مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کی تفسیر تسہیل القرآن : ایک تقابلی مطالعہ
مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیاملی کونسل بہار
بہارکی مشہورعلمی شخصیت ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کئی اہم اداروں سے منسلک ہیں، گوناگوں صلاحیت کے حامل، سنجیدہ مزاج، معاملہ فہم ، صاحب بصیرت، باکمال، باصلاحیت عظیم قلمکارعالم دین ہیں۔ آپ کے قلم گہربار سے کئی اہم تحقیق معلوماتی کتابیں منصہ شہود پررونماہوئی ہیں بعض کتابیں مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے تین جلدوں میں ’’تذکرہ علماء بہار‘‘بہارکی اردوشاعری میں علماء کرام کاحصہ‘‘تحریک آزادی ہندمیں علماء کرام کاحصہ‘‘اورقدیم اردوزبان کی تاریخ اورپیش نظرنہایت وقیع علمی کارنامہ تفسیرتسہیل القرآن ‘‘آپ کی یہ فاضلانہ تصنیف جدیداسلوب میں عصری تقاضے کے تحت مختصرایک جلدمیںنہایت معتبراورجامع تفسیرہے۔
اس کا ترجمہ بھی بہت سلیس ہے اوراگرصرف ترجمہ بھی پڑھا جائے توباہم مربوط نظرآتے ہیں،عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ عام لوگوں کے استفادہ آسان ہواوریہ چیزاس کے نام ہی سے ظاہرہے تسہیل کے معنی ہیں آسان بنانا ہرصفحہ میں عربی عبارت کے سہہ جانب حاشیہ میں تفسیرلکھی گئی ہے۔ جوبغیرنمبرنگ کے آیت کے پہلے عربی لفظ کے اشارے سے اس کی تفسیروتشریح کی گئی ہے۔ جس میں اس بات کی رعایت کی گئی ہے کہ کسی آیت کی تشریح دوسری آیت سے ہوتی ہے تواس کاحوالہ بھی درج ہے۔اورحدیث کی معتبرکتابوں کا بھی حوالہ پیش کیاگیاہے۔ مشغولیت کے دورمیں کم وقت میں مقصودالہیٰ اوراحکام الہیٰ کو جاننا ہو اور کتاب ہدایت سے ہدایت مطلوب ہو تو یہ مختصر تفسیر ایک ہی جلد میں نہایت مفید ہے جس سے ہرشخص بخوبی استفادہ کرسکتاہے۔ فنی موشگافیوں اور فلسفیانہ نقطہ نظرسے گریز کرتے ہوئے مفہوم اورمقصود کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ سلاست اورحلاوت کے باعث مطالعہ پرمہمیزعطا کرتی ہے۔ اوراطمینان بھی فراہم کرتی ہے کہ ایک مستند معتبر عالم دین کے قلم سے تحریرکی گئی ہے۔ جس میں علمی کمال ، ماہرانہ صلاحیت ایمان ویقین کی پختگی ، استصواب رائے اورفکرونظرکی گہرائی وگیرائی نظرآتی ہے۔
بطورنمونہ ملاحظہ ہو!
۱۔ وھدینٰہ النجدین۔(البلد:10)لغت میں نجد کے معنی سخت اونچی زمین اورکھائی کے آتے ہیں۔ اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیاہے۔ اوردکھلا دیں اسکو دوگھاٹیاں۔
مولانا احمد رضاخان نے لکھا ہے اوراسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔ جبکہ مولانا ابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیز ترجمہ یہ کیاہے: اوردونوں راستے اسے نہیں دکھا دیئے؟اس میں دونوں معنیٰ کی رعایت ہوجاتی ہے۔
۲۔ وتبتل الیہ تبتیلا(المزمل:8)تبتیلا کے معنی تجرید، مجرد ہونا، انقطاع اورتضرع کے آتے ہیں، اسکا ترجمہ حضرت شیخ الہند نے لکھا ہے، اورچھوٹ کے چلا آ اس کی طرف سب سے الگ ہو کر۔
مولانا احمد رضا خان نے لکھا ہے :اورسب سے ٹوٹ کراسی کے ہو رہو۔
حضرت تھانوی نے لکھا ہے: اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہو۔
مولانا مودودی نے لکھا ہے: اورسب سے کٹ اسی کے ہورہو۔
جبکہ مولانا ابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیز یہ ترجمہ کیا کہ :اورسب سے الگ ہو کر پورے کے پورے اسی کے ہو رہو۔
۳۔ قال عفریت من الجن (النمل:39) عفریت کے کئی معنی ہیں، مکار،خبیث، چالاک، شیطان اورطاقتور کے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کریمہ میں حضرت سلیمانؓ کی تابعداری میں ایک جن بولا یہاں اس کی شرارت یا خباثت کا معنی
مناسب نہیں چونکہ وہ نبی کی حکم آوری کر رہا ہے۔
اس کا ترجمہ حضرت شیخ الہند نے لکھاہے: بولا ایک دیو جنوں میں سے
مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے: ایک بڑاخبیث جن بولا
جبکہ مولاناابوالکلام قاسمی نے لکھاہے: جنوں میں ایک قوی ہیکل جن نے کہا اورزیادہ ترمفسرین نے بھی عفریت کا ترجمہ یہاں طاقتوراورقوی ہیکل ہی کیاہے۔
۴۔ ولکن رسول اللہ وخاتم النبین(الاحزاب:40)خاتم کے معنی انگوٹھی ،مہر، نشان ، علامت کے ہیں۔ اس کا ترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیا ہے: لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر
حضرت تھانوی نے لکھاہے: لیکن اللہ کے رسول ہیں سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔
مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے: ہاں اللہ کے رسول ہیں اورسب نبیوں کے پچھلے
جبکہ مولانا ابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیز یہ لکھا ہے: مگروہ اللہ کے رسول اورسب سے آخری نبی ہیں۔ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کونسا لفظ یہاں مناسب ہے۔
۵۔ الرحمن،علم القرآن ،خلق الانسان،علمہ البیان (الرحمن:4) یہاں بیان کے معنی ہیں مافی الضمیرادا کرنا مطلب ظاہرکرنا، کہنے کا سلیقہ، قول، مفہوم وغیرہ۔
اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیا ہے: رحمن نے سکھایا قرآن ، بنایا آدمی پھرسکھلایا اسکو بات کرنا،
حضرت تھانوی نے لکھاہے: رحمن نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا پھراس کو گویائی سکھائی
مولانا مودودی نے لکھا ہے: نہایت مہربان خدا نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔
مولانا احمد رضا خان نے معنی کو محدود کرتے ہوئے لکھاہے: رحمن نے اپنے محبوب کوقرآن سکھایا، انسانیت کی جان محمدؐ کو پیدا کیا ماکان ومایکون کا بیان انہیں سکھایا۔
حالانکہ انسان میں تمام انبیاء ودیگرداخل ہیں مگرانہوں نے ایک خاص زاویہ میں معنی کوپیش کردیا ہے۔ اس کا ترجمہ مولانا ابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیزاس طرح کیا ہے:
وہی رحمن ہے، جس نے قرآن کی تعلیم دی ،اسی نے انسان کوپیدا کیا اور اپنے دل کی بات کو واضح طور پر پیش کرنا سکھایا۔
ترجمہ کے مذکورہ چند مثالوں کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترجمہ صرف یہی نہیں ہے کہ لغت کی مدد سے ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کردیا جائے بلکہ ایک ہی لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں اورکب کس موقع پرکونسا مفہوم لیا جا سکتا ہے اس کیلئے ماہرانہ صلاحیت کے علاوہ کئی اہم اصول کوپیش نظررکھنا ضروری ہے۔ اور کئی دوسرے علوم سے بھی واقفیت لازمی ہے۔ اورخاص کرعربی جیسی فصیح وبلیغ زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اوراس میں بھی یہ کہ اردو زبان کا اسلوب نصف صدی میں بدل جاتا ہے، الفاظ اورلہجہ بھی متروک ہو جاتا ہے۔ اس لئے اردو زبان میں ترجمہ قرآن کی کثرت ہے کیونکہ کچھ دنوں بعد نئے قالب میں بدلنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ صرف اردوزبان میں قرآن کریم کے میری معلومات کے مطابق 120سے زائد ترجمے ہوچکے ہیں اورمزید سلسلہ جاری ہے۔ مولانا ابو الکلام قاسمی کا یہ ترجمہ جدید اسلوب میں ایک وقیع اضافہ ہے اوراہم علمی کارنامہ ہے۔
ترجمہ کے بعد تفسیری نقطہ نظرسے بات کی جائے توسبھی لوگ اس سے واقف ہیں کہ قرآن کریم علوم ومعارف کاخزانہ ہے اسے سمجھنے کیلئے جس علم کی ضرورت ہوتی ہے اسے علم تفسیرکہتے ہیں۔ علم تفسیرمیں کئی علوم کی ضرورت پڑتی ہے عربی زبان وادب سے واقفیت کے ساتھ آیت کی تشریح کے لئے علم حدیث اقوال صحابہ اورکئی اصول کی رعایت کرنی پڑتی ہے قرآن کریم میں کہیں اجمال توکہیں تفصیل ہے گویا بسا اوقات ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے ہوتی ہے اس لئے کسی آیت کی تشریح میں دیگرآیتوںپربھی نگاہ ہو،اسی طرح آیت کریمہ کی عملی تشریح حدیث پاک اورسنت رسولؐ میںملتی ہے اس لئے حدیث سے کماحقہ واقفیت ضروری ہے، بہت سی آیت کریمہ کوسمجھنے میں شان نزول سے بہت آسانی ہوجاتی ہے شان نزول گرچہ خاص ہوتا ہے مگرحکم عام ہوتا ہے اوراس سے ایک اصول واضح ہوتاہے چونکہ قرآن کریم ’’ھدی للمتقین‘‘(متقیوں کیلئے کتاب ہدایت ہے) کے ساتھ ’’ھدی للناس‘‘ (عام انسانوں کیلئے بھی کتاب ہدایت ہے) اس میں قانون حیات ہے دستور زندگی ہے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط ہوتا ہے ساتھ ہی ناسخ ومنسوخ کاعلم ہونا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وضاحت فرمائی کہ ہم نے اسکو نازل کیا ہے آپ لوگوں کونازل کردہ کلام کی تفسیرفرمادیں(النحل:44) گویا قرآن کریم کا مفہوم ومطلوب اورتفسیر وہی معتبر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔
اس اعتبار سے مولانا ابوالکلام قاسمی کی تفسیرمیں دیکھتے ہیں کہ اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ایک آیت کی تشریح میں اس سے متعلق دوسری آیت کریمہ کی نشاندہی ہے ساتھ ہی حدیث کی معتبرکتابوں کا حوالہ بھی بکثرت ملتاہے۔ ہدایت کے مفہوم کوپیش نظر رکھتے ہوئے دیگر معلومات بھی فراہم کرتے ہیں جس سے اطمینان بخش تشریح ہوجاتی ہے ۔بطور مثال چند نمونہ ملاحظہ ہو:
۱۔ ان الانسان خلق ھلوعا(المعارج:19)ھلوعا کے معنی بے قرار، بے ثبات، ڈرپوک، بزدل وغیرہ کے ہیں اس کاترجمہ مولانا قاسمی نے بے صبرا سے کیا ہے۔ (بے شک انسان بڑا بے صبرا پیدا کیا گیا ہے) اوراس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسان میں پیدائشی طور پر کمزوری رکھی گئی ہے وہ پیدائشی طور پر بے صبرا ہے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے اورآہ وزراری کرنے لگتا ہے اورجب اللہ اسے مال ودولت سے نوازتا ہے اور وہ خوشحال ہو جاتا ہے تو وہ بخیلی کرنے لگتا ہے اورحقداروں کو اس کا حق نہیں دیتا ہے۔ حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے کہ اس کے ہرمعاملہ میں اس کیلئے خیر ہی خیر ہے اوریہ فضیلت سوائے مومن کے کسی اور کو حاصل نہیں، وہ اس طرح کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، وہ اس کیلئے باعث خیر ہے اوراگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اوراس پر وہ صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کیلئے باعث خیر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے تواللہ تعالیٰ اسے صابر بنا دیگا۔ اورکسی کوبھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے انتہا خیر نہیں ملی ہے۔ (بخاری :کتاب الزکوٰۃ)(تفسیرتسہیل القرآن:682 )
یہی روایت مسلم کتاب الزہد کے حوالہ سے مولانا نے صفحہ 581 میں تحریر کیا ہے۔ بہر حال اس سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم ہدایت کے پیش نظر سہل اندازمیں اس کی تشریح فرمادی ہے۔
۲۔ انا عرضنا الامانہ علی السموت والارض والجبال(الاحزاب:72)
اس کی تفسیرکرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسکو اٹھا نے سے انکار کردیا اور وہ اس سے ڈر گئے ، مگر انسان اسے اٹھا لیا، یہاں امانت سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کی مختلف رائیں ہیں، بعض نے کہا ہے کہ امانت کا مطلب ہے۔ اپنی آزاد مرضی سے اللہ کے احکام کی اطاعت کی ذمہ داری قبول کرنا، یعنی کائنات میں بہت سے احکام ایسے ہیں جو تکوینی ہیں، جنہیں ماننے پر تمام مجبور ہیں، وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے، جیسے موت وحیات وغیرہ، لیکن بعض احکام کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو اللہ کے حکم کو مان کر اس پرعمل کریں اور اگرچاہیں توحکم پرعمل نہ کریں، اگروہ عمل کریںگے توجنت میںداخل کئے جائیںگے ،جب یہ پیشکش آسمانوںاورزمین اورپہاڑوںکوکی گئی تووہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈرگئے اور اسکو قبول کرنے سے انکار کر دیا، لیکن جب انسان کے سامنے یہ پیشکش کی گئی تو اس نے اس ذمہ داری کوقبول کر لیا۔ بعض نے کہا ہے کہ ’’امانت‘‘ سے مراد خلافت ہے، جو انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ خلافت کے مفہوم میں رائے اول میں مذکورہ بالا باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں ایک دوسرے کے تتمہ ہیں۔ انہ کان ظلوما جھولا: حقیقت میں وہ بڑا ظالم اورنادان ہے، یعنی انسان بڑا ہی ظالم اوربڑا ہی جاہل ہے کہ اس نے امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا، ظالم تواس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوقات میں سب سے بلند منصب پر فائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے ذمہ داری کو قبول کر لیا، مگر دنیا میں آکر وہ اس کی رنگینیوں میں اس قدرغرق ہو گیا کہ اسے خیال بھی نہیں رہا کہ اس نے کتنی بڑی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس طرح وہ اس میں خیانت کا مرتکب ہوا، اور جاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس نے یہ تو سوچا کہ اس کو تمام مخلوقات پر بڑا اعزاز حاصل ہو، مگراس اعزازکی ذمہ داریوں کا اندازہ لگانے سے قاصر رہا، اس اعتبارسے وہ جاہل ہے۔
(تسہیل القرآن ،صفحہ:508)
مولانا مودودی نے یہاں امانت سے مراد خلافت لیا ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں کہ: اس جگہ امانت سے مراد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ (تفہیم القرآن:669) مولانا محمد جوناگڑھی کا ترجمہ اورحواشی مولانا صلاح الدین یوسف جس کو سعودی عرب نے شائع کیا ہے اس میں تحریر ہے!
’’امانت سے وہ احکام شرعیہ اورفرائض وواجبات مراد ہیں‘‘(صفحہ:1195)
اس طرح تمام پہلوئوں پر نظر رکھتے ہوئے مولانا قاسمی کی تفسیر اطمینان بخش ہے۔
۳۔ والسماء ذات البروج(پارہ:30) یہاں بروج کے معنی گنبد، قبہ، آسمان کا ایک دائرہ بارہ سیاروں میں سے ایک وغیرہ ہیں اس کا ایمانی اور معلوماتی وسائنسی پہلو بھی ہے اس کی تفسیرنہایت جامعیت کے ساتھ کیا ہے۔ جس سے تمام پہلو آشکارا ہو جاتے ہیں، ملاحظہ ہو:۔
سورہ البروج مکی ہے یعنی مکی دور میں نازل ہوئی، اس میں بائیس آیتیں اورایک رکوع ہے۔ اس سورہ کی پہلی آیت میں والسماء ذات البروج آیا ہے اسی مناسبت سے سورہ بروج کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ بروج آیا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کو ان کے ظلم وستم پر برے انجام کی خبر دی ہے۔ جو وہ اہل ایمان پر کر رہے تھے۔ ساتھ ہی مومنوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ وہ ان کے ظلم وستم کو برداشت کریں۔ اور ثابت قدم رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بہترین اجر سے نوازے گا۔ اس سورت میں اصحاب الاخدود کے واقعہ کوبیان کرتے ہوئے مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ کفار ومشرکین تمہیں لوگوں کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔ بلکہ گزشتہ زمانے میں بھی حق کو قبول کر کے ایمان لانے والے لوگوں کے ساتھ بھی ان لوگوں نے ایسا ہی برتائو کیا کہ گڈھا کھود کراس میں آگ جلائی اوراہل ایمان کو آگ میں پھینک دیا۔پھربھی وہ اپنے ایمان پرثابت قدم رہے۔ اس لئے مومنوں کو کفار ومشرکین کے ظلم وستم پرصبرکرنا چاہئے۔ البتہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ تواللہ تعالیٰ ایسے لوگوں ک ویوںہی نہیں چھوڑے گا بلکہ اگر انہوں نے توبہ نہیں کی اورایمان نہیں لائے توان کوجہنم میں داخل کرے گا۔ جہاں وہ آگ میں جلیں گے ۔ اللہ کا عذاب سخت ہے اور وہ عذاب دینے پر قادر ہے، اس لئے اس نے پہلے بھی نافرمانی کرنے والوں کوعذاب کا مزہ چکھایا ہے، فرعون اور ثمود کے واقعات تمہارے سامنے ہیں، ان کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں، جو تم کو دعوت عبرت دے رہے ہیں، و السماء ذاتِ البروج، اللہ نے فرمایا کہ قسم برجوں والے آسمان کی یعنی وہ آسمان جس میں سورج، چاند، ستارے اورسیارے کے چلنے کے راستے اورٹھہرنے کے مقامات بنائے گئے ہیں۔ جن کوموجودہ اصطلاحات میں مدارکہتے ہیں۔ جس میں یہ سب اپنے اپنے مقرر نظام کے مطابق چلتے ہیں اورایک خاص مدت میں اپنے بروج میں پہنچتے ہیں، جہاں وہ کچھ وقفہ کے لئے ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح ہرمہینہ کیلئے ایک برج کے حساب سے بارہ برج متعین کئے گئے ہیں۔ اسی کے حساب سے موسم میں تبدیلی کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اسی سے رات اور دن کا حساب کیا جاتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے اورسیارے اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق چلتے ہیں اس سے ذرہ برابرانحراف نہیں کرتے ہیں۔ مفسرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں بروج سے ستارے اورسیارے مراد ہیں جورات کے وقت آسمان کوزینت بخشتے ہیں۔(تفسیرتسہیل القرآن ،سورۃ البروج ص نمبر709،مصنف ، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی ،طبع اول 2023)
البتہ ترجمہ میں نمبرنگ نہیں ہے جس سے پتہ نہیں چلتاکہ حاشیہ میں کس کی تشریح ہے۔ اورحاشیہ میں بھی آیت نمبر نہیں ہے جوآیت یاجس لفظ کی تشریح ہے اس کے عربی لفظ کے ٹکڑے سے شروع کیا ہے۔ اس لئے تشریح کے لئے پورا صفحہ دیکھنا پڑتا ہے۔ نمبرنگ سے مزید سہولت ہوجاتی ۔
ساڑھے چودہ سوسال کے عرصہ میں سینکڑوں تفسیریں لکھنے کے باوجود بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں جہاں آج بھی مفسرین کواپنی بے بضاعتی اورکم مائیگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے، یہ بھی قرآن کریم کا اعجازہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے: ھن ام الکتاب واخرمتشابھات(آل عمران:7) یعنی کچھ آیتیں محکم ہیں اس کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں مگر کچھ آیتیں متشابہہ ہیں جس کے سمجھنے میں عام انسانی عقل عاجز ہیں اس کی کئی مثالیں ہیں مگریہاں ایک نمونہ پیش ہے، جہاں پرمولانا قاسمی نے بھی ایمان ویقین پر موقوف کر کے قلم کو روک لیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
۴۔ یوم یکشف عن ساق(القلم :42)
قیامت کے دن اہل ایمان اوراہل کفرکی کیاحالت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پنڈلی سے پردہ ہٹادے گا۔ تواہل ایمان مرد وعورت سب سجدہ میں گر جائیں گے۔ جبکہ کفارہ مشرکین اورمنافقین مرد وںاورعورتوں کی پیٹھیں اکڑ جائیں گی اوریہ لوگ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہرمومن مرد اورمومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اورصرف وہ شخص سجدہ نہیں کر سکے گا جو دنیا میں دکھلاوے اور ناموری کے لئے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگیں گے تو اسکی پیٹھ تختہ کے مانند ہوجائیگی،(بخاری کتاب التفسیر) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے لئے ’’ساق‘‘ یعنی پنڈلی کا استعمال کیا ہے، یہ پنڈلی کیسی ہے، یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح یا اس کی کوئی اورصورت ہے؟ تو مفسرین کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہم یہ بات نہ جان سکتے ہیں اورنہ جاننے کے مکلف ہیں، ہمارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پنڈلی کا ذکر کیا ہے، تو ہم اتنی ہی بات جانیں اور اس پر ایمان لائیں، اس سے زیادہ اورکچھ بات نہ کریں۔(تسہیل القرآن:678)
اور اسی طرح کی بات مولانا محمد جوناگڑھی مطبوعہ سعودی عرب میں لکھی ہے:’’اللہ تعالیٰ کی یہ پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت کوہم جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف وبلاتشبیہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پرایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اورحدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے، یہی سلف اورمحدثین کا مسلک ہے۔(قرآن کریم مع اردوترجمہ تفسیر:1514)
بخوف طوالت دیگر تفسیروں کا تقابل نہ کرکے تسہیل القرآن کے چند نمونہ کوپیش کیا ہے تاکہ اس کے تفسیری آہنگ کا اندازا ہو سکے۔
ظاہری طورپر بھی یہ بہت دیدہ زیب حسن طباعت کا مظہر ہے۔ ہلکے سبزرنگ کے باریک کاغذ پر نفیس اندازمیں بڑے اہتمام سے طبع ہوئی ہے۔ اس کی نفاست کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ 738 صفحات پر ایک جلد پر مشتمل اس تفسیر کی ضخامت صرف ایک انچ کے برابر ہے۔ اور طول وعرض میں ترجمہ شیخ الہند مطبوعہ سعودی عرب کے مثل ہے۔
سعودی فرمانروا شاہ فہد نے بڑے اہتمام سے ترجمہ شیخ الہند کو شائع کر کے تقسیم کیا تھا، جس کو بہت پسند کیا گیا تھا اور آج بھی اس کی بڑی فرمائش ہے۔ اسی سائز اور اسی طرح کے نفیس کاغذ میں عمدہ طباعت سے مزین یہ تفسیرتسہیل القرآن ہے۔ رب کریم اسے شرف قبولیت بخشے اورنافع عام بنا دے، یہ مجلد مستند معیاری تفسیرکا ہدیہ رقم نہیں ہے، اس کو ابو الکلام ریسرچ فائونڈیشن پھلواری شریف پٹنہ، برائون بکس شمشاد مارکٹ علی گڑھ یا براہ راست مولانا ابو الکلام قاسمی سے مندرجہ ذیل نمبرسے رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکت اہے۔ رابطہ نمبر:9835059987