مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: زندگی کا سفر
سرزمین بہارعلم کی بستی اورادب کا گہوارہ رہی ہے، یہاں جابجا بزرگان دین کی قبریں ماضی کا پتہ دے رہی ہیں، ماضی کی شخصیتیں اگر بے نظیرتھیں، توزمانہء حال میں بھی گوہرنایاب موجود ہیں،ویشالی ضلع کے حسن پور گنگھٹی سے تعلق رکھنے والے حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی دامت برکاتہ العالیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، آپ کی ذات ہمہ گیراورآپ کی خدمات ہمہ جہت ہیں،آپ فی الحال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم، امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے مدیر اعلیٰ،وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اورآل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ہیں، اسی طرح آپ معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی( سرائے ویشالی)کے بانی مبانی بھی ہیں ہے،اعتراف خدمات میں آپ کو کئی سرکاری اعزاز سے نوازا جاچکا ہے ۔
مختصر حالات زندگی
ولادت: آپ کی ولادت 17/ نومبر 1958ء ( بہ مطابق 5/جمادی الاولی 1378ھ) بروز پیر محمد نور الہدیٰ کے یہاں حسن پور گنگھٹی موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی۔ ابتداء میں آپ کا نام شمیم الہدیٰ رکھا گیا، لیکن والد گرامی نے بعد میں ثناء الہدیٰ کردیا۔
شجرۂ نسب: محمد ثناء الہدیٰ ابن محمد نور الہدیٰ بن منشی علی حسن بن رجب علی بن سخاوت علی۔
خاندان: آپ کے گاؤں میں گرچہ جہالت عام تھی، لیکن آپ کا خاندان مذہبی و عصری تعلیم سے آراستہ تھا، ہدی فیملی،تہذیب و شائستگی کے لئے علاقے بھر میں مشہور تھی، ان کے والد محترم ماسٹر محمد نور الہدیٰ ڈبل ایم اے تھے،ایم اے فارسی میں بہار یونیورسٹی کے وہ ٹاپر تھے، آپ کے دادا منشی علی حسن اچھے خوش نویس تھے ،اور انہیں گلستان و بوستان کے اکثر حصے زبانی یاد تھے۔
رسم بسم اللہ : پانچ سال کی عمر میں آپ کی پھوپھو راشدہ خاتون نے رسم بسم اللّٰہ ادا کرائی، ناظرہ قرآن، اردو کا قاعدہ۔ پہلی، دوسری، تیسری،( مولانا محمد اسماعیل خان صاحب میرٹھی کی کتاب کا پورا سیٹ )اور فارسی کی پہلی، دوسری، انگریزی کی پہلی کنگ ریڈر، پہاڑہ اور جوڑ گھٹاؤ سب کی تعلیم پھوپھو کے پاس ہی ہوئی، بچپن ان ہی کے زیر تربیت گزرا، گھر کا ماحول علمی تھا، اسی لئے ابتداء ہی سے دین و ادب کا چسکا لگ گیا۔
اسکول کی تعلیم : گھریلو تعلیم کے بعد 1966ء میں بکساما مڈل اسکول میں تیسرے درجے میں داخلہ کرایا گیا،یہاں انھوں نے پانچویں درجے تک تعلیم پائی، اسکول کے اساتذہ میں جگ لال جی، اور ماسٹر ہارون قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ میں داخلہ : 1970ء میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں درجۂ حفظ میں داخل ہوئے، قاری عتیق الرحمان صاحب کے پاس حفظ شروع کیا، ایک سال بعد مدرسہ احمدیہ چھوڑ کر گاؤں کے مکتب مدرسہ ملیہ میں پڑھنا شروع کیا۔یہاں ان کے حفظ کے استاد حافظ محمد مستقیم جتوارپوری تھے،جو اس گاؤں میں مکتب کے معلم تھے۔
مئو کا سفر: 1972ء میں دار العلوم مئو میں داخلہ کرایا گیا، دوسرے سال1973 کے آخر میں حفظ کی تکمیل ہوئی، فارسی اور عربی اول و دوم کی کتابیں دار العلوم مئو میں ہی پڑھیں، پھر عربی سوم میں مفتاح العلوم مئو میں داخلہ لیا۔ آپ نے حفص کی تکمیل قاری عبد المنان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی درسگاہ میں یہیں سے کی،اس وقت مئو میں شیخ القراء قاری ریاست علی، مولانا عبد اللطیف نعمانی، اور ابو المآثر حبیب الرحمن اعظمی رحمھم اللّٰہ جیسے اکابر علماء موجود تھے۔ اگلے سال دوبارہ دار العلوم مئو میں داخلہ لیا، اور عربی چہارم پڑھا، اسی سال قاری ظفر الاسلام صاحب سے قرأت سبعہ کی بھی تکمیل کرلی۔
سرزمین دیوبند میں:
تکمیل تعلیم کی غرض سے 1978ء میں دار العلوم دیوبند کے لئے رخت سفر باندھا، پنجم عربی میں داخلہ لیا، دار العلوم دیوبند میں آپ کی شخصیت و صلاحیت کو چار چاند لگ گئے، دیوبند کی علمی و ادبی فضا سے خوب استفادہ کیا، تحریر و تقریر میں جلا پیدا ہوئی، جمیعت الطلباء کے سکریٹری بنے، سجاد لائبریری کے لئے زمین خریدی،انقلاب کے زمانے میں آپ وہاں کے طالب علم تھے، آپ نے ان احوال کو ذاتی ڈائری میں لکھا، جو ترجمان دیوبند کے خاص نمبر”وحید الزماں کیرانوی نمبر” کی زینت بنی، 1982ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت ہوئی،دورۂ حدیث میں آپ تیسری پوزیشن سے کامیاب ہوئے، دارالعلوم دیوبند کے ریکارڈ کے مطابق آپ کی فراغت 1401ھ میں ہوئی ہے، مدارس میں اختتام سال شعبان کے مہینے میں ہوتا ہے ، اس اعتبار سے عیسوی سال جون 1981ء ہوگا۔
سن 82/1983ء میں دارالعلوم ہی سے افتاء کیا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ سے رسم المفتی پڑھی، حضرت مفتی نظام الدین اعظمی سے فتویٰ نویسی کی مشق کی، اور در مختار کے اسباق حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی سے متعلق رہے،مفتی کفیل الرحمٰن نشاط عثمانی بھی کبھی کبھی مشق و تمرین کرایا کرتے تھے، اس زمانے میں وہ وہاں نقل فتاویٰ پر مامور تھے، جب حضرت مفتی نظام الدین اعظمی شروع سال میں حج کو گئے ، تو حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ نے چند دن افتاء کی کتابیں پڑھائیں،حضرت مفتی صاحب کی رائے یہ تھی کہ "فتاویٰ رشیدیہ کی زبان فتوی کی ہے، اس لیے طلباء کو یہ کتاب زیر مطالعہ رکھنا چاہیے، انہوں نے طلبہ پر واضح کیا کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دستخط بالکل واضح ہو، اس لیے کہ فتوی پر اعتماد مفتی کے نام کی وجہ سے ہوتا ہے، دو سطروں کے بیچ میں فاصلہ نہیں چھوڑنا چاہیے، کہ کوئی عبارت بڑھا دے، اور تحریر ایسی گنجلک ہونی چاہیے کہ بیچ میں کچھ لکھنے کی گنجائش باقی نہ رہے”۔
آپ نے دار العلوم میں قاری محمد طیب قاسمی ؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغہ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ سے شرح عقائد نسفی ، مولانا عبد الخالق مدراسی سے متنبی ، مولانا بدر الحسن قاسمی سے مقامات حریری، مولانا خالد بلیاوی سے ملا حسن ،مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ہدایہ اولین، مولانا زبیر صاحبؒ سے میبذی، علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری سے بیضاوی اور مولانا معراج الحق صاحبؒ سے ہدایہ آخرین پڑھی۔
دورۂ حدیث ہی کے سال قضیۂ دار العلوم پیش آیا،کیمپ کے دنوں میں اسباق تقریباً پانچ مہینے تک زیادہ تر حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ سے متعلق رہے، اسی لئے آپ کی صحاح ستہ کے کئی اساتذہ ہیں، اور ایک ایک کتاب کئی حصوں میں پڑھائی گئی تھی، جیسے کہ صحیح بخاری حضرت قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے شروع کرائی، نصف اول کے ابتدائی حصے حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ نے پڑھائے، اس کے آگے مولانا نصیر احمد خانؒ نے پڑھایا، صحیح البخاری ثانی کے بھی بعض اجزاء کیمپ کے زمانے میں مفتی سعید احمد صاحبؒ پڑھا رہے تھے، دوبارہ دار العلوم کھلنے کے بعد مولانا نصیر احمد خان صاحبؒ نے مکمل کرائی۔اسی طرح صحیح مسلم (ابتدائی حصہ) مفتی سعید احمد پالنپوریؒ پڑھا رہے تھے۔ جامع ترمذی( از اول تا آخر) مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کے زیر درس رہی۔ سنن ابو داؤد مولانا خورشید احمد دیوبندی سے اور سنن نسائی مولانا حسین احمد بہاری جیسے جلیل القدر اساتذہ سے پڑھیں۔
مفتی صاحب نے کتب احادیث کے ان اساتذہ کی تفصیل حافظہ کی بنیاد پر زبانی بتائی تھی، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ زیادہ کچھ یاد نہیں ہے مجھے، اب دار العلوم دیوبند کے محافظ خانے سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ مفتی صاحب کی بتائی ہوئی تفصیل کے برخلاف ہے، ممکن ہے انتشار اور انقلاب میں تقسیم کتب کی تفصیلات ابتدائے سال میں جو درج ہوئی ہو، وہ کیمپ میں جانے کے بعد بدل گئی، اور مفتی صاحب نے جو ترتیب بتائی، اسی کے مطابق وہ کتابیں پڑھائی گئی ہو، جو ریکارڈ میں درج ہی نہیں ہوا.یہی وجہ ہے کہ مؤطا امام مالک کے استاذ کا نام محافظ خانہ میں بھی موجود نہیں ہے۔
بہر حال دارالعلوم دیوبند کے ریکارڈ کے مطابق آپ کی دورۂ حدیث شریف سے فراغت شعبان 1401ھ میں ہوئی ہے، دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ درج ذیل ہیں:
(1)بخاری شریف : (جلد اول )حضرت مولانا نصیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ
(جلد ثانی) حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ
(جلد ثانی) حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔
(2)مسلم شریف: ( جلد اول) حضرت علامہ محمد حسین بہاری رحمۃ اللہ علیہ ۔
(جلد ثانی) حضرت علامہ سید انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
(3) ترمذی شریف: (جلد اول) حضرت علامہ محمد حسین بہاری
( جلد ثانی) حضرت مولانا معراج الحق رحمۃ اللہ علیہ
(4) ابو داؤد شریف: حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ
حضرت مولانا خورشید عالم رحمۃ اللہ علیہ
(5) نسائی شریف: حضرت علامہ قمر الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(6)ابن ماجہ شریف: حضرت علامہ حسین بہاری
(7) طحاوی شریف: مولانا خورشید عالم
(8) شمائل ترمذی: حضرت مولانا محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ
(9) مؤطا مالک: معلوم نہ ہوسکا۔
(10) مؤطا امام محمد: حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ ۔
عصری درسگاہوں سے استفادہ
آپ نے عصری درسگاہوں سے خوب استفادہ کیا، آپ نے اتنی زیادہ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں کہ بقول محمد فیاض قاسمی ’’آپ نے حافظ، قاری، فاضل، مفتی، ادیب، ایم اے اور بی اے جیسی اتنی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، کہ ہمارے جیسا لاغر جسم والا ان ڈگریوں تلے دب جاتا، مگر یہ بآسانی اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن سادگی کا اس قدر حملہ ہے، کہ کوئی سرسری دیکھنے والا صرف ایک ملاجی سمجھے، یا بہت مہربانی کرے تو میٹرک پاس گردان لے‘‘۔
آپ نے فراغت کے ساتھ ہی پرائیویٹ سے میٹرک کا امتحان دیا، بعدہ بہار یونیورسٹی مظفر پور میں بی اے آنرز فارسی میں یونیورسٹی ٹاپ کیا،اور پہلی پوزیشن پائی،فارسی سے ہی ایم اے کیا، اور پوری یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن پائی، پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھ چکے تھے، پروفیسر متین احمد صاحب بہار یونیورسٹی گائیڈ تھے، ان کے انتقال کی وجہ سے سے ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گئے ۔اسی طرح بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے پانچ مضمون میں فاضل کیا، جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا، جامعہ دینیات سے فاضل دینیات اور عربک پرشین بورڈ الہ آباد سے بھی فاضل کی سند لی۔
عملی خدمات
آپ نے فراغت کے بعد ٹیچرٹریننگ کیا،لیکن والد محترم کے مشورے سے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسے سے کیا، چنانچہ 83 ء میں دار العلوم بربٹہ سمستی پور ( ملحق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ) میں پرائیویٹ طور پر درس و تدریس کی خدمت سے وابستہ ہوگئے، یہاں قدوری،نور الایضاح،اورفارسی کی پہلی آپ کے درس میں شامل رہی، اس وقت آپ کی تنخواہ صرف تین سو روپے تھی۔،
یکم مئی 84ء مادرعلمی مدرسہ احمدیہ ابا بکر پورویشالی میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے۔ 1990ء میں آپ کو بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ڈیپوٹیشن پرآپ کوبہارمدرسہ بورڈ کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بلالیا، یہاں آپ 1994 تک رہے، پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد مدرسہ احمدیہ میں دوبارہ درس وتدریس میں لگ گئے، آپ نے مدرسے کے درجۂ حفظ کو سدھارنے اور علمی ڈگر پر لانے کی کوشش کی، اسی کے ساتھ قدوری، ابو داؤد شریف اور آثار السنن جیسی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔
امارت شرعیہ سے وابستگی
مؤرخہ 29؍اکتوبر 1995ء میں آپ کو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے مجلس ارباب حل و عقد کا رکن منتخب کیا گیا۔
مئی 2003 ء میں امیر شریعت سادس مولانا نظام الدین صاحب کی ایماء پر بطور نائب ناظم امارت تشریف لائے،مارچ 2015ء سے امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کا اداریہ( اس کے مدیر جناب عبد الرافع کے صاحب فراش ہوجانے کی وجہ سے)لکھنا شروع کردیا تھا، البتہ دسمبر 2015 ء میں ایڈیٹرعبد الرافع کے انتقال پر ملال کے بعد آپ کو مستقل طور پر نقیب کی ادارت سونپ دی گئی ،اور تا حال امارت شرعیہ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر کی حیثیت سےخدمات انجام دے رہے ہیں۔
آل انڈیا ملی ملی کونسل
فقیہ اسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی جوہر شناس نگاہ نے اس گوہر بے بہا کو پہچان لیا، چنانچہ قاضی صاحب نے کئی اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد کیں، آپ ملی کونسل کی پہلی میقات (سن 1992ء)میں بمقام میسورمعاون سیکرٹری بنے، اور دوسری میقات ( سن 1995)میں بہار میں رابندر ناتھ ٹیگور ہال میں سکریٹری بنائے گئے اور سن 2002 میں باضابطہ سکریٹری بنے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ
بورڈ کے ارکان مجلسِ تاسیسی نے مونگیر میں منعقدہ اجلاس 2مارچ 2003ء میں آپ کو بورڈ کا معزز رکن منتخب کیا۔
شعر و ادب
مفتی صاحب کو شعر ، نظم اور غزل سے بھی بڑی مناسبت تھی، ضیاء اور عاصی تخلص اختیار فرماتے تھے، اسی طرح 1976ء سے 83 ء تک ثناء نوری، ضیاء رحمانی، بدر عالم طیبی جیسے فرضی نام سے افسانے لکھا کرتے تھے، فراغت کے بعد یہ سلسلہ پوری طرح سے بند کردیا۔
قلمی خدمات
آپ کی قلمی و ادبی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بہار کے بڑے بڑے ادیبوں نے آپ پر قلم فرسائی کی ہے، ادبی و قلمی خدمات کے اعتراف میں انجمن ترقی اردو ویشالی نے سیمینار بعنوان” مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات” کیا، جو کتابی شکل میں موجود ہے۔
آپ نے زندگی، سیاست اور سیادت ہر ایک پر خوب لکھا ہے ۔ بقول انوار الحسن وسطوی
” حقیقت میں مفتی صاحب نہ نرے مولوی ہیں اور نہ خالی خولی ادیب بلکہ ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں۔ یہ ان کی گوناگوں دلچسپیوں اور ان کی وسعت نظری کا کمال ہے کہ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جس کسی شخص میں بھی کوئی خوبی دیکھی تو اس کے قائل ہوئے اور اس شخصیت کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ مفتی صاحب انسانوں میں خامیاں نہیں ڈھونڈ تے، خوبیاں تلاش کرتے ہیں۔ خود بھی ان خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور مسلسل دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتے ہیں”
یوں تو آپ دار العلوم مئو اور دار العلوم دیوبند دونوں جگہ تحریری و تقریری شعبوں میں حصہ لیتے رہے، البتہ جداری پرچوں سے کتابی تصنیف تک کا سفر دار العلوم دیوبند کے دور طالب علمی میں ہی طے کیا، عربی ششم میں آپ کی سب سے پہلی کتاب "فضلاء دار العلوم دیوبند اور ان کی قرآنی خدمات” منظر عام پر آگئی تھی، جس میں پیش لفظ مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، اور مقدمہ مولانا انظر شاہ کشمیری رحمھما اللّٰہ نے لکھا ہے۔
اس کے بعد پے بہ پے ساڑھے چار درجن سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر آچکی ہیں، جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
شرح حدیث پر:
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد اول (1996)
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد دوم (ء1998)
فن فقہ پر
(3) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد اول(2014ء)
(4) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد دوم (2018ء)
(5) حضرت فاطمہ کے جہیز کی حقیقت (1986ء)
(6) المسائل المستجدہ فی ضوء القرآن و السنۃ ( عربی ترجمہ؛ نئے مسائل کے شرعی احکام)
اسلامیات
(7) المنہج السلیم الی دعوۃ اللہ العظیم (عربی ترجمہ: دین کی دعوت کا آسان طریقہ)
(8) دین کی دعوت کا آسان کا طریقہ (1986ء)
(9) اذان مجاہد ( قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تقریر کا مجموعہ) (2007ء)
(10) دعا عبادت بھی -حل مشکلات بھی (2017ء)
(11) عمرہ حج و زیارت – سفر محبت و عبادت (2009ء)
(12) اچھا سماج بنائیے (2013ء)
(13) اصلاح کی فکر کیجیئے ( 2010ء)
(14) حرف حرف زندگی ( 2018ء)
(15) اتحاد امت اور اختلاف رائے – اصول و آداب ( 2016ء)
تعلیم و تدریس
(16) تعلیم ترقی کی شاہ کلید (2015ء)
(17) مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس (2014)
(18) عصر حاضر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم- تجزیہ مسائل و حل۔ ( 1992ء) ہمہ گیر تعلیمی مہم میں شامل نصابی کتاب
(19) آو ہم پڑھیں ( 2009ء)
(20) خاصیات ابواب ( 1987ء)
ترتیب و تدوین
(21) نامے میرے نام (جلد اول ) (مفتی صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ (2016ء)
(22) نامے میرے نام (جلد دوم ) زیر طباعت
(23) دیوان عبد اللطیف اوج (2015ء)
(24) دیوان سراج سلطانپوری (زیر طباعت)
(25) میری سنو ( مولانا نبی اختر مظاہری کا مجموعۂ کلام) [2012ء]
(26) گلدستۂ شادمانی( سہروں کا مجموعہ)[ 1990]
(27) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی۔تھانوی اور مولانا عبد العزیز بسنتی کے علمی مراسلے ( 2016ء)
(28) ام شمیم جرنلسٹ ۔حیات و خدمات (1989)
(29) قومی یک جہتی ( 1990)
ادبیات – ( تاریخ و تحقیق و تنقید)
(30) نقد معتبر (2009ء)
(31) حرف آگہی (2015ء)
(32) تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی (2001ء)
(33) فضلائے دارالعلوم اور ان کی قرآنی خدمات ( 1980)
(34) حرف تازہ_ غزلوں کا مجموعہ ۔ ( غیر مطبوعہ)
(35) یہ سفر قبول کرلے (2020ء)
(36) بہار مدرسہ بورڈ_ تاریخ و تجزیہ ( 1992)
(37) آوازہ لفظ وبیاں (2021ء)
خاکہ
(38) یادوں کے چراغ جلد اول (2009ء)
(39) ہادوں کے چراغ جلد دوم ( 2017ھ)
(40) یادوں کے چراغ جلد سوم ( 2022ء)
(41) یادوں کے چراغ جلد چہارم ( 2022ء )
(42) یادوں کے چراغ جلد پنجم ( غیر مطبوعہ )
(43) دکھتی رگیں ( افسانوں کا مجموعہ) [ غیر مطبوعہ]
(44) آدھی ملاقات ( مفتی صاحب کے مکاتیب کا مجموعہ) [ 2022ء]
(45) سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر – حقائق، اندیشے، مضمرات ۔( 2020ء)
(46) کورونا مسائل، مصائب اور مشکلات
(47) نقطۂ نظر ( 2020ء)
(48) زاویہ نظر (2022)
(49) تماشا مرے آگے (2022ء)
(50) تذکرہ مسلم مشاہیر بہار
(51) مکاتیب شاہ علی منعمی کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ( پی ایچ ڈی کے لئے لکھا گیا تحقیقی مقالہ،غیر مطبوعہ )
آپ پر لکھی گئی کتابیں
(1)مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات( ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق )
(2) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات ( یہ ڈاکٹر راحت حسین کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہے)
(3) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں۔
(مرتب: عبد الرحیم استاذ معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی)
آپ پر لکھے گئے مضامین جو دوسری کتابوں میں شامل ہوئے۔
(1) باتیں میر کارواں کی (عارف اقبال دربھنگوی)
(2) ہندوستان کے قائدین (شمیم اختر)
(3) بہار کی بہار (مولانا وصی احمد شمسی)
(4) ضلع اردو نامہ 2022/23 (مرتب: آفتاب عالم)
ایوارڈ:
قومی ایوارڈ برائے اساتذہ۔ ( تعلیمی میدان میں قابلِ ذکر خدمات کے اعتراف میں یوم اساتذہ پربدست صدر جمہوریہ ہند کشوری رمن نارائن (5 ستمبر 2000ء)
شمس الہدیٰ ایوارڈ ۔ بدست اس وقت کے وزیر تعلیم حکومت بہار ،جے پرکاش نارائن یادو ۔ (4اکتوبر 1997ء)
بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ۔ 2017ء میں آپ کی کتاب "تعلیم: ترقی کی شاہ کلید” کے منظور ہونے پر۔
توصیفی سند ( بہار مدرسہ بورڈ ’’ تاریخ و تجزیہ” کی تصنیف پر چیرمین مدرسہ بورڈ محمد سہراب نے بتاریخ 20 اپریل 1995ء میں توصیفی سند عطا کی، اور فرمایا کہ ” اگر بورڈ کے دائرۂ اختیار میں پی ایچ ڈی یا کامل کی ڈگری تفویض کرنا ہوتا، تو بورڈ انہیں اس علمی کام پر مذکورہ ڈگری ایوارڈ کرتا‘‘۔
اس کے علاوہ سیکنڑوں سرکاری و غیر سرکاری ایوارڈ اور اعزازات سے آپ نوازے گئے۔
بیعت و خلافت
حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری میرٹھ خلیفۂ اجل حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے دست گرفتہ ہیں ۔آپ کے صلاح و تقویٰ کو دیکھ کر 1425 ھ مطابق 2005ء میں حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری نے آپ کو اجازت و خلافت عنایت فرمائی، اور ایک خط بھیجا جس میں کچھ یوں رقم طراز ہوئے کہ ’’الحمداللہ حق تعالیٰ نے آپ کو فطری طور پر قلب کی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، اور بعض دفعہ فطری صلاحیت اکتسابی صلاحیت سے بڑھ جاتی ہے۔ سو الحمد للّٰہ یہ صلاحیت … عطیۂ حق سے موجود ہے، اسلئے مناسب ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو بھی بہرہ ور فرمائیں، اور مخلوق کی دینی اور اخلاقی تربیت کی طرف توجہ فرمائیں ۔ جو بھی طالب صادق آئے اُسے توبہ کرادیا کریں۔ کبائر و صغائر سے توبہ اور توحید ورسالت اور بنیادی عقائد کا اقرار لے لیا کریں، بہرحال طالبین کو محروم نہ فرمائیں، میں اس کی آپ کو اجازت دیتا ہوں ۔ حق تعالٰی اکابر مشائخ کی راہ پر چلائے، اور بر و تقوی کی توفیق دے‘‘۔ آمین
حج
آپ کو چار مرتبہ سفرحج کی سعادت نصیب ہوئی، پہلی مرتبہ 1989 ء مطابق 1409ھ میں حاجی شفیع الرحمٰن صاحب گولڈن ہائیڈ ایجینسی کولکاتہ کے صرفہ سے حج پر گئے، مفتی صاحب نے ان کے لڑکے کو حفظ کرایا تھا، اور یہ خدمت انہوں نے فی سبیل اللہ مجانا کی تھی، حالانکہ حاجی صاحب نے پیسہ کی پیشکش کی، تو آپ نے کہا: کہ” میں قرآن پڑھانے پر اجرت نہیں لیتا ہوں ”
شفیع الرحمٰن صاحب نے پوچھا کہ اگر انعام دوں تو لیں گے ؟! تو آپ نے فرمایا کہ بالکل ، اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایسا انعام دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے، اور پھر انہوں نے آپ کو انعام کے طور پر تحفۂ حج دیا، بلکہ مفتی صاحب کے مشورے سے وہ بھی اپنے اہلیہ کے ساتھ آپ کی معیت میں حج پر گئے۔
دوسرا حج 2002ء میں ۔ 2012ء میں تیسری مرتبہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ کی دعوت پر ضیوف الحرمین الشریفین کی حیثیت سے سفر حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔
چوتھی مرتبہ 2019ء میں خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ ( جن میں مفتی صاحب کی اہلیہ اور ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی شامل تھے)حج کے مبارک سفر پر روانہ ہوئے،اور مناسک حج ادا کئے۔
سن 2015ء میں شاہ سلمان کی دعوت پر آپ غسل کعبہ کی تقریب کے موقع سے عمرہ کی سعادت حاصل کی، اس سفر میں مولانا محمد قاسم مظفر پوری بھی شریک سفر تھے۔
شادی
آپ کی شادی اپنے ماموں کی لڑکی عشرت پروین بنت محمد عمر آزاد مرحوم سے بہ مقام شاہ میاں رہوا ڈاک خانہ، سہتھا ضلع ویشالی 5 اگست 1983 ء میں فراغت کے فوراً بعد ہوگئی تھی
اولاد و احفاد
آپ کی کل نو اولادیں ہوئیں، جن میں پانچ لڑکے ہیں، ایک لڑکا محمد نصر الہدیٰ ولادت کے چند ماہ بعد ہی چل بسا۔ بقیہ چار حی القائم ہیں ۔
(1) محمد نظر الہدیٰ ( دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں، چچازاد بہن ناز افزاء بنت محمد ضیاء الہدی ضیاء سے نکاح ہوا، ایک لڑکا، محمد الہدیٰ صغر سنی میں ہی چل بسا، چار لڑکی خنساء ہدی، حفصہ ہدی، فاطمہ ہدی،اور زینب ہدی حی القائم ہیں۔)
(2) محمد ظفر الہدیٰ ( دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ۔ چک حبیب اللہ میں مسرت جہاں بنت مولانا عبد الحنان مرحوم سے عقد نکاح ہوا، ایک لڑکا قاسم الہدیٰ ہے)
(3) محمد فخر الہدیٰ ( سول انجینئر ہیں)کی شادی قاری جلال الدین صاحب امام جامع مسجد موتی ہاری کی صاحب زادی "ذکری”سے ہے۔
(4) محمد نصر الہدیٰ ( بچپن میں وفات)
(5) محمد ثمر الہدیٰ ( انجینئرہیں )ایم ٹیک کے بعد حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
چار لڑکیاں بھی ہیں
(6) رضیہ عشرت ( ان کی شادی مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری سے ہوئی، انہیں دو لڑکی سعیدہ سراج اور عائشہ سراج ہیں، اور تین لڑکے یحییٰ سراج صہیب سراج، خبیب سراج ہیں، یحییٰ سراج کم عمری میں ہی فوت ہوگئے۔)
(7) غازیہ عشرت ( شادی ضیاء الحق نعمانی مقام نستہ ناصر گنج سے ہوئی، ایک لڑکا ارقم ضیاء تھا،جو کینسر کے موذی مرض میں کم عمری میں ہی چل بسا، تین لڑکی ہانیہ ضیاء آیبہ ضیاءاور ہادیہ ضیاء ہیں۔)
(8) شاذیہ عشرت ( شوہر: ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی مقام چندیہہ وایا اورائی، ضلع مظفر پور ہیں،ان کو ایک لڑکی منیبہ ہے )
(9) ناصیہ عشرت۔ ( جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے کی طالبہ ہیں۔
بھائی بہن میں سب سے بڑی رضیہ عشرت ہیں۔
آپ کے کل چھ نواسیاں دو نواسےچار پوتیاں اور ایک پوتا سے بھرا پرا خاندان ہے۔
میرے ذاتی تأثرات
شعور کی سیڑھی چڑھ رہا تھا، تب کئی نام ذہن ودماغ میں گھومتے تھے، انہی میں سے ایک نام مفتی صاحب مد ظلہ العالی کا تھا، سجاد لائبریری میں آپ کی اکثر کتابیں موجود تھیں،اسی لئے تحریروں کے ذریعے آپ سے ملاقات ہوتی رہی، اخبار میں بھی اکثر آپ کے مضامین دل کشا پڑھتا، تین سال پہلے 2020ء میں آپ امارت کے وفد میں شامل ہوکرہمارےعلاقے میں آئے، ہمارے گھر آپ قدم رنجا ہوئے، میرے لئے زندگی کی سب سے بڑی آرزو کی تکمیل ہورہی تھی،گھر میں خوب سارے پکوان بنے، دسترخوان لگا،آپ نے دولقمہ کھا کر سلاد پر اکتفا کیا،اس کے بعد آپ آرام کرنے کے لئے لیٹے، تومیں نے اپنی سعادت سمجھ کر آپ کے پیر دبائے، حضرت بڑے آدمی ہیں،علم کے سمندر ہیں،ہم جیسے کہاں ذہن میں رہتے،امسال التدریب فی القضاء میں داخل ہوا،مفتی صاحب کو اپنا مضمون دیا،اورآپ نے نقیب میں اسے شائع بھی کردیا، میرے لئے یہ بڑی خوش نصیبی کی بات تھی، حضرت کی یہ صفت خورد نوازی سے میں سب سے زیادہ متأثر ہوا،مفتی صاحب طلباء کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں،کہتے ہیں "کوئی ماں کے پیٹ سے بڑا بن کرنہیں آتا ہے، انہی سیڑھیوں پر گرتے پڑتے اپنا مقام پالیتا ہے،مفتی صاحب سے دن بہ دن تعلق پروان چڑھتا رہا،ذاتی طور پرمجھے اشکال تھا، کہ اس دور قحط الرجال میں رجال ساز افراد کی کمی ہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جیسی مردم ساز شخصیت اب نہیں ملتی، لیکن آپ کودیکھ کر،سن کر ذرا تشفی ہوئی،ہمارے ایک درسی ساتھی اپنی کتاب ہدیہ میں پیش کرنے گئے، تو صرف ان کی حوصلہ افزائی کے لئے آپ نے وہ کتاب پڑھی، اور اس پر شاندار تبصرہ بھی نقیب میں لکھا،اور شائع بھی ہوا۔
پھرمفتی صاحب کے سامنے ویکیپیڈیا اردو پر آپ کے حالات اپلوڈ کرنے کا عزم ظاہر کیا، تومفتی صاحب نے خاموش حامی بھرلی ،اورآپ نے طالب علمی کے واقعات سنائے، حالاں کہ مفتی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں بہار کے نامور قلمکاروں نے اتنا شاندار و جامع لکھا،اور ایسے ایسے جملے استعمال کئے ہیں کہ ہم جیسے وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، خیرسے: مفتی صاحب سادگی کے پیکراورانتہائی متواضع ہیں،ان کو پڑھ سن کر جوعکس ذہن میں بسا تھا ،آپ بالکل اس کے برعکس ہیں، آپ کے کمرے میں جانا ہوا،بڑی بےتکلفی سے ناشتہ پیش کردیا، طالب علمی کے زمانے میں ڈائریاں لکھتے تھے ، یا جو تحریریں تھیں، وہ سب آپ نے اب تک محفوظ رکھے ہیں، کمرے میں کتاب ہے، دھول ہے، کچھ چیزیں یہاں وہاں پھیلی ہوئی ہیں، میں نے اب تک اتنی بڑی شخصیت کو اس انداز اور اس سادگی میں نہیں دیکھا، ظاہری زیبائش سے بے نیاز،بناوٹ سے کوسوں دورہیں، بزرگوں کے بارے میں جو پڑھا تھا، آپ اس کے پرتو ہیں، یا شاید امارت اور بہار کی مٹی میں ہی اللہ نے تواضع، سادگی، تصنع سے نفرت، اور بے باکی رکھی ہے،
بہر کیف: آپ کی موجودگی ہمارے لئے بلکہ برصغیر کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، کچھ لوگ مرنے کے بعد ان پر رونا روتے ہیں، لیکن زندہ شخصیات سے استفادہ کرنے کا نہیں سوچتے، حضرت کی شخصیت گزرے لوگوں کی نشانی ہے، اکابر علماء کی پرچھائی ہے، آپ کی ذات بے بہا سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اللہ آپ کے سایہ عاطفت کو تادیر قائم رکھے۔
غالب شمس قاسمی :✍️