میٹرک کے طلباء کو ضروری ہدایات

مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی

میٹرک  یا اس کے مساوی کلاس  ہی میں   فیصلہ کریں کہ آپ آئندہ کس شعبہ میں جانا چاہتے ہیں ،  تاکہ میٹرک یا مساوی امتحان پاس کرنے کے بعد انٹر  میں  اسی کے مطابق سبجیکٹ لے کر انٹر امتحان  پاس کریں۔

اسٹوڈینٹ / طلبہ  عام طور پر خالی الذہن  ہوتے ہیں ، بالخصوص ایسے اسٹوڈینٹ جو پسماندہ طبقہ  یا متوسط سماج کے   ہوتے ہیں ، شروع سے ان کی رہنمائی نہیں ہوتی ،اس لئے ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ آئندہ کیا بننا چاہتے ہیں ، جبکہ اس کے برعکس جو اچھی فیمیلی کے ہوتے ہیں ، ان کے گھر کے لوگ ابتداء ہی سے اس کے ذہن کا ٹیسٹ کراتے رہتے ہیں ،جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا رجحان کیا ہے ، اسی ٹسٹ کی بنیاد پر اس کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں ,  تعلیم کے دوران سبجیکٹ بھی ایسے رکھواتے ہیں ، جو ان کے آئندہ کے پلان کے مطابق ہو ،  پسماندہ اور متوسط سماج میں سے اکثر اسٹوڈینٹ کو دیکھا جاتا ہے کہ ان کی کوئی رہنمائی نہیں کرتا  اور  ان کا ذہن خالی ہوتا ہے ، اس لئے وہ ایسے سبجیکٹ لے کر امتحان پاس کر لیتے ہیں ، جو ان کے مطابق نہیں ہوتا ہے ، اس لئے پہلی ذمہ داری اسٹوڈینٹ کی  ہے کہ وہ اپنا ہدف اور نشانہ متعین کریں کہ وہ آئندہ کیا بننا چاہتے ہیں  ، اس کے ساتھ سماج کے پڑھے لکھے لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے تجربات سے اسٹوڈنٹ اور طلبہ کی رہنمائی کریں ، تاکہ ان کو  تعلیم مکمل کرنے  کے بعد دشواری پیش نہ آئے۔

اسکول یا اس کے مساوی کلاس  کی تعلیم میں تمام مضامین شامل ہوتے ہیں ، یہ سلسلہ میٹرک یا اس کے مساوی تک چلتا ہے ، اسکول میں طلبہ تمام مضامین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ،البتہ اگر وہ آئندہ کا ہدف اور نشانہ متعین کر لیتے ہیں ، تو وہ اسی کے مطابق سیجیک پر زیادہ محنت کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کو آئندہ اپنے ہدف و نشانہ کو حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، پھر وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جلد آسانی سے ملازمت  حاصل کرلیتے ہیں۔

 اسکول کی تعلیم کے شعبے متعین ہیں ، اسکول کے سبجیکٹ  کی پہلی تقسیم سائنس ،  آرٹس اور کامرس  ہے ، ڈاکٹری ، انجیرنگ وغیرہ   میں جانے  کے لئے سائنس کے شعبہ میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی ، بینک اور اکاؤنٹ کے شعبہ میں ملازمت کے لئے کامرس کی تعلیم لازم ہے ، جبکہ ٹیچر ، پروفیسر وغیرہ بننے کے لئے آرٹس سیجیک پڑھنا ضروری ہے ،  اس لئے میٹرک یا مساوی امتحان سے پہلے طلبہ  کو ذہن بنا پڑے گا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں ، تاکہ آپ انٹر میں داخلہ کے وقت اسی ڈیپارٹمنٹ کو منتخب کریں ، جو آپ کے ہدف کے مطابق ہو ،   اگر آپ نے  اپنے ہدف و نشانہ کے خلاف سبجیکٹ لے لیا ،تو آئندہ دشواری پیش آسکتی ہے ، پھر سائنس کے بھی بہت سے شعبے ہیں ، جو ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں ، ان کے لئے بائیولوجی  لینا ضروری ہے ، جو انجینیر بننا چاہتے ہیں ،ان کو میتھ لینا ضروری ہے ، یہ سب ذہن سازی میٹرک ہی میں کرنی پڑتی ہے ، جو طلبہ ذہن سازی نہیں کرتے ہیں ،وہ اکثر دھوکہ کھاتے ہیں ، میٹرک یا اس کے مساوی امتحان پاس کر کے انٹر میں داخلہ لیتے ہیں ،تو چونکہ وہ خالی الذہن ہوتے ہیں ،اس لئے اکثر سبجیکٹ لینے میں صحیح سبجیکٹ نہیں لیتے ہیں ، اس لئے آگے چل کر انہیں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس لئے میٹرک میں ہی ذہن سازی کی ضرورت ہے ، اگر خود سمجھ میں آئے تو بہتر ، ورنہ اچھے اساتذہ اور مخلصین سے مشورہ لینا چاہئے ، اور میٹرک پاس کرنے کے بعد انٹر میں اپنے منصوبہ کے مطابق سبجیکٹ لینا چاہئے۔

         موجودہ وقت سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے ، اس میں ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں ،ا س لئے طلبہ عام طور پر انٹر میں سائنس لیتے ہیں ، پھر جو میڈیکل میں جانا چاہتے ہیں ،وہ فزیکس ، کیمسٹری  اور بائیلوجی لیتے ہیں اور جو انجینیرنگ میں جانا چاہتے ہیں ،وہ فزیکس ،کیمسٹری اور میتھ رکھتے ہیں ، خلاصہ یہ کہ میٹرک یا اس کے مساوی کلاس  ہی میں ذہن بنانے کی ضرورت ہے ، تاکہ میٹرک یا مساوی امتحان پاس کر نے کے بعد  انٹر میں سبجیکٹ کا صحیح انتخاب ہو سکے۔

محلہ اور گاؤں کے واقف کار لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ طلبہ کی سبجیکٹ کے انتخاب میں مدد کریں ، تاکہ وہ  انٹر میں صحیح سبجیکٹ لے کر تعلیم حاصل کریں۔

مدارس کے طلبہ میں بھی فراغت کے بعد عصری تعلیم کا رجحان بڑھا ہے ، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ  تعلیم میں جلدی نہ کریں ، اپنے گاؤں /  علاقہ کے کسی مدارس ملحقہ  میں فوقانیہ یا مولوی تک تعلیم حاصل کریں ، پھر مدارس نظامیہ میں داخلہ لیں ، تاکہ آگے دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ، موجودہ وقت میں میٹرک / انٹر یا اس کے مساوی سرٹیفکیٹ کی سخت ضرورت ہے ، اس کے بغیر بعد میں بڑی دشواری پیش آتی ہے ، اس لئے آئندہ کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس کو پاس کر کے آگے بڑھیں ، اس سلسلہ میں معلومات رکھنے والے لوگوں کے رابطہ میں رہیں اور رہنمائی حاصل کرتے رہیں ، اللہ تعالیٰ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ، جزاکم اللہ خیرا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply