گلوبلائزیشن اور اسلام
تبصرہ نگار: محمد صادق مظاہری
” گلوبلائزیشن اور اسلام “ ہماری لائبریری کی ان کتابوں میں سے ہے جس کا ہم نے کئ بار مطالعہ کیا اور ضرورت کے پیش نظر وقتا فوقتا مختلف مقامات سے پڑھتا رہتا ہوں ، جس زمانے میں یہ کتاب تصنیف کی گئ اردو میں اس موضوع پر اس وقت بہت کم مواد موجود تھا اس کے برخلاف عربی میں یہ خوب لکھا اور بولا جارہا تھا۔
دراصل مغرب نے اسلامی نظام کی آفاقیت وعالمیت کے مقابلے میں ایک ایسا نظام پیش کیا جس کے نفاذ سے وہ خیال وہ کر رہا تھا کہ اسلامی نظام کی روشنی ماندھ پڑجاۓ گی لیکن ایسا اس لۓ ممکن نہیں تھا کہ وہ جس نظام سے اسلامی نظام کے مقابلے کی کوشش کر رہا تھا اس کے اندر روح ہے نہ جان ۔۔۔ اس کی بنیاد اتنی کمزور ہے کہ جس پر شعبہاۓ زندگی کی عمارت کو کھڑا نہیں کیا جاسکتا ، تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب بھی ایسی کوشش کی گئ تو انسان انسانیت کی راہ سے ہٹ کر حیوانیت ودرندگی کے راستے پر پڑ گیا ، جتنے نظام انسانی دماغ نے بناۓ اور انسانوں پر ان کو نافذ کیا ان کے اچھے نتائج ظاہر نہیں ہوۓ بلکہ ظالموں ، جابروں نے شریفوں ، عزت داروں کو دبایا اور کمزورں وماتحتوں پر ظلم وجبر کیا۔
مصروایران ہو یا روم ویونان سب کی تاریخی داستانیں کتابوں کے اندر موجود ہیں کہ کیسے ان کے باطل نظاموں نے انسانوں کو یرغمال بنایا اور ان کا استحصال کیا۔
ایسا ہی ایک نظام یہ بھی ہے جس کو دنیا عالم گیریت ( گلوبلائزیشن ) کے نام سے جانتی ہے مغرب نے بد نما چہرے پر خوبصورت نقاب ڈال کر اس کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا نے اس کو اس معنی کر قبول کیا کہ اس کا نقاب بہت اچھا ہے لیکن بدنما چہرے سے واقفیت حاصل نہیں کی۔ اس کا آپریشن ہمارے محترم وقابل قدر دوست مفتی یاسر ندیم الواجدی نے کیا اور اس کے خوفناک چہرے سے نقاب اٹھایا۔
اور یہ واضح کیا کہ کیسے اسلامی نظام کے مقابلے میں اس باطل نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئ۔۔۔ اور کیسے سیاست ہو یا معیشت ، تہذیب ہو یا ثقافت ، زبان ہو یا ادب ہر ایک چیز کو اس کی لپیٹ میں لینی کی کوشش کی گئ ہے ، اس باطل نظام کے پیچھے صلیبیوں وصیہونیوں کے کیا کیا ناپاک ارادے پنہاں ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ کتاب اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتی ہے ، اس میں موضوع کا حق ادا کرنے کی مکمل کوشش کی گئ ہے ، کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے خوب پڑھا گیا ہے پھر لکھا گیا ہے۔ موضوع کے ہر گوشے کو کھولنے کی کوشش کی گئ ہے پھر اس پر اپنے قیمتی مطالعے کی روشنی میں جگہ جگہ پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے اور جو اقتباسات نقل کۓ گۓ ہیں ان کے حوالے بھی موجود ہیں۔
کتاب کو چھ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اور ہر باب میں جدا جدا مباحث پر روشنی ڈالی گئ ہے جس سے خلط مبحث بھی نہیں ہوا ، کتاب تکرار سے بھی پاک رہی اور معلومات وافر مقدار میں جمع ہوگئیں۔
موضوع کی تعریف اور پس منظر کو بیان کیا گیا اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئ ہے اور انسانی دنیا میں اس کے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کیا گیا ہے ، اس کے نفاذ سے دین وثقافت سے پیدا ہونے والے دوری کی نشاندھی کی گئ ہے جس کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں عام ہونے والی خود غرضی ، بے راہ روی ، بد اخلاقی کا بھی اشارۃ وکنایۃ ذکر موجود ہے اور ان سے حاصل ہونے والی بے حسی ، ذہنی وفکری انارکی کی طرف بھی اشارے کۓ گۓ ہیں۔
چناں چہ پہلے باب میں عالم گیریت کو ایک فتنہ قرار دیا گیا اور پھر اس کے خار دار درخت کو کن باطل افکار ونظریات سے پروان چڑھایا گیا ہے اس کی تفصیل موجود ہے درمیان میں ” اسلام عصبیت سے پاک ہے “ اس پر بھی بحث کی گئ ہے تاکہ اسلام کی حقانیت عیاں ہوجاۓ۔
دوسرے باب میں سیاسی عالم گیریت کا بیان ہے اوراس کے متعلق مباحث کو ذکر کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں مادیت پرستی و عالم گیریت اور اس کے متعلقات کا ذکر ہے چوتھے باب میں ثقافتی بالا دستی اور اس کے ذیل میں زبان میں عالم گیریت کا بیان ہے۔ پانچویں باب میں معاشرتی عالم گیریت کا بیان ہے اور چھٹے باب میں اسلام کی عالم گیریت کا بیان ہے جو در حقیقت ذکر کردہ موجودہ عالم گیریت کا جواب اور رد ہے۔
کتاب میں سلیس زبان اور اچھی تعبیرات کا سہارا لیا گیا ہے کمال یہ ہے کہ مصنف نے یہ کتاب نو عمری میں لکھی ہے جب وہ دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے لیکن بحمد اللہ کسی موقع پر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی نو خیز قلم کار اس کو لکھ رہا ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی کہنہ مشق مصنف کی تصنیف ہے ویسے تو یہ کتاب لائق مطالعہ ہے ہی لیکن حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ کے معلومات سے پُر شاندار مقدمہ نے اس کو مزید باوزن بنادیا اور ان کا قلم بھی اپنی جولانیاں دکھارہا ہے اور لعل وگوہر بکھیرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
مختصر یہ کہ یہ کتاب ہر صاحب علم وفن کو پڑھنی چاہۓ تاکہ حالات حاضرہ کا علم ہو اور اُسی معیار پر فکروسوچ کا مزاج بنے اور امت مسملہ کو پیش آمدہ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، تعلیمی ، دینی مسائل کا حل پیش کرنے کا سلیقہ آۓ۔
کتاب ٤٣٤ صفحات پر مشتمل ہے آخر میں ایک اشاریہ بھی لاحق کیا گیا ہے جس کے اندر کتاب میں مذکور شخصیات کے ناموں کا ذکر ہے اور ان رسائل وجرائد ، کتابوں اور اخباروں کے نام موجود ہیں جن سے اس کتاب کے اندر استفادہ کیا گیا ہے کتاب کا ٹائٹل بھی خوبصورت ہے ، دارالکتاب دیوبند سے شائع ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔