مولانا نسیم اختر شاہ قیصر
معصوم مرادآبادی
یہ 2010 کا واقعہ ہے۔ میں پہلی بار دیوبند حاضر ہوا تھا۔ موقع تھا مولانا ندیم الواجدی کی کئی کتابوں کے اجراء کا۔عجیب بات یہ ہے کہ دیوبند میں علمی، ادبی اور مذہبی تقریبات مشاعروں کی طرح رات گئے منعقد ہوتی ہیں۔ غالباً رات دوبجے تک اجراء کی تقریب وقف دارالعلوم دیوبند کے لان میں بڑی کامیابی کے ساتھ چلی۔ صبح کو میری قیام گاہ پر ایک نوجوان تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ مولانا انورشاہ کشمیری کے پوتے مولانا نسیم اخترشاہ قیصر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے نام سے واقف تھا۔ اس نوجوان سے میں نے کہا کہ مجھے ان کے پاس لے چلو۔ عام طورپر علمائے کرام کی مسندیں بڑی آراستہ ہوتی ہیں اور دیوبند میں تو ان کا کہنا ہی کیا۔ میں یہی سوچتا ہوا ایک تنگ گلی میں داخل ہوا تومولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا مختصر سا مدرسہ میرے روبرو تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کی دیواریں بوسیدہ تھیں مجھے لے جاکر مولانا کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ وہ ایک پرانی چٹائی پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا تو وہاں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آئی جسے آرام دہ کہا جاسکے۔ ان کی کٹیا میں مجھے خانقاہ جیسی خوشبو محسوس ہوئی۔جسم پر کپڑے بھی معمولی تھے۔ لیکن گفتگو بڑی معنی خیزاور علمی انداز کی تھی۔مجھے ان کی سادگی اور درویشی نے متاثر کیا۔انھیں دیکھ کر مجھے گزرے زمانے کے وہ علماء یاد آئے جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہی ہوتا تھا۔ وہ عالم باعمل کہلاتے تھے اور ان ہی نابغہ روزگار شخصیات کی موت پر کہا جاتا تھا کہ عالِم کی موت ایک عالم کی موت ہوتی ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر عالم باعمل تھے۔ایک اچھے انشاء پرداز تھے اور حالات حاضرہ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔تقریباً میرے ہم عمر تھے۔ جب بھی ملے بڑی محبت سے پیش آئے۔ جب اچانک ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل دھک سے رہ گیا۔ مجھے ان کی علمیت اور انشاء پردازی سے زیادہ ان کی سادگی اور بوریہ نشینی نے متاثر کیا تھا،جو طبقہ علماء میں آج ایک معدوم شے معلوم ہوتی ہے۔ اس بوریا نشینی میں جو لطف ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں۔مجھے یاد ہے کہ جب میں 1990 میں پاکستان کے سفر کے دوران لاہور میں مفسر قرآن ڈاکٹر اسرار احمد سے ملا تھا تو ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا ایسی ہی ایک چٹائی پر بیٹھ کر کھایا تھا۔دال، سبزی اور سلاد ان کی غذا تھی۔
ایک ایسے دور میں جب طبقہ علماء میں بھی تام جھام کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے، مولانا نسیم اخترشاہ قیصر کا دم بڑا غنیمت تھا۔ان کے خانوادے میں ان سے پہلے ان کے چچا مولانا انظرشاہ کشمیری سے میرا قریبی تعلق رہ چکا تھا۔ وہ بھی مجھ سے بڑی انسیت رکھتے تھے۔ ان کے بعض خطوط میرے پاس ان کی یادگار کے طورپر محفوظ ہیں۔
مولانا نسیم اخترشاہ قیصر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ درس وتدریس اور انشاء پردازی میں گزارا۔ کئی کتابیں یادگار چھوڑیں اور ایک بامقصد زندگی بسر کی ۔ان کی پیدایش 25 اگست 1962ء کو دیوبند میں ہوئی ۔ان کے والد علامہ انور شاہ کشمیری کے فرزندِ اکبر سید محمد ازہر شاہ قیصر تھے ۔ تعلیم کی ابتدا دار العلوم دیوبند سےہوئی اور وہیں سے1981ء میں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ اسکولی تعلیم کے دوران 1973ء سے 1975 ادیب، ادیبِ ماہر اور ادیبِ کامل کے امتحان پاس کئے۔جامعہ دینیات سے 1976ء سے 1978ء کے دوران عالمِ دینیات، ماہرِ دینیات اور فاضلِ دینیات کی سند حاصل کی۔ پھر 1989ء – 1990ء آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔مولانا1989ء سے تاحال دارالعلوم وقف دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
انشا پردازی و تصنیف و تالیف سے انھیں خاص شغف تھا، جو انھیں اپنے والد مولانا سید ازہر شاہ قیصر سے ورثہ میں ملا تھا۔ مضمون نگاری کی ابتدا جنوری 1973ء میں 13 سال کی عمر میں ہی ہو گئی، 1979ء سے 1985ء تک پندرہ روزہ اشاعت حق، دیوبند کے نائب مدیر اور 1985ء سے 1996ء تک اس کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ 1983ء میں اپنے والد سید محمد ازہر شاہ قیصر کی سرپرستی میں ماہنامہ طیب، دیوبند کے معاون مدیر ہوئے۔1987ء میں جب ماہنامہ طیب بند ہونے لگا تو اپنے سابقہ پندرہ روزہ اشاعت پر توجہ دی۔ایک عرصے تک ماہنامہ” ندائے دار العلوم” کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً چالیس سال سے ملک بھر کے رسائل و جرائد اور اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔سوانح نویسی و خاکہ نگاری ان کا پسندیدہ موضوع تھا؛ چنانچہ انھوں نے سیکڑوں علمی،ادبی،دینی و سیاسی شخصیات پر مضامین تحریر کیے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ان کی تصانیف کی تعداد تقریباً دو درجن ہے۔پچھلے سال اکتوبر میں بہ یک وقت ان کی سات کتابوں کا اجرا ہوا تھا۔ مولانا کا اسلوب بہت شگفتہ،سلیس اور دلچسپ تھا،ذاتی زندگی میں بھی مولانا بہت شستہ رو،ملنسار اور حسن اخلاق سے لیس تھے۔انھوں نے دیوبند میں طلبہ کو مضمون نویسی و انشا پردازی کی تربیت دینے کے لیے ’مرکز نواے قلم‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی شروع کیا تھا،جس کے تحت سیکڑوں طلبہ نے تحریر و تصنیف کی تربیت حاصل کی۔ اللہ تعالی انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔