پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

( قسط پنجم )

 طلحہ نعمت ندوی

صباح الدین عبدالرحمن

سید صباح الدین عبدالرحمن بن سید محی الدین مشہور فاضل ومورخ اور اردو کے کثیر التصانیف مصنف ہیں ،۱۹۱۱ میں دیسنہ میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی ،پھر محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ میں میٹرک اور مظفر پور میں جی بی ٹی کالج سے انٹر میڈیٹ کیا ۔پھر پٹنہ یونیورسٹی کے کالج میں گریجویشن میں داخلہ لیا ،اور گریجویشن کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے ایم اے کی سند حاصل کی ،پھر وہیں سے بی ایڈ بھی کیا ،اس کے بعد دارالمصنفین آگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئیے ،اس دوران انہوں نے جامعہ ملیہ میں کچھ ایک علمی موضوع کی تکمیل میں صرف کئے ۔پھر علامہ سید سلیمان ندوی کی دعوت پر دارالمصنفین آگئے اور پوری زندگی وہیں گذاری اورعلمی وملی کاموں میں تازندگی مصروف رہے ۔ناظم دارالمصنفین مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کے بعد نائب مدیر اور مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کے انتقال کے بعد ناظم دارالمصنفین بنے ،اور اسی عہدہ پر رہتے ہوئے۲۷ربیع الاول ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۸ نومبر ۱۹۸۷ کووفات پائی ۔ان کی تصا نیف ومقالات کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے ،جن میں بزم صوفیہ ،بزم تیموریہ ،عہد وسطی کا فوجی نظام ،بابر اور پچاسوں کتابیں ہیں ،انگریزی میں بھی تصانیف وتراجم ہیں ۔(تفصیلی حالات وخدمات کے لئے دیکھئے ،سید صباح الدین عبدالرحمن حیات اور کارنامے ،ڈاکٹر خورشید عالم ،مکتبہ احسان لکھنؤ،۲۰۱۲،سید صباح الدین عبدالرحمن حیات وخدمات ،ڈاکٹر شہریار احمد ،طوبی پبلی کیشنز حیدرآباد۔)

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) 
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

عبدالقوی دسنوی

ٍ عبدالقوی دسنوی بن پروفیسر سعید رضا اردو دنیا کے مشہور ادیب واہل قلم ہیں ،۱نومبر ۱۹۳۰ میں اپنے دیسنہ میں ولادت ہوئی ،وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی ،پھر آرہ اسکول آرہ میں ثانوی تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد اپنے والد کے پاس بمبئی چلے گئے اور وہاں سینٹ زیورس کالج سے جہاں ان کے والد پروفیسر تھے گریجویشن اور ایم اے کی تکمیل کی ،اس کے بعد سیفیہ کالج بھوپال میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور پوری زندگی یہیں علمی وتصنیفی خدمت میں گذاری ،موصوف نے اردو زبان وادب کی بے مثال خدمت کی ،سیکڑوں شاگرد اور پچاسوں اہم تصانیف اور سو سے دیڑھ سو مقالات ان کی یادگار ہیں،اور اردو دنیا میں ان کی شہرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔۶شعبان ۱۴۳۲ مطابق ۷جولائی ۲۰۱۱کو بھوپال ہی میں وفات پائی ۔(تفصیلی حالات وخدمات کے لئے دیکھئے ،عبدالقوی دسنوی حیات اور خدمات از محمد نعمان خاں اور سرمایہ ادب مرتبہ محمد نعمان خاں،بھوپال)

پروفیسر ابراہیم ندوی

مولانا ڈاکٹر سید ابراہیم بن مولانا سید ہاشم ندوی مشہور عالم اور عربی کے فاضل ومصنف تھے ،۱۹۳۷ میں حیدر آباد میں ولادت ہوئی جہاں ان کے والد مقیم تھے ،پھر اپنے وطن استھاواں چلے آئے ،اور یہیں مدرسہ محمدیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ،پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور مکمل فضیلت تک کی تعلیم وہیں حاصل کی ،پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ میں عربی ادب اور عصری علوم کی تحصیل کی ،پھر عثمانیہ یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے اور تازندگی اسی عہدہ پر رہے ،پھر یہیں سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر اس کی سند لی۔وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدربھی رہے ،اور اس شعبہ کو منظم کیا ،کتابوں میں عربی میں عبقریۃ الجاحظ ،اور تاریخ صنعاء الیمن از ابوالعباس رازی اور نظم الدرر والمرجان فی تلخیص سیرۃ الانس والجان جیسی عربی کتابوں کی تدوین وتحقیق بھی ان کا اہم کام ہے ،۹ ذی الحجہ ۱۴۱۱ھ مطابق ۲۱جون ۱۹۹۱ کو وفات پائی ۔(مزیدحالات کے لئے دیکھئے ،معارف شمارہ جولائی ۱۹۹۱،نیز معالم ومآثر(عربی) ،ڈاکٹر راشد نسیم ندوی ،حیدر آباد ،۲۰۱۳ھ)

ظفر اگانوی

قلمی نام ظفر اگانوی ،مکمل نام محی الدین بن مولانا فصیح احمد مشہور ادیب وافسانہ نگار تھے ،۱۹۳۱ میں قصبہ سرونج ضلع ودیشہ (مدھیہ پردیش )میں ولادت ہوئی ،جہاں ان کے والد ایک مدرسہ کے ذمہ دار تھے ،ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ،پھر والد کے ساتھ وطن آگئے ،اور مدرسہ محمدیہ استھانواں میں ثانوی تعلیم کے بعد مدرسہ شمس الہدی پٹنہ میں داخلہ لیا اور فاضل تک تعلیم حاصل کرکے سند حاصل کی ،پھر پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر گریجویشن سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم مکمل کی ،اس دوران وہ افسانہ ومضامین بھی لکھتے رہے ،اس کے بعد کلکتہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں استاد مقرر ہوئے اورترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ ہوئے ،ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اقلیتی کمیشن کے چیر مین بھی ہوئے ،اور کلکتہ ہی میں۲صفر ۱۴۱۷ھ مطابق۲۱جون ۱۹۹۶ کووفات پائی ۔افسانوں کے کئی مجموعے اور ایک تحقیقی کتاب صفیر بلگرامی جو ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ان کی علمی یادگار ہے ،اس کے علاوہ رموز اقبال ،تنقیدی مقالات کا مجموعہ اذہان واشخاص بھی ہے،صفیر بلگرامی کی جلوہ خضر کی تدوین بھی ان کا علمی کام ہے،وہ ممتاز ادیب ہونے کے ساتھ وہ کامیاب استاد بھی تھے ۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ،ظفر اگانوی ،از ڈاکٹر دبیر احمد کلکتہ ،۲۰۱۵)

ظفرچکدینوی

ظفرچکدینوی کا اصل نام محمد عبدالرقیب تھا ،اوروالد کا نام حکیم مولوی عبدالصمد انصاری اور وطن میرغیاث چک بستی (تحصیل استھاواں)تھا ،اور اسی سے متصل بستی چکدین میں ۲۱مارچ ۱۹۲۹ کوولادت ہوئی ،اور اسی نسبت سے مشہور ہوئے ،انہوں نے ایم اے اور ڈپ ا ن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اس کے بعد چکدین ہائی اسکول میں استاد ہوگئے ،انہوں نے اردو شعر ونثر دونوں میں تخلیقات پیش کیں ،بنیادی طور پر مزاحیہ شاعر تھے ،متعدد رسائل میں شائع ہوتے رہے ۲۱ذی قعدہ ۱۴۱۰ھ مطابق،۱۴جون ۱۹۹۰ کو وفات پائی ۔(مزید دیکھئے اردو ادب کی تاریخ میں نالندہ ضلع کی خدمات ،ص۲۳۷)

شمس الہدیٰ استھانوی

پٹنہ کے معروف صحافی اور سرگرم سماجی کارکن ،شمس الہدیٰ استھانوی بن سخاوت علی کی ولادت ۵جون ۱۹۳۴ کو نورنگابستی (تحصیل بیند)ضلع بہارشریف میں ہوئی ۔بچپن ہی میں وہ وہاں سے والد اور خاندان کے ساتھ استھاواں منتقل ہوگئے ،یہیں مدرسہ محمدیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد رہوئی ہائی اسکول سے امتحان دے کر سند حاصل اور انٹرمیڈیٹ کے لئے اے این ایس کالج باڑھ میں داخلہ لیا اور سند حاصل کی ،نالندہ کالج سے گریجویشن کیا ،اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اےکی سند حاصل کی ۔پھر پٹنہ میں صدائے عام اخبار کے نالندہ کے رپورٹر ہوگئے ،اس کے بعد ہمارا نعرہ کے نام سے اپنا روزنامہ اخبار نکالا جو اب بھی جاری ہے۔۱۵جمادی الاول ۱۴۲۱ھ مطابق۵اگست ۲۰۰۰ کو پٹنہ ہی میں ان کا انتقال ہوا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے مرد صحافت شمس الہدیٰ استھانوی،از ڈاکٹر انوار الہدیٰ ،پٹنہ ۲۰۲۲)

ڈاکٹر ارشد اسری

ڈاکٹر ارشد اسری کا پورا نام محمد کمال ارشد تھا،والد کے نام میں اختلاف ہے، بہارشریف کا محلہ بارہ دری ان کا آبائی وطن تھا، ۸اگست ۱۹۳۵ کو قریہ گیلانی میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ،ہائی اسکوک کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ائی ایس سی کی سند حاصل کی ،پھر میڈیکل کالج پٹنہ سے ایم بی بی ایس کی سند لی پھر ۱۹۶۴ میں ایم ایس کی ڈگری حاصل کی ،اس کے علاوہ اردو زبان وادب اور مگہی زبان سے بھی تعلق تھا ،کئی اداروں کے ممبر رہے ،بہارشریف میں سرجن ہونے کے ساتھ سماجی اور علمی دنیا میں فعال رہے ،کئی رسائل اور قصوں کے اردو میں ترجمے کئے ،ہندی میں بھی کئی مضامین اور رسائل لکھے،انگریزی میں بھی کچھ مضامین شائع ہوئے ۔۹صفر ۱۴۲۹ مطابق ۱۷ فروری ۲۰۰۸ کو بہارشریف ہی میں ان کا انتقال ہوا۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ،نالندہ ضلع میں اردو ادب کی خدمات ،از ڈاکٹر عشرت آراسلطانہ ،ص۲۶۰)

مولانا سید محمد ندوی۔

۱۹۰۳ میں استھاواں میں ان کی ولادت ہوئی ،والد مشہور شخصیت سید رحیم الدین استھانوی تھے۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فاضل تھے ،ندوہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ دارالمصنفین میں رہے ،اس کے بعد ایک مدت جامعہ رحمانی مونگیر میں گذاری ،وہاں کے استاد ادب عربی بھی رہے اور وہاں کے ماہنامہ الجامعہ کے مدیر بھی ،اس کے بعد مدرسہ محمدیہ استھاواں کے قیام کے بعد وہاں آگئے اور پوری زندگی یہیں تدریس وتعلیم میں گذاری ،مدرسہ کے ناظم بھی رہے۔مولانا سید محمد علی مونگیری پر ایک کتاب تحریر کی ،نیز مدرسہ محمدیہ پر بھی ایک کتابچہ لکھا ،اس کے علاوہ مضامین کی بھی معتدبہ تعداد ان کی یادگارہے۔۱۹۸۴ مطابق ۱۴۰۴ھ میں استھاواں ہی میں وفات پائی۔(دیکھئے ان کی کتاب واقعات مدرسہ محمدیہ استھاواں (اشاعت استھاواں ۲۰۲۲)میں ان کی سوانح حیات پر راقم کا مضمون)

مولانا محمد پاشا ندوی

مولانا محمد پاشا ندوی ممتاز فاضل اور مدرس تھے ،بہارشریف کا محلہ سوہ سرائے ان کا وطن تھا ،انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد پٹنہ کے ایک اسکول میں استاد ہوگئے ،پھر ڈھاکہ یونیورسٹی میں رہے اور وہاں سے ایم اے کی تعلیم مکمل کی اور وہیں لکچرار ہوگئے ،پھر پاکستان جاکر کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے ،اس کے بعد ایک دوست کی وساطت سے مسلم کمرشیل بینک دبی برانچ میں افسر رابطہ عامہ کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ،اس کے بعد مزیدا علیٰ عہدہ پر فائز ہوئے ،اور ان کا درس قرآن بھی نشر ہونے لگا،اخیر میں اسلامک بینکنگ کا نظام قائم ہوا تو اس کے بہت اعلیٰ عہدہ پر سرفراز ہوئے ۔اور وہیں شارجہ میں طویل مدت تک دینی وعلمی خدمت انجام دے کر۲۹ربیع الثانی ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۶جنوری ۲۰۱۸ کووفات پائی۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھئے،بزم دانشوراں از مولانا نعیم صدیقی ندوی مطبوعہ مؤ)

پروفیسر عبدالمغنی

پروفیسر عبدالمغنی مشہور ادیب وفاضل تھے ،ان کے والد مولانا سید عبدالرؤوف ندوی تھے، اوروطن شہر اورنگ آباد تھا ،جہاں ۴جنوری ۱۹۳۶کو ان کی ولادت ہوئی،مدرسہ اسلامیہ اورنگ آبادمیں تعلیم کے مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تعلیم حاصل کی ،وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی انگریزی ادب میں بی اے اورایم اے کی سند لی اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں اسی شعبہ میں استادہوگئے ،پھر انگریزی ہی میں پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ،متھلایونیورسٹی کے وائس چانسلربھی رہے ،اس کے علاوہ پٹنہ اور صوبہ کی تعلیمی وعلمی تحریکات میں سرگرم اور بہت سے اداروں کے رکن رہے ،اور متعدد اعزازات سے بھی نوازے گئے اورتصانیف کا بھی بڑا ذخیرہ یادگار چھوڑا ۔۱۲ شعبان ۱۴۲۷ھ مطابق۵ستمبر ۲۰۰۶کووفات پائی ۔ان کی خدمات پر متعدد کتب ومضامین منظرعام پر آچکے ہیں،دیکھئے ،فردنامہ پروفیسر عبدالمغنی از ڈاکٹر ریحان غنی ،اردوڈائریکٹوریٹ پٹنہ۔

شاہ علیم الدین بلخی

شاہ علیم الدین بلخی بن حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی ،معروف عالم تھے ،۱۹ دسمبر ۱۹۲۳ کو فتوحہ ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے ،متوسطات تک کی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی ،پھر مدرسہ الہیات کانپور میں تکمیل کی ،اس کے بعد طبیہ کالج علی گڑھ اور نظامیہ طبی کالج حیدرآباد میں طب کی تعلیم میں چند سال گذارکر طبیہ کالج پٹنہ میں داخلہ لیا اورتعلیم مکمل کرکے وہیں استاد ہوگئے ،اور ترقی کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدہ تک پہنچ کر سبکدوش ہوئے،اس کے علاوہ اس فن سے متعلق کئی اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ،اس کے علاوہ کئی اہم علمی مضامین ان کی یاد گار ہیں۔طویل عمر پاکر۸صفر ۱۴۴۱ھ مطابق۷ اکتوبر ۲۰۱۹ کو پٹنہ میں اپنی قیام گاہ پر وفات پائی ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ،تہ خاک ،بہار کی بہار۔

احمد یوسف

احمد یوسف کا پورا نام سید عثمان یوسف تھا ،اور والد کا نام سید محمد یوسف تھا ،۱۰جنوری ۱۹۳۱ کو اپنے آبائی مکان صدرگلی پٹنہ سیٹی میں پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم گھر اور محلہ میں حاصل کی ،اس کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ میں داخلہ لیا ،پھر والد کی وفات کے بعد پٹنہ آکر محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول پٹنہ سیٹی سے ہائی اسکول کا امتحان دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی ایس سی کی سند حاصل کی ،پھر بعد میں مگدھ یونیورسٹی گیا سے اردو ادب میں ایم اے اور ۱۹۹۵ میں پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ،اسی سال وہ بہاراردو اکیڈمی کے صدر بنے اور تین سال اس عہدہ پر رہ کر خدمت انجام دی ،وہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی افسانے اور مضامین لکھنے لگے تھے ،اور افسانہ کی دنیا میں نمایاں ہوئے ،افسانوں کے علاوہ انہوں نے سنجیدہ علمی موضوعات پر بھی مضامین وکتب کا اہم ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے ،جن میں لغت بہار ،خاکوں کا مجموعہ دل کےقریب رہتے ہیں اورتحقیقی مقالات کا تجزیہ جیسے موضوعات شامل ہیں ۱۳جمادی الثانی ۱۴۲۹ھ مطابق۱۷جون ۲۰۰۸ کو ان کا انتقال ہوا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے احمد یوسف از ڈاکٹر آصف سلیم اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ،احمد یوسف کی افسانہ نگاری ،وغیرہ ۔)

( جاری)

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare