ہندوستان میں مسلم سیاسی قیادت کا قضیہ

( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، جمہوریت میں آئین کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے ، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ملک کے آئین کو بالا دستی حاصل ہے ، اسی کے تحت ہندوستان کے انفرادی ، سماجی اور سیاسی امور انجام پاتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلم سیاسی قیادت کا قضیہ
ہندوستان میں مسلم سیاسی قیادت کا قضیہ

ہمارے ملک کے آئین نے ہمیں بہت سے حقوق عطا کئے ہیں ، ان میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ ہم ووٹ کے ذریعہ اپنی پسند کے لیڈر کا انتخاب کر کے اچھی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں ، اس طرح ووٹ دینے کا حق نہایت ہی اہم حق ہے۔

ازادی سے پہلے ہمارا ملک بدقسمتی سے تقسیم ہوگیا ، مسلم سماج کے اکثر بڑے اور خوشحال لوگ نئے ملک میں چلے گئے ، مسلم سماج کے نہایت ہی کم تعداد میں دبے کچلے کمزور لوگ ہندوستان میں رہ گئے ، تقسیم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد اتنی کم ہوگئی کہ تحریک آزادی میں حصہ لینے والے مسلم مجاہدین آزادی بالخصوص علمائے کرام مایوسیوں کے شکار ہوگئے ، بالآخر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے انہوں نے ملک میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے کوشش شروع کی ، اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا کی ، اور ملک میں جمہوریت کا قیام عمل میں آیا ، جس کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگوں کو تحفظ حاصل ہوا۔

تقسیم سے پہلے مسلمان اور برادران وطن کی ابادی تقریبا برابر تھی ، یا فرق بھی تھا ،تو بہت کم کا فرق تھا ، یہی نہیں ،بلکہ بعض اسٹیٹ میں تو ان کی ابادی اتنی تھی کہ اکثریت میں تھے ، علم ،خوشحالی اور دبدبہ میں کسی سے کم نہیں تھے ، مسلم قائدین اتنے مضبوط تھے کہ وہ جو چاہتے تھے ،وہی ہوتا تھا ، مگر جب ملک تقسیم ہوگیا ، تو ملک میں اکثریت کمزور لوگوں کی رہ گئی ، مسلم سماج کا دبدبہ اور اثر و رسوخ اتنا کم ہوگیا کہ وہ تقریبا صفر پر آگیا ، جمعیت علمائے ہند جو تحریک آزادی میں پیش پیش تھی ، ملک کے حالات کو دیکھ کر اس نے یہ تجویز منظور کی کہ جمعیت علماء ہند اب سماجی اور رفاہی تنظیم کی حیثیت سے کام کرے گی ، چونکہ اس وقت کے مسلم قائدین نے اپنی فراست سے یہ سمجھ لیا کہ ملک میں مسلمانوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر اپنا دعویٰ پیش کر کے اپنا حصہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں ، اس لئے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے انہوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ برادران وطن کے ساتھ مل کر سیاست میں حصہ لیا جائے ، تاکہ مسلمانوں کو سہارا ملے ، اس طرح یہ حضرات اپنی سیاسی حکمت عملی میں کامیاب رہے۔

آزادی کے بعد سے ملک میں نفرت کا ماحول شروع ہوا ، اور اسی کو بنیاد بناکر ایک طبقہ کام کرتا رہا ، اور اپنے ہم خیال برادران وطن کو متحد کرتا رہا ، آزادی کی 6/ دہائیوں کے بعد انہیں ایسے حالات ملے کہ نفرت سے ملک کی فضا کو مکدر کردیا ، اور ملک کے بسنے والوں کو مسلمان اور ہندو کے درمیان تقسیم کردیا ، اب مسلم الگ ہیں اور برادران وطن کا بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہے ، جبکہ اس مکدر ماحول میں بھی برادران وطن میں سے بڑی تعداد میں لوگ نفرت کے ماحول سے دور ہیں ۔

موجودہ وقت میں ملک نفرت سے دو چار ہے ، برادران وطن میں سے اکثریت نفرت کے جال میں پھنس چکی ہے ، آپسی میل و محبت میں دڑاڑ پیدا ہو گیا ہے ، اب دو طبقے الگ الگ ہیں ، ہندو اور مسلمان کے درمیان مذہبی منافرت پیدا کردی گئی ہے ، جس کی وجہ سے حالات تشویشناک ہیں ،

پہلے ملک میں نفرت کا ماحول نہیں تھا ، ذات برادری کی بھی عصبیت نہیں تھی ، سب آپس میں مل جل کر رہتے تھے ، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آتے تھے ، جب الیکشن کا موقع آتا ،تو سب مل کر اچھے امیدوار کی جیت کو یقینی بناتے تھے ، مگر موجودہ وقت میں حالات بالکل بدل گئے ہیں ،

موجودہ وقت میں ہمارے ملک کے اکثر بڑے علماء اور دانشوران اور ملی تنظیموں کے قائدین تقریبا اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان جیسے کم ابادی والے ملک میں اپنی سیاسی قیادت پر زور دینا صحیح نہیں ہے ، اس سے آپسی رنجش بڑھے گی اور مسلمان دشواری میں گھر جائیں ، جبکہ کچھ حضرات جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو وہ مسلم سیاسی قیادت کا سوال اٹھانے لگتے ہیں ، جس کی وجہ مسلمانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جمہوری نظام میں ہار اور جیت کا معاملہ ووٹ کی کمی اور زیادتی پر ہوتی ہے ، جس کو زیادہ ووٹ حاصل ہوتا ہے ، وہ جیت جاتا ہے ،اور جس کو کم ووٹ آتا ہے ،وہ ہار جاتا ہے ، موجودہ وقت میں ملک کے حالات کے اعتبار سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلم امیدوار صرف مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل کر سکتا ہے کہ نہیں ؟ جب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے ،جو مندرجہ ذیل ہے۔

(1) ملک کے موجودہ ماحول میں ایسے امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں ، جنہیں مسلمان اور برادران وطن سب مل کر ووٹ دیں ،
(2) مسلم امیدوار صرف مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل نہیں کر سکتا ہے ، کیونکہ مسلمانوں میں سے ووٹ دینے والے افراد کی تعداد تقریباً 18/ فیصد ہے ، اس میں سے نصف یعنی 9/ فیصد ووٹ پول ہوتا ہے ، 9/ فیصد ووٹ سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے ، بلکہ کامیابی کے لئے تقریبا 35/ فیصد ووٹ چاہئے ، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ مسلمان صرف اپنے مسلمان کے ووٹ سے جیت نہیں سکتا ہے ، جب تک کہ کوئی دوسرا اس کو ووٹ نہیں دے ، برادران وطن کا ووٹ حاصل نہیں ہوگا ، چونکہ مسلم برادران وطن سے الگ ہوکر الیکشن میں کھڑا ہوا ہے۔

(3) موجودہ وقت میں نفرت کا ماحول صاف دیکھنے میں آتا ہے کہ برادران وطن میں سے جو فرقہ پرست طاقتوں سے متاثر ہوگئے ہیں ، وہ مسلم امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے ہیں ، پھر تنہا مسلم ووٹ جو 9/ فیصد ہے ،اس پر جیت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ جو امیدوار ایسی پارٹیوں سے مل کر الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں ،جن کی بنیاد مسلمان ہے ، تو ایسے امید جیت حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔

(4) ویسے جب مسلم امیدوار کسی سیکولر پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں ، تو وہ الیکشن میں جیت جاتے ہیں ، کیونکہ انہیں مسلمانوں کا ووٹ بھی ملتا ہے اور پارٹی کیڈر کی حیثیت سے برادران وطن کا بھی ووٹ مل جاتا ہے ، اس لئے مسلم امیدوار دونوں کے ووٹ ملنے کی وجہ سے جیت جاتے ہیں۔

(5) آج پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی جو تعداد نظر آتی ہے ،ان میں سے دو تین کو چھوڑ کر کسی سیکولر پارٹی خواہ نام نہاد ہی صحیح سے جیت کر آئے ہیں ، اگر اپنی سیاسی قیادت پر زور دیتے رہے گئے ، تو مسلمان کٹ کر رہ جائیں گے ،آور جو تعداد ہے ،وہ تعداد بھی صفر ہو جائے گی۔

مذکورہ تجزیہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ہندوستان جیسے مسلم اقلیت والے ملک میں جہاں ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے ، صرف مسلمان کے ووٹ سے مسلم امیدوار نہیں جیت سکتے ہیں، اس لئے مسلم سیاسی پارٹی اور مسلم سیاسی قیادت کی فکر ہندوستان کے تناظر میں صحیح نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ آزادی سے پہلے ملک کی تقسیم کے بعد اکابر علماء اور دانشوران نے اس فکر کو خارج کردیا اور مسلمانوں کی رہنمائی کی کہ برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کریں ،تاکہ شر اور فتنہ سے محفوظ رہیں ، یہی لائحہ عمل ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مناسب ہے ، اسی پر عمل کر کے مسلمان شر اور فتنہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ہندوستان جیسے ملک میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ملک کے آئین کا سہارا لینا چاہئے ، ملک کے آئین نے اقلیتوں کو بہت سے حقوق دیئے ہیں ، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے حوصلہ سے کام لینے کی ضرورت ہے ، خلاصہ یہ کہ ہندوستان میں آزادی کے بعد مسلم اقلیت کا مسئلہ سیاسی قیادت کبھی نہیں رہا ، بلکہ مسلم سماج کے مسائل میں تعلیم ، معاش و اقتصادیات ، اور شر و فتنہ سے بچنے کے لئے فرقہ وارانہ کم آہنگی اور قومی یک جہتی جیسے مسائل اہم رہے ، اس لئے موجودہ وقت میں اسی نہج پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، اللہ تعالیٰ اکابر کے طریقے پر چلنے اور غور و فکر کی توفیق عطا فرمائے ، جزاکم اللہ خیرا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare