” آفتاب جو غروب ہوگیا "ایک مطالعہ
تبصرہ نگار: عین الحق امینی قاسمی
اس وقت میرے ہاتھ میں "آفتاب جو غروب ہوگیا "نامی کتاب اردو زبان میں ہے،ریاست بہار کے معروف عالم دین مولانا آفتاب عالم مفتاحی سابق صدر مدرس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے احوال وآثار ،اوصاف وکمالات پر مشتمل مقالات ومضامین کا دلکش مجموعہ ہے، یہ کتاب مرحوم کی بانصیب اولادوں کی فہمائش پر آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صدر کاروان ادب ویشالی نے مرتب کی ہے ، جس کی ضخامت 182/صفحات تک پھیلی ہوئی ہے ۔مرتب کتاب نے پوری کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے ،باب اول : احوال وآثار ،اوصاف وکمالات ۔ باب دوم : مولانا کی نثری تحریریں ۔باب سوم : ڈائری کے چند اوراق ۔باب چہارم : مولانا کی شاعری۔ مقالات ومضامین کی ہرسطر نہ صرف عقیدت ومحبت میں ڈوبی ہوئی معلوم پڑتی ہے؛بلکہ احسان شناسی اور وسعت ظرفی کی اعلی مثال ہے۔
یقینی طور پرمولانا مرحوم سے یہ عاجز ناواقف رہتا،اگر یہ کتاب ہاتھ نہ لگتی ،بلکہ علم دوست شخصیت مولانا عبدالرحیم بڑہولیاوی دربھنگنوی کی دست فیاضی متوجہ نہ ہوتی۔یقیناً اللہ تعالی نے مولانا مرحوم کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ،کئی جہتوں میں ان کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں ،وہ ملت کا اثاثہ تھے،ایک حلقے میں رجال سازی کے رخ پر انہوں نے خاصا کام کیا ،بلکہ سچ مچ "ایں خانہ ہمہ آفتاب است "کا ادراک اس کتاب سےبہ خوبی ہوتا ہے۔ خدابہترین جزاء دے مرتب کتاب مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب اور مولانا مرحوم کے بچوں کو جنہوں نے غیر معمولی پاکیزہ ذوق وتڑپ سے آرٹ پیپر میں کتاب کو شائع کر کے فی الواقع انہوں نے” آفتاب کو غروب” ہونے سے بچانے کا تقلیدی اور مثالی کام کیا ہے ۔مادیت کے اس دورمیں جس طرح مولانا آفتاب عالم مفتاحی کے خوش ذوق وہونہار بچے بچیوں نے بعد مرگ اپنے والد کی روح کو سکون بخشنے میں فیاضی سے کام لیا ہے ،ان شاء اللہ یہ کتاب مولانا مرحوم کے حق میں بہترین صدیقہ جاریہ ثابت ہوگی۔
تمام مقالہ نگاران ،جن میں مرحوم کے بیٹے بیٹیاں بھی براہ راست شامل ہیں ،سبھوں نے محبت کے قلم سے حرف حرف کو سجایا ہے ،بلکہ طویل و مختصر راہ ورسم کے نتیجے میں بیتے دنوں کی یادوں کی مدد سے دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔کتاب میں شامل مولانا کی نثری تحریروں میں اکبر اور اس کا دین الہی ۔باکردار انسان ۔جہاد :ملت کے موجودہ مسائل کا حل نہیں ۔اور دوٹوک اچھا نہیں لگا جیسے مضامین کافی دلچسپ ہیں ۔اسی طرح "ڈائری کے چند اوراق ” سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈائری لکھنے کا عمل کتنا قیمتی ہے اور سماجی زندگی پر اس کے کتنے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مولانا کی شاعری بھی بہت خوب ہے ،عصری تک بندی سے پاک ان کی شاعری کا ایک ایک بند فکر ونظر کو درخشاں کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے ،انہوں نے نعتیہ شاعری سے بھی دامن مراد کو چھیڑا ہے جب کہ غزلیہ شاعری نےان کی ہم نشینی کو ہمیشہ بامراد کیا ہے ،جب انہوں نے نعتیہ شاعری کی طرف رخ کیا تو بجا کہا :
سارے عالم پہ ہے احساں شہ بطحا تیرا
کون پاسکتا ہے اس دہر میں رتبہ تیرا
آسماں نے تو بہت دیکھے ہیں انسانوں کو
پیکر مہر و وفا ،ثانی نہ ہوگا تیرا
اسی طرح غزلیہ شاعری میں بھی انہوں نے خوب طبع آزمائی کی ہے:
جنوں نے جس کو بنایا تھا کوہ کن کی طرح
خرد نے اس کو بنا ڈالا دل شکن کی طرح
ہے کل کی بات محبت میں ہوتی تھی خوشبو
ابھی تو اس میں بڑا ہی نفاق ہوتا ہے
قصر سلطاں کے شیشوں میں رہ کر کرب کی راہ کو تکنے والو
درد راہوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،انہیں چن چن کے سینوں میں رکھ لو۔
مہنگائی کے اس دور میں جب ہر پہلو کو لوگ تجارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں ،ایسے ماحول میں یہ کتاب محض سوروپے کی ہے ۔مولانا کی نیک دل ،رابعہ صفت اہلیہ ولیہ خاتون کی نگرانی میں کتاب آرٹ پیپر میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ،اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب روائتی جہت سے نہ چھپی ہے اور نہ چھاپی گئی ہے ،بلکہ اس احساس کے ساتھ یہ مجموعہ تیار ہوا ہے کہ "بحیثیت اولاد ہم پر یہ ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنا فرض اور سعادت مندی کے حصول کا موجب بھی ہے”زیر تبصرہ کتاب مکتبہ امارت شرعیہ پٹنہ ۔نور اردو لائبریری،ویشالی۔بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ۔آفتاب اینڈ سنس جون پور یوپی وغیرہ سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہے ۔