مولانا سید احمد ہاشمی کی یاد میں

معصوم مرادآبادی
درویش صفت ملی رہنما مولانا سید احمد ہاشمی نے ایک ایسے وقت آنکھیں موندی ہیں جب ملت کو ان جیسے خوددار، بے لوث، بلند حوصلہ اور عملی رہنماوں کی شدید ضرورت تھی۔ایسا نہیں ہے کہ آج مسلم قائدین کی کوئی کمی ہے بلکہ جتنے مسائل اتنے ہی قائدین یا پھر جتنے قائدین اتنے ہی مسائل والا معاملہ ملت کو درپیش ہے۔ آپ گرد وپیش پر نظر ڈالیں تو ہر محلے میں ایک مسلم جماعت اور ہر گلی میں آپ کو ایک قائد نظر آجائے گا جس کے پاس سارے مسائل آن واحدمیں حل کرنے کے نسخے موجود ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ جن کے دل میں ملت کا حقیقی درد یا اس کا علاج موجود ہے ایسے لوگ آپ کو خال خال ہی نظر آئیں گے۔
مولانا سید احمد ہاشمی، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پرانی دہلی کی گنجان آبادی کے ایک تنگ مکان میں گزارا اور ممبر پارلیمنٹ بن جانے کے باوجود سرکاری مراعات تک نہ لیں، ہمارے قائدین کی اس صف کے آخری لوگوں میں تھے جنہوں نے ملک کی آزادی اور پھر تقسیم وطن کے بعد نہایت سخت حالات میں کام کیا۔ انہوں نے اپنے اکابرسے باعزت اور باوقا زندگی جینے کا ہنر سیکھا تھا۔ علمائے کرام کا وہ طبقہ جس نے ملک کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کیں، اس نے لوگوں کو یہ سبق دیا تھا کہ اپنے ملک کی سرزمین پر حالات بدلنے کے باوجود خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے ساتھ میدان عمل میں رہنا۔ تن آسانی اور لقمہ تر کو اپنا وطیرہ نہ بنانا۔
مولانا ہاشمی نے آخری دم تک اپنے اکابر کی اس نصیحت کو نہیں چھوڑا اور عمر کے آخری دنوں تک اس پر عمل پیرا رہے۔ان کے پاس جب بھی کوئی ضرورت مند آتا تو بیماری نقاہت اور کمزوری کے باوجود اٹھ کھڑے ہوتے اور اس کے ساتھ جانے کی ہمت تک باندھ لیتے تھے۔ اگروہ چاہتے تو دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے لئے کوئی گوشہ عافیت ڈھونڈ کر آسائش کی زندگی جیتے لیکن وہ خدا کے ان بندوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے
آئین جوانمردا حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
مولانا سید احمد ہاشمی کو اپنے اکابر سے جو اعلیٰ اقدار ورثہ میں ملی تھیں ان پر عمل پیرا ہوکر انہوں نے ملت کی رہنمائی کا صحیح تر فریضہ انجام دیا۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا اقلیتوں کے حقوق پر کئے جانے والے حملے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ ہو یا بابری مسجد تحریک، ہر میدان میں مولانا ہاشمی اپنی تمام تر قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں۔ نامساعد حالات میں کام کرنے اور ہر مصیبت کے وقت میدان عمل میں کود پڑنے کا ان میں جو حوصلہ تھا وہ ہم عصر قائدین میں کم نظر آتا ہے۔
راقم الحروف نے مولانا ہاشمی کے ساتھ کئی فساد زدہ علاقوں کا سفر کیا۔ وہ کسی بھی فساد کے بعد وہاں پہنچ کر مظلوموں کی دادرسی کرنے والے اولین لوگوں میں ہوتے تھے اور کسی بھی خطرے کی پروا کئے بغیر کرفیوزدہ علاقوں میں جانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔فساد زدگان کی داد رسی، زخمیوں کی عیادت، ریلیف کی تقسیم سے لے کر پولیس اور انتظامی افسران کی نااہلی اور جانبداری کے خلاف ان سے سیدھے بازپرس کرنا اور پھر دہلی آکرصاحبان اقتدار تک حالات کو پہنچانا، مظلوموں کو انصاف اور ظالموں کو سزا دلوانے تک وہ چین سے نہ بیٹھتے تھے۔
انہوں نے کسی واقعہ یا سانحہ پر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بیان دینے اور اسے باتصویر چھپوانے جیسے آسان راستے کو کبھی پسند نہیں کیا۔نہ ہی سمیناروں، کانفرنسوں اور جلسوں میں دھواں دھار تقریریں کرکے کام تمام کردینے کا طریقہ اپنایا بلکہ ہر موقع پر خود پہنچنا اور حالات کی براہ راست جانکاری حاصل کرنا ان کاطریقہ تھا۔ آسام، بھیونڈی، ناگپور، بھاگلپور، کلکتہ، میرٹھ، مرادآباد ، علی گڑھ وہ کون سا فساد زدہ علاقہ تھا جہاں مولانا ہاشمی نہ پہنچے ہوں۔
مولانا ہاشمی حالات پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک دور اندیش قائد تھے۔ میں نے بارہا سلگتے ہوئے مسائل پر ان کے انٹرویوز لئے۔ وہ ہر موضوع پر پوری جرات کے ساتھ اظہار خیال کرتے تھے اور ان کی رائے بڑی نپی تلی ہوتی تھی۔انکے جملے دل میں اترتے چلے جاتے تھے۔ الفاظ کے انتخاب میں وہ بے حد محتا ط واقع ہوئے تھے اور خوبصورت جملوں کی تشکیل وترتیب ان کی گفتگو کا ہنر تھا۔ وہ جب بولتے تو پوری طرح اس موضوع میں ڈوب جاتے تھے اور پھر شاید ہی کسی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوں۔ الفاظ کو چبانے کی انہیں قطعی عادت نہیں تھی۔
مولانا ہاشمی چھوٹوں سے بے پناہ شفقت کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کے معاملہ میں کسی بخل سے کام نہ لیتے تھے۔ ان کو اردو زبان پر بلاکی قدرت تھی۔ اردو لغت کے کئی نامانوس الفاظ میں نے پہلی بار انہیں کی زبانی سنے اور انہیں اپنی تحریروں میں استعمال کیا۔ وہ اگر چاہتے تو ایک نووارد اخبارنویس سے رواروی کا واسطہ رکھ سکتے تھے۔ لیکن ان کی محبت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ اگر ان سے ملاقات یا بات ہوئے کچھ روز گزرجاتے تو خود فون کرکے مزاج پرسی کرتے۔ تواضع اور مہمان نوازی کے معاملے میں بھی وہ بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے۔
وہ اپنے مخالفین کے بارے میں بھی کبھی بدگوئی نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے معاملات میں خاموشی ہی ان کا سب سے موثر بیان ہوتا تھا۔ مولانا اسعد مدنی سے اختلافات اور علیحدگی کے زمانے میں بھی انہوں نے کبھی کوئی کمزور بیان نہیں دیا اور نہ ہی کوئی ایسی مخالفانہ کوشش کی جس سے ان کا وقار مجروح ہوتا۔ وہ نظریاتی یا عملی اختلافات کو ذاتی رنجش میں بدلنے کے خلاف تھے۔ انہوں نے وسیع ملی مفاد کی خاطر ہمیشہ گروہی مفادات کو پس پشت ڈالا۔ ان میں بلا کی قوت ارادی تھی اور وہ کسی بھی معاملہ میں الجھاو یا تذبذب کا شکار نہیں ہوتے تھے ۔
آج مسلمانوں کو جس باشعور قیادت کی ضرورت ہے مولانا ہاشمی اس کی ہر کسوٹی پر کھرے اترے، انہوں نے نری جذباتیت اور اشتعال انگیزی کو کبھی پسند نہیں کیا بلکہ وہ میانہ روی کے قائل تھے۔ بابری مسجد تحریک میں ان کی شمولیت اور انداز فکر اس کا گواہ ہے۔ وہ عوام کے پیچھے چلنے والوں میں ہرگز نہیں تھے بلکہ ایک قائد کے طورپر عوام کو صحیح راستہ بتانے اور خود سب سے آگے رہنے والوں میں تھے۔ آج مسلمانوں کو دینی اور ملی اعتبار سے اپنے مسائل کے لئے جو بصیرت اور صحیح رہنمائی درکار ہے وہ مولانا ہاشمی میں بدرجہ اتم موجود تھی وہ ہر نازک موقع پر میدان عمل میں نظر آتے تھے۔
انہوں نے کبھی اپنی ملی اور دینی حیثیت کو سیاسی گلیاروں میں گم نہیں کیا بلکہ وہاں بھی اپنا وقار بنائے رکھا۔ وہ 12 سال مسلسل راجیہ سبھا کے ممبر رہے اور اپنی اسی آن بان اور قلندرانہ شان کے ساتھ ایوان میں آتے اور مسائل پر پوری بے باکی اور خود اعتماد کے ساتھ بولتے تھے۔ سیکڑوں پارلیمانی تقریریں اس کی گواہ ہیں۔
مولانا سید احمد ہاشمی کے آباواجداد کا وطن غازی پور تھا۔ ان کے والد حافظ محمد شفیع نے دارالعلوم ندوة العلماءمیں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ علامہ سید سلیمان ندوی کے ہم عصر اور ساتھی تھے ۔ ان کا زیادہ تر قیام کلکتہ میں رہا کرتا تھا اور وہی ان کا میدان عمل بھی تھا۔ کلکتہ میں وہ ایک قومی رہنما کی حیثیت جاتے تھے۔ جیل کی سزا بھی کاٹ چکے تھے۔ خلافت اور دوسری تحریکوں سے وابستہ تھے۔
مولانا سید احمدہاشمی 18جنوری 1932 کو غاز ی پور میں پیدا ہوئے اور ابھی گود میں تھے کہ والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ ان کی پرورش اور تربیت کے لئے بڑے بھائی حافظ سید محمدہاشمی اور ان کی اہلیہ رہ گئی تھیں۔ حافظ سید محمد ان کو نانہال (دربھنگہ ) سے گھر لائے۔ ہاشمی صاحب جب ذرابڑے ہوگئے تو ابتدائی تعلیم کے لئے ان کو غازی پور کی مشہور دینی درس گاہ مدرسہ دینیہ میں داخل کیاگیا جہاں انہوں نے عربی کی پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد بڑے بھائی کلکتہ لے گئے اور مدرسہ عالیہ میں داخل کردیا جہاں سے انہوں نے ”ممتاز المحدثی“ کی ڈگری حاصل کی پھر دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث کی تکمیل کی اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے قریب ہوئے۔
دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک دہلی میں رہے اور پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات دیئے۔ دہلی کے زمانہ قیام میں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے قریب آئے، مولانا حفظ الرحمن اسلاف کی طرح مردم سازی کا گر بھی جانتے تھے، جمعیة علماءکے دفتر میں برابر آنا جانا تھا۔ مولانا کی صحبت ومعیت سونے پرسہاگہ کاکام کررہی تھی۔ مولانا ہاشمی کی اٹھان چونکہ غازی پور کے مدرسہ دینیہ میں ہوئی تھی۔ یہ مدرسہ بھی شیخ الاسلام کی فکر کا حامل اور آزادی کی چھاونی تھا اس لئے غازی پور سے دہلی تک انہیں یکساں ماحول سے سابقہ پڑا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد بڑے بھائی حافظ سید محمد صاحب جو باپ کا بھی رول ادا کررہے تھے، یہ چاہتے تھے کہ ان کا بھائی تجارت کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک وملت کی جوخدمت ممکن ہوکرے۔ چنانچہ کلکتہ میں ایک دکان لے لی گئی مگر ابھی کاروبار شروع نہیں ہوا تھا کہ1964 میں کلکتہ کا ہولناک فساد شروع ہوگیا۔ ہاشمی صاحب ان دنوں جمعیۃ علماءمغربی بنگال کے جنرل سکریٹری تھے۔ وہ فرقہ واریت کی سلگتی آگ میں کود پڑے، کلکتہ بری طرح لٹ چکا تھا اور پورا صوبہ تباہ حال تھا۔ ہاشمی صاحب نے بڑی جی داری سے حالات کا مقابلہ کیا اور بے اختیار لوگوں کی زبانوں پر ”مجاہد ملت ثانی“ کے الفاظ آنے لگے۔ کلکتہ سے ہی مولانا ہاشمی نے ہفتہ وار اخبار ” ارمغان“ اور ”سچ بات“ جاری کیا۔ بعد کو حکومت مغربی بنگال نے ”ارمغان“ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور اس کا ٹائٹل ضبط کرلیاگیا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے والے کہتے ہیں کہ اگر وہ صحافت کی دنیا آباد کرتے تو بہت کامیاب صحافی ہوتے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پورا ملک ایک بار پھر فرقہ پرستی کا الاو بن چکا تھا۔ 1965 میں جمعیة علما ہند نے دہلی میں مسلم کنونشن کرنے کا فیصلہ کیا اور ہاشمی صاحب اس کنونشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے دہلی آگئے۔ یہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا اور اب دہلی ان کا گھر بنتا گیا۔ وہ دہلی بسنے کے لئے نہیں آئے تھے ان کا وطن غازی پور تھا۔ جہاں ان کے اعزاءتھے، بھرا پُرا خاندان تھا مگر دہلی نے ان کے قدم تھام لئے۔ روزنامہ "الجمعیة” کے جنرل منیجر بنائے گئے۔ اس کے بعد جمعیة علماءہند کے ناظم عمومی کا منصب جلیلہ سونپا گیا اور حق یہ ہے کہ انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔ 1977 میں انہیں دہلی وقف بورڈ کا چیئرمین بنایاگیا۔ وہ 1974 سے 1986 تک دوبار راجیہ سبھا کے ممبر بنے۔ پہلی بار انہیں کانگریس اور دوسری بار چرن سنگھ کی پارٹی لوک دل نے رکن پارلیمنٹ بنایا اور اس عہدے پر رہ کر بھی انہوں نے ملک وملت کی بے لوث خدمات انجام دیں۔ وہ آل انڈیا مجلس مشاورت کے بانی ممبران میں سے تھے اور آخری وقت تک اس سے وابستہ رہے۔
1985ءمیں بستی اور 1991 ءمیں غازی پور سے لوک سبھا سیٹ کے لئے وہ کانگریس کے امیدوار ہوئے اور بہت معمولی ووٹوں سے ہارے۔
سابق مرکزی وزیر سی کے جعفر شریف جب ریلوے کے وزیر بنے تو مولانا ہاشمی کو مسافروں کی سہولتوں سے متعلق کمیٹی (PAC) کا ممبر اور پھر چیئرمین بنایاگیا۔ انہوں نے متعدد پارلیمانی وفود کے ساتھ غیرملکی دورے بھی کئے جن میں روس، چیکو سلواکیہ، یوگوسلاویہ، سعودی عرب اور کویت وغیرہ شامل ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر شان وہی قلندران رہی۔ توکل، استغنا اور بے نیازی اور ایفائے عہدان کی اعلیٰ صفات تھیں۔ سیاست کو انہوں نے طلب زر اور حصول منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ان کی شخصیت اور کردار سازی میں ان کے اساتذہ بانیان مدرسہ دینیہ مولانا عمر فاروق اور مولانا ابوالحسن صدیقی کا بڑا حصہ ہے۔ وہ بے حد سادہ منکسرالمزاج اور متواضع تھے۔ ان کے مہمان خانے میں ہندوستان بھر کے لوگ نظر آتے تھے جن کو وہ کھانا بھی کھلاتے تھے اور ان کاکام بھی کرتے تھے۔ ان کے بچپن کے ساتھی عزیز الحسن صدیقی کہتے ہیں کہ ”میں نے اپنی زندگی میں بس ایک ہی شخص سے دوستی کی تھی اور وہ تھے ہاشمی صاحب۔ ان کے جیسا ساتھی اور دوست نہیں ہوسکتا۔“
مولانا ہاشمی کے دیگر دوستوں اور قدر دانوں میں چندر جیت یادو، بوہرہ فرقہ کے مذہبی پیشوا سیدنا برہان الدین، بمبئی کی اہم سیاسی شخصیت جناب اے اے خان وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جبکہ دہلی میں ان کے ہمہ وقت معاونین میں سابق میونسپل کونسلر سید حامد حسین خضر، صاحبزادے خالد ہاشمی، زاہد ہاشمی کے علاوہ محمد جیلانی اور مولانا مختا احمد قابل ذکرہیں۔ مولانا کی وفات 4نومبر 2001ءکو دہلی میں ہوئی اورانہیں یہیں سپرد خاک کیاگیا۔