ڈاکٹر تابش مھدی ؒ
’’ تیز دھوپ کا مسافر ‘‘
رحمت ِ باری کے سائے میں
بدرالاسلام قاسمی
وفات کی اطلاع
مؤرخہ 22 جنوری 2025ء کو صبح دس بجے کے قریب اطلاع ملی کہ معروف نقاد، مقبول شاعر، متعدد کتابوں کے مصنف، اسلامی روایات و اقدار کے امین، اکابر و اسلاف سے قلبی عقیدت رکھنے والے، تاریخی واقعات کے حافظ، حضرت مولانا سیّد محمد رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا قمر الزمان الہ آبادی دامت برکاتہم کے حلقہ ارادت کے نمایاں فرد، دہلی و دیوبند کے مختلف الفکر طبقوں میں اپنی شناخت رکھنے والے، انسانیت نواز اور نہایت با اخلاق شخصیت محترم جناب قاری ڈاکٹر تابش مہدی صاحب جوارِ رحمت میں منتقل ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

گزشتہ کئی دنوں سے ان کی صحت و علالت کے نشیب و فراز سے راقم واقف تھا، اس لیے یہ خبر اگرچہ کوئی اچانک ملنے والی اطلاع نہ تھی، تاہم راقم سے ان کے مخلصانہ، مشفقانہ اور مربیانہ تعلق کی بنا پر آنکھوں کو نم کرنے والی اور کچھ دیر تک قلب و دماغ کو متاثر کرنے والی ضرور تھی۔
تدفین میں شرکت
فوری طور پر حضرت مولانا محمد صغیر پرتاپ گڑھی مد ظلہ (استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) سے رابطہ کر کے دہلی جانے کی ترتیب بنائی، چنانچہ شام تقریباً چار بجے ہم لوگ مرحوم کے آستانے ’’بیت الراضیہ‘‘ میں ان کے پُر رونق چہرے کا آخری دیدار کر رہے تھے، جس پر ایمانی بشاشت نمایاں تھی، میرے ذہن میں تو اُن کی زبان سے نہایت شفقت و اخلاص سے نکلنے والا لفظ’’بیٹے!‘‘ بار بار گونج رہا تھا۔ مرحوم کے دونوں فرزند جناب دانش فاروق اور اجمل فاروق ندوی صاحبان سے تعزیت مسنونہ پیش کی، عصر کی نماز کے فورا بعد پانچ بجے قریب ہی کے ایک وسیع و عریض قبرستان میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں علماء، دانشوران، اور عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد نے انھیں سپرد خاک کیا۔دیر رات ہم دیوبند پہنچے تو ذہن میں مرحوم سے متعلق خوشگوار یادوں کا ایک ہجوم میرے ذہن و دماغ میں گردش کر رہا تھا، جنھیں ذیل میں تحریر کر رہا ہوں۔(ڈاکٹر تابش مہدی کیا تھے؟ اور کس نے انھیں اتنا عظیم بنایا؟ اس کو جاننے کے لیے سب سے بہترین ذریعہ ’’تیز دھوپ کا مسافر‘‘ نامی اُن کی خود نوشت ہے، اس لیے تاریخی اعداد و شمار اور خدمات و مناصب کے بجائے تأثرات ہی پیش خدمت ہیں)
پہلی ملاقات
ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کا نام میرے ذہن میں فقط ایک ادیب اور رکن جماعت اسلامی کے طور پر محفوظ تھا، حمد ونعت پر مشتمل ان کی کچھ کتابیں نظر سے بھی گزری تھیں، تاہم ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ تھا، کبھی کبھار استاذ گرامی حضرت مولانا محمد صغیر پرتاپ گڑھی مدظلہٗ کی زبانی ان کا ذکر خیر سننے کو ملتا۔حسن اتفاق کہ ان سے پہلی ملاقات بھی مولانا کے گھر پر ہی ہوئی، غالباً وہ عید کا کوئی دن تھا جس میں مرحوم مولانا کے گھر تشریف لائے تھے اور میں بھی وہاں اتفاقاً پہنچ گیا تھا۔یہ تھی ڈاکٹر صاحب مرحوم سے پہلی سرسری سی ملاقات!
کتابوں کی طباعت
سن 2017ء میں والد گرامی شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی نگرانی و سرپرستی میں مکتبہ النور دیوبند کا قیام عمل میں آیا جس کے ابتدائی محرّک اور رکن محترم جناب مولانا محمد صغیر صاحب مدظلہٗ تھے، جملہ اراکین کے دل میں مکتبہ کے تعلق سے جدوجہد کے جذبات تھے، کچھ کرگزرنے اور نشر و اشاعت کے ذریعے سے دین کی خدمت کا عزم و حوصلہ بھی تھا، لیکن ظاہر ہے کہ یہ تمام باطنی امور ہیں اور دنیا دارالاسباب ہے، الدنیا بالوسائل لابالفضائل۔ ایسے موقع پر ابتدائی طور پر نہایت معمولی سرمایہ لگا کر یہ ادارہ وجود میں آیا، دل میں رزقِ حلال کی طلب تھی اور ذہن میں فقہی کتابوں میں پڑھی ہوئی کچھ تجارت کی شکلیں بھی، لہٰذا کچھ ’’اپنوں‘‘ کے سامنے ’’مضاربت‘‘ کا پروجیکٹ پیش کیا، جسے کچھ نے سراہا، دل چسپی دکھائی، حصہ لیا اور بعض نے اپنے قدم پیچھے بھی ہٹا لیے۔ مولانا محمدصغیر صاحب سے چوں کہ ڈاکٹر تابش مہدی کا وطنی تعلق تھا اور یہ تعلق یوں بھی نہایت مضبوط و مستحکم تھا کہ اُن کے والدحضرت مولانا محمد یار پرتاپ گڑھی علیہ الرحمہ نے بچپن میں ڈاکٹر صاحب کی تربیت بھی کی تھی جس کا انہیں ہمیشہ احساس رہا اور وہ وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی فرماتے رہے۔ مولانا ہی کے توسط سے ڈاکٹر صاحب تک ’’مضاربت‘‘ والی بات پہنچی تو انھوں نے باضابطہ مکتبہ میں شرکت کی ، قدوری اور مشکوٰۃ الآثار جیسی کتابیں اپنے سرمائے سے شائع کیں اور وہ معاملات بحمد اللہ بحسن و خوبی انجام تک پہنچے۔
معاملات کی پختگی
مذکورہ کتب کی طباعت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی دو اہم کتابوں کی تصنیف مکمل ہوئی ’’معلم انسانیت‘‘ اور ’’مرشد ِ تھانوی‘‘ ، جس کی طباعت و اشاعت کی ذمہ داری انھوں نے مکتبہ النور ہی کے سپرد کی، ان کے علاوہ بھی چند دیگر کتب مکتبہ سے شائع کیں جن کا تفصیلی تعارف آگے پیش کیا جائے گا۔ اس دوران جو باتیں ہم جیسے ناتجربہ کار افراد نے اُن سے سیکھیں اُن میں سے ایک اہم چیز تھی وقت کی پابندی اور معاملات کی پختگی۔ وہ جب بھی کسی کتاب کی طباعت وغیرہ سےمتعلق کام سپرد کرتے اُس کا متوقع وقت معلوم کرتے، جوں ہی وہ وقت مکمل ہوتا ڈاکٹر صاحب کا فون یا مسیج ضرور آتا۔ اکثر و بیشتر اُن کے کام وقت پر ہی پورے ہوجاتے لیکن کبھی کبھار تاخیر بھی ہوجاتی، ایسے موقع پر کبھی بھی اُن کے لبوں پر کوئی حرفِ شکایت نہ آتا، نہایت صبر و تحمل اور شفقت و محبت سے پیش آتے۔ کام مکمل ہونے پر بلکہ اکثر و بیشتر پہلے ہی اُنھیں رقم کی ادائیگی کی فکر ہوتی، جتنے کا حساب نکلتا وہ جلد از جلد اُس سے سبکدوش ہونے کی کوشش فرماتے۔
والد گرامی سے تعلق اور عیادت
راقم کے والد مرحوم سے اُن کا تعلق تقریباً ساڑھے چار دہائیوں کو محیط ہے۔ جس کا آغاز خود اُن کے مطابق اگست ۱۹۷۸ء کو ہوا اور اُن کی وفات تک باقی رہا۔ چناںچہ لکھتے ہیں:
’’مولانا محمد اسلام قاسمی سے میرے تعلقات اور برادرانہ رسم و راہ کا سلسلہ کم و بیش ساڑھے چار دہائیوں کو محیط ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات اگست ۱۹۷۸ ءکی کسی تاریخ کو ہوئی تھی۔یہ وہ زمانہ ہے، جب دارالعلوم کے جشن صدسالہ کی تیاریاں بڑے زور و شور سے چل رہی تھیں۔تبصروں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی کافی زوروں پر تھا۔آئے دن کوئی نہ کوئی دل چسپ اور حیرت انگیز بات سننے کو ملتی تھی۔ ان دنوں مولانا حامد الانصاری غازی اِس مہم کی سربراہی فرمارہے تھے۔ان کے بعد اس کی نظامت مولانا محمد اسلم قاسمی کو تفویض ہوگئی تھی، جو آخر تک رہی۔ اُنھی دنوں ادارۂ تجلی دیوبند سے پندرہ روزہ ’’اجتماع‘‘ دیوبند کا اجرا بھی ہوا تھا۔ برادر محترم مولانا حسن احمد صدیقی (حسن الہاشمی)اس کے مالک و مدیر اعلیٰ تھے اور میں ناچیزتابش مدیر۔ان دنوں میں تابش عامری کے قلمی نام سے جانا جاتا تھا۔ ’اجتماع‘ کے بعض مضامین لوگوں کی توجہ کا مرکز اور نقد وبحث کا موضوع بنے ہوے تھے۔ایک دن برادر مکرم مولانا حسن احمد صدیقی کے ہم راہ میں کسی سلسلے میں محترم مفتی شکیل احمد سیتاپوری کے ہاں گیا ہوا تھا۔مفتی صاحب اس وقت دارالعلوم کے معززو مؤقر استاذوں میں تھے۔ ذمہ دارانِ دارالعلوم سے بھی بہت قریب تھے اور طلبہ و اساتذہ میں بھی انھیں محبوبیت حاصل تھی۔ ابھی ہم مفتی صاحب کے ہاں پہنچے ہی تھے کہ دارالعلوم کے ادب عربی کے استاذ اور اس کے عربی ترجمان الدّاعی کے ایڈیٹر مولانا بدرالحسن قاسمی بھی پہنچ گئے۔ ان کے ہم راہ مولانا محمد اسلام قاسمی بھی تھے۔ جنھیں ان دنوں عموماًمولوی اسلام دُمکوی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب دیوبند کے بڑے قد آور علما مولوی ہی کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ حضرت یا مولانا کا لفظ تو بس خاص اشخاص یا مواقع کے لیے ہی مختص تھا۔چوں کہ اس وقت اسلام نام کے اور لوگ بھی موجود تھے، اس لیے نام کے ساتھ قاسمی کی بہ جاے دمکوی کا لاحقہ متعارف تھا۔ مولانا محمد اسلام صاحب سال ڈیڑھ سال پہلے ہی مختلف تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد دارالعلوم کے عربی ترجمان الدّاعی سے وابستہ ہوے تھے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’مولانا محمد اسلام قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل بھی تھے اور اس کے نظریہ و فکر کے عارف و قدر شناس بھی۔ پوری زندگی وہ اِسی نظریہ و فکر کی ترجمانی کرتے رہے اور سنجیدگی اور وقار کے ساتھ اس پر عامل بھی رہے۔ قوتِ حافظہ بھی اللہ تعالیٰ نے بلا کی ودیعت فرمائی تھی۔ مسلک و مکتبِ فکر یا کسی دوسرے علمی یا تحقیقی موضوع پر سرسری طور پر بھی ان کے کانوں میںجو بات پڑگئی یا نگاہ سے گزر گئی، اسی طویل مدت کے بعد بھی جب حسب ضرورت پیش کرتے تھے، اسی ترتیب و تسلسل کے ساتھ پیش کرتے تھے، جس ترتیب و تسلسل کے ساتھ وہ بات سنی یا پڑھی ہوئی تھی۔ میرا احساس ہے کہ یہ رنگ ان کے اندر کچھ اپنے طبعی رجحان اور بہت کچھ رئیس الافاضل خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبتوں سے آیا ہوگا۔ وہ حضرت خطیب الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے بے لوث و بے غرض شیدائیوں میں تھے۔ انھوں نے حضرت والارحمۃ اللہ علیہ کی طویل صحبتیں اٹھائی تھیں۔ بعض اسفار میں ان کے ہم راہ بھی رہے ہیں۔‘‘
والد مرحوم کی عیادت کے لیے وہ غریب خانے پر تشریف لائے تھے جس کا ذکر انھوں نے کچھ یوں کیا ہے:
’’جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ مولانا محمد اسلام قاسمی ذی فراش تو بہت دنوں سے تھے۔ کئی بار فالج کے حملے ہوچکے تھے۔ مختلف ذرائع سے ان کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا۔ کبھی کبھی ان کے فرزند عزیزی مولوی بدرالاسلام قاسمی کے ذریعے سے بھی مزاج پرسی اور خیریت طلبی کا سلسلہ رہتا تھا، لیکن کچھ تو ان کی اور کچھ اپنی بیماری کی وجہ سے ملاقات کی صورت نہیں پیدا ہوپاتی تھی۔ وفات سے کچھ دنوں پہلے جب میں تمام مصلحتوں اور احتیاطوں کو نظر انداز کرکے ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۲ءکو ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا تو انھیں دیکھ کر حیرت و استعجاب کی انتہانہ رہی۔انھوں نے مجھے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ پہچان لیا، بل کہ ابتدائی سلام و کلام کے بعد ہی کتابِ ماضی کے اوراق پلٹنے لگے۔مشفقی، مخدومی حضرت مولانا سیّد انظر شاہ مسعودی رحمۃ اللہ علیہ کی عشائی مجلسوں کے بعض واقعات کو دہرایا، ادارۂ علم و حکمت کی ان طویل نشستوں کا ذکر کیا، جن میں بھائی عبداللہ جاوید ، مفتی محمد الیاس گونڈوی اور دوسرے بعض احباب پابندی کے ساتھ بیٹھتے تھے۔غیرمعمولی خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ وہ دیکھنے میں تو بالکل ٹوٹ چکے تھے، ہم جیسوں کے لیے انھیں پہچاننا مشکل ہوگیا تھا، لیکن ان کے حافظے اور عزم و ہمت میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ فرمایا:’’تابش بھائی! آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ کی سرگرمیاں علم میں آتی رہتی ہیں۔ اِن شاء اللہ میں بھی بہت جلد میدان میں آجائوں گا۔ آپ جیسے مخلص دوستوں کے ساتھ نشست و برخاست شروع ہوجائے گی اور شعر و ادب کی محفلیں گرم ہونے لگیں گی۔ آپ ہم دوستوں کو چھوڑ کر دہلی رہ بس گئے۔ لیکن میں وہاں بھی پہنچوں گا۔‘‘وہ یہ سب باتیں کیے جارہے تھے، لیکن میں کسی اور سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ مجھے اِس بات کا شدّت کے ساتھ احساس ہو رہا تھا کہ انھیں بیٹھنے اور مجھ سے کلام کرنے میں بے انتہا زحمت ہورہی ہے۔ میں نے سلسلۂ کلام کو ختم کرکے ان سے اجازت چاہی اور آیندہ جلد ملاقات کا وعدہ کرکے عزیزی مولوی بدرالاسلام قاسمی کو ساتھ لے کر برادر عزیز و مکرم مولانا سیّد نسیم اختر شاہ قیصر کی مزاج پرسی کے لیے روانہ ہوگیا۔‘‘(کیا شخص زمانے سے اُٹھا، جلد دوم، ص۵۴)
سوانح کی ترتیب پر حوصلہ افزائی ، ملاقاتیں اور واقعات کا تسلسل
والد گرامی کی وفات کے بعد جب راقم نے اُن کی سوانح مرتب کرنے کا ارادہ کیا اور اُن کے تقریباً تمام باذوق احباب و معاصرین کی خدمت میں مضمون لکھنے کی درخواست کی تو ڈاکٹر صاحب نے اپنا مذکورہ قیمتی و مفصل مضمون ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو عنایت فرمایا۔ یہ میرے لیے نہایت خوش نصیبی بلکہ سعادت کی بات تھی کہ دیوبند میں اُن کا ذاتی مکان میرے ہی محلے میں کچھ فاصلے پر واقع ہے، وہ جب بھی دیوبند تشریف لاتے تو میں ضرور حاضر خدمت ہوتا۔ وہ دعائوں سے نوازتے اور زیر ترتیب سوانح کے تعلق سے استفسار کرتے۔ مفید مشوروں سے نوازتے اور بے انتہا حوصلہ بخش جملے ارشاد فرماتے۔
جب بھی اُن کی خدمت میں حاضری ہوتی تو وہ ماضی میں ایسے کھو جاتے کہ بس اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں مسلسل نصیحت آموز اور نکات سے بھرپور واقعات سناتے۔ اللہ تعالیٰ نے قوت ِ حافظہ بھی بلا کا عطا فرمایا تھا۔ چناںچہ کوئی بھی واقعہ مطلقاً نہ سناتے، واقعہ جس شخص سے متعلق ہوتا پہلے اُس کے کچھ حالات کاذکر ہوتا، پھر سن اور مہینے کے ساتھ واقعہ بتاتے، بلکہ بسااوقات تو تاریخ بھی ذکر کرتے ۔ ہم چھوٹوں کو اُن کی مجلس میں بیٹھ کر ایسے ایسے تجربات حاصل ہوتے اور اتنا لطف آتا کہ جسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
بزرگوں سے عقیدت
ان واقعات کے دوران اکابر و اسلاف کا ذکر آتا تو ایسی وارفتگی اور فریفتگی اُن کی باتوں سے نمایاں ہوتی جس کی نظیر بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔خاص طور پر مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری قدس سرہٗ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی نوراللہ مرقدہٗ، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی علیہ الرحمہ، فخرالمحدثین حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ، اپنے مرشد و مربی حضرت مولانا رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا قمرالزماں الٰہ آبادی دامت برکاتہم کا نہایت عقیدت کے ساتھ ذکر فرماتے۔ شاہ صاحب ؒ کی دیوبند کی مجلسوں کا ذکر بھی خوب اہتمام سے فرماتے اور دورانِ مجلس پیش آمدہ واقعات بھی بڑا لطف لے کر سناتے۔
نماز باجماعت اور تلاوت کی پابندی
ڈاکٹر صاحب مرحوم نماز باجماعت اور تلاوت کے بے حد پابند تھے۔ اگرچہ پچھلے چند سالوں میں اُن کے دل کے متعدد آپریشن ہو چکے تھے، مختلف امراض نے انھیں گھیر رکھا تھا جس کی وجہ سے بسااوقات پیدل چلتے ہوئے تھک جاتے، ایسی حالت میں بھی اُنھیں نماز باجماعت کی بڑی فکر رہتی۔ وہ حتی الامکان قریبی مسجد میں تشریف لاتے۔ کچھ ایسی ہی پابندی تلاوت قرآن کریم اور ذکر و اذکار کی تھی۔
بہترین قاری
بہت سی جامع الکمالات شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر کوئی ایک رنگ غالب آجاتا ہے، اور عوام اُنھیں بس اُسی رنگ سے پہچانتی ہے، حالاںکہ وہ اپنے اندر ڈھیروں خوبیاں رکھتے ہیں، کچھ یہی حال ڈاکٹر صاحب مرحوم کا بھی تھا، دنیا اُنھیں ایک بہترین نقاد، استاذ شاعر اور ماہر فن ادیب کی حیثیت سے جانتی تھی، حالاں کہ اس کے علاوہ بھی ان میں کئی خوبیاں تھیں۔ چناںچہ وہ ایک بہترین قاری بھی تھے، مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد سے اُنھوں نے یہ فن سیکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ دیوبند میں قیام کے دوران بسااوقات الگ الگ جگہوں پر نماز پڑھنے کا اتفاق ہوتا تو ہم جب بھی حاضر خدمت ہوتے تو وہ ائمہ کی قرأت پر فنی تبصرہ بھی فرماتے۔یہ تبصرے بھی عجیب و غریب ہوتے تھے، ہم خردوں کی تو نظر بھی اُن خامیوں تک نہ پہنچ پاتی تھی لیکن وہ اتنے مشاق اور ماہر تھے کہ ایک مرتبہ تلاوت سنتے ہی اندازہ لگا لیتے۔
مکتبہ النور سے شائع کتب کا مختصر تعارف
یوں تو مرحوم کے تحریری کارنامے زبان و ادب، شعر و شاعری، شخصیات و سوانح اور تعارف و تجزیہ وغیرہ کے ہرمیدان میں نمایاں ہیں، تاہم ذیل میں اُن پانچ کتابوںکا تعارف پیش کیا جا رہا ہے جو مکتبہ النور دیوبند سے شائع ہوئی ہیں:
معلم انسانیتﷺ
فخرموجودات اور سرورِ کائنات، حضورِ اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ پر تحریر کی گئی یہ کتاب ۲۴۸؍صفحات پر مشتمل ہے جس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۹ء میں شائع ہوا تھا، کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب کا تحریر کردہ بیس صفحات کا مقدّمہ ہر اہل علم کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ جس میں اوّلاً انھوں نے سیرت پاک ﷺ کی اہمیت کو بیان کیا ہے، اُس کے بعد اردو زبان میں لکھی گئی سیرت کی کئی اہم کتابوں کا نہایت جامع تعارف پیش کیا ہے۔ سیرت النبی ﷺ (علامہ شبلی نعمانی، مولانا سیّد سلیمان ندوی)، رحمۃ للعالمین (قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری) ، اصح السیر (مولانا عبدالرؤف قادری داناپوری)، سیرت المصطفیٰ (مولانا محمد ادریس کاندھلوی)، درّ یتیم (ماہرالقادری)، پیغمبر اسلام (ڈاکٹر محمد حمیداللہ)، نبی رحمت (مولانا سیّد ابوالحسن علی حسنی ندوی)، محسن انسانیت( نعیم صدیقی)، رہبر انسانیت (مولانا سیّد محمد رابع حسنی ندوی) اور الرحیق المختوم (مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری) جیسی اہم کتابوں کا اتنا مختصر اور جامع تعارف شاہد ہی کہیں یکجا طور پر دستیاب ہو سکے۔ نہایت سلیس و شستہ زبان میں ۱۵۶ صفحات تک سیرتِ نبوی ﷺ مکمل ہوجاتی ہے، اس کے بعد خلفائے راشدین کا مختصر اور جامع تذکر ہ بھی شامل کتاب ہے۔ جن کے بارے میں مصنّف کا یہ اقتباس سونے کے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے:
’’سیرتِ رسول کو سمجھنے کے لیے رفقائے رسول کی پاک و صاف زندگیوں سے باخبری ناگزیر ہے، اس لیے کہ میرا احساس ہے کہ سیرتِ اصحابِ رسول ﷺ سے واقفیت کے بغیر سیرتِ رسول ﷺ کو نہیں سمجھا جا سکتا ، اور سیرت ِ رسول ﷺ سے واقفیت کے بغیر دین کو نہیں سمجھا جا سکتا۔‘‘
مرشد ِ تھانوی
۱۵۱؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ کے اصلاحی و تربیتی نظام کا مختصر تذکرہ ہے۔جس میں مصنّف نے حکیم الامت ؒ کی زندگی کے تربیتی گوشوں کو بہت عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے، مثلاً حضرت تھانویؒ کا تقویٰ و انابت، انضباطِ اوقات، اعتدال و تواضع، تعلیم و تربیت، تدریسی تجربات، وعظ و خطابت، نصیحت آموز واقعات، نظامِ سفر و متعلقات، عادت و مزاج، عجز و خاکساری، اصلاح و سلوک، حقوقِ طریقت، درسِ آدمیت، آدابِ خانقاہ، آدابِ ملاقات، سیاسی تحریکیں اور وصایا وغیرہ۔ اخیر میں کتاب میں مرشد تھانویؒ کے مجازین بیعت اور مجازین صحبت کی فہرست بھی شامل کتاب ہے۔
’’حرفِ اوّلیں‘‘ میں مصنّف لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ اشرف علی تھانویؒ کسی شخص یا فرد کا نام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ وہ سلسلہ بالواسطہ طور پر آج بھی جاری ہے۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا کام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘
تصوّف یہ ہے
۱۴۳؍ صفحات پرمشتمل اس کتاب کا نام سن کر عام قاری کے دماغ میں جو خاکہ ابھرتا ہے وہ اس کتاب میں نہیں ہے، بلکہ یہ کتاب اُن گیارہ بزرگانِ دین اور اولیائے کرام پر لکھے گئے نہایت قیمتی اور عمدہ مضامین کا مجموعہ ہے جن کی زندگی کا ہر ہر گوشہ راہِ شریعت و طریقت کے عین مطابق تھا، جن پر چل کرہی انسان کو مقصودِ تصوّف یعنی رضائے الٰہی کی راہ مل سکتی ہے۔ چناںچہ حضرت شاہ فضل رحماں گنج مرادآبادی، حضرت مولانا سیّد محمد امین نصیر آبادی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، سراج الامت مولانا سراج احمد امروہوی، مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی، شیخ المشائخ مولانا شاہ محمد احمد پھول پوری، مفکر اسلام مولانا سیّد ابوالحسن علی حسنی ندویؒ، محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق حقی، خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی اور مصلح وقت مولانا شاہ ظفر احمد جون پوری پر تحریر کردہ اس مجموعۂ مضان کے شروع میں ’’سخنے چند‘‘ کے عنوان سے مصنّف تحریر فرماتے ہیں:
’’واضح رہے کہ تصوّف کے سلسلے میں دو انتہائیں سامنے آتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ اِس پر مخالف و موافق دونوں اپنے اپنے رویوں سے ظلم و ستم ڈھارہے ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے، جوہر قسم کی جہالت ،گم راہی، رسم پرستی اور توہمات کو تصوّف کا لبادہ اُڑھاتا ہے اور اسے روحانیت سے تعبیر کرتا ہے اور دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اس کے حقیقی معنی، مفہوم اور کارناموں کا مطالعہ کیے بغیر محض اس کے نام کو نقد و جرح کا موضوع بناتا ہے اور مثال میں انھی جہلا اور گم راہوں کو پیش کرتا ہے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب ’تصوّف یہ ہے!‘ میں میں نے حقیقی اور معنوی تصوّف کے گیارہ نمونے پیش کیے ہیں۔ اِس میں آٹھ تو وہ ہیں ، جنھیں نہ صرف یہ کہ میں نے دیکھا ہے، بل کہ ایک طویل زمانہ ان کی صحبتوں میں رہنے، ان کی باتیں سننے اور ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر رہا ہے۔ جو کچھ پیش کیا ہے، وہ شنیدہ کم اور دیدہ زیادہ ہے — تین اعلیٰ و برگزیدہ نمونے وہ ہیں، جنھیں گرچہ میں نے دیکھا نہیں ہے، لیکن اُنھیں حقیقی تصوّف و معرفت کی دنیا میں ستون کی حیثیت حاصل ہے اور جن بزرگوں اور اکابر سے میری کسی نہ کسی درجے میں وابستگی رہی ہے، ان سب کا تعلق انھی سے رہا ہے۔‘‘
’’رحمت ِتمام‘‘ اور ’’دانائے سبل‘‘
یہ دونوں کتابیں ڈاکٹر صاحب ؒ کے نعتیہ کلام کے مجموعے ہیں۔ اوّل الذکر ۱۷۶ صفحات پرمشتمل ہے جب کہ دوسرے مجموعہ میں ۱۶۸؍ صفحات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شعر و شاعری کی اصل معراج اور امتیاز دراصل وہ اسلامی فکر ہے جسے وہ نسل نو کے سامنے پیش کرتے ہوئے راہی ملک عدم ہوگئے۔ جس کو نہ صرف یہ کہ انھوں نے پوری زندگی برتا، الفاظ کا جامہ پہنایا، علمی و عوامی محفلوں میں پیش کیا بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اسی کی تلقین کی۔ ان کی وفات کے بعد متعدد شاگردوں کی جانب سے جو تحریری خراجِ عقیدت سامنے آئے ہیں اُن میں اس وصف کا تذکرہ کہیں نہ کہیں ضرور ملتا ہے۔
دونوں کتابوں کے آغاز میں کچھ حمد و مناجات ہیں اور پھر نعت رسول، اخیر میں مناقب ِ صحابہ ؓ بھی شامل کتاب ہیں۔ رحمت ِ تمام کے آغاز میں حال ہی میں شہادت پانے والے مولانا سیّد جعفر مسعود حسنی ندوی ؒ (ناظر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کا۸؍صفحات پر مشتمل مقدّمہ ہے جس کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’پُر اثر ہی نہیں انتہائی پراثر، پرسوز ہی نہیں انتہائی پرسوز نعتیہ اشعار پر مشتمل یہ قیمتی مجموعہ ’رحمت تمام‘ہمارے سامنے ہے۔ اِس کا ہر لفظ محبت میں ڈوباہوا، عشق میں گندھا ہوا اور یقین کی پرتوں میں لپٹا ہوا ہے۔ شاعر کا لہجہ والہانہ، زبان پاکیزہ، الفاظ فصیح وبلیغ اور اس کے خیالات بلند وبالا ہیں۔ گویا یہ مجموعہ سخن ان تمام فنی خوبیوں اور محاسن کو سمیٹے ہوئے ہے، جو شاعری کی اس امتیازی اور اہم ترین صنف نعت کے لیے ناگزیر ہیں۔ لائق ستایش ہیں، اس مجموعے کے خالق ڈاکٹر تابش مہدی کہ انھوں نے اپنے اس نعتیہ شعری مجموعے کے ذریعے سے عشق نبیؑکی اس لو کو تیز کرنے کی کوشش کی ہے، جو اس دور کے تعلیمی نظام ، تہذیبی یلغار، فکری انحراف اور بڑھتی مادہ پرستی کی وجہ سے برابر مدھم ہوتی جارہی ہے۔
نعتیہ مجموعہ ہویا نعتیہ مشاعرہ، سیرت پر جلسہ ہویا سیرت پر انعامی مقابلہ، میں اِن سب کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھتا ہوں۔ اس روایت کو جتنا بھی عام کیا جاے کم ہے۔ ‘‘
اسی کتاب کی پشت پر حضرت مولانا سیّد محمد رابع حسنی ندوی، مولانا ڈاکٹر سیّد عبداللہ عباس ندوی اور حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلویؒ کے ڈاکٹر صاحب مرحوم سے متعلق نہایت وقیع اقتباسات درج ہیں۔
’’دانائے سبل‘‘ کے شروع میں پروفیسر احمد محفوظ صاحب (صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) کی ایک تحریر بعنوان ’’تابش مہدی کی نعت گوئی‘‘ شامل ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانے میں اردو نعت گوئی کی دنیا جن نمایاں اور مشہور شعرا سے پہچانی جاتی ہے،ان میں ڈاکٹر تابش مہدی کا نام بالکل سامنے کا ہے۔گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے عرصے میں انھوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نعت اور مناقب کے فن کو جس شوق اور انہماک کے ساتھ اختیار کیا، وہ عام طور سے بہت کم شعرا میں نظر آتا ہے۔ تابش مہدی صاحب کے اب تک کئی مجموعۂ کلام منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جن میں نعت کے بھی مجموعے شامل ہیں۔ زیر نظر مجموعے ’’داناے سبل‘‘ کی بنیادی حیثیت اگرچہ مجموعۂ نعت کی ہے، تاہم اس میں حمدیہ اور منقبتی کلام بھی خاصی تعداد میں شامل ہے۔اس طرح یہ کتاب ایسے مجموعے کی حیثیت رکھتی ہے،جس میں حمد، نعت اور منقبت تینوں اصناف سے نہ صرف شاعر کی غیرمعمولی دل چسپی کا اظہار ہوتا ہے، بل کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان اصناف میں بھی شاعر کی قادرالکلامی یہاں پوری طرح جلوہ گر ہے۔‘‘
کاروانِ حکیم الاسلامؒ کے مضبوط حامی
یہاں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحومؒ موقف و نظریے کے حوالے سے نہایت مضبوط اور اٹل شخصیت تھے، قسمت دیکھیےکہ قضیۂ دارالعلوم کی شب ِ تاریک میں وہ دیوبند میں تھے اور ملّت کی اس امانت پر امنڈنے والے سیاہ بادلوں کا بذات خود مشاہدہ کر رہے تھے۔ جس کا انھوں نے تفصیل کے ساتھ اپنی خود نوشت میں ذکر بھی کیا ہے۔ اس دن سے تاوفات وہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ، ان سے وابستہ ہر ایک فرد، اور دارالعلوم وقف دیوبند کے جاں نثار رہے۔ کوئی بھی عالم دین جب اُن سے ملاقات کرتا اور دیوبند سے سند فضیلت حاصل کرنے کا ذکر کرتا تو وہ ضرور معلوم کرتے کہ کون سے ادارے سے فراغت ہے؟ دارالعلوم وقف سے یا ——-۔ اس موقف کے اظہار کے لیے وہ کبھی کسی مصلحت کے قائل نہیں رہے۔
چند یادگار مکالمے
ڈاکٹر صاحب تو جوارِ رحمت میں منتقل ہوگئے اور ارحم الراحمین کی ذات سے یقین کامل ہے کہ شرافت و نجابت اور اخلاقِ نبوی ﷺ کو اپنی پوری زندگی میں سمونے اور برتنے والے، صفاتِ باری تعالیٰ اور اوصافِ نبویﷺ کو اپنی حمد و نعت میں پیش کرنے والے، تلاوتِ قرآن اور درودِ پاک سے اپنی زبان کو تر رکھنے والے اس بندے کو پروانۂ مغفرت عطا ہوا ہوگا۔ لیکن اپنے پیچھے وہ اِس گناہ گار کے لیے یادوں کے وہ انمٹ نقوش چھوڑ گئے جو ذہن و دماغ میں نہ صرف یہ کہ ہمیشہ تازہ رہیں گے، بلکہ آگے چل کر نشیب و فراز سے لبریز زندگی میں ایک مربی و رہنما کی غیرموجودگی کا احساس دلا کر آنکھوں کو نم بھی کریں گے۔
اُن کے ایسے ہی کچھ شفقت بھرے واٹس اپ کے پیغامات پر یہ تحریر مکمل کرتا ہوں :
’’معلم انسانیت‘‘ اور ’’مرشد تھانوی‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی طباعت کے موقع پر کچھ سرورق ڈیزائن کرکے راقم نے اُنھیں ارسال کیے، جواب کچھ یوں عنایت فرمایا:
’’السلام علیکم عزیزی!
دونوں نمونے اچھے ہیں، اس منزل میں ہوں کہ کسی ایک کا انتخاب مشکل کام ہے۔ آپ کی صواب دید پر ہے۔ جوچاہیں منتخب کر لیں۔‘‘
والد گرام کی سوانح کی ترتیب کے وقت راقم نے آپ کو لکھا تھا:
’’(بعد سلام و تمہید) راقم کا ارادہ ہے کہ ہر مقالہ نگار کا مختصر تعارف بھی حاشیے میں درج کیا جائے، تاکہ غیرشناسا قاری کو صاحب ِ تحریر سے ایک گونہ مناسبت ہو سکے۔‘‘
جواب میں کچھ یوں حوصلہ افزائی فرمائی:
’’وعلیکم السلام عزیزی! آپ کا منصوبہ مناسب اور مسرت بخش ہے۔‘‘
۱۵؍جون ۲۰۲۴ءکو جب راقم نے گھر پر ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو یوں کرم فرمایا:
’’وعلیکم السلام عزیزی! اگر دو بجے تشریف لا سکیں تو مناسب ہوگا۔ آپ چاہیں تو میں خود بھی ظہر کے بعد حاضر ہو سکتا ہوں۔‘‘
راقم کو دیوبند میں اُن کی کچھ ذاتی خدمت کی بھی توفیق ہوئی، جس سے متعلق مالی معاملات کے بارے میں یوں ہدایت فرمائی:
’’جزاک اللہ! مناسب ہوگا کہ ایک نوٹ بک رکھ لیں تاکہ حساب کی تفہیم میں سہولت رہے۔‘‘
جب راقم نے ’’النور اسلامک اکیڈمی اورمکتبہ النور دیوبند ‘‘ کے اشتراک سے تحریری مسابقہ کرایا تو اُس وقت باوجودیکہ شدید بیمار تھے، کچھ یوں حوصلہ افزائی کی:
’’السلام علیکم عزیزی! اہلیہ محترمہ اور عزیزی اجمل فاروق سے آپ کی جو باتیں ہوتی رہی ہیں وہ سب میرے علم میں آتی رہی ہیں۔ بیٹے!—- انعامی مقابلے کے نتیجے سے خوشی ہوئی۔ والسلام‘‘ (بقلم دختر)