کتابوں کا مسیحا

معصوم مرادآبادی

آج مکتبہ جامعہ کے سابق جنرل منیجر شاہد علی خاں کی چوتھی برسی ہے۔ انھوں نے 21 اپریل 2021 کو وفات پائی ۔ میں نے ان کے انتقال پر ایک مختصر تعزیتی مضمون لکھا تھا جو آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔ شاہد علی خاں محض ایک شخص نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت ایک ادارے سے بھی بڑھ کر تھی۔ انھوں نے مکتبہ جامعہ کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا ۔مکتبہ جامعہ سے ان کی علاحدگی کے بعد یہ ادارہ اس انداز میں بکھرا کہ آج آخری سانسیں گن رہا ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں ، وہ جا معہ ملیہ اسلامیہ بھی نہیں جس کے پاس اس کے 90 فیصد شیئرز ہیں ۔ شاہد علی خاں پر میرا مضمون ملاحظہ فرمائیں

کتابوں کا مسیحا
کتابوں کا مسیحا

آج(21 اپریل 2021) صبح کی اولین ساعتوں میں شاہد علی خاں کا نام بھی مرحومین کی مسلسل طویل ہوتی جارہی اس فہرست میں شامل ہو گیا جسے دیکھ کر ہر ہر شخص حیران ہے۔ وہ کچھ عرصہ سے بیمار ضرور تھے لیکن گفتگو میں اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ انھیں اپنے مالک حقیقی سے ملنے کی کوئی جلدی ہے۔ حالانکہ وہ عمر طبعی کو پہنچ چکے تھے اور صحت کے مسائل نے انھیں گھر کی چاردیواری میں سمیٹ کر رکھ دیا تھا۔سماعت کمزور ہوجانے کی وجہ سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے تھے ،لیکن لہجہ وہی نرم اور گداز رہتا تھا جو ان کی خاص پہچان تھی۔ یادداشت بھی کمزور ہوگئی تھی لیکن اپنے چاہنے والوں کو دور سے پہچان لیتے تھے ۔ وہ کھرے پٹھان تھے اور ان کا وطنی تعلق میری طرح غیور روہیلہ پٹھانوں کے اس قبیلے سے تھا جو روہیلکھنڈ کے اضلاع بریلی، رامپور اور مرادآباد وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔

شاہد علی خاں نہ کوئی ادیب تھے، نہ شاعر اور نہ صحافی مگر ملک کا کوئی ایسا سرکردہ قلم کار نہیں تھا جو ان کی دسترس میں نہ ہو۔ وہ بہت غیر ت دار انسان تھے اور اسی غیرت نے انھیں مکتبہ جامعہ سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔ وہی مکتبہ جس کو چارچاند لگانے میں انھوں نے اپنی ساری عمر لگادی تھی۔ مکتبہ جامعہ کے بغیر شاہد علی خاں اور شاہد علی خاں کے بغیر مکتبہ جامعہ کا تصور ہی محال تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مکتبہ سے ان کی علیحدگی کے بعد اس ادارے کی جان ہی نکل گئی۔ پچھلے دنوں جب مکتبہ جامعہ کی زبوں حالی پر میں نے ایک مضمون لکھا تو وہ اس بات پر ناراض ہوگئے کہ اس مضمون میں ان کو مکتبہ سے علیحدہ کرنے کی بات کیوں لکھی گئی ہے۔ وہ تو خود مستعفی ہوئے تھے۔ میں نے اس سہو کے لئے ان سے معذرت کی اور معاملہ رفع دفع ہوا۔ حالانکہ طویل تعلقات کے دوران وہ کبھی مجھ سے ناراض نہیں ہوئے اور مجھے ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھا۔ جب بھی میری کوئی نئی کتاب آتی تو مبارکباد کا پہلا فون شاہد علی خاں کی طرف سے آتا تھا۔ وہ کہتے” میاں کتاب اولاد کی طرح ہوتی ہے۔” وہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ بڑی محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے ۔ ان کے پاس بیٹھ کر کسی گھنے سایہ دار درخت کی چھاؤں کا احساس ہوتا تھا ۔ انھوں نے نہ جانے کتنے لوگوں کو صاحب کتاب بنایا۔

جس زمانے میں وہ مکتبہ جامعہ کے جنرل منیجر تھے تو میں نے انھیں بارہا پرانی دہلی کے گلی کوچوں میں کبھی کاغذی، کبھی پریس ، کبھی فلم میکروں، کبھی ٹائیٹل ڈیزائنروں اور کبھی بائنڈروں کے ساتھ ماتھا پچی کرتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ یہ کام ان کے ماتحتوں کا تھا مگر مکتبہ کا جنرل منیجر ہونے کے باوجود وہ سب کام خود ہی کرتے تھے تاکہ رنگ چوکھا آئے۔ انھوں نے مکتبہ جامعہ سے بڑوں اور بچوں کے لئے اتنی ارزان قیمت پر کتابیں چھاپیں جن کا آ ج کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

ان کی پوری زندگی کتابوں کے درمیان گزری ۔ انھوں نے ہزاروں کتابوں کی زلفین سنواریں اور ان میں چارچاند لگائے۔ ان کی بیش بہا خدمات کا ثبوت نصیر الدین ازہر کی مرتب کردہ وہ قیمتی کتاب ہے جس میں اردو ہر بڑے ادیب نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ کتاب کانام ہے ” شاہد علی خاں: ایک فرد ،ایک ادارہ "

شاہد علی خاں کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمہ جہت صلاحیتوں کے انسان تھے ۔ وہ مکتبہ جامعہ کے معیاری جریدے ” کتاب نما ” کے بھی ایڈیٹر تھے اور انھوں نے اس کے لئے مجھ سے اردو صحافت پر باصرار مہمان اداریہ لکھوایا تھا جو وہ ہر شمارے کے لئے کسی سرکردہ ادیب یا صحافی سے لکھواتے تھے۔

وہ ایک نہایت سرگرم انسان تھے اور ان کا دل ہمیشہ کتابوں میں لگتا تھا ۔ مکتبہ جامعہ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ گھر نہیں بیٹھے بلکہ انھوں نے ” نئی کتاب” کے نام سے نہ صرف ایک ادبی جریدہ نکالا بلکہ اسی نام سے ایک مکتبہ بھی قائم کیا جہاں وہ روزانہ بیٹھتے تھے اور اسی طرح محفل جمتی تھی جیسی کہ بمبئی میں مکتبہ جامعہ کی شاخ میں جمتی تھی ۔ بمبئ میں انھوں نے اچھا خاصا وقت گزارا تھا اور وہاں کے سبھی بڑے ادیب اور شاعر ان سے ملنے آتے تھے ۔ افسوس کہ ان کے جنازے میں مکتبہ جامعہ کے محض دو لوگوں نے شرکت کی۔

اپنے محسن شاہد علی خاں کو خراج عقیدت کے طور پر یہ چند بے ترتیب جملے لکھتے وقت مجھے اپنے کرم فرما محترم اظہر عنایتی کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔

راستو، کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے

میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیئے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare