نفرت کی سیاست ، نفرت کا کاروبار اور میڈیا وار
تکلف برطرف : سعید حمید
بھارت کی آزادی کیلئے گاندھی جی نے ۱۹۲۰ ء میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ دیا تھا ،
انہوں نے کہا تھا کہ تم ( بھارت کے ہندو مسلمان ) مجھے اتحاد کی طاقت دو ،
میں ایک برس کے اندر اندر تمہیں برٹش راج سے آزادی دلا دونگا۔
گاندھی جی کی شخصیت کا تب سارے بھارت میں جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔
ان سے پہلے بڑے بڑے لیڈرا ٓئے ، لیکن کسی نے آزادی کیلئے کوئی فارمولہ پیش کر کے
ایسی کوئی گیارنٹی نہیں دی تھی ، اسلئے جوش و جنوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔
گاندھی جی نے خلافت تحریک کی حمایت کردی اور اس کی عملی شکل کے طور پر تحریک عدم
تعاون کا اعلان کیا جو ایک ملک گیر برٹش ایمپائر مخالف ایجی ٹیشن تھا ۔

اس کے عوض میں علی برادران ، مولانا فرنگی محلی ، مولانا آزاد ، حکیم اجمل خان و دیگر نے
مسلمانوں کو کہا کہ وہ ذبیحۂ گاؤ ، اور عید لااضحی پر گائے کی قربانی کا سلسلہ ترک کردیں۔
ہندو مسلم اتحاد کا جو مظاہرہ ہوا ، برٹش ایمپائر کچھ وقفہ کیلئے لرز گیا ۔
دہلی میں گیتا اور قرآن کی ایک ہی پالکھی میںریل نکالی گئی اور جامع مسجد کے منبر پر ایک ہندو
دھرم گرو سوامی شردھا نند سرسوتی کو مسلمانوں سے خطاب کا شرف بخشا گیا ۔
لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ برٹش راج جو پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی تکنیک پر عمل کر رہا تھا ،
اور اس میں بہت کامیاب تھا ، اس نے اپنا پرانا کھیل شروع کردیا ۔
ساورکر کو ۱۹۱۱ ء میں ایک برٹش عدالت نے پچاس برس کالا پانی کی سزا دی تھی ، اور اس وقت تک
جب گاندھی جی کی قیادت میں خلافت اور عدم تعاون تحریک شروع ہوئی ، ساورکر کو کالا پانی میں
بمشکل دس برس ہوئے تھے ، جس کے دوران اس نے برٹش سرکار کی خدمت میں پانچ مرتبہ
معافی نامہ لکھ دیا ۔
یہ کہا کہ بس مجھے کالا پانی کی سزا سے راحت دلوا دو ، دکن ، پونہ ، کوکن ، کہیں کی بھی جیل بھیج دو ،
میں برٹش حکومت کا وفادار رہوں گا ، مجھ سے جو خدمت کہی جائے گی کروں گا ۔
۱۹۲۱ ء میں ساورکر کو کالا پانی سے آزادی مل گئی ، اور پہلے یروڈا جیل پہنچایا گیا ۔
اس کے بعد رتناگیری کے ایک بنگلہ میں ایسا قید جس کے دوران ضلع رتناگیر ی میں کہیں بھی
آنے جانے کی بھرپور اجازت تھی ، اور وہیں ۱۹۲۱ ء میں ساورکر نے ایک
کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ۔۔ہندوتوا ۔۔۔۔
برٹش چاہتے تھے ۔۔۔۔۔پھوٹ ، ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت ۔۔
ہندوتوا نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اور جن فرقوں کی ہولی لینڈ
( مقدس سرزمین) ہندوستان کے باہر ہیں ، ان کیلئے ہندو راشٹر میں برابر کی کوئی
جگہ نہیں ۔
مطلب کیا تھا ، گاندھی جی کی ہندو مسلم اتحاد کے تحریک ( ۱۹۲۰ء ) کے مقابلے
ساورکر کی ہندوتوا تحریک ( ۱۹۲۱ ء ) کو پیش کرنے کا ؟ ہندو اتحاد !!
اور ساورکر کا نظریہ تھا کہ نفرت سے بھی اتحاد ( ہندو اتحاد ) قائم کیا جا سکتا ہے ۔
اور اس نے ہندو نیشنل ازم کی بنیاد رکھی ۔
اس نظریہ کو نفرت کی آگ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہندو نیشنل ازم کی آگ میں
جو ہندو نوجوان جھلستے چلے گئے ، وہ گاندھی جی سے ، ان کے ہندو مسلم اتحاد کے
نظریات سے نفرت کرتے چلے گئے ۔
اور اسی قسم کی ایک نفرت وادی گینگ نے گاندھی جی پر قاتلانہ حملے شروع کئے ۔
ایک دو تین نہیں ، چھ حملے کئے گئے اور چھٹے حملے میں گاندھی جی کا قتل کردیا گیا۔
گاندھی جی کے قتل نے ایک اور مہلک نظریہ کو جنم دیا ، جسے گوڈسے واد کہا جاتا ہے !!
گوڈسے واد نے آزاد بھارت میں دہشت گردوں کی گینگ کو جنم دیا
اور دہشت گردانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ، اس بات میں کیا کوئی شک باقی ہے ؟
کوئی اور مثال کیا پیش کی جائے ؟ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ہی ایک بڑی مثال ہے ۔
بی جے پی نے اسے لوک سبھا تک پہنچا دیا اور اب وہ ایم پی نہیں ہے ،
البتہ ، مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں جو دہشت گردی قانون کے تحت درج ہوا ،
وہ ایک ملزمہ تھی ، اور آج بھی ہے ۔
لیکن جب بی جے پی نے اسے بھوپال سے لوک سبھا کا ٹکٹ دیا تھا ،
تب اس نے کیا کہا تھا ؟ یاد ہے ؟
اس نے کہا تھا ؛ ناتھو رام گوڈسے دیش بھکت تھا ، ہے اور رہے گا ۔جو اسے
دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ، وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں ، کہ سچائی کیا ہے ۔
کیسی عجیب بات ہے کہ اسی سادھوی پرگیہ نے اس سے پہلے ممبئی حملے میں
پاکستانی دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی جان نچھاور کرنے والے اے ٹی ایس
چیف ہیمنت کرکرے پر بھی تنقید کرچکی تھی اور ان کی توہین کر چکی تھی ۔
کیوں ؟ آنجہانی ہیمنت کر کرے نے مالیگاؤں اور دیگر بم دھماکہ کیسوں کی تحقیقات کرتے
ہوئے پہلی بار اس ہندوتوا دی دہشت گرد گینگ کا پردہ فاش کیا اور
اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا تھا ،
جو گوڈسے کا کٹر حامی اور گاندھی کا سخت دشمن تھا ۔اسلئے اس ہیمنت کرکرے
کیلئے سادھوی پرگیہ جیسے دہشت گردوں کے دلوں میں عزت ،
تو قیر ہوگی ؟ یہ بات ہی ناممکن ہے !!
ہاں ، جب جب گوڈسے واد کی کوکھ سے انتہا پسند تحریک کی تعریف و توصیف
عوامی طور ابھرتی ہے تو بھارت میں اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی کی جاتی ہے !!
اس وقت گوڈسے واد کی سخت الفاظ میں مذمت جنوبی ہند کے مشہور اداکار و سیاست داں
کمل ہاسن نے کی تھی ، تمل ناڈو کی ایک ریلی میں انہوں نے ناتھو رام گوڈسے کو
آزاد بھارت کا پہلا دہشت گرد قرار دیا تھا ۔
انہوں نے کہا تھا ۔۔۔۔آزاد بھارت کا پہلا دہشت گرد ایک ہندو تھا اور اس کا نام تھا
ناتھو رام گوڈسے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک زمانہ تک جب کہ آنجہانی ہیمنت کر کرے نے ملک میں ہونے والے بم دھماکوں
کےاصلی مجرموں کو جیل کی سلاخوں میں نہیں پہنچا دیا ، جن میں سادھو بھی تھے ،
اور سادھوی بھی ۔۔۔۔ملک بھر میں یہی سوال زور و شور سے پوچھا جاتا تھا کہ سارے
مسلمان دہشت گرد نہیں ، لیکن سارے دہشت گرد مسلمان کیوں ہیں؟
آنجہانی ہیمنت کرکرے کا یہ کارنامہ تھا ، کہ سوال کہ یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا اور اس کے ساتھ
وہ پر سرار بم دھماکے بھی بند ہو گئے جن کے الزام میں بے قصور مسلمانوں کو
جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا تھا ۔
ساورکر نے ہندو نیشنل ازم کا جو نظریہ پیش کیا ، اس کی بنیاد نفرت تھی ۔
گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کرکے جو گوڈسے واد کا انتہا پسند نظریہ پیش کیا ،
اس کی بنیاد نفرت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم دیکھ رہے ہیںکہ آزاد ی سے قبل کی نفرت کی سیاست نے بھی آج نفرت کی
تجارت کی شکل اختیار کرلی ہے ، اور الیکشن و ووٹ بنک کی سیاست کیلئے آ ج
نفرت کو ہی ہتھیار بنا یا جا رہا ہے !!
بھارت بیس کروڑ مسلمانوں کی آبادی والا ملک ہے ، جس میں پاکستان کی جاسوسی کے
الزام میں بمشکل ہی کوئی مسلمان گرفتار ہوتا ہے ، اور بھارت پاکستان جنگ میں
بھارت کے بیس کروڑ مسلمان بھارت کیلئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
ہر قسم کی قربانی پیش کرتے ہیں ۔
پھر بھی نفرت پر مبنی سیاسی فرقہ پرست طاقتیں اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ
بھارت کے مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بنانے کا گھناؤناکھیل بند نہیں کرتی ہیں ،
یہ آج کی میڈیا وار ہے ، سوشل میڈیا وار ہے ۔۔
اس کا تو مقابلہ کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔!!!