” کیوں “
معصوم مرادآبادی
محمدعلی حیدر نقوی (عرف بھائی ممّا) مشہور ہدایت کاراور مکالمہ نویس کمال امروہی کے برادرنسبتی ہیں۔ اس رشتہ سے وہ جون ایلیا کے بھی قریبی رشتہ دار ہیں۔ جون ایلیا جب بھی دہلی آتے تو ان ہی کے مہمان ہوتے تھے۔ گزشتہ روز’بھائی ممّا‘نے فون پر مجھ سے کہا کہ وہ نئے سال کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ تشریف لائے تو ان کے ہاتھوں میں جون ایلیا کا تازہ مجموعہ ’کیوں‘ تھا۔ انھوں نے اس مجموعہ کے ساتھ میری اور اپنی تصویر اتروائی اورکافی پی کرچلے گئے۔
جون ایلیا میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان سے متعلق کوئی بھی نئی چیز منظرعام پر آتی ہے تو اس میں میری دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح جون ایلیا کی شاعری اور شخصیت ہمیں چونکاتی ہے، اسی طرح ان کے مجموعوں کے نام بھی ہماری جستجو میں اضافہ کرتے ہیں۔”کیوں“ بھی اسی صف میں شامل ہے۔ اس سے قبل ان کے جو پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں، ان کے نام ’شاید‘،’یعنی‘،’گمان‘،’لیکن‘ اور ’گویا‘ ہیں۔ جون ایلیا کا یہ مجموعہ کلام ان کے انتقال (8/نومبر2002)کے بائیس برس بعد شائع ہوا ہے۔ ان برسوں سے جون کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ ’شاید‘ بھی شاعری شروع کرنے کے تیس برس بعد منظر عام پر آیا تھا اور وہ بھی ان کے دوستوں کی بڑی جدوجہدکے بعد۔ ’شاید‘ان کی زندگی میں شائع ہونے والا ان کا واحد مجموعہ تھا۔ اس کے بعد جو بھی مجموعے شائع ہوئے ان کی صورت گری میں جون کے قریبی ساتھی خالد احمد انصاری کا بڑا دخل رہا۔ ’کیوں‘ کی صورت گری بھی خالداحمدانصاری ہی نے کی ہے اور یہ مجموعہ ہندوستان اور پاکستان میں ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔
جون ایلیا نے شاعری میں خود کو تمام کیا تھا اور ان کے چاہنے والے ان کی شاعری میں تمام ہیں۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی یادداشت میں جون ایلیا کے سب سے زیادہ اشعار محفوظ ہیں۔ میں نے کئی بار جون ایلیا کو قریب سے دیکھا اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان کی بے چین کردینے والی شاعری سنی۔ بلاشبہ جون ایلیا بے چین رہنے اور بے چین کرنے والے ہی شاعر تھے۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ان کی یہ بے چینی خود ان ہی کی ایجاد کردہ تھی۔ بقراط جیسے ذہن کے مالک جون ایلیا ذاتی زندگی میں اس بچے کی مانند تھے جو اپنی ضد کے آگے سب کو مجبور وبے بس کردیتا ہے۔وہ جتنے بہترین شاعر تھے، اتنے ہی لاابالی انسان بھی تھے۔انھوں نے جن اذیتوں کے ساتھ زندگی گزاری وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ جون کا ذکر آئے تو قلم رکنے کا نام نہیں لیتا، لیکن آج میں ان کے تازہ مجموعہ کلام پر ہی گفتگو کروں گا۔
خالد احمد انصاری علم وادب کی دنیا میں کوئی معروف نام نہیں ہے۔وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ انھیں بقول شکیل عادل زادہ ”علم وادب کا ذوق، شعروادب کاری کا کوئی دعویٰ نہیں لیکن وہ طبعاًعشق پیشہ اور جون ایلیا کے عاشق صادق ہیں۔ 1992سے لے کر 2002 تک جون کے قریب ترین حلقہ احباب میں شامل رہے ہیں اور جون کے کئی مجموعوں کی اشاعت میں ان کی شبانہ روز کاوشوں کا بڑا دخل ہے۔زیرتبصرہ مجموعہ کلام ’کیوں‘ بھی ان ہی کا مرتب کردہ ہے۔ شکیل عادل زادہ نے اس مجموعہ کے مختصر ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ ”خالد یہ کارنامہ سرانجام نہیں دیتے توسرمایہ ناز، مایہ افتخار جون ایلیا کے ادھر ادھر بکھرے، چھُپے ہوئے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ اشعار کے یہ مجموعے، کون جانے کس طور ان کے مداحوں تک رسا ہوتے۔“(ص 14)
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جون ایلیا کے پہلے مجموعہ کلام ”شاید“ کی صورت گری شکیل عادل زادہ کے ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کے دفتر میں ہوئی تھی اور اس میں شکیل عادل زادہ ہی نہیں ان کے دفتر کے تمام لوگوں نے سرکھپایا تھا۔ جون ایلیا نے اس کے پیش لفظ ’نیازمندانہ‘ میں شکیل عادل زادہ اور ان کی پوری ٹیم کا ڈھیروں شکریہ ادا کیا ہے۔
332صفحات پر مشتمل تازہ مجموعے ’کیوں‘ میں جون کی وہ شاعری ہے جو اب تک ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی ابتداء ’سوز عشق‘کے عنوان سے ہوتی ہے جس میں شکیل عادل زادہ نے اس مجموعہ اور مرتب کا مختصر تعارف کرایا ہے۔اس کے بعد عدیل زیدی نے ’جون ایلیا۔شخص نہیں شخصیت‘ کے عنوان سے اس کتاب کا تعارف کرایا ہے۔ عدیل زیدی امریکہ میں مقیم علم وادب کی دلدادہ شخصیت ہیں۔ اس کے بعد خالد احمد انصاری نے ”جون کروں گے کب تلک“ میں اس مجموعہ کی گرہ کھولتے ہوئے لکھا ہے:
”یہ چھٹا شعری مجموعہ ’گویا‘ کی اشاعت کے 16سال بعد شائع ہورہا ہے۔اس تاخیر کے بہت سے اسباب ہیں۔ سرفہرست سوشل میڈیا کا وہ ڈرامائی کردار ہے جس نے سب کچھ تہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔جون یکایک ایسے چھائے کہ بڑے بڑے نام ان کے سامنے دھندلاگئے۔ ان کے جعلی اشعار کی بھرمار، اس پر لوگوں کی واہ واہ دیکھ کر ہمت ہی نہ ہوئی کہ اس کارِجون ؔکو مزید دراز کیا جائے۔ پر دیوانہ کہاں باز آتا۔“(ص 19)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب سے سوشل میڈیا کا غلبہ ہوا ہے جون اس کے سب سے پسندیدہ شاعر ہیں۔ جون کی شاعری پر وہ نوجوان بھی سردھنتے ہیں جو اردو نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے میں جون اور ان کی شاعری پر ہندی میں بھی کتابیں منظرعام پرآئیں۔ جون کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اوران کی شاعری مقبولیت کی نئی بلندیاں چھورہی ہے۔ اردو شاعری میں ایسی مقبولیت کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ ’کیوں‘ میں شامل ان کی بھتیجی رخسار زہرہ(کمال امروہی کی بیٹی)کا ایک خاص مضمون بھی شامل ہے جو ان کے چچا جون کی ذاتی زندگی کی پرتیں کھولتا ہے۔ جون ایلیا 1957میں ہجرت کرکے پاکستان ضرور چلے گئے لیکن ان کا وجود ان کے وطن امروہہ ہی میں رہا۔ 1975میں جب وہ پہلی بار ہندوستان آئے تو اس کیفیت کا آنکھوں دیکھا حال رخسار نے یوں بیان کیا ہے:
”انھوں نے امروہہ کے اسٹیشن پراترتے ہی اپنے وطن کی مٹی کو چوم لیا۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو بڑے مکان کی زمین پر لیٹ گئے اور بڑے مکان کی زمین کی خاک اپنے سرپہ ڈال لی۔ وہ کبھی کسی سے گلے مل کر رورہے ہوتے تھے، کبھی کسی کی پیٹھ پر چڑھ جاتے، کبھی اپنی بڑی بڑی زلفوں کو جھٹک جھٹک کر ہائے ہائے کرتے۔“(ص 27)
جون کی اس کیفیت کا بیان اس سے پہلے بھی ہوا ہے، لیکن رخسار زہرہ نے اس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔جون نے امروہہ سے بچھڑ کر جو غلطی کی تھی اس کا احساس انھیں زندگی بھر ہوتا رہا اور وہ اپنی قسمت کو کوستے رہے۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ”میں پاکستان جاکر ہندوستانی ہوگیا۔“جون کے اس مجموعہ میں ان کی غیر مطبوعہ غزلوں اور نظموں کے علاوہ ان کی لکھی ہوئی قوالیاں، منظوم خطوط بھی شامل ہیں۔اس مجموعہ میں خالد احمد انصاری نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اس کے بعد ایک مجموعہ کے بقدر کچھ کلام ان کے پاس اورموجود ہے۔ انھوں نے سوچا ہے کہ جون کی آنے والی کلیات ”کن“ میں شامل کرکے اپنا کام مکمل کردیں گے۔”کیوں“ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہیں معلوم کیا ہوا مجھ کو
نہیں معلوم تجھ میں کیا نہ رہا
بازار میں بیزار ہی پھرتے ہوجو خود سے
پھر گھر میں تو وحشت بھی ہے گھر کیوں نہیں جاتے
مے کدہ بند ہوچلا، آپ کا کوئی گھر نہیں
اُٹھ کے یہاں سے جائیں گے، حضرت ِمحترم کہاں
اس کتاب کا عجیب وغریب ٹائٹل مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے راؤ احمد شکران نے تخلیق کیا ہے۔ بعد کو دانش رضا نے اسے ایلیائی رنگ دیا۔ہندوستان میں یہ کتاب ریختہ اور عبارت پبلی کیشنز نے مشترکہ طورپرشائع کی ہے۔کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔9810780563