہیں، توکل، قناعت کے ساتھ اساتذہ زندگی گذار لیتے ہیں، لیکن ان کے بچے ترقی کی اس چکا چوند سے بچ نہیں پاتے اور وہ اسکول کالج کا رخ کرتے ہیں، لاک ڈاؤن کے بعد بہت سارے اساتذہ نے حصول معاش کی دوسری شکلیں نکال لیں اور اب وہ ادھر ہی کام کر رہے ہیں، اس لئے مدارس کے اساتذہ وکارکنان کی تنخواہ کو پُرکشش بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ دلجمعی کے ساتھ کام کرتے رہیں، دیکھا یہ جارہا ہے کہ تعمیرات پر اچھی خاصی رقم صرف کی جارہی ہے اور اساتذہ کو مدارس میں کئی کئی ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی، لاک ڈاون میں مدارس کے اساتذہ جس کس مپرسی کے دور سے گذرے وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے، بعضوں نے خودکشی بھی کرلی، جب ہم کسی کا وقت محبوس کرتے ہیں تو اس کی کفالت بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے، سوال یہ بھی ہے کہ تعمیرات پر خرچ کرنے کے لئے رقم ہے اور اساتذہ وکارکنان کو تنخواہ دینے کے لئے ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔

مدارس کے طلبہ کی جو خوراک ہے، وہ بھی طلبہ کو مدارس سے دور کررہی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ خورد ونوش کا معقول انتظام دارالاقامہ کے طلبہ کے لئے کیا جائے، بچوں کی یہ عمر ان کی جسمانی وذہنی نشو ونما کی ہوتی ہے، اس وقت ان کا دال روٹی یا دال بھات پر گذارا کرنا اور طبی اعتبار سے متوازن غذا کا نہ ملنا، انہیں ذہنی وجسمانی طورپر کمزور کردیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالدار حضرات اپنے مال کا میل زکوۃ تو مدارس کو دیتے ہیں، لیکن اپنے بچے نہیں دیتے، اگر ہم خورد ونوش اور رہائش کے نظام کو درست کرلیں تو امراء کو بھی مدارس میں بچوں کے دینے میں تردد نہیں ہوگا، ایسے میں مدارس کے ذمہ داران ماضی کی مثال دیتے ہیں اور قلت وسائل کا رونا شروع کردیتے ہیں، حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ اللہ رب العزت کسی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے مدرسہ میں پانچ سوبچے کیوں نہیں رکھے وہ یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ دورۂ حدیث تک تعلیم کا نظم تمہارے یہاں کیوں نہیں تھا، البتہ اللہ رب العزت یہ ضرور پوچھے گا کہ جتنے بچوں کو رکھا انہیں کام کا کیوں نہیں بنایا۔

مدارس سے بچوں کے دور رہنے کی ایک وجہ جسمانی تعذیب بھی ہے، کبھی یہ بات ٹھیک تھی کہ گارجین استاذ سے کہتا تھا کہ ہڈی ہماری اور گوشت آپ کا، لیکن آج کے دور میں تدریس میں ضرب شدید تو دُور ضرب خفیف کی بھی گنجائش نہیں ہے، اور یہ قابل تعزیر جرم ہے، ہمارے استاذ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی طالب علم کو ایک طمانچہ لگا دیا توکم از کم اس دن کے لئے وہ طالب علم ذہنی طورپر ناکارہ ہوجاتا ہے، اس لئے پیار ومحبت کے ساتھ پڑھانا چاہئے، اس سے طلبہ کی دلچسپی بڑھے گی اور وہ پورے نشاط کے ساتھ درس ومطالعہ کے عمل کو جاری رکھ سکیںگے۔

مدارس کے تدریسی نظام میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، جدید طریقہ تدریس ’’جس کو لرننگ میتھڈ ‘‘کہتے ہیںکو اپنانا چاہئے، لیسن پلان اور تدریس کی تیاری رات سے ہی کرنی چاہئے، ہمارے اکابر بغیر مطالعہ کے پڑھانے کو درست نہیں سمجھتے تھے، بغیر منصوبہ بندی کے درس غیرمفید ہوتا ہے، طلبہ ہمارے اول جلول سوالات سے پریشان ہوجاتے ہیں، کیوں کہ ہم نے درس کی پلاننگ اور منصوبہ بندی نہیں کی ہوتی ہے۔

اسی طرح ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ پریکٹیکل صرف سائنس کی تدریس میں ہے، ہمارے یہاں پریکٹیکل کے ذریعہ درس کو آسان بنایا جاسکتا ہے، ہم وضو اور نماز کی عملی مشق تو طلبہ کو کراتے ہیں، لیکن اوقات صلوۃ کے لئے جو علامات مقرر ہیں، ہم نے کبھی اس کا مشاہدہ طلبہ کو نہیں کرایا، صبح صادق، صبح کاذب، فئی اصلی، زوال، مثل اول، مثل ثانی، شفق ابیض، شفق احمر اور بیع وشراء کے مسائل کا مشاہدہ اور عملی مشق تو ہم بغیر کسی صرفہ کے کراسکتے ہیں، لیکن اس طرف ہماری توجہ جاتی ہی نہیں ہے، ایسا کرنے سے طلبہ کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور ہم اوقات صلوٰۃ اور دوسرے مسائل کو آسانی سے سمجھا پائیں گے۔

اب ہم خارجی خطرات کا رخ کرتے ہیں، خارجی خطرات میں سب سے بڑا خطرہ سرکاری دخل اندازی کاہے، آسام میں مدارس اسکول میں بدل دیئے گئے، بنگال کا مشہور مدرسہ عالیہ اب عالیہ یونیورسٹی ہوگیا ہے، یوپی میں سات ہزار پانچ سو مدارس غیرقانونی قرار پاچکے ہیں، خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، بہار میں یہ مصیبت کب آجائے کہنا بہت مشکل ہے، یہ مصیبت سروے کے نام پر آتی ہے اور سروے میں جو سوالات پوچھے جاتے ہیں، اس کا اصل مقصد فنڈنگ کا پتہ چلانا ہوتاہے،حکومت نے مدارس کے سروے کے لئے جو سوالات تیار کیے ہیں، ان میں سوالوں کی تعداد بارہ (12) ہے، مدرسہ کا نام، مدرسہ چلانے والے ادارہ کا نام، مدرسہ کے قیام کا سال، مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا اس کا اپنا مکان ہے، پینے کے پانی کی سہولت، بیت الخلاء کا نظم، بجلی کی سہولت ہے یا نہیں، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، مدارس کا ذریعۂ آمدنی کیا ہے اور وہ مدارس کس تنظیم کے تحت چل رہے ہیں، اس لئے اس خارجی حملہ سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ حساب جدید طریقۂ محاسبی کے اعتبار سے لکھے جائیں، اور اس طرح لکھے جائیں کہ سرکاری افسران بھی اس کو سچ سمجھ لیں، ابھی جو ہمارے مدارس میں حساب کے اندراج کا طریقہ ہے، وہ جس قدر بھی صاف وشفاف ہو، سرکاری ضوابط کے مطابق نہیں ہے، اس لئے ہمیں اس پر خاص توجہ دینی چاہئے، ٹرسٹ یا سوسائٹی کے ذیل میں اسے رجسٹرڈ بھی کرالیا جائے، تاکہ اس کی قانونی حیثیت بھی مضبوط رہے، یہ سروے بہبودیٔ اطفال کے نام پر کئے جارہے ہیں، اور اس کام کے جو سرکاری پیمانے ہیں، اس پر جانچ ہوگی، ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، بہبودیٔ اطفال کے لئے خورد ونوش، غذائیت اور رہائش کے کچھ پیمانے مقرر ہیں، ان کو معلوم کرکے مدرسہ کے مطبخ اور رہائش کو اس کے مطابق کرلینا چاہئے۔

مسائل وخطرات اور بھی ہیں، سب کا ذکرممکن نہیں، البتہ ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں، طوفان جب آتا ہے تو کمزور پیڑ پودے اکھڑ جاتے ہیں اور خس وخاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں، لیکن مضبوط اور تناور درخت پر اس کے اثرات کم پڑتے ہیں، مدارس کو جو خطرات درپیش ہیں، اس کا انفرادی طورپر مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے، ہو سکتا ہے بعض بڑے اور مضبوط مدارس اپنے وسائل، پہونچ اور ذرائع کے سہارے اپنے ادارہ کی حد تک خارجی خطرات کو روک لیں، لیکن پورے ہندوستان میں پھیلے چھوٹے چھوٹے مدارس اپنے طورپر اس کا مقابلہ نہیں کرسکیںگے، اس لئے امارت شرعیہ نے وفاق المدارس کے نام سے مدارس کا ایک جماعتی نظام قائم کیا، اس کے دستور کے اعتبار سے ہماری دخل اندازی انتظامی امور میں نہیں ہوتی، لیکن نصاب تعلیم، نظام امتحان اور نظام تعلیم میں یکسانیت پیدا کرکے ہم اجتماعی تقاضوں کی تکمیل کرتے ہیں، وقت آنے پر امارت شرعیہ کے زیراہتمام ان خارجی حملوں کے مقابل کے لئے کھڑے ہونے کو بھی ہم تیار ہیں، کم از کم بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے مدرسوں کو اس اجتماعی نظام کا حصہ بننا چاہئے اور اسے مضبوط کرنا چاہئے۔

دارالعلوم دیوبند کا رابطہ مدارس کا نظام بھی اسی اجتماعی نظام کی عملی شکل ہے اور اس ارتباط کے اپنے فائدے ہیں، ہم سب کو اجتماعی کاموں کے طریقہ کار، اطلاعات، روابط اور معاونت کے ساتھ مدارس کو درپیش ان تمام خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، داخلی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے، اللہ ہمارا ناصر وحامی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply