ہنوز یا تاہنوز؟: ایک عرض داشت
محمد روح الامین قاسمی میُوربھنجی
اردو میں ہنوز کی بحث تاہنوز ختم نہیں ہوئی ہے، فارسی سے اردو میں تاہنوز کا استعمال بعض اردو داں حضرات کو غلط معلوم ہوتا ہے؛ جب کہ ہنوز کی طرح تاہنوز کا استعمال بھی صحیح و درست ہے۔اس کی وجہ فارسی زبان سے ناواقفیت ہے۔
ہَنُوز (اب تک، ابھی تک) کے اندر خود( تا، تک) کے معنی ہیں اور اس سے پہلے تا لکھنا، تا کا تکرار پیدا کر دیتا ہے۔
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ
ہے پیارے ہنوز دلی دور
(کلام میر تقی میرؔ، ناشر: مشورہ بک ڈپو [رام نگر، گاندھی نگر، دہلی]، ص: ۔43)
ہنوز صرف ”ابھی“ کے معنی میں بھی رائج ہے (دیکھیے: جامع فیروز اللغات، مطبوعہ: فیروز سنز [پرائیویٹ] لمیٹڈ [لاہور، راولپنڈی، کراچی]، طبع اول: 2010ء، ص: 1452) اس اعتبار سے ”تاہنوز“ درست استعمال ہے یعنی اس وقت وہ اب تک یا ابھی تک کے معنی میں ہوگا، جیسے میرؔ کا یہ شعر:
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز
ریختہ پر یہ میر تقی میرؔ (1723–1810ء) کے کلام کے مصرع کے طور پر ملے گا۔
مولوی نور الحسن نیر نے اپنی لغت ”نور اللغات“ جلد دوم میں اس شعر کو سودا کی جانب منسوب کیا ہے۔
(مقدمہ نور اللغات، جلد اول، ص: 20، ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، بیورو کا پہلا ایڈیشن: سنہ 1989ء)
تطبیق کی صورت یوں بن سکتی ہے کہ میر، سودا (مرزا محمد رفیع سودا؛ 1713–1780ء) کے ہم عصر تھے تو شاید میرؔ نے سودا کے شعر کے ساتھ تضمین کی ہو؛ مگر شاید صاحبِ نور اللغات کو مغالطہ ہو گیا ہو اسی زمین میں سودا کے بھی کلام ہونے کی وجہ سے؛ تاہم راقم نے کلیاتِ سودا وغیرہ کی طرف مراجعت کی اور مذکورۂ بالا شعر راقم کو ان کی کلیات میں ردیف زائے معجمہ کے تحت نہیں ملا۔
میر کا پورا کلام اس طرح ہے:
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
ہوئی صبح سے شام نہ پہنچا میں داد کو
پھرتا ہوں مونہہ پہ خاک ملے جا بجا ہنوز
خط کاڑھ لا کے تم تو منڈا بھی چلے ولے
ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز
غنچہ چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں
ایک دل میرا ہی جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
گزری نہ پار عرش کی تسکین ہو مجھے
افسوس میری آہ رہی نا رسا ہنوز
احوال، نامہ بَر سے میرا سن کے کہہ اٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور تا ہنوز
توڑا ہے کس کا شیشۂ دل تو نے سنگدل
ہے دل خراش کوچے میں تیرے، صدا ہنوز
غنچہ نہ پوچھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا
کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز
چلّو میں اس کے میرا لہو تھا؛ سو پی چکا
اڑتا نہیں ہے طائرِ رنگِ حنا ہنوز
بے بال ہوں اسیر ہوں کُنجِ قفس میں میرؔ
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
(دیوانِ میرؔ [نسخۂ محمود آباد مخطوطہ سنہ 1303ھ بہ حیات میرؔ]، مرتب و مدون: ڈاکٹر اکبر حیدری، سنہ اشاعت: 1973ء، ناشر: جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لیگویجز [سری نگر]، ص: 88–89)
”تاہنوز“ کے پورے کلام میں ردیف کے طور پر استعمال کی مثال:
جعفر علی حسرت دہلوی ثم لکھنوی (1734–1792ء) کی کلیات ”کلیاتِ
حسرتؔ“ [مرتب و ناشر: ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی (صدر شعبۂ اردو، لکھنؤ یونیورسٹی)، تاریخ طباعت: ستمبر 1966ء] صفحہ نمبر: 196 پر ان کے اس کلام میں بھی ”تاہنوز“ کا استعمال ملتا ہے اور پورے کلام میں ردیف ہی ”تاہنوز“ ہے:
روز ازل سے حسن کی جلوہ گری ہے تا ہنوز
ہم بھی تبھی سے محو ہیں، بے خبری ہے تا ہنوز
ہم سفری کا عہد تھا نالے سے تجکو جان رات
سو تو وہ کوچ کر گیا تو سفری ہے تا ہنوز
کتنے ہی دن گزر گئے ٹکڑے ہو بہہ گیا جگر
رنگ سَرِشْک ہے ستم کیوں جگری ہے تا ہنوز
صیدِ ضعیف جان کر دل کو نہ چھوڑ دیجیو
مرغ شکستہ بال میں تیز پری ہے تا ہنوز
تیری قبول طرح کا گر نہیں میں تو کچھ نہیں
لاکھوں ہنر ہیں مجھ میں پر بے ہنری ہے تا ہنوز
وہ مرے گھر سے آشنا، اس کے، میں گھر سے آشنا
پر وہی دیکھنا سدا رہ گذری ہے تا ہنوز
نکلے ہیں سوز عشق کے ہر بُنِ مُو سے شعلے پر
نالۂ گرم میں مرے بے اثری ہے تا ہنوز
میکدہ میں نگاہ نے تیری عجب فسوں کیا
شیشوں میں مے کے ہر طرف رقص پری ہے تا ہنوز
پردے میں تھی غیب کے یہ جب سے، تبھی سے تھی ساقیا
دخترِ رَز پہ شیخ کی بد نظری ہے تا ہنوز
سرد نمط نہ سرکشی عاشقِ بے نوا سے کر
قمری کی آہ سے اسے بے ثمری ہے تا ہنوز
حسرتؔ اسی چمن کے بیچ دیکھا تھا ایک دن کبھی
بلبل و فاختہ کو آہ نوحہ گری ہے تاہنوز
عرض داشت:
اب راقم کی عرض داشت یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت ہنوز کا چلن اردو میں عام نہیں ہے، پھر بھی تاہنوز منظوم کلام یا نثر میں ملے تو اسے یکسر غلط قرار دینا درست رویہ نہیں ہے ؛ کیوں کہ تاہنوز کا استعمال نثر میں خوب ملتا ہے: کلاسیکی ادب میں بھی اور جدید ادب میں بھی ۔
رہی بات ”ہنوز“ یا ”تاہنوز“ کے بجائے ”اب تک“ کے استعمال کی۔ تو وہ فارسی سے ہمارا ربط ختم ہونے کی وجہ سے ہے ۔ فارسی کے عام چلن میں نہ ہونے کی وجہ سے ایسا تصور کیا جاتا ہوگا۔