”دروس الکافیہ“ کا تعارفی جائزہ
محمد روح الامین قاسمی میُوربھنجی
نام شرح: ”دروس الکافیہ“
شارح: مولانا مفتی محمد ارشد معروفی، استاذ دار العلوم دیوبند
اشاعت: ذی قعدہ 1445ھ مطابق مئی 2024ء
صفحات: 368
ناشر: ثناء پبلیکیشنز، دیوبند
رابطہ نمبر: 09557684415
آج کل بیشتر مدارس سے ”شرح جامی“ کو نصاب سے خارج کیا جا چکا ہے؛ مگر دار العلوم دیوبند اور اس طرز پر قائم مدارس میں کافیہ کو نحو کی آخری کتاب کے طور پر بہ دستور پڑھایا جاتا ہے اور تدریس کا اسلوب ایسا ہوتا ہے کہ اس میں نہ صرف ”شرحِ جامی“ اور ”غایۃ التحقیق“ کی تحقیقی جھلک دکھائی جاتی ہے؛ بلکہ اس میں ”تحریرِ سنبٹ“ اور ”شرح رضی“ کے علمی نکات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

اسی کتاب ”کافیہ“ پر ہمارے محترم استاذ مولانا مفتی محمد ارشد معروفی صاحب نے اپنے دس سالہ تدریسی تجربے کی روشنی میں ایک جامع شرح مرتب فرمائی ہے، جسے انھوں نے اپنے دروسِ کافیہ میں مناسب حذف و اضافہ کے بعد کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ذی قعدہ 1445ھ مطابق مئی 2024ء میں شائع ہوئی اور اشاعت کے فوراً بعد عربی درجات کے طلبہ میں اس کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔
شرح کی خصوصیات: شرح کی اہم خصوصیات میں صحت کے ساتھ اعراب سے مزین عبارت، سلیس تحت اللفظ ترجمہ، اور اس کے بعد کی مختصر و واضح تشریح شامل ہے۔ مصنف نے شرح میں غیر ضروری مباحث سے گریز کرتے ہوئے صرف وہ نکات بیان کیے ہیں جن سے عبارت حل ہو جائے، اور بوقت ضرورت ”فائدہ“ کے عنوان سے دلائل و علتیں بھی پیش کی ہیں۔ تشریح میں "غایۃ التحقیق” اور "شرح جامی” جیسی معتبر شروحات سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ شرح دار العلوم دیوبند کے تدریسی مزاج کی بخوبی ترجمانی کرتی ہے۔ شرح پر بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ حدیث دار العلوم دیوبند) کے کلماتِ تبریک، مفتی محمد امین پالن پوری (استاذِ حدیث دار العلوم دیوبند) و مولانا محمد علی بجنوری (استاذ تفسیر و نگراں شعبۂ تدریب المعلمین، دار العلوم دیوبند) کی تقریظ و رائے گرامی کے ساتھ خود شارح کا پیش لفظ بھی شامل ہے، جس سے شرح اور شارح کی حیثیت و اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
اساتذۂ دار العلوم دیوبند کی نظر میں:
(1) بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی نے شارح پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
”توقع ہے کہ یہ کتاب (شرح) مقبول ہوگی؛ اس لیے کہ مقبولیت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے – ماشاء اللہ – وہ مولانا موصوف (مفتی محمد ارشد معروفی) میں موجود ہیں…۔
(2) مفتی محمد امین پالن پوری نے بھی کتاب کی توصیف بیان کرتے ہوئے اس کے سہل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
(3) مولانا محمد علی بجنوری نے شرح کی خصوصیات کو مختصراً یوں بیان کیا ہے:
”کتاب (شرح) میں لفظی ترجمہ کرنے کے بعد مختصر الفاظ، آسان انداز اور مرتب طریقے سے عبارت کی ایسی جامع، صحیح اور غلطیوں سے پاک تشریح کی گئی ہے کہ نہ صرف قاری کو پوری تشفی ہو جاتی ہے؛ بلکہ اساتذہ کو تفہیم کے لیے بھی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے، کتاب میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے؛ نہایت نپے تُلے الفاظ میں کہا گیا ہے، شرح قابلِ اطمینان و تسلی بخش ہے۔ مطالعہ کے بعد اس کا فائدہ آپ (قارئین) بچشمِ خود ملاحظہ فرمائیں گے۔“
یہ تبصرے اس بات کی دلیل ہیں کہ کتاب نہ صرف مبتدی طلبہ کے لیے مفید ہے، بلکہ تدریس کے لیے بھی قابلِ اعتماد وسیلہ ہے۔
شارح کا مختصر تعارف: استاذِ محترم مولانا محمد ارشد معروفی صاحب کا وطنِ مالوف و جائے پیدائش مشرقی یوپی کے ضلع مئو کا معروف قصبہ ”پورہ معروف“ ہے۔ ان کا درست سنہ ولادت تو محفوظ نہیں ہے؛ البتہ اندازے سے دستاویزات میں تاریخ پیدائش 5 دسمبر 1979ء لکھی گئی۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ اشاعت العلوم، پورہ معروف میں حاصل کی اور فارسی سے لے کر جلالین تک کی تعلیم مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں مکمل کی۔ پھر 1996ء میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا اور 1997ء میں انھوں نے وہاں سے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد وہیں سے ایک ایک سالہ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے کورسز مکمل کیے۔
فراغت کے بعد معین مدرس کی حیثیت سے انھوں نے دو سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر حضرت مولانا سید ارشد مدنی (صدر المدرسین دار العلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند) نے ان کو مدرسہ حسینیہ، تاؤلی (مظفر نگر) میں تدریس کے لیے مامور فرمایا، جہاں انھوں نے لگ بھگ پانچ سال تک تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں۔
بعد ازاں طبیعت کی خرابی کے باعث کچھ وقفہ رہا۔ سنہ 1430ھ مطابق 2009ء میں ان کا مستقل تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا۔ سنہ 1440ھ مطابق 2019ء میں ان کو درجۂ وسطیٰ ’ب‘ کے استاذ کی حیثیت سے ترقی دی گئی۔
اس وقت وہ دار العلوم دیوبند میں کافیہ، دروس البلاغہ، ترجمۂ قرآن: (از ابتدا تا سورۂ ھود) اور الفوز الکبیر و حسامی (درجۂ عربی ششم) کے اسباق کی تدریس پر مامور ہیں۔ ماضی میں شرح وقایہ؛ مقاماتِ حریری اور میبذی سمیت متعدد دیگر کتب کی تدریس بھی آپ کے ذمے رہی ہے۔
شرح کافیہ ”دورس الکافیہ“ کے علاوہ بھی ان کی کئی تصانیف ہیں: (1) تحفہ خاصیاتِ ابواب مع تمرین (تاؤلی کے زمانۂ تدریس کی تالیف)، (2) مفتاح النحو مع تمرین (”نحوِ میر“ کی اردو ترجمانی)، (3) ”تفسیرِ نصوص کے اصول و مناہج“ (جامعہ دمشق کے موقر استاذِ تفسیر و حدیث شیخ محمد ادیب صالح [1926–2017ء] کی تصنیف ”تفسیر النصوص“ کے مقدمہ کا بحکم مولانا نعمت اللہ صاحب عربی سے اردو ترجمہ)۔ اسی طرح انھوں نے حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی کی تصنیف ”غاية الوصول إلى ما في الهداية من الضوابط والمصطلحات“ کی ترتیب کا کام بھی کیا ہے۔
یہ شرح بلاشبہ کافیہ کی شروحات میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے، امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت مزید نمایاں ہوگی، ان شاء اللہ۔