میرے والدین
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
والدین ہمیں دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں، ان کی محبت، شفقت اور تربیت کے زیر سایہ ہم پروان چڑھتے ہیں، وہ اپنی ساری ضروریات کو تج کر بچوں کے لیے سرگرداں اور پریشان رہتے ہیں، لاڈ لے کو کوئی تکلیف نہیں پہونچے اس کے لیے وہ ہمہ وقت سب کچھ کر گذرنے کو تیار رہتے ہیں، ہم ان کی انگلیاں پکڑ کر چلنا سیکھتے ہیں، مائیں جاڑے کی یخ بستہ راتوں میں خود بچوں کے ذریعہ کیے گیے نجس گیلے کپڑے اور بستر پر سوجاتی ہیں، لیکن اپنے بچے کے لیے بستر کا خشک حصہ پیش کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت کچھ کرنے کے باوجود بچے ان کی ایک رات کی تکلیف، ولادت کے وقت کا کرب اور نو ماہ تک پیٹ میں رکھ کر سارے کام کرنے کی تھکن کا بدل نہیں دے سکتے، اسی لیے اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، اف تک کہنے اور جھڑکنے سے بچوں کو منع کیا، ان کے ساتھ نرمی سے بات کرنے اور بوڑھے ہو گیے ہوں تو ان کے لیے اپنے کندھے جھکا نے اور ان کے لیے ہمہ وقت دعا کرتے رہنے کی تلقین کی کہ اے بار الٰہا! ہمارے والدین پر ایسے ہی رحم کر جیسا انہوں نے میری پرورش وپرداخت میں بچپن میں مجھ پر رحم کا معاملہ کیا۔
بے راہ روی اور اسلامی اقدار سے دوری کی وجہ سے بہت سے بچے ایسا نہیں کر پاتے ہیں اور ان کے والدین کو تکلیف اور اذیت کا سامان کرنا پڑتا ہے، بلکہ بچے اور بہوؤں کے ذریعہ انہیں اولڈ ایج ہوم (بیت الضعفاء) میں بھیجنے کا مزاج بھی دن بدن زور پکڑ تا جاتا ہے، یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے، ہمارے یہاں مشہور ہے کہ اولاد کی تین قسم ہوتی ہے ”پوت، سپوت اور کپوت“۔ ”پوت“ عام سا لڑکا ہوتا ہے جو نہ آرام پہونچاتا ہے اور نہ تکلیف، ”سپوت“ وہ ہوتا ہے جو والدین کی خدمت کرتا، ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فکر مند ہوتا، اوران کے کام کو آگے بڑھاتا ہے، تیسرا ”کپوت“ ہوتا ہے جو والدین کو تکلیف پہونچاتا ہے اور خاندان کی عظمت کا سودا کر لیتا ہے، مغرب سے آنے والی آندھی اب ”کپوت“ زیادہ پیدا کر رہی ہے، لیکن ہندوستان میں اب بھی ”سپوتوں“ تعداد کم نہیں ہے،جو ہمہ تن والدین کی خوشنودی کے لیے خود کو وقف کیے رہتے ہیں، زندگی میں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں مرنے کے بعد مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں، ان کی یادوں کو سینے سے لگائے رہتے ہیں اور یادوں کے اس چراغ کو صفحہئ قرطاس پر روشن کرکے دوسرے لوگوں کو بھی اس حوالہ سے روشنی پہونچانے کا کام کرتے ہیں۔
محترم جناب صفدر امام قادری کا شمار ایسے ہی ”سپوتوں“ میں ہوتا ہے، وہ زبان وادب کے رمزشناش، قلم کے شہسوار، مختلف اصناف پر اپنی گہری نظر کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور ہندوستان ہی کیا ”بزم صدف“ کے پاؤں بیرون ممالک بھی مضبوطی سے پھیلے ہیں اور اس مضبوطی کے سب سے اہم ستون صفدر امام قادری ہیں، ان کی درجنوں کتابیں تحقیق وتنقید پر اہل قلم کے درمیان معروف ومشہور ہیں، انہوں نے کئی لوگوں پر مجموعہ مرتب کرکے انہیں علمی دنیا میں اعتبار واستناد بخشا ہے یا اس میں اضافہ کیا ہے۔
”میرے والدین“ انہیں صفدر امام قادری کی تصنیف ہے، دوسری تصانیف سے یہ اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے اپنے والدین کی زندگی، معمولات اور ملی وادبی سر گرمیوں میں ان کی مشغولیات اور لوگوں کے درمیان ان کی مقبولیت کی تفصیلات سادے اور پُر اثر انداز میں تحریر کیا ہے، سادگی ان کی دوسری تالیفات وتصانیف میں بھی پائی جاتی ہیں اور ضرورتاً جو اقتباسات وہ نقل کیا کرتے ہیں اس کو نکال دیں تو ان کے اسلوب میں ترسیل کی فراوانی ہوتی ہے، وہ صنائع بدائع کے التزام میں قصداً نہیں پڑتے البتہ کوئی چیز اچھلتی کودتی نوک قلم سے ٹکرا گئی تو اسے جھٹک کر اپنے سے دور بھی نہیں کرتے، لیکن ”میرے والدین“ میں جو اسلوب انہوں نے اختیار کیا ہے وہ بیانیہ ہے اور قارئین کی دلچسپی کے لیے انتہائی موزوں ہے، اس کو پڑھنے میں داستان کا مزہ آتا ہے اور قاری کی دلچسپی آخر تک بر قرار رہتی ہے، اس کتاب میں صفدر امام قادری نے اپنی شخصیت کو پردہئ خفا میں رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے، لیکن ”والدین“ کی زندگی کو خود سے الگ کرکے ذکر کرنا ایک مشکل کام ہے،جس طرح پس پردہ رہ کر بھی فلمی اداکار اپنی صلاحیت کا لوہا منوالیتے ہیں ویسے ہی اس کتاب میں پس روزن صفدر امام قادری کی جھانکتی زندگی کے خد وخال اور نقش ونگار ہمارے سامنے آجاتے ہیں، پس روزن جھانکنے کا یہ عمل قاری میں اس کتاب کے تیسرے اہم کردار کے سلسلے میں تجسس کے عمل کو تیز کر تا ہے اور قاری وہاں تک پہونچ جاتا ہے، جہاں صفدر امام قادری انہیں پہونچانا نہیں چاہتے، قادری صاحب نے خود ہی لکھا ہے۔”ایک اولاد کی زندگی اس کے والدین سے اتنی گھٹی ہوئی ہوتی ہے کہ اسے کہاں کہاں سے الگ کیا جا سکے گا، اسی لیے والدین کی زندگی کے دروازے اور کھڑکیوں سے جہاں تہاں مجھے جھانکتے ہوئے آپ دیکھیں تو اسے صبر سے اس لیے بھی ملاحظہ کریں کہ اس کا مقصد بھی کہیں نہ کہیں اپنے والدین کی زندگی کے کسی پہلو کو روشن کرنا ہی تھا۔
”میرے والدین“ میں وقائع نگاری، ماجرا نگاری اور سراپا نگاری کے کامل نمونے ملتے ہیں، یہ اس قدرمکمل ہیں کہ قادری صاحب کے والد اشرف قادری اور ان کی والدہ کی زندگی اس کتاب میں چلتی پھر تی، اچھلتی کودتی، مسائل ومشکلات سے جو جھتی نظر آتی ہے، یہ سراپا نگاری کا کمال ہے۔
”میرے والدین‘ ہے تو شخصی تاثرات پر مشتمل؛ لیکن یہ صفدر امام قادری کی یادوں کا خزانہ ہے، جسے انہوں نے برسوں سے سجوکر اپنے دل میں رکھا تھا اب وہ سینے سے سفینے میں منتقل ہو گیا ہے، اس کے ذریعہ ہم اپنی اور اپنے والدین کی زندگی میں بھی جھانک سکتے ہیں، قرآن کریم میں انسانی قصص اور تذکروں کو صاحب بصیرت کے لیے قابل عبرت کہا گیا ہے، شخصی تاثرات اور خاکے ہمیں زندگی کے مختلف ادوار میں گذرے واقعات واحوال پر غور وفکر کا کام دیتے ہیں، صفدر امام قادری کی کتاب”میرے والدین“ میں غور وفکر کے لیے بہت کچھ مذکور ہے اور ہم اس آئینہ خانہ سے اپنے در وبست کو درست کرسکتے ہیں۔
قادری صاحب کی یہ کتاب ان کی دوسری کتابوں کی طرح ضخیم نہیں ہے، یہ صرف ایک سو دس صفحات پر مشتمل ہے، کاغذ، طباعت، کمپوزنگ میں قادری صاحب کے مزاج کی سلیقگی کا بڑا دخل ہے، کتاب کا سرنامہ پروفیسر واحد نظیر صاحب جامعہ ملیہ کا ہے، ایک زمانہ میں بھاگلپور فساد کے تناظر میں ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا۔
جانے کیسا شجر، کیسا ثمر ہوگا ابھی تو گذرا ہے موسم سروں کے بونے کا
سر ورق غلام غوث کے تخیل کا نتیجہ ہے، ایم آر پبلی کیشن کوچہ چیلان، دریا گنج، نئی دہلی ناشر ہے، اور نیو انڈیا آفسیٹ پرنٹر ز نئی دہلی سے کتاب چھپی ہے، کتاب دو سو پچاس روپے اور لائبریری ایڈیشن 350روپے میں دستیاب ہے، اردو کے قارئین کی قوت خرید ذرا کمزور ہوتی ہے، قیمت رکھنے میں اس کی رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے، خریدنے والوں ہی سے مفت تقسیم شدہ کتابوں کی قیمت وصولنی ہوتو بات دوسری ہے، اس کے علاوہ بک سیلر بھی آج گل پچاس فی صد سے کم پر نہیں مانتے، جب سب کی رعایت کرنی ہوگی تو قیمت تو زیادہ رکھنی ہوگی۔
کتاب چوں کہ بیانیہ اور داستانی انداز میں لکھی گئی ہے، اس لیے فہرست مضامین کا کوئی موقع نہیں تھا، البتہ کتاب کا انتساب قادری صاحب نے اپنی سب سے بڑی باجی شمیم آرا کے نام کیا ہے، جو اب اس دنیا میں نہیں رہیں، والدہ کے انتقال کے وقت انہوں نے اپنے پانچ بھائی اور دونوں بہنوں کو ایک جگہ جمع کر بڑا با معنی جملہ کہا تھا کہ ”ماں نے مرتے مرتے اس تہوار میں سارے بھائی بہنوں کو یک جا کر دیا“ قادری صاحب کی یہ بہن بھی اپنے والدین سے ملنے کے لئے بڑی عجلت میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
کتاب کے دیگر مشمولات میں واحد نظیر صاحب کا قطعٔہ تاریخ رحلت جناب اشرف قادری (م 1998)، بزم صدف کے چیرمین شہاب الدین احمد اور صفدر امام قادری ڈائرکٹر بزم صدف انٹر نیشنل کی مشترکہ تحریر بعنوان ”پیش کش“ اور کتاب کی تصنیف کے اسباب وعلل کا بیانیہ ”عرض حال“ کے عنوان سے قادری صاحب کے قلم شامل کتاب ہے۔
کتاب انتہائی موثر اور دلچسپ ہے، صفدر امام قادری صاحب کئی حوالوں سے عظیم ہیں، لیکن اس کتاب کا حوالہ ان کے کلاہ افتخار میں چار چاند لگانے کو کافی ہے۔ کتاب اس لائق ہے کہ ہر لائبریری کی زینت بنے اور ہر شخص اسے خرید کر پڑھیے۔