خورشید پرویز صدیقی : ہم تجھے بھلا نہ پائیں گے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ابن یعقوب خورشید پرویز صدیقی کو دنیا نے الوداع کہہ دیا،9/جنوری 2025مطابق8/جمادیٰ الاخریٰ 1446ھ؁روز جمعرات صبح کے پانچ بجے انجمن اسلامیہ اسپتال رانچی میں انہوں نے آخری سانس لی، دسمبر کے دوسرے عشرے کے اوائل ہی سے ان کی طبیعت علیل تھی، انہوں نے فاروقی تنظیم میں آخری شذرات کا کالم 12/دسمبر2024؁ کو لکھا تھا، پھر اس کے بعد قلم میں طاقت اور جسم میں لکھنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی، جنازہ اسی دن بعد نماز ظہر اٹھا اور نقل مکانی کرکے رانچی کے مدن پور گاؤں میں بس گیے تھے، وہیں کا قبرستان مدفن بنا۔پس ماندگان میں ایک لڑکے کو چھوڑا، پوتا پوتیوں سے بھرا پُرا خاندان ہے۔

خورشید پرویز صدیقی ہم تجھے بھلا نہ پائیں گے
خورشید پرویز صدیقی ہم تجھے بھلا نہ پائیں گے

خورشید پرویز صدیقی بن محمد یعقوب 21/دسمبر1944؁ کو موجودہ ضلع نالندہ کے باڑھ میں پٹھوراچک فتح اللہ جو اب چک فتو کے نام سے مشہور ہے، ان کی نانی ہال باڑھ (نالندہ) تھی، انہوں نے مسلم ہائی اسکول پٹنہ سے میٹرک اور مگدھ یونیورسٹی سے اردو لے کر آنرس کیا، پٹنہ میں پلے بڑھے، سنگم سے جڑے، صدائے عام، پندار، الوطن، ٹائمز جیسے اخباروں کے ساتھ انہوں نے ماہنامہ جام نور پٹنہ، صدائے چمپارن، ہفت روزہ اقلیت پٹنہ سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا، استواری کا یہ سلسلہ پٹنہ سے پینتالیس(45) سالوں تک رہا، جناب امتیاز کریم کی تحریک پر فاروقی تنظیم رانچی سے منسلک ہوئے اور سبزی باغ سے نقل مکانی کرکے رانچی میں مستقل قیام پذیر ہوئے، رانچی کے مضافات میں ایک گھر بنالیا تھا، 1955؁ سے فاروقی تنظیم میں کام کرنا شروع کیا اور پھر ادھر اُدھر نہیں گیے، مستقل مزاجی سے آخری سانس تک فاروقی تنظٰم سے جڑے رہے اور اپنے قلم کی ساری صلاحیت فاروقی تنظیم کو مقبول بنانے میں لگادی، انہوں نے اداریہ کے علاوہ شذرات کا سلسلہ شروع کیا، یہ ایک مقبول کالم تھا، جس میں وہ مذہبی، تاریخی اور کبھی کبھی سیاسی معاملات ومسائل پر اپنی رائے رکھتے تھے، کتابوں پر تبصرے اور شاعروں کی درگت بھی اسی کالم میں وہ کیا کرتے تھے، اسی کالم میں انہوں نے سبزی باغ کی کہانی لکھی اور بہت سارے بھولے بسرے لوگوں کا ایسا مرقع اور سراپا تیار کیا کہ مرنے کے برسوں بعد وہ سبزی باغ میں چلتے پھرتے نظر آنے لگے، یہ ان کی عمر کا آخری دور تھا، لیکن حافظہ غضب کا پایا تھا اور مشاہدہ کی صلاحیت بے پناہ تھی، اس لیے انہوں نے حافظہ کے سہارے سبزی باغ کی ایسی کہانی نقل کی، جو تاریخ بھی تھی اور داستان بھی، حقیقت بھی تھی اور کہانی بھی، اس کالم میں انہوں نے سیرت پاک پر اپنا عمدہ مطالعہ پیش کیا, جسے بعد میں ”بعد از خدا بزرگ توئی“ کے نام سے ایک اہل خیر نے کتابی شکل میں چھپوادیا اور قیمت ایک سو ستاسی (187)صفحات پر مشتمل اس کتاب کی صرف دعاء خیر قرار دیا، انہوں نے اسی کالم عہد وسطیٰ کے بڑے سائنس دانوں کو بھی ہم سے متعارف کرایا، ان کا مطالعہ وسیع تھا، گہرا تھا، گیرائی لیے ہوا تھا، اس لیے ان کے مضامین میں خاصہ تنوع ہوا کرتا تھا، وہ ملی دینی، سیاسی، ادبی اور قومی موضوعات پر لکھتے تھے اور خوب لکھتے تھے، انہیں سراہنا بھی آتا تھا اور بخیہ ادھیڑنا بھی، تعریف کرنی ہو یامذمت وہ بغیر خوف لومۃ لائم کے کرتے، اس معاملہ میں وہ کسی مصلحت کے قائل نہیں تھے، وہ سنگم اسکول کی پیداوارتھے، صحافت بھی اسی انداز کی کرتے تھے، غلام سرور کو پہلے قید میں ڈالا گیا،اور بعد میں بقول کلیم عاجز وہ سیاست کے پنجڑے میں قید ہو گیے، لیکن ان کے ساتھ جنہوں نے کام کیا تھا اور شیر بہار کے پرانے تیور کو دیکھا تھا،ا ن پر ان کا رنگ وآہنگ غالب رہا، خورشید پر ویز صدیقی انہیں میں سے ایک تھے۔

خورشید پرویز صدیقی بے باک صحافی تھے، کہنا چاہیے کہ دنیائے صحافت کے درویش تھے، خود داری، قلندری، رواداری کے آمیزہ سے ان کا کالبد خاکی تیار ہوا تھا، اوسط سے کچھ نکلتا قد، کھلی پیشانی، چاند سا سر، جس کی دونوں طرف بالوں نے ہالہ بنا رکھا تھا،بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر داڑھی اور آنکھوں پر عینک نے بڑھاپے میں بھی انہیں دلآویزی عطا کی تھی۔

مرحوم خورشید پرویز صدیقی سے میری پہلی ملاقات سنگم کے دریا پور والے دفتر میں ہوئی تھی، ایم شمیم جرنلسٹ مدیر ومالک آئین نو کا جواں سالی میں انتقال ہو گیا تھا، ان کے بھائی ہارون رشید نے یہ طے کیا کہ ایم شمیم جرنلسٹ پر ایک مجلہ نکالا جائے، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، ان کے انتقال پر میرا پہلا مضمون قومی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوا تھا، ان کا مکان بھی ابا بکر پور سے قریب خواجہ چاند چھپرہ تھا، پٹنہ میں ان کی رہائش ان دنوں شریف کالونی میں حی کلنک کے برابر میں تھی، ان کی نگاہ مجھ پر پڑی اور مجھے اس کے لیے انہوں نے تیار کر لیا، میرا پٹنہ آنا جانا کم تھا، شخصیات سے واقفیت نہیں تھی، مضامین اور مقالہ نگاروں کی فہرست ہارون رشید صاحب نے ہی تیار کی،

ان میں ایک نام خورشید پرویز صدیقی کا بھی تھا، برادرم ہارون رشید کے ساتھ میں سنگم کے دفتر پہونچا، خورشید پرویز صاحب سے ملا، مضمون کی درخواست کی، ایک ہفتہ میں دینے کا وعدہ کیا، ایک ہفتہ کے بعد حسب وعدہ انہوں نے مضمون حوالہ کیا، عنوان تھا، ”ایم شمیم جرنلسٹ کا خط-عالم بالا سے“، عنوان ہی چونکا نے والا تھا، دلچسپی سے پڑحا، ان کی مزاحیہ اور طنزیہ نثر سے کافی محظوظ ہوا، اس خط میں انہوں نے ایم شمیم جرنلسٹ کی طرف سے لکھا تھا کہ پٹنہ اپنے (پرانے) ہڑتالی مورڑ پر ڈنڈے، مسٹنڈے، اینٹ، پتھر، وغیرہ کی دوکان کھول لو، میں تو جلدی میں چلا آیا،اللہ کا نام لے کرتم لوگ کھول دو، وارے نیارے ہو جائیں گے، ہڑتال کرنے والوں کو سہولت ہوگی کہ سب کچھ کم خرچ میں ایک ہی جگہ مل جائے گا، دیہاتوں سے کرایے پر آدمی نہیں لانے ہوں گے اور تمہاری جیب گرم ہوتی رہے گی، اس خط میں دوسرا مشورہ یہ تھا کہ پٹنہ میوزیم میں خالص گھی کے نمونے جمع کر دو تاکہ آنے والی نسلیں دیکھ کر سمجھ سکیں کہ خالص گھی ایسا ہوتا تھا، ان کا یہ مضمون دوسرے سنجیدہ اور تعزیتی مضامین کی بہ نسبت بہت مقبول ہوا۔

دوسرے سال ایم شمیم کی دوسری برسی پر ہارون رشید صاحب نے قومی یک جہتی پر مجلہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور میرے سر منڈھ دیا، اس بار ہم لوگوں کی درخواست پر اس مجلہ کے لیے انہوں نے چائے پر انشائیہ لکھا طنز وظرافت اس مضمون میں بھی موجود تھی،ا نہوں نے لکھا تھا کہ جب مسلمانوں کے پاس زمینداری تھی، اچھے دن تھے، تو چائے کا کوئی تصور”وائے“ یعنی ناشتہ کے بغیر نہیں ہوتا تھا، زمینداری ختم ہوئی تو اچھے دنوں کی یاد کے نام پر طشتری کپ سے لگادی گئی، لیکن اب مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اچھے دنوں کی یاد بھی سوہان روح ہے، اس لیے طشتری کو سرے سے ہٹا لیا گیا، تاکہ پرانی یادوں سے دور رہا جائے۔

مضامین خورشید پرویز پر کئی شائع ہوئے ہیں، لیکن ان کی طنزیہ نثر پر کسی نے کچھ نہیں لکھا ہے، اس لیے ذرا تفصیل سے اسے لکھ دیا تاکہ ان کی صحافت اور اسلوب کا یہ پہلو بھی لوگوں کے سامنے رہے، خورشید پرویز صدیقی پر مضامین اور تاثرات کا سلسلہ جاری ہے، کچھ ان کی زندگی میں جو لکھا گیا تھا، وہ شائع ہو رہا ہے، اور کچھ بعد از مرگ لکھے گیے ہیں، اسی طرح تعزیتی مجالس کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے، اردو میڈیا فورم نے بھی جس کا میں صدر ہوں، گورمنٹ اردو لائبریری میں 13جنوری کو تعزیتی مجلس دعاء مغفرت کے لیے منعقد کی جس میں ڈاکٹر ریحان غنی، راشد احمد، خورشید اکبر، امتیاز کریمی، اسحاق اثر، ارشد فیروز، انوار الہدیٰ، شہباز احمدو غیرہ نے ان سے متعلق اپنی یادوں کو سمیٹ کر سامعین کی خدمت میں پیش کیا، شرکاء کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی، میں نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ریحان غنی کی اس تجویز کی تائید کی کہ گورمنٹ اردو لائبریری کو خورشید پرویز پر ایک سمینار کا انعقاد کرنا چاہیے، میں نے ارشد فیروز صاحب سے یہ بات بھی کہی کہ خورشید پرویز صدیقی کو گورمنٹ اردو لائبری کی جانب سے ایوارڈ پس مرگ دینا چاہیے، شرکاء نے میری اس تجویز کو سراہا،ا رشد فیروز صاحب نے کہا کہ گورمنٹ اردو لائبریری کی جانب سے نکلنے والے پرچے میں ان پر لکھے گیے مضامین کو شامل کیا جائے گا۔

یہ سب دنیاوی باتیں تھیں، تاکہ ان کی صحافتی خدمات کا قابل قدر اعتراف ہو سکے، اصل کام تو ان کے لیے دعاء مغفرت کا ہے، چنانچہ مجلس کے اختتام پر احقر نے ہی دعاء مغفرت کرائی، تعزیتی نشست کا آغاز بھی میری تلاوت کلام پاک سے ہوا تھا،اب تو ان کے لیے دعاء مغفرت ہی اصل کام ہے، بقیہ ان کے محبین اور مخلصین ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں جمع کر دیں تو یہ بھی کتاب کے شائقین کے لیے مفید چیز ہوگی۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare