ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری
معصوم مرادآبادی
میں نے برسوں پہلے ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری سے ایک وعدہ کیا تھا۔آج اس وعدے کی تکمیل کا وقت آیا ہے تو میری نظریں انھیں جس بے چینی اور شدت کے ساتھ تلاش کررہی ہیں،اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔یقینا آج وہ زندہ ہوتے تو اس خواب کی تعبیر دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری برصغیر ہندوپاک میں مولانا ابوالکلام آزاد کے سب سے بڑے شیدائی تھے۔ انھوں نے اپنی عمرعزیز کا بیشتر حصہ ابوالکلامیات پر تحقیق وجستجومیں گزارا۔ ان کی تحقیق وجستجو کا دوسرا مرکزمولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات تھیں جن کو سمجھنے میں وہ غرق رہے۔بقول خود
”میں نہ صرف حضرت ابوالکلام اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات کو سمجھنے میں غرق رہا بلکہ ان دونوں بزرگوں کی کتابیں بھی جمع کرتا رہا۔ اس کے علاوہ میں نے ان بزرگوں کی کتابوں کے تمام ہی ایڈیشن جمع کئے۔ میں نے حضرت مولانا ابوالکلام پر تقریباً پچاس کتابیں اور حضرت مولانا سندھی پر بارہ کتابیں تحریر کیں۔“
کوئی 38برس پرانی بات ہے۔ میں کراچی میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کے نام مولانا افتخار فریدی مرحوم کا ایک پرزہ لے کر انھیں ڈھونڈتا ہوا علی گڑھ کالونی پہنچا تھا۔ اس پرزے پر میرا مختصر ساتعارف تھا۔ انھوں نے اس پرزے کو پڑھ کر مجھے گلے لگالیا”اچھا اچھا آپ منشی عبدالقیوم خاں خطاط کے نواسے ہیں۔“میں نے اثبات میں سرہلایا اور ان کے قدموں میں بیٹھنے کی کوشش کی مگرانھوں نے مجھے اپنے سامنے والے صوفے پر بڑی محبت سے بٹھایا۔میرے نانامنشی عبدالقیوم خاں،مولانا آزاد کے کاتب تھے اورڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری اسی رشتے سے ان سے تعلق میں رہے تھے۔کراچی کے سفر میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے اپنی کئی قیمتی کتابیں مجھے ہدیہ کیں اور مجھ سے ایک وعدہ لیا کہ میں منشی عبدالقیوم خاں پر ایک کتاب لکھوں گا۔برسوں بعد جب میں اس قابل ہوپایا اور میں نے تقریباً200 صفحات کی ایک کتاب مکمل کی تو میری نظریں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کو ڈھونڈنے لگیں تاکہ میں ان سے بطورتبرک اس کتاب پر کچھ لکھواکر اشاعت کے قابل بناسکوں۔ان کا کوئی رابطہ نمبر یا ای میل بھی میرے پاس نہیں تھا۔ لاہور میں اپنے کرم فرما مولانا شبیر میواتی سے رابطہ قائم کرکے مدعا بیان کیاتو انھوں نے واٹس ایپ پر لکھا کہ ”ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوگئے ہیں۔ یادداشت بھی بہت کمزور ہوگئی ہے۔وہ واٹس ایپ اور ای میل کا استعمال نہیں کرتے۔“ شبیرمیواتی صاحب نے ان کا موبائل نمبر دیا، لیکن اس سے پہلے کہ میں ان سے رابطہ کرتا، اس اطلاع نے مجھے بہت رنجور کردیا کہ”ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کراچی میں انتقال فرماگئے۔“
انھوں نے پوری زندگی گوشہ نشینی میں گزاری اور اپنی کٹیا میں بیٹھ کر ایسے زبردست علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دئیے کہ ان کے سامنے بڑے بڑے اسکالر ہیچ ہیں۔انھوں نے 150سے زیادہ تحقیقی کتابیں اور ہزارہا مضامین اور مقالے اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔وہ صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر اور شہرت سے منہ موڑ کر اپنے کام میں مگن رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مستقبل کا مورخ جب برصغیر ہندوپاک کی تحریکوں اور شخصیات کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اسے قدم قدم پر ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی بیش قیمت کتابوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ انھوں نے جو اہم ترین علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دئیے ہیں انھیں فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی مثال ماضی کے ان علماء سے دی جاسکتی ہے جن کے نزدیک علم ہی سب سے بڑی دولت تھی اور کتاب ہی سب سے بڑا سرمایہ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جس علمی اور تحقیقی کام کو بھی ہاتھ لگایا اسے کندن بنادیا۔
ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری 30 جنوری 1940کو شاہجہانپور کے ایک باوقار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام تصدق حسین خاں تھا۔ابتدائی تعلیم شاہجہانپور میں ہی حاصل کی اور پہلے یہاں کے مدرسہ سعیدیہ اور بعد کو مرادآباد کے مدرسہ شاہی سے حفظ قرآن مکمل کیا۔ مدرسہ شاہی سے ہی ابتدائی عربی اور فارسی پڑھی۔تقسیم کے تین سال بعد جبکہ ان کی عمر محض دس سال تھی، وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ راجپوتانہ کے تپتے ہوئے ریگستان کوعبور کرتے ہوئے ایک وزنی بکس کے ساتھ جس میں باپ دادا کے زمانے کی قیمتی کتابیں تھی، پاکستان پہنچے۔ بقول خود:
”میراخاندان حضرت شاہ ولی اللہ کا عقیدت کیش تھا۔ میری خاندانی لائبریری میں کچھ کتابیں اٹھارہویں صدی کے علماء اور لیڈروں کی بھی تھیں۔ تقسیم کے بعد کے ہنگاموں کے زمانے میں میرے ماموؤں نے طے کیا کہ یہ ساری کتابیں کسی درس گاہ کو دے دی جائیں۔ عربی، فارسی اور کچھ اردو کی کتابیں، میں انھیں سمجھ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن ماموؤں اور خالوؤں کی باتیں سن کر میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ میں نے سوچا مجھے یہ کتابیں اپنے ساتھ پاکستان لے چلنی چاہئیں۔“
شاہجہانپوری صاحب کا بیان ہے کہ ان کے گھر والے چاہتے تھے کہ میں کچھ گھریلو برتن ساتھ رکھ لوں جو سفر میں کام آئیں گے۔ مگر میں نے ان کی جگہ کتابوں کو ترجیح دی۔ افسوس، وہ کتابیں ایک ناگہانی سیلاب کی نذرہوگئیں، جو نواب شاہ کے نشیبی علاقے میں آگیا تھا، جہاں ان کا قیام تھا۔ مہاجر کیمپ نمبر2سیلاب میں غرق ہوگیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:
”بزرگوں کے اس قیمتی ورثے کے ضائع ہونے سے مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ مگر اس نے میری علم کی بھوک کو بہت بڑھادیا۔ ہم 1957میں کراچی منتقل ہوگئے۔ میں اس وقت تقریباً بیس سال کا تھا۔ میں نے طے کیا کہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کروں۔“
اس کے پانچ برس بعد جبکہ ان کی عمر 25 برس تھی، انھوں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ میٹرک کرنے کے سات سال بعد انھوں نے 1970میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔1972 میں ان کا تقررنیشنل کالج میں بطور لیکچرر ہوا۔ اس دوران انھوں نے شاہ ولی اللہ کے خانوادہ علمی پر سرسید احمدخاں کی تحریروں پر بڑی تحقیق وجستجو کے بعد ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا۔ اسی مقالہ پر انھیں سندھ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کو برصغیر کی سیاسی تحریکات کو جو ادراک تھا وہ ہمارے کم ہی مورخین کے حصے میں آیا۔انھوں نے اپنے گہرے سیاسی اور تاریخی شعور سے ان تحریکات کو اپنی تحریروں میں جلابخشی۔انھیں برصغیر کی آزادی کی تاریخ، تحریکوں، تنظیموں اور سرکردہ شخصیات اور ان کے نشیب وفراز کا خاص شعور تھا۔بقول محمدفاروق قریشی:
”ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری گزشتہ ڈھائی سو برس کی سیاسی تحریکات، انقلابی شخصیات اور تاریخ وسیاسیات کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے وسیع مطالعے اور پختہ سیاسی ذوق کی بنا پر ان کی رائے صائب ہوتی ہے، جس پر سنجیدہ علمی حلقوں میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ نہ صرف ان کی تحریر زبان وبیان اور طرزنگارش کے محاسن سے مرصع ہوتی ہے، انھیں تالیف وتدوین کا خاص سلیقہ ہے۔“
(کتاب نماکا خصوصی شمارہ،جولائی 2004، صفحہ44)
ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی علمی اور تحقیقی زندگی کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنا سارا وقت تحقیق وتالیف میں گزارا۔ انھیں کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور گھومنے پھرنے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اپنے گھر میں سب سے پہلے سونا اور سب سے پہلے اٹھنا ان کا معمول تھا۔ ان کے دوستوں کا کوئی حلقہ نہیں تھا جس کے ساتھ وہ گپ شپ کرکے اپنا وقت ضائع کریں۔ نہ ہی ان کی کوئی مجلسی زندگی تھی اور نہ انھوں نے کسی ادبی، سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیم سے کوئی تعلق رکھا۔ انھوں نے 1962کے بعد کسی سیاسی، مذہبی جلسے یا جلوس میں شرکت نہیں کی۔ مطالعہ اور تصنیف وتالیف کے علاوہ انھیں کوئی شوق نہیں تھااور نہ وہ کسی دوسرے امور سے کوئی دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے موسوم ان کی ذاتی لائبریری میں کم وبیش20ہزار کتابوں کا ذخیرہ تھا جس سے ہر کسی کو استفادے کی اجازت تھی۔ وہ علم کی ترسیل وتبلیغ سے بھی اتنا ہی سروکار رکھتے تھے جتنا کہ انھیں تصنیف وتالیف سے تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ جتنے بڑے عقیدت مند اور مداح تھے اتنا شاید ہی کوئی اس زمانے میں موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سب سے زیادہ علمی اور تحقیقی کام مولانا آزاد پر کیا۔1988 میں جب مولانا کی صدی تقریبات منائی گئیں تو انھوں نے دودرجن کتابوں پر مشتمل پورا سیٹ شائع کیا اور اپنے اس کام کے لیے ارباب علم ودانش سے خراج تحسین وصول کیا۔خاص بات یہ تھی کہ یہ کام کسی ادارے نے نہیں بلکہ تنہا ایک شخص نے اپنے بل بوتے پر انجام دیا تھا۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری،شیخ الہند مولانا محمود حسن کے قابل فخر شاگردوں میں مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حسین احمدمدنی کی سیرت اور خدمات سے سب زیادہ متاثر نظرآتے ہیں۔ مولانا سندھی کے پچاس سالہ یوم وفات پر انھوں نے ایک درجن سے زائد تالیفات پر شائع کیں۔
سیاسی مطالعات ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کا ایک مقبول عام سلسلہ ہے۔انھوں نے اس سلسلہ میں مولانا محمودحسن، مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اللہ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے سیاسی مطالعات شائع کئے۔شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کی سیاسی تحریک ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی عقیدت ومحبت کا خاص محور ہے۔یہ تحریک چونکہ اپنی تاریخی اہمیت اور علمی فیضان کی وجہ سے بہت سی فکری، علمی، اصلاحی اور سیاسی تحریکوں کا سرچشمہ ہے اور ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے اس تحریک کے خاص اثرات اور برصغیر میں اس کے فیضان کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے برصغیر کی جن قومی وملی اور سیاسی تحریکوں کو اپنی تحقیق وجستجو کا محور بنایا ان میں ہندوپاک کی ملی تحریکات کے علاوہ تحریک خدام کعبہ،تحریک ہجرت، تحریک دارالعلوم، ریشمی رومال تحریک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس ذیل میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ”شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کی سیاسی ڈائری“ ہے۔ سات ہزار صفحات پر آٹھ جلدوں میں اس بے مثال کتاب کو جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے بڑے اہتما م سے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہجہانپوری نے مکاتیب پر بھی خاطر خواہ کام کیا ہے۔ انھوں نے مولانا آزاد، علامہ سید سلیمان ندوی مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمدعلی جوہراور مولانا عبید اللہ سندھی کے مکاتیب مرتب کئے اور ان پر نہایت فکرخیز اور تحقیقی مقدمے لکھے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے دوران کسی سیاسی یا مذہبی مباحثے میں نہیں الجھے اور انھوں نے اپنے لیے تصنیف وتالیف کی جو راہیں متعین کی تھیں، ان کے باہر کبھی قدم نہیں رکھا۔ان کی تصنیف وتالیف کی جملہ وسعتیں تقسیم ہند پر تمام ہوجاتی ہیں۔ بقول خود”جس روز میں نے تصنیف وتالیف کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا، یہ عہد بھی کرلیا تھاکہ وہ وقت کی سیاسیات سے تعلق نہیں رکھیں گے اور 14 اگست 1947کی لکیر سے آگے نہیں بڑھیں گے۔“
افسوس کہ ابوالکلامیات کا یہ ماہر اور برصغیر کی سیاسی اور علمی تحریکوں کا نبض شناس گزشتہ 2 فروری 2020 کوبہ عمر81سال اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون