موت نہیں : ایک نئی زندگی
طلحہ نعمت ندوی
موت کے تئیں بادی النظر میں زندگی سے منقطع ہونے کا تصور اتنا عام ہوگیا ہے کہ انسان کو جنت اور اس کی حقیقتوں کو وعدوں پر اتنا یقین نہیں رہا، انسان اگر مسلمان ہے تو پھر اس کی زندگی موت کے بعد ہی شروع ہوتی ہے ، اگر یہ احساس وشعور دل و جگرمیں جاں گزیںہوجائے تو پھر جانے والے کا وہ غم نہ ہو جو آج کی دنیامیں ہوتا ہے ،اور ہر خوشی کے موقع پر اس کی یاد آتی ہے ،مرحوم کی یاد کے ساتھ ہی یہ احساس گہرا ہوجاتا ہے کہ اب وہ خاک کے بستر پر سورہا ہے جہاں اس کا جسم سڑ گل کر ختم ہوجائے گا ،اور دنیا کی ساری سہولتیں بھی اس کے لئے اب ختم ہوگئیں ۔ لیکن اگراخروی زندگی کی حقیقت سامنے رہے ،اور اس کاا یقان پختہ ہو تو انسان یہ سوچے گا کہ وہ ایسے راحت وآرام میں ہے جسے نہ آنکھوں نے دیکھا ہے ،نہ کانوں نے سنا ہے ،نہ کسی ذہن ودماغ نے کبھی اسے سوچا۔
موت درحقیقت زندگی کی مشغولیتوں سے راحت وآرام کا وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے کاموں اور مشغولیات سے پوری طرح فارغ ہوکر اپنے رب کریم کی خصوصی نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے ، اپنے ان احباب ،اعزہ اور دوستوں سے ملاقات کرتا ہے ، جو اس سے قبل اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ،یا اس کے بزرگوں میں شامل تھے ،وہاں دنیا کے آغاز سے لے کر اب تک کے صالحین ومربین کا جومجمع ہے ان کی زیارتوں اور مجلسوں سے لطف اندوز ہوتاہے، اور اس دنیا ہی کی طرح بے تکلف باتیں کرتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ موت پر غم فطری ہے ،اوریہ بھی خود اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،اہل اللہ کے یہاں اس غم کی مثالیں بھی ملتی ہیں ، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر غم ہے تو اظہار غم ہونا چاہئے نہ کہ اظہار مسرت ،لیکن اہل اللہ پر غم اور خوف کا وہ غلبہ نہیں ہوتا جو ان کو کام سے روک دے،ان کی زندگی معطل کردے، جس کو قرآن پاک میں لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یعنی ان کا یقین آخرت اس قدر پختہ ہوتا ہے کہ دنیا کے چھوٹنے کا غم نہیں ہوتا، اور یہ سچ ہے کہ جس قدر بہتر مستقبل کی امید ہوگی اتنا ہی اس کے لئے مشقت برداشت کرنا آسان ہوگا۔
لہذا موت انسان کو ایک نئی زندگی سے آشنا کرتا ہے ،اسے دائمی فراق نہیں کہا جاسکتا ،بلکہ اس کی حیثیت ایسی ہی کہ کوئی شخص ایسی جگہ چلا گیا جہاں سے وہ خود واپس تو نہیں آئے گا لیکن اس کے سارے احباب اس کے پاس ضرور جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ نے خواب کی شکل میں اس سے ملاقات کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے جیسے دنیا میں کوئی دور رہنے والا عزیز نامہ وپیام اور فون کے ذریعہ سے مستقل رابطہ میں رہتا ہے ،اسی لئے دونوں طرف سے ہدیہ کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے ،کہ مرحومین صحیح روایت کے مطابق اپنے گھر الوں کے لئے دعا کرتے ہیں ،اوران کے حالات ان پر پیش کئے جاتے ہیں ،اور ان کی خوشی سے ان کو خوشی ہوتی ہے ،دوسری طرف دنیا کے اعزہ کو ان کو ایصال ثواب کی شکل میں اعلیٰ سے اعلیٰ مالی اور جسمانی عبادتوں کا ثواب پیش کرنے اور دنیا میں حسن سلوک میں جو کمی رہ گئی ہے اس کی تلافی کا پورا موقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے ، بعض منامات ومبشرات کی روشنی میں یہاں تک کہا گیا ہے ،کہ جو کچھ اس کو پسند ہو وہ صدقہ کیا جائے تو اس کی روح کو اس سے خوشی ہوتی ہے ،اور وہی چیز اس کو وہاں مل جاتی ہے۔اس سے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ یہاں والوں کی خبریں بھی اس کو پہنچتی رہتی ہیں ،اس طرح اس کی مثال اس دنیا ہی کی ہے کہ اگر کوئی فرد خاندان کسی دور دراز ملک یا علاقہ میں رہنے لگے اور زندگی بھر اس سے ملاقات نہ ہو تو دونوں طرف کی مراسلات سے دل مطمئن رہتے ہیں۔
اگر مان لیا جائے ان کو وہاں وہ چیز کھانے کو نہ بھی ملتی ہو تو اس سے تسکین خاطر روایات کی روشنی میں ایک طے شدہ امر ہے، اور یہی حال دنیا میں بھی ہوتا ہے ،اچھے سے اچھا کھانا کسی کے سامنے رکھ دیا اور وہ غم سے نڈھا ل ہو تو اسے کھانے کا کیا لطف حاصل ہوگا ،شدید بھوک کی حالت میں بڑی سے بڑی تفریح گاہوں کیوں کر سیر وسیاحت کی لذت کا حصول ممکن ہے،کھانا اور پوشش تو ایک ضرورت ہے جس سے اس حیات ناسوت سے جانے والا بے نیاز ہوجاتا ہے،لیکن اصل ہے دل کا سکون ،اطمینان ،مسرت، زندگی کی روحانی خوشیاں ،وہ وہاں بدرجہ اتم موجود ہوں گی۔ اس دنیا میں بڑے بڑے سے مالدار واصحاب ثروت غم وپریشانی سے نجات کا دعوی نہیں کرسکتے ،مالی وسعت کسی کو ہر طرح کے غم روزگار اور افکار سے مکمل رہائی نہیں دلاسکتی،لیکن آخرت میں ان تمام پریشانیوں سے نجات کی مکمل ضمانت خود اللہ تبارک وتعالی نے لی ہے،اگر خدا نہ خواستہ معاصی کا غم جھیلنا بھی پڑا تو اس کی حیثیت چند روز ہ ہوگی پھر راحت ابدی، اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا، اور غم کے یہ دن اللہ کے فضل سے کم معلوم ہوں گے ،جیسے اس دنیا میں مشقتوں کے بعد راحت کے دن آتے ہیں ،اسی طرح آخرت کی راحت بھی اسی کا تسلسل ہے ،اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ افسوس دنیا کی نعمتوں سے فلاں شخص فائدہ نہیں اٹھا سکا ،عجب نہیں کہ آخرت اس کا نعم البدل ثابت ہو ، موت زندگی کا تسلسل ہے ،اسلام کا یہ ایسا یقینی تصور ہے جس کی صداقت پر کسی ادنی شبہ کی گنجائش نہیں ہے ،اور اسی کی تصدیق کی بناپر ہم مسلمان ہیں۔
جانے والے کو بھولنا نہیں یاد رکھنا چاہئے ،یہ عین تعلیم شریعت ہے لیکن اس کا غم پال کر نہیں بلکہ اس کے لئے مستقل دعاؤں اور ایصال ثواب وہدایا کے اہتمام کے ذریعہ ۔اور جانے والوں پر افسوس وحسرت کے بجائے اس کی آخرت کی نعمتوں اور مسرتوں کا تصور ذہن میں تاز ہ کرنا چاہئے ،کہ وہ اس دنیا سے بہتر حالت میں ہوگا ،اور اس کی بلندی درجات کی دعا کی پابندی، اس سے خود اس کے لئے اخروی فائدہ اور رضائے الہی کے علاوہ اسے طمانینت قلب کی دولت حاصل ہوتی ہے،اور وحشت وگھبراہٹ سے نجات ملتی ہے ۔دنیا میں اس کی موت سے جو کمی ہوئی ،اس موقع پر بھی اللہ تعالی کے عطایا اور احسانات اور اس کی مصلحتیں سامنے رہیں ،تو انسان کے لئے صبر کا مرحلہ آسان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بعض حالات پر شکر گذاری کے کلمات بھی اس کی زبان سے ادا ہوتے ہیں ،ورنہ خدا نہ خواستہ بے صبری میں وہ الفاظ زبان سے نکلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ۔ اللہ تعالی اگر ایک کو اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ کئی لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلقین کے تئیں ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کردیتا ہے، اور بسا اوقات جانے والے کی کمی کی تلافی بہتر صورت میں ہوجاتی ہے ۔ کچھ لوگوں کو یہ بعض شخصیات کے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی موت نے ایک خلا پیدا کردیا ،لیکن کسے معلوم کہ وہ زندہ رہ کر راہ راست پر بھی رہتا یا نہیں رہتا ،یا رہتا اور صحت اور حالات اس کا ساتھ دیتے یا نہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے، اس نے اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے ،اور وہ یہ باور کرانا چاہتا ہے اصل بندہ نہیں میں ہوں۔
جانے والے کی کمی کی تلافی بھی اس دنیا میں کردی جاتی ہے ،یہ عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے بچے بغیر ماں باپ کے بھی اچھی تربیت حاصل کرلیتے ہیں ،اور اکثر اہل اللہ کے حالات میں والدین یا دونوں میں سے کسی ایک سے محرومی کا ذکر عام طور پر ملتاہے، اور شاید یہی داغ یتیمی ان کی تربیت کا سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔جب کہ اس کے برعکس یہ بھی دن رات کا مشاہدہ ہے کہ بہت سے بچے ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی ضائع ہوجاتے ہیں ،بہت سے کام افراد کے ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے ،اور بہت سے بغیر افراد کے ہوجاتے ہیں،یہ اللہ تعالی کا نظام ہے ،اگر وہ ایک سے محروم کرتا ہے اور اس کو اپنے پاس بلاتا ہے تو دس کے دلوں میں اس کی ہمدردی ومحبت پیدا کردیتا ہے۔ اگر یہ سب چیزیں انسان کے سامنے رہیں تو اس کے دل میں شکرگذاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ،اور ہر طرح کے زبانی ہی نہیں دلی شکوہ سے بھی محفوظ رہتا ہے ،جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔
در حقیقت موت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے ،اس نے اسے خود اپنے ہاتھ اور اختیار میں رکھا ہے ،اور انسانی زندگی ،خواہ وہ اپنی ہو یا کسی اور کی ،کے ضائع کرنے اور اس کی ناقدری پر سخت ناراضگی وغضب کا اظہار فرمایا ہے ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہیں کہ جس کی زندگی کی تمنا ہوتی ہے اس کواٹھالیا جاتا ہے اور جس کی عاجزی سے بے بس ہوکر انسان اس کی موت کی تمنا کرتا ہے اس کی زندگی کبھی کبھی طویل ہوجاتی ہے ،اس لئے اپنے دوسروں کے لئے دنیاوی زندگی سے اکتاکر موت کی تمنا کرنا بھی درست نہیں ۔ در حقیقت دنیا کی آسائشیں موت سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ بہتر زندگی گذارنے کے لئے ہیں ،اسی لئے رسول پاک علیہ السلام نے موت سے پناہ نہیں مانگی ،بلکہ بری موت سے اور ،عاجزی وبے بسی سے ،ارزل العمر سے پناہ مانگی ہے۔زندگی کی طرح موت بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، اور انسان کے لئے ہر طبقہ کے لئے رحمت وباعث خیر بھی ،اہل ایمان کے لئے بھی اور اہل کفر ومعاصی کے لئے بھی۔ اہل ایمان وتقوی کے لئے اس طرح رحمت ہے کہ انہوں نے جو کار خیر کئے وہ ضائع نہیں ہوئے ،ورنہ ان کی آگے کی زندگی میں نہیں کہا جا سکتا کہ ان سے کن غلطیوں کا صدور ہوتا ،اللہ تعالیٰ نے نیک نامی کے ساتھ ان کو اٹھا لیا ،اور ان کو آخرت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس کو کسی کی تقلید کرنی ہو وہ ان لوگوں کی تقلید کرے اور انہیں نمونہ بنائے جن کا انتقال ہوچکا کیوں کہ جو زندہ ہیں ان کے حسن خاتمہ کی ضمانت نہیں لی جاسکتی ۔ اہل کفر کے لئے بھی رحمت ہے کیوں کہ وہ جتنا زیادہ زندہ رہتا اس کے کفر کی وجہ سے جہنم کی سختیاں اور عذاب اتنا ہی سخت ہوتا کہ اتنی طویل مہلت ملی لیکن پھر بھی اسلام نہیں لایا ،عجب نہیں کہ کم زندگی کی وجہ سے اس کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوجائے ،اہل معاصی وفساق بھی اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ لادتے رہتے ہیں وہ ان کی موت سے ختم ہوجاتا ہے جس سے ان کا عذاب آخرت ہلکا ہوگا۔
دنیا سے جس قدر کم تعلق ہوگا اور آخرت پر جس قدر یقین پختہ ہوگا اسی قدر اس دنیا کے چھوٹنے کا غم کم ہوگا اور دوسروں کی رخصتی پر بھی وہ غم نہیں ہوگا جو عام طور پر نظر آتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ آخرت کا یقین پختہ اور اس کی فکر کو عام کیا جائے جس کو مسلمان بھولتے جارہے ہیں ،اور اس کا تصور قوی سے قوی تر ہو،یہی ہماری ساری مشکلوں کا مداوا ہے ، اور ہمارے غم وپریشانیوں کا علاج اسی میں مضمر ہے۔