پیکرجرات و بیباکی مولانا عطاء الرحمن وجدیؒ

از: سراج الدین ندوی سرکڑہ،بجنور

دوسروں کو جگانے والا، ٹھہرے پانی کو آبشار بنانے والا، مظلوموں کا مسیحا، انصاف کا پیکر، انقلاب کی آہٹ، باطل کے سامنے آہنی چٹان آج 88 سال کی عمر میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملا۔ میرے لیے ان کی وفات ایک بڑا سانحہ ہے،مجھے اپنے والدین کے دنیا سے چلنے جانے کا بعد جس یتیمی کا احساس ہوا تھا، وجدی صاحب کے اٹھ جانے کے بعد اس سے کہیں زیادہ ہورہا ہے۔

پیکرجرات و بیباکی مولانا عطاء الرحمن وجدیؒ
پیکرجرات و بیباکی مولانا عطاء الرحمن وجدیؒ

جب جب میں قلم اٹھاؤں گا، مجھے ان کی یاد آئے گی کیونکہ ا نھوں نے ہی قلم پکڑنا سکھایا۔ مضامین لکھنے سکھائے، نوک پلک درست کرنی سکھائی۔ میری عمر21 سال کی تھی جب انھوں نے پندرہ روزہ”تنقیحات“ جاری کیا۔ مجھے اس کی ادارت کی ذمہ داری سونپی، تحریکی حلقے میں ایک مدیر کی حیثیت سے میرا تعارف کرایا۔ مضامین لکھنا، دوسروں کے مضامین کی تصحیح کرنا، پروف ریڈنگ کرنا، رسالہ کو مرتب کرکے پریس میں چھپوانا، اشتہارات حاصل کرنا، ایجنسیاں قائم کرنا، لوگوں سے تعاون حاصل کرنا یہ تمام صلاحیتیں آپ نے میرے اندر اجاگر کیں۔ مجھے ایک کامیاب انسان بنانے میں جو آپ کا رول رہا ہے، اسے جب میں یاد کروں گا، اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکوں گا۔

آپ اپنے خیرخواہوں کے حقیقی مربی تھے، آپ انتہائی دل سوزی کے ساتھ تربیت فرماتے، اپنے احباب کے انداز گفتگو تک پر نظر رکھتے۔ میں آپ کے اس مربیانہ انداز کو اکثر یاد کرتاہوں اور اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کا حوالہ دیتا ہوں۔ جب ایک شب ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں ایک رفیق پر برہم ہوگیاتھا۔ اگلے روز میں آپ کے ساتھ ایک اسکول کے افتتاح کے پروگرام میں گیا۔ واپسی پر تیز بارش ہورہی تھی۔ جب ہم ا س موڑ پر پہنچے جہاں ہم دونوں کو ایک دوسرے راستہ پر جانا تھا اور میں سلام کرکے آپ سے رخصت ہونے لگا تو آپ نے مجھے روکا اور فرمایا:

”سراج صاحب! رات آپ نے جس بلند آواز میں بات کی میرے سامنے کسی رفیق نے کبھی اتنی بلند آواز میں بات نہیں کی ہے“

یہ کہہ کر آپ کی آنکھوں سے ٹپا ٹپ آنسو بہنے لگے۔ گویا د ل کی تکلیف آنکھوں سے ٹپکنے لگی۔ میں نے نہ صرف زبان سے یہ کہا بلکہ دل میں طے کرلیا کہ آئندہ کبھی اپنے بڑے کے سامنے بلند آواز میں بات نہیں کروں گا۔

میں نے ایثار وقربانی کی جو مثالیں تاریخ میں پڑھی ہیں ان کی عملی مثال وجدی صاحب کی زندگی میں دیکھی ہے۔ جب درسگاہ اسلامی سہارنپور ایک بار مالی بحران کا شکار ہوئی تو آپ نے مجلس انتظامی کی میٹنگ بلائی تاکہ اس بحران پر قابو پانے کی عملی راہ تلاش کی جائے۔ میٹنگ کے دوران ایک رفیق نے تجویز رکھی کہ درسگاہ کوبند کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا:”جب تک میری بیوی کا زیور موجود ہے تب تک تو درسگاہ بند نہیں ہوگی“

آپ کی جرأت و بے باکی کا اعتراف سہارنپور کے ہر شخص کو ہے۔ جب بابری مسجد کا معاملہ گرم تھا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی (جس میں جماعت بھی شامل تھی) نے فیصلہ کیا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان جامع مسجد دہلی پہنچیں اور احتجاج درج کرانے کے لیے گرفتاریاں دیں۔ آپ نے سہارنپور کی جامع مسجد میں تقریر کی اور دہلی جانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی۔ جمعرات کی شام کو S.Pکا بھیجا ہوا ایک داروغہ آپ کے پاس آیااور بولا:

”وجدی صاحب! ہمارا مشورہ ہے کل آپ دہلی نہ جائیں اگر آپ دہلی جائیں گے تو آپ کو گرفتار کرلیا جائے گا۔“

آپ نے داروغہ سے کہا:

”دہلی جانا میرا کام ہے اور مجھے روکنا آپ کا کام ہے۔دیکھتے ہیں کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے؟“ اس کے بعدکئی مقامات پر پولس متعین کردی گئی۔

وجدی صاحب رات ہی کو گلیوں سے ہوتے ہوئے شہر کے باہر آگئے اور دہلی جانے والی بس کو ہاتھ کے اشارہ سے روک کر اس میں سوار ہوئے اور دہلی پہنچ گئے۔اگلے دن داروغہ ملنے آیا تو آپ نے کہا:۔”بتائیے کون کامیاب رہا۔“

آپ جب ارادہ کرلیتے تو پھر آپ کو آپ کے ارادے سے باز رکھنے والی طاقت خدا کے سوا کوئی نہ تھی۔آپ سماج کے غنڈوں،انتظامیہ کے ذمہ داروں اور بدی کے ٹھیکیداروں سے کبھی نہیں ڈرے۔ بقول ساحر لدھیانوی:

ہزار برق گرے،لاکھ آندھیاں اٹھیں

وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

ایک بارآپ کو معلوم ہوا کہ پولیس محلہ کی ایک بڑھیا کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ آپ فوراً تھانہ گئے اور اس بوڑھی عورت کو پولیس کسٹڈی سے چھڑا کر لائے۔

آپ فکری ونظری ہونے کے ساتھ عملی اور زمینی آدمی تھے۔ شہر کا کوئی مسئلہ خصوصاً ملت اسلامیہ سے متعلق کوئی معاملہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ آپ کی مشاورت اور شرکت کے بغیر حل کرلیا جائے خواہ اس کا تعلق عوام سے ہویا انتظامیہ سے یا سیاسی پلیٹ فارم سے۔ جب آپ کے علم میں کوئی مسئلہ آتا تو آپ بن بلائے مقام واردات پر پہنچ جاتے اور اس مسئلہ کو حل کرکے ہی دم لیتے۔

آپ کو اللہ نے مسجد کی امامت سے لے کردنیا کی امامت کے لئے پیدا کیا تھا۔کیوں کہ آپ کے اندر امامت کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔آپ سچ کے علم بردار بھی تھے اور طرف دار بھی،آپ بہادری اور شجاعت کا پیکر تھے اور آپ ظلم کے خلاف عدل کے قیام کی جدو جہد کے میر تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے امامت کے لیے انھیں تین خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا

لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

(اقبالؒ)

سب جانتے ہیں کہ ربیع الاول کے مہینے میں کلیر شریف میں مدتوں سے پیر صابر کلیری صاحب کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ وہاں طوائف نے بھی اپنے اڈے قائم کرلیے ہیں تو آپ بے چین ہوگئے۔ ایک طرف آپ نے عدالت سے اس کے خلاف اسٹے(Stay) لے لیا کہ طوائف کے اڈوں سے صابر کلیری صاحب کے مزار کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ دوسری طرف عوام سے اپیل کی کہ فعل شنیع کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ آپ روزانہ خود دفتر سے فارغ ہوکر کلیر کے لیے روانہ ہوجاتے میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا۔ ہم لوگ عشاء سے قبل وہاں پہنچ جاتے۔ مضافات واطراف سے بھی بہت سارے لوگ آجاتے۔ راتوں کو ہم وہاں احتجاجی جلوس نکالتے۔ اسٹے کی کاپیاں ہمارے ہاتھوں میں ہوتیں۔ آخر کار مزار کے احاطہ کو طوائف سے پاک کردیا گیا۔

ایک روز کلیر سے واپسی ہورہی تھی ہم ٹرین سے اتر کر اسٹیشن کے خارجی گیٹ(Exit)کی طرف جارہے تھے کہ ٹی ٹی ایک باریش بزرگ کو پریشان کررہا تھا۔ وجدی صاحب نیکی کمانے کے ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ فوراً وہاں گئے اور ٹی ٹی سے پوچھا:

”کیا معاملہ ہے؟ ان بزرگ کو کیوں پریشان کررہے ہو؟“

ٹی ٹی نے جواب دیا:

”یہ بوڑھا اس بچہ کی عمر 12 سال بتارہا ہے اور اس کا آدھا ٹکٹ لیے ہوئے ہے۔ اگر بچہ 12 سال سے کم ہوتو آدھا ٹکٹ لگتا ہے اگر پورا بارہ سال کا ہوتو پورا ٹکٹ لینا چاہیے۔“

بزرگ نے وجدی صاحب سے کہا:

”میں نے گیارہ بارہ سال عمر بتائی تھی۔ مجھے لوگوں نے بتایاتھا کہ اس کا آدھا ٹکٹ چل جائے گا۔“

وجدی صاحب نے نہایت نرمی سے ٹی ٹی کو سمجھایا کہ دیکھو یہ ان پڑھ دیہاتی آدمی ہے۔ اس بے چارے نے ٹکٹ تو لیا ہے بے ٹکٹ تو نہیں ہے، عمر کے سلسلہ میں مغالطہ ہوگیاہے۔ جان بوجھ کر اس نے قانون شکنی نہیں کی ہے، اس کو جانے دو، یہ اتنا بڑا جرم نہیں ہے جسے نظر انداز نہ کیا جاسکے مگر ٹی ٹی نہ مانا تب وجدی صاحب طیش میں آئے اور انگریزی میں اسے ڈانٹ پلائی۔ اس کے بعد ٹی ٹی نے معافی مانگی۔

میں اس بات کا گواہ ہوں کہ شہر کی ہر تنظیم اور جماعت کا ذمہ دار آپ سے ملاقات اور مشورہ کے لیے حاضر ہوتا۔ مجاہد آزادی اور نامور شاعر ظہوراحمد ظہور اگرچہ کانگریسی تھے اور بعد میں جنتا پارٹی کی تشکیل میں اہم رول ادا کرنے والوں میں شامل تھے وہ سیاسی اختلافات کے باوجود بہت سے امورومعاملات میں آپ سے مشورہ کرتے اور آپ کی بڑی قدر کرتے تھے۔سہارن پور کی مشہور سماجی و سیاسی شخصیات انشاء اللہ خاں اور مسرور خاں تو آپ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے بھلاّجی کومیں نے بار ہا آپ کے گھر سے نکلتے دیکھا۔

آپ کو قرآن سے بڑا شغف تھا۔ روزآنہ تلاوت اور قرآن کا مطالعہ آپ کا ایسا معمول تھا جسے بڑی سے بڑی مصروفیت بھی متاثر نہ ہونے دیتی تھی۔ قرآن پڑھتے ہوئے یا قرآن کا درس دیتے ہوئے عذاب آخرت کی آیات یا نبیوں کے کردار ساز قصص کے بہت سے گوشوں کو بیان کرتے ہوئے آپ پر رقت طاری ہوجاتی۔ آواز بھی رندھیا جاتی۔ سامعین بھی نم دیدہ ہوجاتے۔ رسول اللہؐ اور صحابہ کرام سے آپ کو بے پناہ محبت تھی۔ موقعہ بہ موقعہ سیر ت نبوی، سیرت صحابہ کے واقعات سناتے۔فرط محبت میں آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔

آپ امانت و دیانت کا پیکر تھے۔ لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔سہارنپور شہر میں جمعیۃ العلماء کا ایک مسلم فنڈ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جمعیۃ العلماء، جماعت اسلامی سے دوری بنائے ہوئے تھی مگر وجدی صاحب کی دیانت وامانت اور صلاحیت وبلند کرداری کے پیش نظر شہر کی جمعیۃ نے آپ کو اس کا منیجر بنائے رکھا تھا۔

فیاضی اور سخاوت میں بھی وجدی صاحب غیر معمولی انسان تھے، وہ جہاں ضروت مندوں کی خبری گیری کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے وہیں وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا بھی بے حد خیال رکھتے۔مجھے اپنی زندگی میں دو ایسی شخصیتوں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے تربیت حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جو اپنی ماہانہ تنخواہ کا آدھے سے زیادہ حصہ اپنے دوستوں، رفقاء اور شاگردوں پر خرچ کرتے تھے۔ ایک مولانا عطاء الرحمن وجدی اور دوسرے مولانا انیس احمد اعظمی۔ روزانہ عصر بعد وجدی صاحب ہم چار پانچ کارکنوں کو ہوٹل میں چائے وائے پلاتے اور ہم میں سے کسی کو پیسے نہیں دینے دیتے۔ ایک بار ہم(شاہد میاں زبیری، جلال عمر اور احقر) نے طے کیا کہ ہوٹل والے کو پہلے ہی پیسے دے دیں گے مگر چائے سے فراغت کے بعد مولانا محترم نے ہوٹل والے سے وہ پیسے واپس کرادیے۔ ظاہر ہے مولانا کے حکم کے سامنے ہوٹل والا ہماری بات نہیں مان سکتا تھا۔ اسی طرح عشاء بعد جب ہم لوگ دفتر جماعت میں جمع ہوتے تو مولانا کبھی چائے، کبھی شربت اور کبھی کوئی کھانے کی چیز منگاتے۔ ایک بار ہم دوستوں نے حساب لگایا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ مولاناتقریباً آدھی تنخواہ تحریکی افراد پر خرچ کردیتے ہیں۔

آپ کی یہ صفت ایک طرف احباب سے آپ کی محبت کی دلیل ہے وہیں دوسری طرف مال سے آپ کی بے اعتنائی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک مومن دنیا سے محبت نہیں کرتا، وہ اپنا مال گن گن کر نہیں رکھتا، اسے دنیا کی طلب نہیں ہوتی، وہ تو دنیا کا استعمال ضرورت بھر کرتا ہے، اس کے پیش نظر ہر وقت آخرت رہتی ہے، وہ بقول رسول اکرم ﷺ دوزخ کی آگ سے بچنا چاہتا ہے چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی کیوں نہ بچ جائے۔

مولانا وجدی صاحب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے رفقاء سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اور ہر رفیق یہ سمجھتا تھا کہ مولانا مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بقول شاعر:

یہ دل بہت اداس ہے جب سے خبر ہوئی

ملتے ہیں وہ خلوص سے ہر آدمی کے ساتھ

مجھے انہوں نے جو شفقت اور محبت دی اس کی کوئی مثال دوسری شخصیت میں نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ میں بھی ان سے ایسی محبت کرتا تھا اور کرتا ہوں جو عقیدت کی تعریف میں آتی ہے۔ میں گھریلو اور ذاتی مسائل میں بھی ان سے مشورہ لیتا اور ان کے مشوروں پر عمل کرتا اور اس کے بہتر نتائج وثمرات ظاہر ہوتے۔ مولانا مجھ سے کس قدر محبت کرتے تھے اس کی بس ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

ایمرجنسی کے بعد جب مولانا کی رہائی الہ آباد جیل سے عمل میں آئی تو وجدی صاحب براہ راست سہارن پور نہ جاکر الہ آباد پسنجر سے سیدھے میرے گاؤں آئے اور پھر مجھے اپنے ساتھ لے کر سہارنپور گئے۔ حالاں کہ ان کے اکلوتے بھائی قیصر صاحب سہارنپور سے انہیں لینے کے لیے الٰہ آباد روانہ ہوچکے تھے۔ جب ہم لوگ سیالدہ ایکسپریس سے سہارنپور اسٹیشن پر اترے تو وہاں اہل شہر کا ایک بڑا مجمع موجود تھا۔ مولانا نے مجھ سے کہا کہ آپ آرام کیجئے یہ لوگ مجھے چھوڑیں گے نہیں (یعنی پورے شہر میں جلوس نکالیں گے)۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ میں نے اپنے دوست کے گھر آرام کیا اور مولانا آدھی رات کے بعد گھر پہنچے۔ اس وقت پورے شہر میں خوشی اور جوش کا جو عالم تھا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

مجھے اس زریں سلسلہ کا ایک اہم واقعہ یاد آرہاہے۔ شروع میں وجدی صاحب کو ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیاتھا۔ مولانا کی جب کورٹ میں پیشی ہوتی تو ہم لوگ پہلے ہی سے کورٹ میں پہنچ جاتے اور آخر تک موجود رہتے۔ مولانا کامقدمہ ایک ہندو وکیل لڑرہا تھا۔(اس وقت میرے ذہن میں وکیل کا نام نہیں آرہا ہے) ایک بار وکیل نے وجدی صاحب سے کہا کہ آپ کورٹ میں صرف ایک دفعہ یہ کہہ دیں کہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں۔ آپ کی رہائی میری ذمہ داری ہے۔ وجدی صاحب نے کہا:

”میں جھوٹ نہیں بول سکتا“وکیل نے کہا:

”مولانا جماعت اسلامی پر اس وقت حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور جماعت کا اس وقت وجود ہی نہیں تو اس کی رکنیت کا کیا سوال ہے اس لیے یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔“

وجدی صاحب نے کہا:

”جماعت موجود ہے تبھی تو حکومت نے اسے ممنوع قرار دیا ہے اگر وہ معدوم ہوتی تو اس پر پابندی کیا معنی“

وکیل نے جب کئی بار لجاجت سے گزارش کی تو وجدی صاحب خاموش ہوگئے اور وکیل سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وکیل نے وجدی صاحب کی خاموشی کو اثبات سمجھا۔ اگلی پیشی پر جب وجدی صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اب بھی جماعت کے رکن ہیں تو وجدی صاحب نے نہایت جرأت سے کہا:۔

”جی ہاں!میں جماعت کا رکن تھا، اب بھی ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا“

یہ الفاظ سنتے ہی وکیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے جج سے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا سچا آدمی نہیں دیکھا۔ وکیل نے مقدمہ لڑا، وجدی صاحب کی ضمانت بھی ہوئی ا ور وکیل نے ایک پیسہ بھی اجرت میں لینا قبول نہیں کیا۔ بعد میں وجدی صاحب کومیساکے تحت گرفتار کرکے انہیں الہ آباد جیل بھیج دیاگیا۔

مولانا ایک اچھے مقرر اور خطیب تھے۔آپ ہر ہفتہ موثر درس قرآن دیتے۔تقریر کرتے تو موجودہ حالات پر موثر اور عملی گفتگو کرتے۔دوران تقریر تاریخی تلمیحات و کنایات سے اپنی گفتگو کو مدلل کرتے۔

آپ صاحب اسلوب قلمکار تھے۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کردیتے۔ آپ کا قلم تنقید و تنقیح میں نہایت تیز رو تھا۔صاحبان اقتدار کی زیادتیوں اور افراط و تفریط کے خلاف خوب لکھتے تھے۔

آپ کی تصانیف میں ”غروب آفتاب“ پہلی باقاعدہ تصنیف ہے جو آپ اپنے مرشد سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے انتقال پرتحریر فرمائی۔ اس کے علاوہ ”مولانا مودودی ؒ کے افکار و تاثرات“”مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک“ اور ”نقوش زنداں“ان کی جرات مندانہ تحریروں کی گواہ ہیں۔

”ہفت روزہ بیباک“ جس کے مدیر مولانا زکریا اسعدی ؒ تھے نے آپ کو صحافت سے متعارف کرایا۔ 1966 میں آپ نے اپنی برادری کے مسائل پیش کرنے اور حل کرنے کے لیے ”پندرہ روزہ الیوم“ شروع کیا۔1975میں پندرہ روزہ تنقیحات کا اجراء کیا۔ اس کی ادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ ایمرجنسی کے بعد آپ نے اسے ماہانہ کی شکل میں دوبارہ جاری کیا۔2007میں آپ نے ”وحدت جدید“ کے نام سے ماہنامہ جاری کیا جس کے آپ تادم مرگ ایڈیٹر،پرنٹر اور پبلشر رہے۔

آپ نے بابری مسجد انہدام کے بعد”مجلس تحفظ شعائر اسلام“قائم کی۔۔ اس کے بعد آپ نے ”وحدت اسلامی“ کے نام سے تنظیم بنائی۔جس سے ہزاروں افراد وابستہ ہیں۔اسی تنظیم کا ترجمان ”ماہنامہ وحدت اسلامی“ ہے۔

آپ اچھے اور زود گو شاعر تھے۔میں خود شاہد ہوں کہ مولانا نے قلم اٹھایااور ایک ہی نشست میں پوری غزل کہہ ڈالی۔مولانا کی شاعری سچائی و بیباکی کا مظہر تھی۔انھوں نے غزل کو بھی نہایت تقدس،پاکیزگی اور بلند مقصدیت عطا کی۔میں نے سہارنپور کی کئی ادبی نشستوں میں شرکت کی اور دیکھا کہ شرکاء نے سب سے زیادہ وجدی صاحب کی شاعری کو پسند کیااور انھیں دادو تحسین سے نوازا۔مولانا کے چند اشعار جواب تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں یہاں نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ایمرجنسی کے دوران جب آپ اسیر زنداں تھے تب بھی آپ نے کئی غزلیں کہیں مگر آپ کا شعری سرمایہ محفوظ نہیں رہا۔

صحبت نے برہمن کی سبق کیا سکھا دیا

جو کچھ پڑھا تھا شیخ نے سب کچھ بھلا دیا

اسی خطا کے سبب مورد سزا ہوں میں

بتوں کا راج ہے اور بندہ ئ خدا ہوں میں

آپ کا ایک قطعہ بہت مشہور ہوا:

سوئی ہوئی دنیا کو بیدار کیا ہم نے

فطرت کے ارادوں کا اظہار کیا ہم نے

باطل کی خدائی سے انکار کیا ہم نے

یہ جرم اگر ہے تو سو بار کیا ہم نے

مولاناعطاء الرحمان وجدی 1936 میں سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ دہرہ دون، مسوری اور سہارن پور میں تعلیم حاصل کی۔ بیک وقت اردو، ہندی، اور انگریزی لکھتے اور بولتے تھے۔ عربی زبان سے بھی شغف تھا اور تحریک اسلامی میں شمولیت کے بعد اس کو سیکھنے کے لیے عربی زبان و ادب کی کئی کتابیں پڑھیں۔ چونکہ ہر انسان ایک مدت خاص کے لیے ہی دنیا میں رہ سکتا ہے،جس نے ماں کی گود دیکھی ہے اسے آغوش قبر بھی دیکھنی ہے۔موت کسی کو نہیں چھوڑتی۔کائنات کے اسی مسلمہ قانون کے تحت اس مرد مجاہد نے بھی طویل علالت کے بعد دہرہ دون کے میکس ہاسپٹل میں آج (29/جون2024 کی صبح)دنیا کو خیر آباد کہہ دیا اور اس رب کی رحمت کا مستحق ٹھہرا جس کے نام کی سربلندی کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک پل اور اپنے مال کی ایک ایک رتی صرف کردی۔جس کے لیے شدائد و محن برداشت کیے۔آج جب اس کی روح ملائے اعلیٰ کی جانب گئی ہوگی تو فرشتوں نے یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہوگا۔:

اے نفس مطمئنہ!لوٹ چل اپنے رب کی طرف، اِس حال میں کہ تواپنے رب سے راضی ہے اور تیرا رب تجھ سے راضی ہے۔

شامل ہو جا میرے بندوں میں۔اور داخل ہو جا میری جنت میں۔(الفجر27تا30)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare