امارت شرعیہ اور جمعیت علماء کے فعال منتظم اور جرأت مند ترجمان : مفتی عثمان غنی ؒ

تحریر : مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

(ولادت :رجب 1313ھ مطابق یکم جنوری 1896ءوفات الحجہ 1397ھ مطابق 8 دسمبر 1977ء)

کسی بھی تنظیم اور تحریک کے فروغ، اس کی کامیابی اور اثر پذیری کا دار و مدار اس امر پر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے قائد اور بانی مبانی کے گرد و پیش کون لوگ رہتے ہیں؛ ان کے دست و بازو کیسے افراد ہیں،قائد کے پیش کردہ منصوبے اور نظریات کی رنگ بھری کرنے والے رجال کار کیسے ہیں؟

امارت شرعیہ اور جمعیت علماء کے فعال منتظم اور جرأت مند ترجمان: مفتی عثمان غنی ؒ
امارت شرعیہ اور جمعیت علماء کے فعال منتظم اور جرأت مند ترجمان: مفتی عثمان غنی ؒ

سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام نے جب اللہ کے حکم سے بنو اسرائیل کی اصلاح کی تحریک شروع کی؛ توانھیں سب سے پہلے اس حیات بخش پیغام کو سینے سے لگانے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس تحریک کو استقامت کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے والے "حواریین” کی جستجو ہوئی. اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی خوب صورت منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا:

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۵۲)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۳. آل عمران)

ترجمہ: پھر جب عیسٰی علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ یہ لوگ ہماری دعوت کا انکار کردیں گے تو انھوں نے کہا کہ کون ہے جو میری کرےگا اللہ کی راہ میں؟ توحواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں. ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں. اے ہمارے رب! ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کی اتباع کی . تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں شامل فرما لیجیے .

اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حواری کا کردار ادا کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعوان وانصار بننے کی تلقین فرمائی:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُوٓاْ أَنصَارَ ٱللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّۦنَ مَنْ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِ ۖ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ ٱللَّهِ ۖ فَـَٔامَنَت طَّآئِفَةٌ مِّنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ وَكَفَرَت طَّآئِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُواْ ظَٰهِرِينَ. الصف 14 )ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کے مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، پھر ایک گروہ بنی اسرائیل کا ایمان لایا اور ایک گروہ کافر ہو گیا، پھر ہم نے ایمان داروں کو ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا پھر تو وہی غالب ہو کر رہے۔

ان آیات کریمہ یہ مستفاد ہوتا ہے کہ کسی بھی تحریک میں حواری اور اعوان و انصار کی بڑی اہمیت ہے.. نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ ایسے اعوان وا نصارعطا کیے تھے جنھوں نے اپنی بے نظیر استقامت، جانفشانی اور ہمہ گیر قربانیوں کے ذریعے تحریک دعوت و عزیمت کو چہار دانگ عالم میں پھیلا دیا.. آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت مسلمہ میں جب بھی کوئی تحریک برپا ہو ئی؛ تو اس ملک اعوان وانصار کابنیادی رول رہا.۔

اللہ تعالیٰ کے عطا فرمودہ خاص دینی بصیرت، تفقہ فی الدین اوربلند پایہ دینی شعور نتیجے میں قرآن وسنت کے تقاضے کے مطابق جب مرد مجاہد، دانائے روزگار، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے1921 ء میں امارت شرعیہ کی تحریک شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے اعوان و انصار عطاء کیے؛ جنھوں نے اس تحریک کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی قربانیاں دیں… ان اعوان و انصار میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا مفتی سید محمد عثمان غنی دیوروی کا ہے…

اللہ تعالیٰ بعض شخصیات کو متعدد اوصاف اور گوناگوں کمالات کا جامع بناتا ہے… مفتی عثمان غنی ایسی باکمال اور متنوع صفات کی حامل شخصیات میں سے ایک ہیں…

جہاد بالقلم :

ایک طرف ہفتہ وار جریدہ "امارت” کے ایڈیٹر کے طور پرانگریز سامراج کی ظالمانہ پالیسیوں پر تنقید کرکے ایک مدت تک آپ جہاد بالقلم کے فرائض انجام دیتے رہے. جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق مطابق افضل ترین جہاد :افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر (أبو داود (4344) والترمذي (2174)، وابن ماجہ (4011)کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق اور انصاف بات کرنا جہاد کا افضل درجہ ہے. اس جہاد بالقلم کے پاداش میں آپ کو متعدد بار جیل کی کالی کوٹھریوںط کے مصائب اور قید و بند کی آزمائش سے گذرنا پڑا. اس کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آیا ۔دوسری طرف امارت شرعیہ کے پہلے ناظم کی حیثیت سے مولانا ابوالمحاسن سجاد ودیگر اکابر امارت کے خاکوں میں رنگ بھری اور ان کے تعمیری، ملی و فلاحی منصوبوں کو سرزمین پر اتارنے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے ہر قسم کی جگر کاوی اور جگر سوزی اور استقامت کے ذریعے ایک بہترین منتظم کی شناخت قائم کی..

جمعیت علما ء سے مستحکم روابط :

جمعیت علماء ہند اسلامیان ہند کی سب سے بڑی تنظیم ہے. اس کی خشت اول مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کےذریعہ بہار میں ہی رکھی گئی تھی اور علامہ مناظر احسن گیلانی کے بقول بہار والی جمعیت، بعد میں جمعیت علماء ھند دہلی کے نام سے چمکی. اس زمانے میں چوں کہ امارت شرعیہ کا جمعیت علماء ہند کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ تھا.. سماجی و تعلیمی ونیم سیاسی کام جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے انجام پاتے تھے اور اجتماعی و شرعی امور بالخصوص فتاویٰ اور قضاء کے امور امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے انجام پاتے تھے.. امارت شرعیہ کا قیام جمعیت علماء بہار کے اجلاس میں عمل میں آیا تھا، اور چار امرائے شریعت کا انتخاب بھی جمعیت علماء کے اجلاس میں عمل میں آیا.. خود بانی امارت شرعیہ مولانا سجاد جمعیت علماء بہار کے ناظم اعلیٰ تھے، بعد میں وہ کل ہند جمعیت علماء کے ناظم اعلیٰ بنے. اسی طرح مولانا عبد الصمد رحمانی بھی جمعیت علماء ہند کے قائم مقام صدر اور نائب صدر بنے، چوتھے امیر شریعت جمعیت علماء مونگیر کے صدر اور جمعیت علماء بہار کے جنرل سیکرٹری بنے. گویا امارت و جمعیت میں گہرا انسلاک تھا.. دونوں کے اکابر مشترک تھے، چنانچہ مولانا مفتی عثمان غنی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ جمعیت علماء سے لا تعلق رہیں. چنانچہ حضرت مولانا سید محمدعثمان غنیؒ کا ہندوستان کی قدیم ترین جماعت ’’ جمعیتہ العلماء‘‘ سے بھی اٹوٹ تعلق رہا۔ جب سے جمیعتہ العلماء بہار کا قیام عمل میں آیا ، آپ اس وقت سے تا زندگی 1397ھ تک 61 سال مجلس عاملہ کے رکن رہے۔ مرکزی جمیعتہ العلماء ہند کی مجلس منتظمہ کے بھی تاحیات رکن رہے تھے، .جمعیت علماء بہار کے پلیٹ فارم سے بھی کافی ایکٹو رہے، کبھی جمعیت علماء بہار کے صدر کبھی نائب صدر، کبھی جنرل سیکرٹری کبھی نائب سکریٹری کے طور پر اور کبھی دینی تعلیمی بورڈ جمعیت علماء بہار کے صدر کے طور پرذمہ داریاں انجام دیتے رہے. امارت شرعیہ کی نظامت اور افتاء کی ذمہ داری سے تو حضرت نے اپنی وفات سے تقریباً بیس سال قبل ہی علیحدگی اختیار کر لی… لیکن امارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے باوجود آپ تادم واپسیں جمعیت علماء کے دینی تعلیمی بورڈ کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دیتے رہے. اس وقت آپ کے سکریٹری یا جمعیت علماء بہار کے دینی تعلیمی بورڈ کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا محمد اسماعیل عظیم آبادی صدر المدرسین مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے تھے… اس طور پر مفتی عثمان غنی کا بیگوسرائے سے بھی گہرا رابطہ تھا ۔

جمعیت العلماء سے ان کی قربت کس حد تک رہی اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے کیا جاسکتا ہے. اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:

"اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کا واحد سہارا اللہ عزوجل کے بعد جمعیت علماء ہند اور اس کے محترم ارکان تھے ۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید ، امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد حفظ الرحمن ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند جن کی سعی جمیل اور جرأت وہمت نے مسلمانوں کو سہارا دیا اور ان کے اٹھتے اور ڈگمگاتے قدموں کو سنبھا لا۔”

آپ کے مزاج پر تمام تحقیقی اور انقلابی صفات کے ساتھ خانقاہی مزاج اور تصوف کا غلبہ تھا اور اسی وجہ سے آپ کا قلبی رجحان خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی طرف زیادہ تھا. خانقاہ مجیبیہ اس زمانے میں جمعیت علماء کی تمام سر گرمیوں کا مرکز تھی. خانقاہ مجیبیہ کے اکابر میں حضرت مولانا سید شاہ عون احمد قادری صدر جمعیت علماء بہار سے آپ کا دیرینہ اور گرم جوش رابطے تھے.. اس لیے مفتی عثمان غنی جمعیت علماء کے مشاغل میں بھی فعال شرکت فرمایا کرتے تھے.

اس کے علاوہ آپ نے جمعیت علماء ہند کے تمام صدور اور نظماء بطور خاص حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا احمد سعید دہلوی حضرت مولانا مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ،مولانا سید فخر الدین مرادابادی کا زمانہ پایا تھا اور ان اکابر جمعیت کی رہنمائی میں کارہائے نمایاں انجام دیے تھے. لیکن اخیر عمر میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی سے گہرے روابط تھے اور جانبین سے انسیت محبت اور عقیدت کے روابط تھے.. لہٰذا ان بزرگوں کے زیر اثر سخت ضعف و اضمحلال کے باوجود مفتی عثمان غنی جمعیت علماء بہار کے پلیٹ فارم سے زندگی کی آخری سانسوں تک تعلیمی وملی سرگرمیاں انجام دیتے رہے.

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مفتی عثمان غنی دینی تعلیمی بورڈ کے صدر کے طور پر تاحیات قوم مسلم کو دینی تعلیم کے لیے بیدار کرنے کی صدا بلند کرتے رہے.

آزادی کے بعد ہی سے ملک کی تعلیمی پالیسی کو ایک خاص نہج پر لے جانے کی کوشش کی گئی اور اب تو۔ نئی تعلیمی پالیسی 2022 کے ذریعے زعفرانی تہذیب اور سناتنی روایات کو مسلط کر کے ملک کے سیکولر اقدار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اُس کا اندازہ ہر باشعور شخص کو اچھی طرح ہوچکا ہے.

مولانا عثمان غنیؒ کی دوررس نگاہوں نے پچاس سال قبل ہی آنے والے اندیشے کو محسوس کر لیا تھا۔ دینی تعلیمی بورڈ کے پلیٹ فارم سے بار بار ان خطرات سے آپ آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہے. چنانچہ رانچی کی ایک دینی تعلیمی کانفرنس میں اپنے صدارتی خطاب میں وہ مستقبل کے اس اندیشے سے باخبر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"اللہ عزوجل کے احکام پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ دینی تعلیم سے واقفیت حاصل کی جائے اور اس دینی تعلیمی بورڈ کے قیام اور آپ کی اس دینی تعلیمی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہی ہے کہ اب لادینی تعلیم کو حکومت لازمی اور جبری کرنیوالی ہے ۔ ہر ۶ برس سے ۱۱ برس تک بچوں کو لازمی طور پر سے سرکاری تعلیم گاہوں میںتعلیم دلائی جائے گی ۔ ”

"اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم کا کوئی ایسا انتظام نہ کریں جس میں سرکاری نصاب تعلیم کے ساتھ بقدر ضرورت دینی تعلیم بھی دی جائے تو ظاہر ہے کہ ہمارے بچے صرف یہی نہیں کہ دین سے آشنا رہیں گے ۔ بلکہ آگے جل کر ان کا اسلام سے رابطہ رکھنا بھی دشوار ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ایسا موقع کبھی نہ آنے دے ۔”

(یہ مکمل خطاب تحریری صورت میں المجیب۔۔۔۔۔ کے شمارہ میں شامل ہے۔)

علامہ کشمیری کے ذوق تحقیق کے اثرات :

یہ تو رہا خالص انتظامی کام.. کہا جاتا ہے کہ ایک بہتر منتظم کے لیے خالص علمی و تحقیقی خدمات انجام دینا بہت مشکل ہوتا ہے؛ لیکن مفتی عثمان غنی بہر حال محقق دوران محدث عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے تلمیذ رشید اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے فیض یافتہ تھے تھے..ان سے اور اس وقت کے دیگر اکابر دیوبند سے آپ نے طویل عرصے تک استفادہ کیا 1328 ھ(1910 ھ) میں آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1334-35 اور 1335-36ھ (1938 ء) میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی.

ظاہر ہے کہ علامہ کشمیری کے تلامذہ تو سب میدان تحقیق کے آفتاب و ماہتاب بنے؛ چاہے وہ علامہ مناظر احسن گیلانی ہوں، علامہ بدر عالم میرٹھی ہوں، علامہ یوسف بنوری ہوں یا سعید احمد اکبر آبادی ہوں؛ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مفتی عثمان غنی ذوق تحقیق اور خوئے فقاہت سے محروم رہیں .. آپ پر بھی علم و تحقیق کا گہرا رنگ چڑھا ہوا تھا، اس جوہر گراں مایہ کو بھی مولانا سجاد نے بھانپ لیا اور آپ کو امارت شرعیہ کے دارالافتاء کا باضابطہ پہلا مفتی نامزد فرمادیا. یہ نامزدگی صرف دارالافتاء امارت شرعیہ کے لیے نہیں تھی بلکہ درحقیقت آپ کو بہار کا مفتی اعظم نامزد کردیا گیا تھا. اکابر کے حسن ظن کے مطابق آپ ایک طویل عرصے تک فقہ و فتاوی کی گتھیاں سلجھاتے رہے اور سینکڑوں مشکل مسائل کا جواب تحریر فرماکر تشنگان علم دین کی سیرابی کا بھر پور انتظام فرماتے رہے.

فتاویٰ امارت شرعیہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مولانا سجاد کو مفتی عثمان غنی کے علم پر بڑا اعتماد تھا اور اپنے تحریر کردہ فتاویٰ پر بھی مفتی عثمان غنی سے الجواب صحیح لکھواتے تھے. مثلاً فتاویٰ امارت شرعیہ جلداول ص 191 پر استفتاء نمبر 124 کا جواب مولانا سجاد کا تحریر کردہ ہے اور اس پر لکھا ہے :المجیب مصیب. محمد عثمان غنی. 20 /5 / 1351 ھ.

فتاویٰ امارت شرعیہ جلداول کے مقدمے میں فقیہ ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تحریر سے واضح ہوتا ہے آپ کی نگرانی میں مفتی محمد عباس کار افتاء انجام دیتے تھے.

انقلابی رجحانات :

دیوبند میں قیام کے دوران آپ ک اس وقت کے مشہور انقلابی قائد رئيس الاحرار مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی قربت اور سرپرستی بھی حاصل رہی،مولانا موتمر الانصار اور جمعیۃ الانصار کی سر گرمیوں میں شامل اور موتمر انصار کے 1911(مطابق 15 ربیع الثانی 1329 کے اجلاس مرادآ باد نیز1912ء(مطابق 1330 ھ) میں اجلاس میرٹھ میں شریک رہے. جس کے نتیجے میں آپ کا انقلابی ذوق بھی پروان چڑھتا رہا.

ایک فعال منتظم اور جرآت مند ترجمان کے طور پر آپ کی خدمات کی اجمالی طور پر عکاسی کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی متنوع تنظیمی و صحافتی خدمات کے بعض گوشوں کو تفصیل کے ساتھ اجاگر کیا جائے.

امارت شرعیہ کا فعال ناظم اول :

۱۹ شوال 1339ھ کو امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا اسی طرح 9 ارکان پر مشتمل پہلی مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی عمل میں آیا. اس اولین شوری کے ایک معزز رکن مولانا عثمان غنی بھی تھے.. مولانا تحریر فرماتے ہیں :جمعیت علماء بہار کا جلسہ ختم ہونے کے بعد میں اپنے مکان "دیورہ” چلا آیا چند روز کے بعد حضرت مولانا (سجاد) نے مجھ کو "گیا” بلایا اور وہاں سے میں حضرت مولانا کے ساتھ پھلواری شریف آیا. (حیات سجاد)

۹ ذی قعدہ ۹۳۳۱ھ کو دفتر امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیادفتر کو فعال انداز میں چلانے کے لیے ایک متحرک شخصیت کی ضرورت تھی. حضرت مولانا ؒ کی تحریک پر مجلس شوریٰ نے حضرت مولانا محمد عثمان غنی علیہ الرحمہ کو ناظم امارت شرعیہ مقرر کیا،… گویا مولانا عثمان غنی امارت شرعیہ کی پہلی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب کیے گئے اور پھر نائب امیر شریعت و امیر شریعت کے منشا کے مطابق شوری نے مولانا عثمان غنی کو امارت شرعیہ کا پہلا ناظم منتخب کر لیا. جب کہ مولانا عثمان غنی کی عمر اس وقت صرف 26 سال تھی۔ اکابر کا یہ اعتماد آپ کے روشن مستقبل کی علامت تھی.۔

سن1924ء مطابق 1343ھ میں امارت شرعیہ نے اپنا ایک پندرہ روزہ اخبار نکالنا طے کیا اور اس اخبار کا نام ’’امارت ‘‘ رکھا جس کا پہلا شمارہ یکم محرم 1343ھ کو مولانا کی ادارت میں منظر عام پر آیا ، اس اخبار کی ادارت اور امارت شرعیہ کی نظامت کے علاوہ دار الافتاء امارت شرعیہ کے آپ ہی پہلے باضابطہ مفتی مقرر ہوئے اور قریب 50سال تک آپ کے تفقہ اور افتاء سے بہار کے عوام و خواص مستفید ہوتے رہے۔

مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے نفس ناطقہ: جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مولانا عثمان غنی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے لیے "نفس ناطقہ” کا مقام رکھتے تھے.. ملی مفاد کے خلاف کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ذمہ داری اور اس کے خلاف جریدہ "امارت” میں آواز اٹھانے کی ذمہ داری مولانا عثمان غنی کی ہوتی. اسی طرح اسمبلی اورکونسل میں جب بھی کوئی ایسامسودۂ قانون آیاجس کاکوئی منفی اثرکسی اسلامی معاملہ پرپڑتاہو؛توسب سے پہلےحضرت مولانامحمدسجادؒاس کی مخالفت فرماتے تھے۔ اور اس سلسلے میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مضامین مولانا عثمان غنی لکھتے.

مولاناعثمان غنی صاحب ؒ کابیان ہے کہ : "راقم الحروف کوخاص تاکیدتھی کہ جب کوئی مسودہ ٔقانون یاکسی عدالت کافیصلہ ایساہوجس کی زدکسی اسلامی قانون پرپڑتی ہوتوفوراًاس کی مخالفت میںمضامین لکھواورجمعیۃ علماء ہندکوخط کےذریعہ اطلاع دو‘‘۔(حیات سجاد. مضمون مولانا عثمان غنی )

جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے : حضرت مولانا سجاد کا حکم تھا حکومت کے مشتبہ اور منفی فیصلوں کے خلاف مضامین لکھو.. مولانا عثمان غنی نے اس پر بھر پور عمل کیا، زبردست مضامین لکھے،امارت شرعیہ کے ترجمان میں ان کے اداریے اور مضامین تقریباً ہر شمارے میں شائع ہوتے ہیں۔ جس میں حکومت کے رویہ پر تنقید ہوتی تھی یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ برطانوی حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا.. پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے، ظالم حق نے قلم پر پہرے بٹھادیے. اس سے بھی بات نہیں بنی تو آپ کے زیر ادارت نکلنے والے امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت” کی کاپیاں ضبط کرلی گئیں اور آپ کو قومی تحفظ ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا، اسی ایکٹ کے تحت ماضی میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کو گرفتار اور ان کے الہلال پریس کو ضبط کیا جاچکاتھا. اس گرفتاری کی پوری داستان یہ ہے ۔

’’۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر عزم و استقامت کا پہاڑ تھا اور انقلابی جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں:

۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے مو قع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کو مولانا نے ملت اسلامیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک زوردار اداریہ جریدہ "امارت”.میں تحریر کیا. مولانا عثمان غنی کی یہ حق گوئی برطانوی گورنمنٹ سے برداشت نہیں ہوسکی.. اور انگلش گورنمنٹ نے دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ قائم کردیا. مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا،

ملک کے قابل ترین بیرسٹر سرعلی امام (جو اپنی اعلیٰ ترین قانونی مہارت، اعلی وجاہت کے ساتھ حکمران طبقہ پر بھی دبدبہ رکھتے تھے.. اور تاج برطانیہ کے اعتماد یافتہ تھے اور اسی اعتماد کے نتیجے میں آپ کوعارضی طور پر پہلے غیر برطانوی وائے سرائے بننے کا موقع ملا..) بہر اس عظیم ماہر قانون نے مولانا عثمان غنی جرم بے گناہی کا زور دار دفاع کیا. بیرسٹر سر علی امام کی مولانا کے اس مقدمہ کی کامیاب پیروی کے نتیجے میں ، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت مل گئی ، ڈسٹرکٹ جج سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے.

لیکن مولانا کے پایہ ثبات میں کوئی لغزش نہیں آیا. اور اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ،اور زبان حال سے یہ اعلان کردیا کہ ہم زنداں کی کالی کوٹھریوں سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں :

ہم وحشیوں کا مسکن کیا پوچھتا ہے ظالم صحرا ہے تو صحرا ہے زنداں ہے تو زنداں ہے

اس کے بعد بھی باغیانہ وانقلابی مضامین کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے تیسری بار پھر ۱۳۵۲ھ میں برٹش گورنمنٹ نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور بہ ہزار حسرت ویاس جریدہ ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔بعد میں یہی جریدہ نام کی تبدیلی کے بعد "نقیب” کے نام سے شائع ہوا. جو تاہنوز جاری ہے. ۔

(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)(حسن حیات ۸۶)

مسلم انڈی پنڈیٹ پارٹی کا قیام اور مولانا عثمان غنی کی فعالیت:

یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ مولانا عثمان غنی مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کا اولین خاکہ پیش کرنے والوں بلکہ اس کے بانیوں میں سے ایک ہیں… شاہ محمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’جب ۳۵ء کا دستور نافذ ہوا اور کچھ عمومی بنیادوں پر انتخابات ہونےلگے یعنی حق رائے دہی بالغان کی بنیاد پر تو نہیں ہوا جس کا مطالبہ کانگریس کر رہی اور جس کی مخالفت جناح صاحب کر رہے تھے ، لیکن پھر بھی حق رائے دہی ملک کے کافی بڑے حصہ کو مل گیا تھا، تو مولانا سجاد نے مولانا عثمان غنی اور بعض دوسرے رفقاء کار کے مشورے سے مسلم انڈی پینڈنٹ پارٹی بنائی۔(ٹوٹے ہوئے تارے. از شاہ محمد عثمانی ص 102)

مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کا قیام کن مقاصد کے لیے عمل میں آیا تھا، ملاحظہ فرمائیں اس کی تفصیل مولانا عثمان غنی کے قلم سے :

’’امارت شرعیہ کےفیصلےکوعملی جامہ پہنانےکےلئے”امارت شرعیہ پارلیمنٹری بورڈ "کاقیام عمل میں آیا،جس کےسربراہ حضرت مولاناسجادصاحب ؒہی مقررہوئے،پھرحضرت مولاناؒنےاسی بورڈ کےذریعہ امارت شرعیہ ،تحریک خلافت،اورجمعیۃ علماء کےکارکنوں کے تعاون سے ایک نئی سیاسی جماعت "بہارمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی”کی بنیادرکھی،۲۵/اگست ۱۹۳۵؁ء مطابق ۲۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۵۴؁ھ کونواب علی سجاد کی صدارت میں مسٹر ایم محمود بیرسٹرصاحب کےمکان پرایک اجتماع ( جس میں علماء اوردانشوران قوم وملت کی کثیرتعداد شریک ہوئی)میں حضرت مولاناسجادؒ کی طاقتورتحریک پرپارٹی کاقیام عمل میں آیا،اورحضرت مولاناؒ کوان کےانکارکےباوجودمتفقہ طورپر پارٹی کاصدر منتخب کیاگیا ۔

پارٹی کی پہلی صوبائی کانفرنس۱۲، ۱۳/ستمبر۱۹۳۶؁ء مطابق ۲۵، ۲۶/جمادی الثانیۃ۱۳۵۵؁ھ کوانجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں جمعیۃ علماء ہندکےجنرل سیکریٹری سحبان الہندحضرت مولانا احمدسعید دہلوی ؒ کےزیر صدارت منعقدہوئی ،اسی اجلاس کےموقعہ پرپارٹی کے عہدیداران اورمجلس عاملہ وغیرہ کاانتخاب عمل میں آیا،جوحسب ذیل ہے:

مجلس عاملہ کے اراکین مندرجہ ذیل اکابر تھے :(۱)حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادؒ(۲)مسٹرمحمدمحمودبیرسٹر(۳)مولانامحمدعثمان غنی ناظم امارت شرعیہ (۴)قاضی احمدحسین(۵)مولوی سیدعبدالحفیظ صاحب ایڈوکیٹ(۶) مولوی عبدالقدوس صاحب وکیل پٹنہ (۷)مولوی سیدجعفرامام صاحب وکیل پٹنہ(۸)مولانا محمد یٰسین صاحب (۹)ڈاکٹرسیدعبدالحفیظ صاحب فردوسی (۱۰)مولوی بدرالحسن صاحب وکیل مظفرپور(۱۱)حاجی شیخ شرف الدین حسن صاحب باڑھ (۱۲)مولوی محمداسماعیل خان صاحب تاجر(۱۳) مولانامنت اللہ صاحب رحمانی (۱۴)مولوی سیدقدیرالحسن صاحب وکیل (۱۵) مولانا عبدالودودصاحب دربھنگہ(۱۶)حافظ محمدثانی صاحب (۱۷)مولاناعبدالصمدرحمانی ؒ (۱۸) مولوی جسٹس خلیل احمد صاحب ایڈوکیٹ(۱۹)مسٹرمحمدیونس صاحب بارایٹ لاء(۲۰)مولوی حاجی اخترحسین خان صاحب (۲۱)مسٹرسیدتجمل حسین صاحب بیرسٹر۔۔۔۔

اس تفصیل سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سیاسی جماعت کےقیام کاپس منظر کیا تھا اور اکابر امارت شرعیہ اور اکابر جمعیت علماء اس کے لیے کس حد تک پرجوش تھے.. مذکورہ تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ مولانامحمدعثمان غنی ناظم اول امارت شرعیہ اس تحریک میں روزاول سےشامل تھے. اور مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی پہلی مجلس عاملہ کے رکن رکین تھے. مولاناعثمان غنی کی اس پلیٹ فارم سے کیا فعالیت تھی؟ اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد آپ سے کیا چاہتے تھے.. سنیے انھیں کی زبانی اور ملاحظہ فرمائیں انھیں کےقلم سے :”جمعیۃ علماء ہندنے ترک موالات کےسلسلہ میں مجالس مقننہ کابھی مقاطعہ کیاتھا، لیکن انتخاب کےموقعہ پرمسلمانوں کی نشستوں سےمسلمان کھڑےہوتے تھے،اور منتخب ہو کر مجالس مقننہ میں جاتے تھے،اوربعض لوگ وہاں پہونچ کرصرف اپنےمفاد کے پیش نظر کام کرتے تھے ،دینی اور جماعتی مفادکوفراموش کرجاتے تھے ،صوبہ کی کونسل اورمرکزی اسمبلی میں ایسےبہت سے واقعات پیش آئے۔

راقم الحروف نےحضرت مولاناؒسےعرض کیا کہ مجالس مقننہ کےارکان جس طرح منتخب ہوکرجاتے ہیں وہ دین وملت اورملک وقوم کےلئےسخت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں،اس لئےمسلم ارکان پرآئندہ کوئی پابندی عائدکرنی چاہئے،حضرت مولاناؒنے فرمایاکہ جب تک جمعیۃ علماء ہندمقاطعہ کی تجویزکوواپس نہ لےلےاس وقت تک ہم لوگ کس طرح کسی کی تائید یاحمایت کرسکتےہیں؟

میں نےعرض کیاکہ مجالس مقننہ کےارکان کی جوروش ہے؛ اس کودیکھتےہوئےمقاطعہ کوقائم رکھناجائزقرارنہیں دیاجاسکتا(اذاابتلی ببلیتین فاختراھونھما) پرعمل کرناچاہئےمثال میں ہم نےقاضی احمدحسین صاحب کےوقف بل کی ناکامیابی کوبیان کیاکہ صرف مسلمان ارکان کی حکومت پرستی نےاس مفیدبل کو ناکامیاب کیا،نیزمرکزی اسمبلی کے بعض ارکان جیسی حرکتیں کررہےتھے،اس کوعرض کیا۔حضرت مولاناؒنے فرمایاکہ تم جریدۂ امارت میں لکھو اگرجمعیۃ علماء ہنداپنی عائد کردہ پابندی ہٹالےتوپھرآئندہ حصہ لیاجائےگا،چنانچہ راقم الحروف نےجریدۂ امارت میں مضامین لکھنا شروع کردئیے،اس کےبعدنقیب میں بھی کچھ مضامین لکھے۔

حضرت مولاناؒکی عادت تھی کہ جس معاملہ میں ان کاقلب مطمئن ہوجاتا تھاپھراس کوجلدسےجلدانجام دینےکی کوشش کرتے تھے، چنانچہ اس معاملہ میں بھی جب ان کاقلب مطمئن ہوگیاکہ مجالس مقننہ کےانتخاب میں ہمارے حصہ لینےسے کسی حدتک دینی فائدہ کی توقع ہے اور امارت شرعیہ کے مقاصدکےلئےہماری شرکت مفیدہوسکتی ہے، توانہوں نے جمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ (منعقدہ ۱۳۵۳؁ھ مطابق ۱۹۳۴؁ء مرادآباد) میںمجالس مقننہ(اسمبلی)کےانتخاب میں حصہ لینےکی تجویزپیش کردی ،جو منظورہوگئی ،اس کےبعد امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ (ربیع الاول مطابق جون ۱۹۳۴؁ء)میں اسی مضمون کی تجویزپیش کی،جس کو مجلس شوریٰ نے منظورکیا،تمہید کےبعداصل تجویزکےالفاظ یہ ہیں:”امارت شرعیہ اس امرکااعلان کرتی ہےکہ اگرصوبہ بہارواڑیسہ میں کوئی مجلس اس اصول کےماتحت قائم ہوئی اور اس کے دستوراساسی وقواعد امارت شرعیہ کےنزدیک قابل اعتمادہوئے،اوراس نےخصوصیت کےساتھ اپنےدستوراساسی میں اس امرکوداخل کیاکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجلس (پارٹی)تمام ایسےامورمیں جن کاتعلق مسلمانوں کےمذہب سےہویاانکےمذہبی معاملات پراس کااثرپڑتاہو،امارت شرعیہ کی ہدایت و رہنمائی کی پابند ہوگی، توامارت شرعیہ کی پوری ہمدردی وتائیداس مجلس کےساتھ ہوگی ،لیکن اگربدقسمتی سے اس نازک دورمیں بھی مسلمانوں کی کوئی مجلس اس قسم کی قائم نہ ہوئی ،یااس کےدستوروقواعد پرامارت شرعیہ کااعتمادنہ ہوا ، توامارت شرعیہ ان ہی مقاصدواغراض کےماتحت اپنےصوبہ کےمسلم امیدواروں کےلئے ایک عہد نامہ مرتب کرکےشائع ردےگی،تاکہ جوامیدواراس پردستخط کرکے امارت شرعیہ کے دفتر میں بھیجیں ان پرغورکرکےامارت شرعیہ کی مختصر مجلس (سب کمیٹی) جن امیدواروں کےانتخاب کوترجیح دےگی،امارت شرعیہ کی پوری ہمدردی و تائید اس کے ساتھ ہوگی”

اسی تجویزکی بنیادپر”امارت شرعیہ بورڈ”کی تشکیل عمل میں آئی،جس کےذمہ آئندہ اسمبلی الیکشن کی فکر،امیدواروں کاانتخاب اور ان کی

حمایت کرناتھا ۔اگر چہ بعض لوگوں کوامارت شرعیہ کایہ فیصلہ ناگوارگذرا،لیکن حضرت مولاناؒ نے پورے خلوص کےساتھ اس کام کوکامیابی کی منزل تک پہونچایا.. (حیات سجاد. ص 140 تا 142 مضمون مولانا عثمان غنی)

مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے مستقل مضامین :

مولانانے حضرت مولانا ابو المحاسن کے حسب مشورہ مسلمانوں کےعائلی مسائل سے متعلق ایک عرصےتک مستقل مضامین لکھے ۔۔فرماتے ہیں:’’نکاح، طلاق، تفریق زوجین اور فسخ نکاح وغیرہ کے معاملات میں عدالتوں سے غیر شرعی فیصلوں کا نفاذ ہو تا تھا، اور ان کے سبب سے مسلمان بڑی مصیبتوں اور عور تیں معصیتوں کے ساتھ مصیبتوں میں مبتلارہتی تھیں۔ امارت شرعیہ کے دارالقضاء سے جو فیصلے ہوتے، وہ شریعت کے مطابق ہوتے اور اس سے مسلمانوں کی معصیتوں اور مصیبتوں کا ازالہ ہو تا، لیکن اس کا فائدہ محدود ہو تا تھا، اور مصیبت عام تھی، جس کے ازالہ کی سعی ہر مسلمان پر فرض تھی اور اس کی طرف حضرت مولانا بھی خود اپنے مضامین کے ذریعہ اسمبلی کے ارکان کو توجہ دلاتے تھے اور کبھی راقم الحروف کو لکھنے کا حکم فرماتے تھے۔ چنانچہ اسطرح کے مضامین جریدہ امارت اور نقیب میں برابر شائع ہورہے ہیں۔ لیکن جب کسی نے مفید مقصد مسودہ قانون پیش نہیں کیا تو حضرت مولانا نے خود انفساخ نکاح مسلم کا مسودہ قانون مرتب کر کے نقیب میں شائع کرایا۔ اور جمعیت علماء ہند کو توجہ دلائی۔ چنانچہ پھر جمعیت علماء ہند نے ایک مسودہ قانون انفساخ نکاح مسلم مرتب کیا اور ارکان اسمبلی کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن یہ مسودہ قانون جب قانون بن کر منظور ہوا تو اس میں ایسی ترمیم کر دی گئی تھی جس سے یہ قانون مسلمانوں کے لیے شرعا غیر مفید ہو گیا۔حضرت مولانا کے حسبِ ہدایت میں نے اس کے خلاف مضامین لکھے. (حیات سجاد. مضمون مولانا عثمان غنی)

واردھا تعلیمی اسکیم کے خلاف رپورٹ: یہ تمام کو معلوم ہے کہ حضرت مولانا، کانگریس کے حامی وہمدرد تھے، لیکن اس کا کوئی عمل، کوئی تجویز جو ان کو مسلمان کے لیے مضرمعلوم ہوتی تھی اس کی سخت مخالفت فرماتے تھے ۔ چناچہ واردھا تعلیمی اسکیم کی جس قدر مخالفت مولانا نے فرمائی اور ان کی نگرانی میں امارت شرعیہ نے انجام دی وہ کسی نے نہیں کی۔ اس کی تفصیل امارت کی مطبوعہ رپورٹ سے معلوم ہو سکتی ہے، جو راقم الحروف کی مرتبہ ہے۔)حیات سجاد. مضمون مولانا عثمان غنی)

تحفظ مسلمین اور اصلاح معاشرہ کے لیے مولانا عثمان غنی کی کاوشیں :

امارت شرعیہ کے مقاصد میں تحفظ مسلمین اور اصلاح معاشرہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس مقصد کے لیے بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی کا شروع سے معمول رہا ہے، ان شعبوں کی نگرانی براہ راست ناظم امارت شرعیہ سے متعلق تھی.. مبلغین امارت شرعیہ کے ذمہ صرف دینی امور میں رہنمائی نہ تھی بلکہ معاشرہ کی ملی اور سماجی خدمات بھی تھیں۔ جہاں کہیں مسلمان غیروں کے ظلم کا شکار ہوتے، دینی امور میں رکاوٹ محسوس کرتے، امارت شرعیہ کے مبلغ اس مسئلہ کو امارت کو پہنچاتے،پھر امارت شرعیہ اس مسئلہ کو حل کرتا۔

مبلغین کی طرف سے جو خبریں موصول ہوتی تھیں، ان کے مطابق اصلاح کے لیے ناظم امارت شرعیہ کی نگرانی میں وفود روانہ کیے جاتے تھے اور اگر معاملہ تحفظ مسلمین سے ہوتا تھا تو حکام بالا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو معاملہ حل کرنے کے لیے متوجہ کیا جاتا تھا.. مولانا عثمان غنی کے زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ "نقیب” میں اس کی رپورٹ شائع ہوتی تھی. چنانچہ ذیل کی دورپورٹوں سے سماج کے اصلاح اور تحفظ مسلمین کے تئیں امارت کے اہم کارناموں پر روشنی پڑتی ہے۔

’مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شرعیہ ضلع چمپارن کے واقعات لکھتے ہیں‘

۱۷؍جمادی الاول تا ۳۰ جمادی الثانی ۱۳۴۸ھ اس اثنا میں ۲۲ مواضع کا دورہ کیاانفرادی تبلیغ کے علاوہ تین جلسوں میں وعظ بیان کیا۔قومی محصول کی وصولی میں عامل کی اعانت کی۔ایک موضع میں ہندو محض شرارت سے عین اذان کے وقت سنگھ بجانے لگتے ہیں جس سے فساد کااندیشہ ہے۔مسلمانوں کو فساد سے بچنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔(امارت شمارہ ۲۰رجب ۱۳۴۸؁ھ ص؍۶،ج ۶،نمبر ۱۴)

مولانا عثمان غنی کی طرف سے بھاگل پور کے کلکٹر کو برقی پیغام :

دوسری رپورٹ بعنوان ’پورائن ضلع بھاگل پور میں قربانی ہوگئی‘ امارت کے بروقت اقدام سے نہ صرف ہندو مسلم فساد کاایک بڑا حادثہ ٹلا بلکہ مسلمانوں کو قربانی کرنے کی سہولت ہو گئی۔

’’پورائن……ڈویژن بانکا ضلع بھاگل پور کے مسلمانوں نے دفتر امارت شرعیہ میں اطلاع دی کہ ہم لوگ اپنی سہولت کے لحاظ سے قریب کی ایک بستی میں گائے لے جاکر قربانی کرتے ہیں۔ اس سال ہندؤں نے یہ شرارت کی ہے کہ اس بستی میں جانے کا راستہ بند کردیا ہے۔اس لیے فساد کا اندیشہ ہے۔امارت شریعہ توجہ کرے کہ ہم لوگ قربانی کرسکیں ۔

مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شرعیہ نے جو اس علاقہ میں کام کررہے ہیں ،یہی لکھا ہے۔چنانچہ ناظم صاحب امارت شرعیہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھاگل پور کو تار دیا کہ پورائن سب ڈویژن بانکا میں قربانی کے موقع پر فساد کااندیشہ ہے۔ایسا نظم کیجیے کہ مسلمان قربانی کرسکیں۔چناچہ ہم کو اطلاع ملی کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھاگل پور نے فوراً ملٹری بانکا بھیج دی اور مسٹر غلام جیلانی صاحب ایس ڈی او بانکا نے حسن نظم سے کام لے کر78 ہندؤں سے دودو سو روپے کی ضمانت لی کہ مسلمانوں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں۔اور 8 مسلمانوں سے بھی ضمانت لی کہ گوشت لانے کے سلسلے میں ہندؤں کی فصل ارہر کو نقصان نہ پہنچائیں گے جو راستہ میں پڑتی ہے۔(بحوالہ: نقیب ص۵،جلد ۴،نمبر ۱،شمارہ ۵؍محرم الحرام ۱۳۵۵؁مطابق ۲۹ مارچ ۱۹۳۶؁ء)(مستفاد از مضمون خورشید عالم ندوی،بنگلور، بصیرت فیچرس)

چوتھے امیر شریعت کے انتخاب میں مولانا عثمان غنی کی فعالیت :

مولاناعثمان غنی کے عہد میں دوسرے اور تیسرے امراء شریعت کا انتخاب عمل میں آیا. لیکن وہ اکابر کا دور تھا؛ اس لیے زیادہ دشواری درپیش نہیں ہوئی؛ لیکن جب امیر شریعت ثالث ۳۰؍ رجب ۱۳۷۶ ھ کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، تو انتخابی اجلاس کی تاریخ اور جگہ کی تعیین کے لیے کارکنان امارت شرعیہ، جمعیت علماے بہار کی مجلس عاملہ حضرت مولانا محمد عثمان غنی صاحب مفتی و ناظم امارت شرعیہ کی صدارت میں ۲۶؍ رجب ۱۳۷۶ھ مطابق ۲۷؍ فروری ۱۹۵۷ء کو خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، تاریخ کی تعیین میں دشواری یہ پیش آ رہی تھی کہ بہار اسمبلی کا الیکشن ہونا تھا اور زمانہ انتخاب میں ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے کی وجہ سے اجلاس بلانا دشوار تھا،ناظم امارت شرعیہ اور صدر مجلس نے صورت حال کی حساسیت کی وجہ سے یہ رائے ظاہر کی کہ دور دراز دیہی علاقوں میں میں سے کسی مضبوط مناسب مقام پر اگر یہ اجلاس منعقد کیا جائے تو مناسب رہے گا.. چنانچہ انھوں نے اپنے ہمنام ممتاز عالم دین مولانا محمد عثمان صاحب شیخ الحدیث مدرسہ رحمانی سے اس سلسلے میں گذارش کی.. حضرت نے ہمت جٹائی اور مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں انتخابی اجلاس کی دعوت دی، نائب امیر شریعت

مولانا عبد الصمد رحمانی نے اکابر کے مشورہ سے باضابطہ اس دعوت کو قبول کر لیا اور ۲۱؍ ۲۲؍ شعبان ۱۳۷۶ھ مطابق ۲۴، ۲۵؍ مارچ ۱۹۵۷ء کی تاریخ مقرر ہو گئی، ان مدعوئین کے ناموں کے انتخاب کے لیے ایک بورڈ تشکیل دی گئی، جس میں نائب امیر شریعت، قاضی شریعت، ناظم امارت شرعیہ اور جمعیۃ علما کے مخصوص ارکان کو رکھا گیا، اس کمیٹی کی سفارش کی روشنی میں سات سو افراد کے نام دعوت نامے جاری کیے گئے، ۲۴؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو انتخابی اجلاس کی صدارت مولانا ریاض احمد صاحب چمپارن نے فرمائی اور نائب امیر شریعت نے اعلان کیا کہ ’’آپ حضرات آزادی کے ساتھ امیر شریعت جیسے اہم منصب کے لیے ایسے بزرگوں کا نام پیش کریں جو اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی سنبھال سکیں، چنانچہ اجلاس کے شرکا نے چار نام پیش کیے، مولانا سید شاہ امان اللہ صاحب، سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ، مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر، مولانا سید شاہ نظام الدین خانقاہ مجیبیہ اور مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت، حضرت نائب امیر شریعت نے اپنا نام واپس لے لیا اور فرمایا کہ سب نام ایسے ہیں جن کا احترام بہار کے لوگوں کے دلوں میں ہے، اس لیے مجلس میں ناموں کی وجہ سے ترجیح پر بحث نہ ہو، ایک سب کمیٹی بنا دی جائے جو ان ناموں میں سے کسی کے نام پر اتفاق کرکے بتادے، اجلاس کو اس کمیٹی کا فیصلہ منظور ہوگا،جمعیت علماء ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی دہلی سے اس انتخابی اجلاس کے مشاہد کی حیثیت سے تشریف لائے تھے ۔مختلف مراحل کے بعد بالآخر امیر شریعت رابع کے طور پر حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کا انتخاب عمل میں آیا.. ناظم امارت شرعیہ کا امیر کے انتخاب میں کتنا اہم رول ہوتا ہے وہ ظاہر وباہر ہے.. یقیناً یہ مولانا عثمان غنی کے حسنات میں لکھا جائے گا کہ ان کے دور نظامت میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی جیسا دور اندیش اور مفکر و مدبر امیر شریعت امارت شرعیہ کو ملا.

مولاناعثمان غنی اور نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی :

مولاناعثمان غنی جریدہ "امارت” اور جریدہ "نقیب” کے ایڈیٹر تھے، ایک زمانے تک اس پلیٹ فارم سے پرورش لوح وقلم کرتے رہے، ملت اسلامیہ کے مسائل کو اجاگر کرتے رہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے سیال قلم عطا کیا تھا.. لیکن قلمکاروں کی نئی کھیپ تیار کرنا بھی ممتاز اصحاب قلم کی ذمہ داری ہوتی ہے، قلم کاروں کی نئی کھیپ تیار ہوتی ہے خرد نوازی اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی سے… مولانا عثمان غنی بھی اس صفت سے بدرجہ اتم متصف تھے آپ نے نئے قلمکاروں اور نوجوانوں فضلاء کی سرپرستی فرمائی.. اس حوالے سے یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ یہاں مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے میں ایک نوجوان فاضل کی بحالی ہوئی، انھوں نے مسلم پرسنل لا کے مسائل پر تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایک قیمتی کتاب مرتب کی.. جب یہ کتاب حضرت مولانا عثمان غنی کی خدمت میں پیش کی گئی تو نہ صرف یہ کہ اس نوجوان فاضل کی آپ نے زبانی حوصلہ افزائی کی بلکہ دوصفحات پر مشتمل ایک کتاب پر شاندار مقدمہ بھی لکھا..یہ کتاب جو کتابستان کچہری روڈ بیگوسرائے سے مسلم پرسنل لاء اور ہندوستانی مسلمان ‘‘کے نام سے سن جولائی ۱۹۷۲ شائع ہوئی ۔اس پر حضرت مولانا مفتی محمد عثمان غنی صدر ریاستی دینی تعلیمی بورڈ پٹنہ بہار کے مقدمے کے علاوہ پیش لفظ حضرت مولانا اسماعیل صاحب عظیم آبادی رئیس المدرسین مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے کا ہے. یہ کتاب بندہ راقم السطور کے ذخیرہ کتب میں موجود ہے ۔اس نوخیز قلمکار کی شناخت ملکی پیمانے پر بعد میں ممتاز ملی و سماجی قائد وانشاء پرداز حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی سابق ممبر پارلیمنٹ کے نام سے ہوئی … اس کتاب کے صفحہ 4 پر درج ہے۔ مقدمہ از مفتی عثمان غنی

صاحب صدر دینی تعلیمی بورڈ ۔آپ نے اپنے وقیع خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ:’’ جناب مولانا اسرار الحق فاضل دیوبند ،ناظم تعلیمات مدرسہ بد رالاسلام بیگوسرائے کی تصنیف مسلم پرسنل لاء اور ہندوستانی مسلمان بھی اس موضوع پر بہت اچھی کتاب ہے ۔مصنف نے کتاب وسنت کے حوالہ کے ساتھ متعدد افاضل واکابر مستشترقین کی تحریروں کے حوالے بھی دیئے ہیں ،جن سے کتاب کی دلچسپی اور وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔مصنف کی یہ دوسری تصنیف ہے ۔انداز تحریر قابل تحسین ہے، دینی وعلمی بھی ہے اور مؤثر بھی ہے ۔‘‘

اس کے علاوہ فتاویٰ امارت شرعیہ کے مقدمہ میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب امیر شریعت کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے دارالافتاء کے مفتی کے طور پر دیگر علماء کی تربیت افتاء کے فرائض بھی انجام دئیے؛ چنانچہ مفتی عثمان غنی اور مولانا سجاد کی نگرانی میں مولانا عبداللہ عباس سابق معتمد تعلیم ندوۃ العلماء کے والد مفتی محمد عباس نے افتاء کی تربیت حاصل کی اور بعد کو وہ بھی امارت شرعیہ کے دار الافتاء کی مفتی بنے اور کثیر فتاوے لکھے. (فتاوی امارت شرعیہ 1/21)

پیٹ پر پتھر باندھ کر ملت کی خدمت :

اگر حالات سازگار ہوں تو ملی وسماجی امور کو سنبھالنا نسبتاً آسان ہوتا ہے؛ لیکن اگر حالات نامساعد ہوں تب بھی اپنی ملی و قومی ذمہ داریوں کو انجام دینا آسان نہیں بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے..امارت شرعیہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ادارہ شدید مالی بحران کا شکار ہو گیا…ذمہ داران و ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی بھی دشوار ہوگئی، ناچار کئی حضرات کی تنخواہ سوخت کردی گئی. اور اعزازی طور پر ان سے کام کرنے کی فرمائش کی گئی…ان میں مفتی عثمان غنی بھی شامل تھے لیکن ایسے موقع پر بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہیں ہوئی. وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کرتے رہے اور حسب سابق خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی.. اس صورت حال کی عکاسی حضرت مولانا سجاد کے خطوط میں باحسن وجوہ کی گئی ہے. اس موقعہ کےحضرت مولاناسجادؒکےتحریرکردہ کئی نایاب خطوط مولانا شاہ محمدعثمانی ؒ نےاپنی کتاب "حسن حیات”میں محفوظ کردئیے ہیں،ان میں سےایک خط بطور نمونہ پیش ہے. جومولاناعثمان غنی صاحبؒ کےنام ہے.

ربیع الثانی٥٩ ۱۳ھ ۔۔۔مکرمی ومحترمی زادلطفکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

چونکہ اس سال مالی دقت تمام سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہورہی ہے،جوتمام کارکنوں کو معلوم ہے،وظائف کی ادائیگی نا

ممکن سی ہورہی ہے،تقاضابھی شدیدہوتاہے،کوئی صورت امیدافزابھی نہیں ہے، اس لئے ان حالات پرآج غورکیاگیا،اخراجات کوکم

کرنے کی کوشش کی گئی،اورحضورامیرشریعت مدظلہ میں تمام صورت حال کانوٹ اورتخفیف کاخاکہ پیش کیاگیا،حضورامیرشریعت نےبھی

آج ہی اس پرمنظوری دےدی ہے، اس لئے آج ہی آپ کواس کی اطلاع دےدینابھی ضروری ہواکیونکہ یکم جمادی الاول سےاس پرعمل

درآمدہوگا۔اس میں جوتجویزمنظورہوئی ہےیہ بھی ہےکہ آپ کا(مولانا عثمان غنی کا) اورمولاناقاضی سیدنورالحسن صاحب کاعہدہ اعزازی باقی رکھتے ہوئے کل وظیفہ ساقط کردیاگیا اوردفترمیں اکثربقیہ لوگوں کےوظیفہ میں تخفیف کی گئی ہے۔اس کےباوجودبھی نہیں کہاجاسکتاکہ اخراجات کےمطابق آمدنی ہوگی۔یانہیں ، دعا فرمائیے کہ امارت شرعیہ کانظام اورکام جاری وباقی رہے،اوراللہ تعالیٰ ایسےحالات پیداکردے جن سے مشکلات پرقابوپاناسہل ہوجائے،آپ توخودپورے حالات سے واقف ہیں۔ والسلام

دستخط مولاناابوالمحاسن محمدسجاد

 

فساد زدگان کی داد رسی کے لیے مولانا عثمان غنی کی فعالیت :

مولاناعثمان غنی صاحبؒ اپنے مضمون میں بیان کرتےہیں:”صوبہ میں جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ان میں جہاں کہیں مسلمانوں

کی مظلومیت ثابت ہوئی، حضرت مولاناؒ نے امارت شرعیہ کی جانب سےمظلومین کی مناسب اعانت کی۔ ۔۔۔

٭اضلاع دربھنگہ ومظفرپور کے بعض دیہاتوں میں بقرعید کے موقع پر فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور لوٹا گیا۔ وہاں بھی

حضرت مولاناؒ خود تشریف لے گئے اور امارت شرعیہ کے کارکنوں کے ذریعہ مقدمہ میں اعانت کی،صوبہ کے دوسرے مقامات کے فسادات میں بھی مسلمانوں کی اعانت کی گئی۔

٭کانگریسی حکومت کے زمانہ میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، اس کی خود تحقیقات کی یا امارت شرعیہ کے کارکنوں کے ذریعہ تحقیقات

کرائی اور مظلوم مسلمانوں کی مالی یا قانونی امداد کرائی۔٭نیاگاؤں ضلع مظفرپور کے فساد میں مظلوم مسلمانوں کے لیے پٹنہ کے

ایک مشہور بیرسٹر کو حکومت کی طرف سے مقرر کرایا جنھوں نے سیشن اور ہائی کورٹ میں بھی کام کیا۔

٭گیا کے فساد کی تحقیقات کے لیے راقم الحروف کو بھیجا،اور پھر ایک دوروز کے لیے خود تشریف لے جاکرمفید مشورے دئیےاور سعی وکوشش کرکے مسلمانوں کو تاوان دلایا(حیات سجاد، مفکر اسلام مولانا سجاد. ص: 243)

مذکورہ سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ابوالمحاسن سجاد نے فسادات کے موقع پر مسلمانوں کی داد رسی کی ہر ممکن کوشش کی… متغدد مقامات پر خود گئے، کہیں ناظم امارت مولانا عثمان غنی کو بھیجا اور کہیں دیگر عملہ و کارکنان کو بھیجا… ظاہر ہے ان تمام مراحل میں بطور ناظم مولانا عثمان غنی کی خدمات بھی مولانا سجاد کو حاصل رہیں. اور پوری استقامت کے ساتھ آپ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے.. آپ کی ذات اس شعر کا مصداق تھی :

ہٹا دیں گے ہر اک سنگ گراں کو اپنے رستے سے نمایاں اپنی شان استقامت کر کے چھوڑیں گے

اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے آمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare