ہندوستان کی تحریک آزادی میں علماء کا اہم کردار
ان کے تذکرہ کے بغیر آزادی کی تاریخ نامکمل
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
ہندوستان کی آزادی مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ مجاہدین آزادی نے علمائے کرام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کے تذکرہ کے بغیر آزادی کی تاریخ نامکمل ہے۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف اس وقت آواز اٹھائی جب ہندوستان کی آزادی کے لئے کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی۔ تحریک تو دور کی بات ہے، کسی کو انگریزوں کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ تاریخ کے مطابق انگریزوں کے خلاف علماء کی تحریک ۱۸۰۳ء سے پہلے شروع ہوچکی تھی، جب کہ باضابطہ تحریک ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی ، جوملک کی آزادی تک جاری رہی۔ ملک کی آزادی کے لئے انہوں نے اپنی جان قربان کردی، پھانسی کے پھندے کو خوشی کے ساتھ گلے میں پہن لیااور شہید ہوگئے۔ کالا پانی کی سزائوں کو برداشت کیا اور اُف تک نہیں کی۔ اس طرح بہت سی قربانیوں کے بعد ہمارا ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہمارا ملک آزاد ہوا، آج ہمارا ملک آزاد ہے اور ہم آزادی کی فضا میں سانس لے رہےہیں، یہ آزادی مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر ہم ملک کی آزادی کا جشن مناتے ہیں اور شہداء اور مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو یاد کرکے ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔
یقین جانئے کہ وہی قوم زندہ رہتی ہے جو اپنے بزرگوں کے کارنامے کو یاد رکھتی ہے اور وہ قوم مردہ ہوجاتی ہے جو اپنے بزرگوں کے کارناموں کو بھول جاتی ہے۔ مجاہدین آزادی میں علماء کی بڑی تعداد ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ جب کبھی مجاہدین آزادی کی بات آتی ہے تو صرف چند ہی کے نام ہماری زبان پہ آتے ہیں، بقیہ دیگر مجاہدین آزادی کے نام اور کارناموں سے ہم ناواقف ہیں۔
ہندوستان کی آزادی کے جشن کے موقع پر مجاہدین آزاد ی کے نام میں سے کچھ کے نام پیش کئے جاتے ہیں، جنہیں ہم دن بہ دن بھولتے جاتے ہیں، تاکہ ہم اور ہماری نسل ان کے نام سے واقف رہے اور ان کے نام سے واقف اور کارناموں کو یاد رکھے۔
علمائے کرام جنہوںنے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں پیش کیں اور تحریک آزادی میں حصہ لیا، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلویؒ،حضرت سید احمد شہید، شیخ الاسلام مولاناسید عبدالحئی، حضرت سیدشاہ محمد اسمٰعیل شہید، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانامحمد جعفر تھانیسری، حاجی امدا داللہ مہاجر مکی ، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا مظہر نانوتوی، مفتی صدرالدین خاں آزردہؔ دہلوی، مولانا منیر نانوتوی، مولانا امام بخش صہبائی ، مولانا کفایت علی کافیؔ شہید، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا وہاج الدین مرادآبادی، شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا فضل ربی پشاوری ، مولانا امیر الدین مالدہی، مولانا سید نصیرالدین دہلوی، مولانا محمد بشیر فیروز پوری، مولانا غلام جیلانی رفعت، مولانا سلیم حیدر آبادی ، مولانا عبدالرزاق حیدرآبادی، مولانا پیر محمد حیدرآبادی ، مولانا علاء الدین حیدرآبادی، مولانا مفتی عنایت احمد کاکوری، مولانا عزیز گل پشاوری، مولانا سید محمد فاخر میاں بجنوری، مولانا محمد میاں عرف مولانا منصور انصاری ، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد اللہ پانی پتی ، مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی ، مولانا مرتضی حسن چاندپوری، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا صادق کراچوی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ، مولانا احمد سعید دہلوی ، مجاہد ملت مولاناحفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا عبد الحلیم صدیقی، مولانا خلیل احمد امبیٹھوی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا آزاد سبحانی، مولانا سیف الرحمـٰن قندھاری، مولانا ظہور محمد خاں سہارنپوری، مولانا ابو الحسن تاج، مولانا محمد مبین دیوبندی، مولانا شاہ عبد الرحیم رائپوری، مولانا احمداللہ چکوالی ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی لکھنوی ، مولانا غلام محمد بھاولپوری ، مولانا عبد الرحیم پوپلزئی ، مولانا محمد اکبر یاغستانی، مولانا عبد الجلیل شہید ، مولانا فیض احمد بدایونی وغیرہ۔
تحریک آزادی میں بہار کے علماء نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ بہار کے علماء کی تحریک علمائے صادق پور سے شروع ہوئی اور ملک کی آزادی تک جاری رہی۔ بہار کے علماء جنہوںنے تحریک آزادی میں حصہ لیا، ان میں سے چند کے نام پیش ہیں:
مولانا ولایت علی صادق پوری ،مولانا عنایت علی صادق پوری ، مولانا فرحت حسین صادق پوری، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا عبد اللہ صادق پوری ، مولانا فیاض علی صادق پوری ، مولانا عبد الرحیم صادق پوری، مولانا سید محمد نذیر حسین عرف میاں صاحب ، مولانا عبد العزیزرحیم آبادی ، مولانا سیدشاہ بدرالدین قادری پھلوارویؒ ، مولانا ابراہیم دربھنگوی ، مولانا سید محمد اسحٰق مونگیری ، مولاناخدا بخش مظفر پوری ، مولانا ابو المحاسن محمد سجادبانی امارت شرعیہ ، مولانا سید سلیمان ندوی ،مولانا محمد رحمت اللہ چتراوی ، مولانا عتیق الرحمٰن آروی ، مولانا عبدالحکیم گیاوی، مولانا حکیم عبدالرحمٰن وفا عظیم آبادی ثم ڈمرانوی، مولا نا سید شاہ محی الدین قادری پھلواروی ، مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف دانا پوری ، مولانا عبد الوہاب دربھنگوی ، مولانا شائق احمد عثمانی بھاگلپوری ، مولانا محمد سہول عثمانی بھاگلپوری ، مولانا عبد الودود محی الدین نگری سمستی پوری ، مولانا سید نثار احمد انوری دربھنگوی ، مولانا عبد الباری جھمکاری ، مولانا عثمان غنی دیوری ، مولانا سید محمد قریش باروی ، مولانا عزیز الرحمٰن دربھنگوی ، مولانا حکیم یوسف حسن خان سوری ، مولانا اصغر حسین بہاری ، مولانا عبد العلیم آسی دربھنگوی ، مولانامحمد ابراہیم تاباں پورینوی، مولانا حافظ عبد الرشید سمتی پوری، مولا نا عبد الرحیم دوگھروی دربھنگوی، مولانا ادریس دوگھروی دربھنگوی، مولانا عبد الرشید حسرت بیلہیاوی ، مولانا لطف الرحمٰن ہر سنگھ پوری، مولا سید نوراللہ رحمانی، مولانا محمود عالم سمستی پوری، مولانا محمد قاسم سوپولوی ، مولانا سید منت اللہ رحمانی، مولانا محمد سلیمان آواپوری ، مولانا سید عبدالرب نشتر کھگڑیا وی، مولانا سید شاہ عون احمد قادری پھلواروی ، مولانا مفتی ظفیر الدین دربھنگوی، مولانا حبیب اللہ گیاوی ، مولانا محمد عبد الحمید بھاگلپوری ، مولانا نورالدین بہاریؒ ۔
علمائے کرام کی یہ تحریک بے لوث تھی، انہوں نے ملک کی آزادی کے لئے یہ قربانی کسی صلہ کے لئے نہیں دی تھی، بلکہ ان کی تحریک ملک سے محبت کی وجہ سے تھی۔چنانچہ جب ملک آزاد ہوا، تو انہوںنے یہ کہہ کر اپنی بساط سمیٹ لیا کہ ہمارا مقصد صرف انگریزوں سے اس ملک کو آزادکراناتھا اور بس۔
موجودہ وقت میں فرقہ پرست طاقتیں آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے، ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کی آزادی کی حفاظت کریں، ہمارا یہی عمل مجاہدین آزادی کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔