پندرہویں صدی کا تاریخی لمحہ، اور فتح قسطنطنیہ

افروز عالم ساحل

29 مئی 1453ء… رات کے ڈیڑھ بجے ہیں… دنیا کے ایک قدیم و عظیم شہر کی دیواروں اور گنبدوں پر خاموشی طاری ہے۔ چاند مغرب کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے، جیسے کسی خطرے کا اندیشہ ہو… اکیس سالہ عثمانی سلطان محمد خان اپنی فوج کے اگلے مورچے پر پہنچ چکا ہے۔ وہ ترک زبان میں اپنے سپاہیوں کو مخاطب کر رہا ہے ’میرے دوستو! آگے بڑھو، خود کو ثابت کرنے کا یہی وہ وقت ہے…‘ اس طرح کی ایک مختصر تقریر نے سپاہیوں میں جوش بھر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فوج کی ہنکار نے خاموشی کی چادر کو تار تار کر دیا ہے۔ پوری فضا میں کلمہ طیبہ کے نعروں کی گونج ہے۔ اور پھر جو ہوا اس سے پوری دنیا بخوبی واقف ہے… دنیا آج اس سلطان محمد خان کو سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے اور میں آج انہی کی یاد میں بنے ایک تاریخی میوزیم میں موجود ہوں۔

استنبول میں اسی 1453ء کی یاد میں ایک تاریخی میوزیم کھلا ہے۔ ایک منفرد فنی و ثقافتی سینماٹوگرافک کارنامے والے اس میوزیم کو ’پانوراما 1453 ہسٹری میوزیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ میوزیم کی فتح کی تاریخ محفوظ کرنے کے لیے وقف ہے۔ اس میوزیم کے لیے سال 2003 میں پراجیکٹ تیار کیا گیا اور اس پراجیکٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے پینٹنگ اور عمارت کی تعمیر کا کام 2005 میں شروع ہوا، جو 2008 میں مکمل ہوگیا۔ 31 جنوری 2009 کو ترکی کے اس پہلے پانورامک میوزیم کا افتتاح موجودہ صدر رجب طیب ایردوان کے ہاتھوں ہوا۔ ایردوان تب ترکی کے وزیر اعظم تھے۔ واضح ہو کہ سال 2017 میں ترکی میں آئینی ترامیم کی گئیں جس میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کرکے ترکی میں صدارتی نظام لایا گیا۔

اس میوزیم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ میوزیم قسطنطنیہ کی عین اسی دیوار کے قریب واقع ہے جسے سلطان محمد فاتح کی فوج نے 29 مئی 1453ء کو توڑ کر قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ یہ ٹوٹی ہوئی دیواریں آج بھی اس میوزیم کے ارد گرد اسی حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب آپ اس میوزیم کا معائنہ کر کے باہر نکلتے ہیں اور ان دیواروں کو دوبارہ دیکھتے ہیں تو آپ کا نظریہ پوری طرح بدل چکا ہوتا ہے۔ آپ انہیں دیکھ کر حقیقی معنوں میں فتح کا جوش خود اپنے اندر محسوس کر سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اس میوزیم کی تعمیر پر تقریبا پانچ ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ میوزیم کے آپریشنل چیف کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں تقریباً تیس پانورامک میوزیم ہیں۔ لیکن استنبول کا یہ ’پانوراما 1453 ہسٹری میوزیم‘ دنیا کا سب سے بڑا اور پہلا مکمل پانورامک میوزیم ہے۔ انجینئروں اور اس کے تخلیق کاروں نے اس میوزیم میں مختلف اثرات سے گھری ہوئی اس کی متحرک تصاویر کے ڈیزائن میں جدید ترین تکنیکی طریقوں کا استعمال کیا ہے، وہیں اس میوزیم کا شاندار ساؤنڈ ایفیکٹس اور انوکھی لائٹ ٹیکنالوجی ایک بے مثال ’تھری ڈی‘ بیرونی خلا میں آپ کو 571 سال پیچھے لے جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ کی جنگ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے۔ اس میوزیم کو اس قابل بنانے میں ترکی کے آٹھ باصلاحیت فنکاروں کا سب سے اہم رول ہے۔

ہم جیسے ہی ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں نیچے کی طرف جانا ہے۔ نیچے اترتے ہی قسطنطنیہ کے فتح کی تفصیلات آپ کو سلام کرتی ہیں۔ نیچے کے ان دونوں منزلوں پر سلطان فاتح سے وابستہ تمام معلومات ترکی زبان میں تصویر کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں۔ یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ سلطان فاتح کو تلوار چلانے کے ساتھ ساتھ قلم اور برش چلانے کا بھی شوق تھا اور ان کی شخصیت میں ایک شاعر بھی چھپا ہوا تھا۔ یہاں آکر آپ ان تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ جنہیں تاریخ میں دلچسپی ہے ان کے لیے یہ معلومات واقعی بڑی اہم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ میوزیم دیگر میوزیموں کی طرح ہی معلوم ہو گا۔

لیکن ہم جیسے اوپر کی طرف جاتے ہیں، نیلا آسمان ہمارا استقبال کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے جادو کے ذریعے ہمیں کسی دوسری دنیا میں پہنچا دیا ہے۔ یہاں کے ماحول کی بدولت ہم سیدھے 29 مئی 1453 کی صبح میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہم اس وقت کے گواہ بن جاتے ہیں، جب سلطان فاتح نے دنیا کی سب سے مضبوط دیواریں توڑ کر استنبول میں اسلامی پرچم لہرایا تھا۔ سن 1453 کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر یوروپ کی تاریخ کو بانٹا جائے تو اس سال سے بڑی لائن کوئی نہیں ہے۔ استنبول میں چٹانوں کی طرح کھڑے ’بازنطینی ایمپائر‘ کے قلعے کو سلطان فاتح کی قیادت میں لڑنے والی فوجوں نے گرا دیا تھا۔ دنیا کا اپنے دور کا سب سے بڑا شہر مسلمانوں کے کنٹرول میں آگیا تھا۔

بہرحال جیسے ہی میں نے یہاں قدم رکھا ایسا محسوس ہوا جیسے میں پندرہویں صدی میں آگیا ہوں اور کھلے آسمان کے نیچے جنگ کے میدان میں بالکل درمیان میں کھڑا ہوں اور سلطان فاتح کی فوج قسطنطنیہ کی دیوار کی آڑ میں موجود رومن فوج پر حملہ بول چکی ہے۔ آنکھوں کے سامنے بازنطینی قلعے منہدم ہو رہے ہیں، فصیلیں ٹوٹ رہی ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک بڑی سی توپ ٹوٹی پڑی ہے۔ زمین پر اس کشتی کی باقیات میری آنکھوں کے سامنے ہیں جس کے سہارے عثمانی فوج نے آبنائے باسفورس کو پار کیا تھا۔ سامنے لکڑی کے بکسوں میں ہتھیار پڑے ہیں۔ بھالے، تیر کمان اور لوہے کے بڑے بڑے گولے زمین پر رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں زنجیروں، ٹوٹی ہوئی تلواروں، پیڑ کے سوکھے تنوں اور مٹی کے ذریعے ایسا منظر بنایا گیا ہے کہ یہاں آنے والا ہر شخص کچھ لمحوں تک حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ ہر طرح کے ہتھیار میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ دل میں خیال آتا ہے کہ سامنے رکھی تلواروں کی ڈھیر سے ایک تلوار نکال کر میں بھی سلطان محمد فاتح کے ساتھ اس جنگ میں کود پڑوں۔

بڑی بڑی توپوں کے ذریعے گولے داغے جارہے ہیں، ان توپوں کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ تلواروں کے چلنے اور گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ عثمانی بینڈ کی آواز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جنگ بھی کتنے سلیقے سے لڑی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود منظر بتا رہا ہے ک یہ جنگ کتنی مشکل تھی۔ لیکن سلطان فاتح کی فوجی طاقت اور جنگی حکمت عملی کے سامنے ’بازنطینی ایمپائر‘ کو ہارنا ہی تھا۔ ذرا سوچیے کہ عثمانی فوج قسطنطنیہ کی دیواروں پر سے گرم موم اور تیل برسا رہی ہیں، رومن تیر اندازوں کی دیواروں کے اوپر سے فائرنگ کا منظر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ عثمانی فوج نے یہ جنگ طاقت کے ساتھ دماغ سے بھی لڑی تھی۔ وہ قلعے کی دیواروں پر چڑھنے کے لیے لکڑی کی بنی قد آدم سیڑھیاں اپنے ساتھ لائے تھے۔ رومن فوج شاید یہ بات سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ انہی سیڑھیوں کے ذریعے عثمانی فوج قلعے پر پہنچی اور پھر جو ہوا اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ سچ پوچھیے تو اس میوزیم میں داخل ہونا ’وقت کا سفر‘ طے کرنے جیسا ہے۔ آپ چند قدموں میں آٹھ صدیوں کا فاصلہ طے کر لیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھی فتح قسطنطنیہ میں شریک ہیں۔

یہاں ایک ایسا احساس پایا جاتا ہے جسے لکھا نہیں جا سکتا، کسی کاغذ پر اتارا نہیں جا سکتا۔ آپ میرے اس پورے سفرنامہ کو پڑھنے کے باوجود اس احساس کو شاید پانچ فیصد بھی محسوس نہیں کریں گے جسے یہاں زائرین آکر کرتے ہیں۔

اگر آپ اس تاریخی میوزیم کی یاد ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو یہاں سے باہر نکلتے وقت وہ سکہ حاصل کر سکتے ہیں جس پر ایک جانب سلطان محمد فاتح کی دستخط اور دوسری جانب میوزیم کا لوگو بنا ہوا ہے۔ اس سکے کی قیمت پانچ لیرا ہے۔ باہر نکلتے وقت منی وینڈنگ مشین میں ایک لیرا کے قیمت کی پانچ سکے ڈالیں گے تو آپ کو یہ سکہ حاصل ہو گا۔ میوزیم سے باہر نکلتے وقت آپ کو میوزیم کے ’سووینئر شاپ‘ سے ہو کر باہر آنا پڑتا ہے۔ آپ یہاں ’زیر یورو‘ کا ایک یادگار کرنسی نوٹ حاصل کر سکتے ہیں، اس کی قیمت پچاس لیرا ہے۔ یہ ’سووینئر شاپ‘ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ آپ یہاں سے سلطان فاتح اور استنبول سے متعلق کئی یادگاریں خرید سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں خاص طور پر سلطان فاتح سے جڑی ہوئی کئی اہم کتابیں موجود ہیں، حالانکہ زیادہ تر کتابیں ترکی زبان میں ہی ہیں۔

دنیا اس وقت سیاسی اتھل پتھل کے دور سے گزر رہی ہے۔ ترکی کو خلافت سے جمہوری ملک بنے ہوئے سو سال ہونے والے ہیں، ایسے میں صدر ایردوان ترکی کی اسلامی تاریخ کو پھر سے دنیا کے سامنے لانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ میوزیم بھی اسی کوشش کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ ترکی کی خاص بات یہ ہے کہ اس ملک نے اپنی تاریخ کو سنبھال کر رکھنے پر کافی توجہ دی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ترک قوم اپنی زبان اور تاریخ سے بے حد محبت کرنے والی قوم ہے۔ انہوں نے اس میوزیم کے ذریعے بھی اپنی تاریخ کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ ہمارے ہندوستان میں بس اسٹینڈز پر سرکاری یا کسی پروڈکٹ کا اشتہار ہوتا ہے، لیکن یہاں کے بس اسٹینڈز پر یہاں کی تاریخی شخصیات کے بارے میں لکھا ہوا ہوتا ہے اور لوگ بس کا انتظار کرتے وقت موبائل کے بجائے اسے پڑھتے ہیں۔ ترکی میں اس میوزیم کے علاوہ اور بھی درجنوں مشہور و معروف میوزیمس ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ آپ کو ان تمام میوزموں کے بارے میں بتاؤں۔ تب تک کے لیے آپ سوچیے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو بچانے کے لیے کیا کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply