سید امداد علی اور ایل ایس کالج، مظفرپور

سید امداد علی اور بہار سائنٹفک سوسائٹی کی بے لوث کاوشوں کاثمرہ ایل ایس کالج،مظفرپور

ایل ایس کالج مظفرپور کے 126 ویں یوم تاسیس 3/ جولائی کے موقع سے خصوصی تحریر

اسلم رحمانی

سرسید احمد خان انیسویں صدی کے ہندوستان کی ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف ایک بصیرت والے مصلح تھے، بلکہ سماجی ترقی کی بنیاد کے طور پر مسلمانوں کی تعلیم کے سب سے بڑے حامی بھی تھے۔ سرسید برِصغیر کی وہ شخصیت تھے جنھوں نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ اگر آگے بڑھنا ہے، مقابلہ کرنا ہے، کچھ بن کر دکھانا ہے، تو تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو سب کچھ دے سکتا ہے۔ سرسید کی اسی تحریک کے زیر اثر سید امداد علی نے ریاست بہار کے مشہور و معروف خطہ مظفرپور میں جدید تعلیمی تحریک کے تحت بہار سائنٹفک سوسائٹی قائم کیا بہار سائنٹفک سوسائٹی:مظفرپور میں جدید تعلیمی تحریک کے پہلے علمبردار سید امداد علی (متوفی 8/اگست 1886) کی کاوشوں اور سرسید احمد کی تحریک کے زیر اثر قائم بہار سائنٹفک سوسائٹی مظفرپور کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے گلزار بہار معرف بہ ریاض ترہت کے مصنف اجودھیا پرشاد لکھتے ہیں کہ:

سید امداد علی اور ایل ایس کالج، مظفرپور

مولوی سید امداد علی خانصاحب بہادر نے تاریخ 27/ فروری 1868 کو یہ مشورہ جملہ روسا و اہلکاران و مہاجنان و زمینداران قصبہ مظفرپور تدبیر معقول واسطے رفاہ ہند تجویز فرماکر ایک مجلس گورنمنٹ اسکول میں ترتیب دی تھی جسکے چیئرمین یعنی صدر انجمن جناب ڈاکٹر ولیم استوراٹ فیلن صاحب بہادر انسپکٹر اسکول ہائے صوبہ بہار تھے اور اس مجلس میں یہ بات قرار پائی کہ ایک درخواست بامید توسیع طریقہ تعلیم علوم اعلی بزبان ملکی اور تقرر قاعدہ امتحان یونیورسٹی بزبان مروجہ ہندوستان و عطائے سند و لقب لیاقت علمی بحضور نواب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل بذریعہ مجسل (سین ٹفک سوسیٹی) جسکے سکریٹری خود جناب مولوی صاحب موصوف ہوئے۔

(گلزار بہار معروف بہ ریاض ترہت، ص: 67/ ناشر: مطبع مشرق، س اشاعت 1892 ،معاون: خدابخش لائبریری، پٹنہ)

 

سید امداد علی کی بہار سائنٹفک سوسائٹی کے اغراض و مقاصد،اہداف اور اس کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف فرانسیسی مورخ گارساں دتاسی لکھتے ہیں کہ:

 

بہار کی مجلس علمی (سائنٹفک سوسائٹی) کا مرکز مظفرپور ہے۔ اس انجمن کے ارکان بیش تر مسلمان ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے عامتہ الناس کی اخلاقی و ذہنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور ان کےلئے اسباق کے ذریعے تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ انجمن نے ایک یہ تجویز بھی منظور کی ہے کہ مغربی تصنیفات کے ہندوستانی میں ترجمے کرائے جائیں۔انجمن ایک رسالہ بھی شائع کرتی ہے، انجمن کے ارکان کا ارادہ ہے کہ اس کےلئے عمارت بنوائی جائے، ایک بڑا کالج قائم کیا جائے اور غربا کےلئے زراعت و حرفت کی تعلیم کا خاص انتظام کیا جائے۔ اس وقت انجمن کے پانچ مدارس چل رہے ہیں جن میں بلا امتیاز مذہب ہندو اور مسلمان شریک کیے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی لوگوں کو غیر مذہب والوں کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا جس طرح کہ فرانس اور آئر لینڈ میں بعض لوگوں کو ہوتا ہے جو دوسرے عقائد والوں سے بالکل علاحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ ان مدارس میں ایک مدرسے نے خاص طور پر ترقی کی ہے۔ یہاں اردو کے ذریعے سے مغربی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور طلبا کو اپنی مذہبی زبانوں کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک پنڈت سنسکرت کی تعلیم کےلئے اور مولوی عربی کےلئے مقرر ہے۔

(مقالات گارساں دتاسی، حصہ اول صفحہ 4/ شائع کردہ: انجمن ترقی اردو ہند دہلی 1943)

 

ایل ایس کالج مظفرپور کا قیام:(3/ جولائی 1899ء)

 

بہار سائنٹفک سوسائٹی کی تحریک پر ہی مظفرپور میں کئی ادارے قائم کیے گئے ان میں ایک اہم ترین ادراہ ایل ایس کالج( لنگٹ سنگھ کالج ) مظفرپور بھی ہے شمالی بہار کے مشہور و معروف ایل ایس کالج مظفرپور کے قیام میں بھی سید امداد علی کی سائنٹفک سوسائٹی کا اہم کردار ہے، مظفرپور کے ضلع گزیٹئر (1907) کے صفحہ 134 کے حوالے سے پروفیسر سجاد لکھتے ہیں کہ:

 

بہار سائنٹفک سوسائٹی، مظفرپور، کے ٹرسٹ میں "بھومیہار برہمن سبھا” نے پچاس ہزار روپے کی رقم جمع کرکے ایک کالج قائم کرنے کی تجویز رکھی۔ یہ رقم کلکتہ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں فیس کے طورپر(3/ جولائی 1899ء) میں جمع کرکے ایک کالج قائم کیا گیا۔ تب اسے سکنڈ گریڈ کالج یعنی” انٹرمیڈیٹ کالج” کا درجہ ملا پھر 1900ء میں اسے ” فرسٹ گریڈ کالج” یعنی ڈگری کالج کا درجہ حاصل ہوا۔ اس کالج کو چلانے میں 814 روپے ماہانہ خرچ آتے تھے۔ اس میں سے 306 روپے طلباء کی فیس سے آجاتے تھے۔ بقیہ رقم لنگٹ سنگھ، ایک ریلوے ٹھیکیدار، عطا کرتے تھے۔ دراصل 1899ء تک لنگٹ سنگھ اس کالج کو تقریبا پچاس ہزار روپے کی رقم ہر سال عنایت کرتے رہے۔ 1909ء میں کلکٹر (ایچ سی ووڈمین) نے کالج کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ 1910ء میں کالج کی موجودہ عمارت کی بنیاد بنارس کے راجہ نے ڈالی۔10/ جولائی 1915ء کو حکومت نے اس کالج کو لے لیا اور اس کا نام ” گریئرسن بھومیہار برہمن کالج” رکھا۔ آزادی کے بعد 1951ء میں اس کالج کا نام لنگٹ سنگھ( 1850-1912) (ایل ایس کالج ) کے نام پر رکھا گیا۔ اس کالج کو مالی تعاون دینے میں دربھنگہ، بیتیا، جینت پور اور نرہن کے زمین داروں کا بھی نام آتا ہے۔ 1922 میں کالج کےلئے دو ہاسٹلوں کی بھی تعمیر کرائی گئی جن میں ایک کا نام ڈیوک ہاسٹل اور دوسرے کا نام لنگٹ سنگھ ہاسٹل رکھاگیا۔ ان ہاسٹلوں کےلئے رقم کی فراہمی وزیر تعلیم سید فخرالدین نے کرائی۔

 

وجۂ تسمیہ:

 

واضح رہے کہ 1951ء سے قبل ایل ایس کالج کو بی.بی.کالج اور جی.بی.کالج کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن آزادی کے بعد اس کا نام لنگٹ سنگھ کالج رکھا گیا بقول ڈاکٹر سید مظہر الحق انور:

 

1947ء میں جب ملک آزاد ہوگیا اور پورے طور پر اطمینان کی سانس لینے لگا تو سرکار کی ایماء پر کالج کا نام تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کےلئے ایک گورننگ باڈی کا قیام عمل میں آیا، جس میں حسب ذیل حضرات رکن کی حیثیت سے شامل تھے:

(1) مہیش پرساد سنہا(2) مہندر پرتاپ سنگھ( وائس پرنسپل) (3) فضل الرحمٰن( پرنسپل) (4) پروفیسر عبد الماجد صاحب۔

سبھوں کالج کا نام بالکل ہی الگ الگ تجویز کیا۔ مہیش پرساد سنہا نے کالج کا نام بی.بی.کالج پیش کیا۔ مہندر پرتاپ سنگھ نے ویشالی کالج کی تجویز پیش کی۔ فضل الرحمٰن صاحب مظفرپور کالج تجویز رکھی اور عبد الماجد صاحب نے بانیِ کالج کے نام پر لنگٹ سنگھ کالج کی تجویز پیش کی۔ اسی طرح تمام ممبران اپنی رائے میں تنہا رہ گئے۔ کسی کا ووٹ زیادہ نہ ہوسکا۔لہذا اس کمیٹی میں اس کا کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوسکا۔ اس تمام ممبروں کی رائے سرکار میں بھیج دی گئی اور یہ مسئلہ حکومت کے سپرد کردیا گیا۔ حکومت نے عبد الماجد صاحب کے پیش کردہ نام کو منتخب کرلیا اور اس کالج کا نام آج تک ایل ایس کالج ہی ہے جس نے بانی کالج کے نام کو زندہ جاوید بنادیا ہے۔

(پروفیسر عبد الماجد اختر،حیات اور خدمات،ص:23)

 

ایل ایس کالج میں شعبۂ اردو اور فارسی کا قیام

 

کالج کے قیام کے ساتھ ہی اردو اور فارسی کا شعبہ قائم ہوا اور آنرز تک کے لیےاس کا الحاق ہوا مگر ایم اے کے کلاسز کا انتظام نہیں تھا۔ دوسرے مضامین میں یکے بعد دیگرے ایم اے کلاسز کھولے گئے مگر اردو اور فارسی میں نہیں کھلے۔ اگر چہ مظفر پور کے گرد ونواح میں اردو اور فارسی جاننے والوں کی ایک کثیر آبادی تھی مگر ایم اے کی تعلیم کا کوئی نظم کا نہیں تھا۔ ایم اے کے کلاسز کھولنے کے لیے عوام کا دباؤ بڑھنے لگا۔ اس کے نتیجے میں پرائیوٹ طور پر ایم اے کا امتحان دینے کی سہولت پیدا ہوئی اور بہار میں اردو کے بعض مشاہیر اساتذہ اور ادباء نے بہار یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر ایم اے کیا۔ایل ایس کالج میں شعبہ اردو کے قیام کے بعد بابو اودھ بہاری سنگھ اور پروفیسر سید عبد الماجد اختر اردو اور فارسی کے اساتذہ مقرر ہوئے۔

 

بہر کیف سید امداد علی اور بہار سائنٹفک سوسائٹی کی بے لوث کاوشوں او ر جانفشانیوں کا ثمرہ آج ایل ایس کالج کی شکل میں کھڑا ہے۔جس سے بہرہ مند ہوکر ہر سال بے شمار فرزند ان بہار مختلف میدانوں میں اپنی نمایاں خدمات انجا م دے رہے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اپنے ان بزرگوں کو فراموش کردیا ہے جنہوں نے ایل ایس کالج مظفرپور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایل ایس کالج مظفرپور کے کسی بھی فسانے میں ان لوگوں کا تذکرہ نہیں ہوتا جن کی کاوشوں کا خون ایل ایس کالج مظفرپور کی شناخت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔بہرحال یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے کہ سید امداد علی، سید محمد تقی کی تحریک بہار سائنٹفک سوسائٹی نے مظفرپور کی بہتر نمائندگی کی ہے۔اس تحریک کو پائدار اور اس میں قوت و طاقت بخشنے کے لئے ہمیں ان کے روحانی، عرفانی افکار کو نمونہ عمل بنانا ہوگا اورانہی جیسا پاکیزہ عزم واستقلال بھی پیدا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare