اردو کاؤنسل ہند کی تحریک کو مضبوط کیجیے
کامران غنی صبا
14 دسمبر کو اردو کونسل ہند کی طرف سے پٹنہ میں ایک روزہ تحفظ اردو دھرنا کا پروگرام رکھا گیا ہے. اردو کونسل کی اپیل پر بہار کی اردو آبادی کو ضرور لبیک کہنا چاہیے. جمہوریت میں اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنا ایک موثر ذریعہ ہے. اردو کونسل ہند اور بطور خاص اسلم جاوداں اس اعتبار سے لائق مبارکباد ہیں کہ انھوں نے میدان میں آکر اردو کی جنگ لڑنے کا حوصلہ دکھایا ہے ورنہ اردو کے چھوٹے بڑے ادارے حتی کہ اردو اخبارات مبارک سلامت سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے تھے.
آج اردو کی علم بردار کہلانے والی شخصیات کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے انھوں نے اپنا عوامی اعتماد کھو دیا ہے. اخبارات و رسائل اور اسٹیج پر نظر آنے والے بھاری بھرکم چہرے عوام میں اپنا کتنا اثر رکھتے ہیں اس کا اندازہ بڑے بڑے بینر تلے ہونے والے ان پروگراموں میں اچھی طرح ہو جاتا ہے جہاں خالی کرسیاں اردو والوں کے عوامی رابطے کا حال سنا رہی ہوتی ہیں.
بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کی تحریک جن لوگوں کو یاد ہوگی انھیں یاد ہوگا کہ دسمبر 1960 میں ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی نے مظفرپور میں تاریخ ساز بہار ریاستی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا تھا. اس کانفرنس میں اُس وقت کم و بیش دس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی. یہ وہ زمانہ تھا جب آج کی طرح وسائل نہیں تھے. سوشل میڈیا نہیں تھا. پیغام رسانی بہت مشکل تھی. کانفرنس کے بعد روزنامہ سنگم نے "شاباش حامیان اردو” کے نام سے جو اداریہ لکھا تھا اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں
” 3-4 دسمبر کو مظفرپور میں بہار ریاستی اردو کانفرنس منعقد ہوئی. 3 دسمبر کو دن میں مظفرپور ریلوے اسٹیشن سے صدارتی جلوس نکالا گیا. دس ہزار افراد شریک تھے. جلوس میں بچوں کی تعداد بہت کم، بوڑھوں کی بہت زیادہ اور نوجوانوں کی سب سے زیادہ تھی. کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے شرکا میں ممبران پارلیمنٹ اسمبلی و کانسل، کانگریس، سوشلسٹ، فارورڈ بلاک، سوتنتر پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے نمائندہ، وکلاء، معالجین، مدرسین، طلبا، تاجر، ادبا و شعرا، ہندو بھی مسلمان بھی اور سکھ بھی، مرد بھی عورتیں بھی، پارسا بھی، شیخ بھی اور برہمن بھی. آزادئ ہندوستان کے بعد یہ سب سے بڑی اور ہر طرح سے کامیاب ترین کانفرنس تھی. "
(اداریہ روزنامہ سنگم پٹنہ 10 دسمبر 1960)
ذرا تصور کیجیے کہ مغفور احمد اعجازی مرحوم کا عوامی رابطہ اور عوامی اعتماد کتنا مضبوط ہوگا کہ ان کی ایک آواز پر دس ہزار لوگ اردو کے حق کے لیے پرامن طور پر سڑکوں تک ان کے ساتھ آ گئے. اس اجتماع نے خاموشی کے ساتھ کیا کیا پیغام نہیں دے دیا ہوگا؟ حکومت وقت کو ووٹ بینک کے سیاسی جھروکے سے کیسے کیسے اعداد و شمار نظر آنے لگے ہوں گے؟
مغفور احمد اعجازی کا ذکر میں نے اس لیے کرنا ضروری سمجھا کیوں کہ بہار میں اردو تحریک پر بات کرتے ہوئے عام طور سے مغفور احمد اعجازی کی خدمات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ورنہ بات غلام سرور کی ہو یا ڈاکٹر عبد المغنی کی. اردو کو دوسری زبان کا درجہ دلانے کی تحریک میں جو شخصیات بھی پیش پیش رہیں انھوں نے مبارک سلامت اور پروپیگنڈہ سے اپنا دامن بچائے رکھا. ہر چند کہ غلام سرور کا تعلق سیاست سے بھی تھا. وہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں تھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے قد کو بڑا کرنے کے لیے کبھی اپنے اخبار "سنگم” کا غلط استعمال نہیں کیا.
اسلم جاوداں نے اردو کے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز لگائی تو ایسا لگا کہ بہار میں اردو تحریک کا ماضی آواز لگا رہا ہو. اسلم جاوداں اردو کے لیے بے لوث جذبہ رکھتے ہیں. وہ غیر ضروری طور پر اخبارات میں نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کرتے ہیں. وہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور بظاہر کسی عہدہ کے خواہاں نظر نہیں آتے. ان سب کے باوجود انھوں نے بہار کی اردو آبادی کا کتنا اعتماد حاصل کیا ہے یہ 14 دسمبر کو واضح ہو جائے گا. میں اپنی طرف سے 14 دسمبر کے پر امن دھرنا کی حمایت کرتا ہوں اور بہار کی اردو آبادی سے اپیل کرتا ہوں کہ اردو کے بقا و تحفظ کے لئے وہ اس تحریک کا حصہ خود بھی بنیں اور دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں. اردو کا تحفظ ہماری تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہے. لہذا اردو کے لیے مخلصانہ آواز خواہ کسی فرد کی طرف سے لگائی جائے یا جماعت کی طرف سے ہمیں اس کی بھرپور تائید اور حمایت کرنی چاہیے.
……………..