مدارس اور اردو : جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے،باغ تو سارا جانے ہے

ڈاکٹر اکرم نواز ندوی

کوئی مفروضہ قائم کرلینے سے، اور وہ بھی بنا کسی دلیل اور تحقیق کے، کچھ نیا وجود میں آجائے ضروری نہیں۔ ‘خلقیہ’ کے حوالے سے جاری مباحثے میں جن لوگوں نے مدارس پر انگشت نمائی کی ہے، وہ در اصل اردو سے لگاؤ رکھنے والوں کے درمیان بائنری پیدا کرنا کرنے کی ایک سازش کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کے ذریعے وہ اپنے ان آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں جنہیں اردو زبان ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس کے نصاب میں اردو ادب کا حصہ بہت کم ہے، تاہم اردو زبان کی تعلیم میں وہاں کوئی کوتاہی نہیں۔ اچھا، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ادب کا حصہ مدارس میں ڈالنے کی اتنی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ابھی تو ہم مدارس کے نصاب میں بنیادی سائنس اور ریاضی کے علوم داخلِ درس کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ میں نے خود دینی اور عصری علوم کے ماہرین کی ایک جماعت کے تعاون سے اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی پہل کی ہے۔ لیکن فراغت کے بعد اگر ان کی ادب میں دلچسپی ہوتی ہے تو چونکہ زبان اچھی آتی ہے تو وہ اس میں بھی بہتر اور نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس کے باوجود ۔مدارس کے ان فارغین کی ایک لامتناہی فہرست ملے گی جنہوں نے اردو ادب کے ‘خلقیے’ کا بھی پورا پورا خیال رکھا ہے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

مدارس اور اردو : جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے،باغ تو سارا جانے ہے
مدارس اور اردو : جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے،باغ تو سارا جانے ہے

خواجہ گیسودراز کی کتاب’’دستورِ عشاق‘‘ کو پہلی نثری کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ شاہ رفیع الدینؒ اور شاہ عبدالقادر ؒکا ترجمہ قرآن شاہ اسمٰعیل شہید کی’’تقویۃ الایمان‘‘ اردو نثر کی بنیادی اینٹیں ہیں۔ سرسید احمد خاں، علامہ شبلی نعمانی، مولانا عبد الحی حسنی، الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، مولانا سید سلیمان ندوی، مظہرالدین شیر کوٹی، علامہ تاجور نجیبؒ آبادی، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، عبدالماجد دریا آبادی، مناظر احسن گیلانی، مولانا نور عالم خلیل امینی جیسے نامور اصحاب قلم مدرسوں سے وابستہ رہے ہیں۔انہوں نے ادبی پہلوئوں کو وسعت بھی بخشی اور اردو کی لفظیات وتراکیب میں گراں قدر اضافہ بھی کیا ہے۔

ترقی پسند اور جدید ادب کے بہت سے معماروں کا تعلق بھی مدرسہ سے رہا ہے جن میں مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی ، جون ایلیا، فضا ابن فیضی، رئیس جعفری، نیاز فتح پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو زبان نہ تو کسی مذہب سے بندھی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی آئیڈیالوجی سے۔ کسی کو بھی ‘خلقیے’ کی اصطلاح سے اعتراض نہیں. ہر زبان میں الفاظ اور نئی نئی اصطلاحیں وضع کرنے کا چلن ہے اور اسی سے کوئی زبان زندہ رہتی ہے۔ عربی ہی میں دیکھ لیجئے، لفظ مکتب کا مطلب ہے دفتر اور اسی کے آخر میں اگر آپ گول تا لگا دیں تو اس کا مطلب ہو جاتا ہے لائبریری۔ لیکن کسی ایک مخصوص جماعت یا گروہ کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ اس خاصے سے بے بہرہ ہے کھلا تعصب اور نا انصافی ہے۔

اس سلسلے میں لکھنے والوں نے نہ جانے یہ کیوں فرض کرلیا کہ مدارس کا اردو زبان سے تو تعلق ہے لیکن اردو شعرو ادب اور اس کے مزاج سے شناسائی نہیں ہے لیکن یہاں مدارس کی ثقافتی سرگرمیوں کو بالکل نظرانداز کردیا گیا، یہ ثقافتی سرگرمیاں مدارس میں شوقیہ اور اختیاری نہیں کرائی جاتیں بلکہ انکو ایک اہم اور لازمی درجہ حاصل ہے۔ ان میں اردو شعر وادب سے شغف اور تعلق کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ بیت بازی کا جو کلچر اور اساطین شعراء کے اشعار کو یاد کرنے کا جو اہتمام مدارس کے طلبہ میں پایا جاتا ہے ، اس کی طرف غالباً لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ اسی طرح جداریہ پرچوں میں طلبہ کے ذریعے شعر وادب پر لکھے جانے والے مضامین کی طرف بھی کسی کی نظر نہیں گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ میں اردو شعر وادب سانس اور ہوا کی طرح رچا بسا ہے۔ لہذا، بے جا غیر اور اخلاقی پوسٹیں لائق مذمت ہیں، یہ سلسلہ فوری طورپر موقوف ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare