منوررانا: مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے

معصوم مرادآبادی

منوررانا کے انتقال سے دنیائے شعروادب میں غم کا ماحول ہے۔جس کو بھی یہ خبر ملی وہ اداس ہوگیا اور ہر زبان پر ان کے اشعار رواں ہونے لگے۔وہ کافی دنوں سے بیمار تھے اور مختلف عارضوں نے انھیں گھیر رکھاتھا، لیکن جس بیماری نے ان کی جان لی، وہ ان کے گلے کو لاحق تھی۔ وہی گلا جس کے بل پر وہ برسوں اردو شاعری کے لاکھوں مداحوں کا دل جیتتے رہے۔یہ موذی مرض سرطان تھا، جس نے انھیں بہت مضمحل کرکے رکھا۔ منور رانا عہد حاضرکے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک تھے۔ ان کی موجودگی کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ان کے اشعار میں ایسا جادو تھا کہ لوگ ان کی طرف کھنچتے چلے جاتے تھے۔ وہ ڈوب کر شعر کہتے تھے اور اسی انداز میں پڑھتے بھی تھے۔ الفاظ کا زیروبم ان کے لہجے سے بھی عیاں تھا۔منور رانا نے برسوں مشاعروں میں اپنا سکہ چلایااور اس معاملے میں کوئی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔انھوں نے اپنی طرز اور لب ولہجہ خودہی ایجاد کیا تھا۔ان کا انداز قلندرانہ تھا اوروہ اسے ہی اپنی سب سے بڑی دولت بھی سمجھتے تھے۔بقول خود

بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا
آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا

وہ جن پریشان کن امراض کا شکار تھے، ان میں ایک گھٹنے کی تکلیف بھی تھی۔ کئی بار ان کے گھٹنے کی سرجری ہوئی۔ میں نے ایک بار بالمشافہ ملاقات میں ان سے گھٹنے کا حال پوچھا توکہنے لگے ”بھائی ایمس والے کئی بار میرا گھٹناکھول چکے ہیں۔ اس بار میں نے ان سے کہا ہے کہ میرے گھٹنے میں ایک زپ لگادیں تاکہ انھیں آسانی رہے۔“ ان کے گھٹنے کی سرجری ماہر ڈاکٹروں نے کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس معذوری کے باوجود انھوں نے مشاعروں کی دنیا آباد رکھی۔ وہ سیاہ رنگ کا ایک مخصوص چوغہ پہن کر مشاعروں میں آتے تھے۔کچھ مشاعرے تو ایسے تھے کہ ان کی شرکت کے بغیر ان کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈی سی ایم کا مشاعرہ بھی ان ہی میں سے ایک تھا،جس میں گزشتہ سال انھوں نے بیماری اور معذوری کے باجود وہیل چیئر پر بیٹھ کر شرکت کی تھی۔ یہ ان کا آخری مشاعرہ تھا۔

ڈی سی ایم کے مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری ہمیشہ ملک زادہ منظوراحمدکے کاندھوں پر ہوتی تھی اور وہ اپنے الفاظ کی گھن گرج سے اس مشاعرے میں سماں باندھ دیتے تھے۔ملک زادہ کے بعد لکھنؤ میں منور رانا نے ہی اردو شاعری کی سلطنت کوسنبھال رکھا تھا۔ لکھنؤ میں یہ ایک مثلث تھا، والی آسی،ملک زادہ منظوراحمداور منوررانا۔منور رانا والی آسی کے چہیتے شاگرد تھے اور انھوں نے ہی انھیں مشاعروں میں متعارف بھی کرایا تھا۔ پہلے والی آسی گئے،پھر ملک زادہ نے رخت سفر باندھا اور اب منوررانا بھی چل دئیے۔ان تینوں کی لکھنؤ میں جتنی گاڑھی چھنتی تھی، اتنی شاید ہی کسی کی چھنتی ہو۔تینوں ایک دوسرے کے قدردان تھے۔ عام طورپر شاعروں میں ایسی یگانگت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ملک زادہ منظوراحمدنے اپنی تصنیف ”شہرادب“ میں منور رانا کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے
”معصومیت، سادگی، بھولا پن، بے ریائی، خلوص ایسے عناصر ہیں جو کہ منوررانا کی شاعری میں رچے بسے ہیں۔منور رانا گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کو قدروں کی بربادی کا پیش خیمہ اور شہروں سے گاؤں کی طرف مراجعت کو قدروں کی بازیافت کا وسیلہ تصور کرتے ہیں۔“
منور رانا کی شعری کائنات بڑی وسیع اور دل پذیر ہے۔وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ آپ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر بے تکلف گفتگو کرسکتے تھے۔ انھوں نے ہر موضوع پر شعر کہے ہیں، لیکن’ماں‘ کا موضوع ایسا ہے جسے انھوں نے اردو شاعری میں امر کردیا۔ وہ اردو غزل جو ہمیشہ سے محبوب کی زلفوں کی اسیر رہی ہے، اسے انھوں نے ماں کی محبت اور ممتا پر نچھاور کردیا۔کچھ لوگوں نے اس پر اعترا ض بھی کیا، لیکن وہ ’ماں‘ پرشعر کہتے رہے اور ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹے رہے۔

جب بھی کشتی میری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہے اور خواب میں آجاتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھودیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں لگتی

منور رانا جب مشاعرے میں ماں کے موضوع پر شعر سناتے تھے تو سامعین کی آنکھوں میں نمی ہوتی تھی۔ یہی ان کی شاعری کا کمال تھا۔ادھر کچھ عرصے سے بعض تنازعات نے انھیں گھیر رکھا تھا۔ان میں کچھ خاندانی تنازعات تھے اور کچھ سیاسی۔اس کے ساتھ صحت کے مسائل بھی تھے جو دن بدن سنگین ہوتے چلے جارہے تھے۔مگروہ دیوانہ وار ان سب کا مقابلہ کرتے رہے۔انھوں نے حالات کی ستم گری سے شاکی ہوکر 2015میں اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں لیں گے۔ انھوں نے ایسا کیا بھی۔ حکومت نے ان پر شکنجہ کسنے کی بھی کوشش کی، لیکن وہ میدان میں ڈٹے رہے اور صحت وسیاست دونوں کے مسائل سے جوجھتے رہے۔ کبھی کبھی فون کرتا تو دل کا حال بیان کرتے۔ گزشتہ سال لکھنؤ کے سفر کے دوران میں نے ان سے ملنا چاہا تو وہ رائے بریلی میں تھے۔رائے بریلی اترپردیش کی ایک روحانی بستی ہے، جہاں 1952 میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی اور اسی دور میں اپنے والد کے ساتھ کلکتہ چلے گئے۔ انھوں نے ابتداء مشاعروں کی نظامت سے کی اور ان کی نظامت میں فیض اور فراق جیسے شاعروں نے بھی کلام پڑھا۔ والی آسی نے ان پر محنت کی۔ انھوں نے تقریبا نصف زندگی لکھنو میں گزاری اور اپنی وہی قلندرانہ شان برقرار رکھی۔

چمک ایسے نہیں آتی ہے خودداری کے چہرے پر
انا کو ہم نے دودو وقت کا فاقہ کرایا ہے

منور رانا کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تمام تر مقبولیت اور ہردلعزیزی کے باوجود کبھی نرگسیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔انھوں نے کبھی اپنی گردن بھی ٹیڑھی نہیں کی۔ ان کے پاؤں ہمیشہ زمین پر رہے۔ان کے مزاج کا قلندرانہ پہلو انھیں صراط مستقیم پر رکھنے میں کامیاب ہوا۔منور رانا کو ملک زادہ کی طرح شاعری کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی عبور حاصل تھا۔وہ ایک کامیاب انشاء پرداز تھے اور ان کے کئی نثری مجموعے شائع ہوئے۔ان کے خاکے اور انشائیے بھی ان کے شعروں جیسا لطف عطاکرتے ہیں۔ ان کی نثر میں بلا کی ندرت، شگفتگی اور برجستگی ہے۔ناقدین ادب ان کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر کو اہمیت دیتے ہیں۔
منوررانا اردو کے علاوہ ہندی میں بھی مقبول تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کی کتاب ”ماں‘‘ ہندی میں شائع ہوئی تو اس کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔یہی حال ان کی طویل نظم ”مہاجر نامہ“ کی مقبولیت کا بھی تھا۔ہجرت کے موضوع پر یہ نظم پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے اور پاکستا ن ہجرت کرنے والوں کے کرب کو بہترین پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ ایک موضوع پر اردو شاعری میں شاید ہی کسی نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔اس رزمیہ نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑآئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
ہنسی آتی ہے خود اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کہہ کے دنیا اس لیے ہم کو ستاتی ہے
کہ ہم آتے ہوئے قبروں میں شجرہ چھوڑ آئے ہیں
سیاست کے بنے ایک جال میں ہم پھنس گئے آخر
اگر ہم شاہ تھے تو کیوں رعایا چھوڑ آئے ہیں

’مہاجر نامہ‘ اردو دنیا میں پہلا تجربہ تھا، جسے منور رانا نے بڑی مہارت سے انجام دیا۔یہ ان کے تخیل کی ایسی اپج ہے، جس سے ان کے تخلیقی وفور کا پتہ چلتا ہے۔یہ انسانی دکھوں کی معراج ہے اور ایسا المیہ ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔”مہاجر نامہ“ ایک ایسا ادبی کارنامہ ہے جسے اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
منور رانا کے چلے جانے سے اردو شاعری کا جہاں اداس ہے۔ اب ان کے پائے کے دوچار شاعر بھی باقی نہیں ہیں۔ یہ اردو شاعری کا ہی نہیں خود ہماری تہذیب کا بھی المیہ۔ منور رانا کا جانا ہم سب کا غم ہے۔ انھوں نے بہت پہلے یعنی اپنی حقیقی موت سے بھی پہلے زمین کی خوراک ہوجانے کا سراغ دیا تھا۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں

جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم
مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

یہ بھی پڑھیں