بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور بگڑتی صورتحال
بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور بگڑتی صورتحال

بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور بگڑتی صورتحال

مفتی غالب شمس قاسمی ✍️

بوکھلاہٹ میں انسانی دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے، عجیب و غریب حرکتیں اس سے سرزد ہونا معمول کی بات ہوتی ہے، بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا حال بے حال ہے، رام مندر کا نشہ عام آدمی پر چڑھ نہیں رہا، کشمیر کا 370 آرٹیکل ہلکا پھلکا سا مدہوش کر رہا ہے، لیکن حواس باقی ہیں، مہنگائی نے دنگائی ذہنیت والوں کی بھی نیندیں اڑا رکھی ہیں، اسی لئے اس بار مودی کی گارنٹی کی ہوا نکل رہی ہے، عام آدمی سمجھ چکا ہے کہ اسے دس سال سے بے وقوف بنایا گیا ہے ، بی جے پی کا انتخابی دعویٰ اب کی بار چار سو پار جھوٹا ثابت ہونے والا ہے۔ ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں پچھلی بار کے مقابلے ماحول پھیکا پھیکا سا رہا، اور دس فی صد کم رائے شماری محفوظ کی گئی، ملک کی سیاسی اور عوامی فضا اس بار بر سرِ اقتدار جماعت کے خلاف ہے، بی جے پی کو بھی اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہے، اسی لئے کھسیانی بلی کھمبا نوچے، گارنٹی دینے والے بر سرِ اقتدار پارٹی کے سربراہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اب اپنا آپا کھو دیا ہے، ان کا حالیہ بیان انتہائی گھناؤنا اور نفرتی ذہن کا عکاس ہے،نفرت انگیز تقریر کرکے انہوں نے ذہنی بے چارگی کو اجاگر کردیا ہے،

راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ "یہ شہری نکسل ذہنیت، میری ماؤں اور بہنوں، آپ کے ‘منگل سوتر’ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اس سطح تک جا سکتے ہیں۔”وزیراعظم مودی نے کہا کہ "کانگریس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ وہ ماؤں اور بہنوں کے ساتھ سونے کا حساب لیں گے، اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے اور پھر اس جائیداد کو تقسیم کریں گے۔ وہ اسے کس میں تقسیم کریں گے – منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کے اثاثوں پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جائیداد کس میں تقسیم کی جائے گی؟ یہ ان لوگوں میں تقسیم کی جائے گی جن کے زیادہ بچے ہیں۔” دراندازوں میں تقسیم کیا جائے گی۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی دراندازوں کے پاس جائے؟ کیا آپ کو یہ منظور ہے؟”۔

جب جب انتخاب کا موقع آتا ہے، مسلمان، پاکستان، اور ہندو خطرے میں ہیں“ کا کارڈ کھیلا جاتا ہے، مودی کی یہ بات کہ کانگریس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ ” وہ ماؤں اور بہنوں کے ساتھ سونے کا حساب لیں گے، اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے اور پھر اس جائیداد کو تقسیم کریں گے۔ وہ اسے کس میں تقسیم کریں گے“ یہ بات کانگریس کے منشور میں کہیں بھی نہیں گئی، منموہن سنگھ کے 2006 ء کے بیان کے سلسلے میں بی بی سی اردو کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ”مودی سابق وزیز اعظم منموہن سنگھ کی 2006 کی تقریر کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں منموہن سنگھ نے اقلیتوں اور دوسرے پسماندہ طبقوں کو بااختیار بنانے کی بات کی تھی تاکہ وہ ترقی کے ثمرات میں حصہ لے سکیں اور کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر ان طبقوں کا پہلا حق ہونا چاہیے“۔

اسی طرح مسلمانوں پر در انداز اور گھس پیٹھیے کا الزام بھی جھوٹا اور غلط ہے، مسلمان ملک بھارت کے حقیقی باشندے ہیں، ملک کے لیے جان نچھاور کرنے والے اور اس کے مفاد کے لیے کام کرنے والے ہیں۔ اسی طرح

وزیر اعظم نے مسلمانوں کو زیادہ بچے جننے والا کہا، یہ بھی جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے، کیوں کہ اعداد و شمار کچھ اور ہی کہتے ہیں، آزادی کے بعد 1951 ء سے 2011 ء تک میں مسلمانوں کی آبادی 136 ملین ( تیرہ کروڑ ساٹھ لاکھ) بڑھی ہے، اور ہندوؤں کی تعداد 676ملین( سڑسٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ) بڑھی ہے، ہندو آبادی مسلمانوں کے مقابلے پانچ فی صد بڑھی ہے، پھر بھی تشدد پسند ذھنیت کے حامل، بر سرِ اقتدار پارٹی کے گرگے وقتاً فوقتاً ایسی جھوٹی بے سر و پا باتیں پھیلاتے ہی رہتے ہیں، اور اب تو باوقار عہدہ پر براجمان وزیراعظم مودی نے بھی اپنی زبان سے نفرتی بھاشا کا کھل کر استعمال کیا، اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کی، دراصل اقتدار کی کرسی کھسکتی ہوئی دیکھ کر وہی پرانا ہندو مسلم کارڈ کھیلا جا رہا ہے، 2002 سے اب تک ان کی زبان سے نفرتی تقاریر کے علاوہ کبھی کوئی بات نہیں آئی۔

Leave a Reply