اکرم نگینوی : فن، فکر اور شعری جہتیں
تحریر : ابوشحمہ انصاری
شاعری ایک ایسا اظہار ہے جو انسان کے جذبات، خیالات، اور معاشرتی رویوں کو نہ صرف پیش کرتا ہے بلکہ دلوں پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ اردو ادب کی دنیا میں اکرم نگینوی ایک ایسا نام ہے جو اپنے منفرد انداز اور گہری فکر کے لیے جانا جاتا ہے۔ نگینہ ضلع بجنور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 1971 تک اپنی زندگی گزارنے والے محمد اکرم انصاری المعروف اکرم نگینوی کا شاعرانہ سفر 1982 میں شروع ہوا۔ تاہم، ان کے اندر شاعری کا ذوق اور لگاؤ بچپن ہی سے تھا، جو ان کے الفاظ اور خیالات میں جھلکتا ہے۔

اکرم نگینوی کی شاعری محض الفاظ کی بندش نہیں بلکہ ان کے تجربات، جذبات، اور زندگی کے فلسفے کا عکاس ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کی تلخیوں، خوشبوؤں اور انسان کی داخلی کشمکش کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے:
> "میں اپنی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا
کوئ مرے وجود کا حصہ لیے پھرا”
ابتدائی حالات اور تعلیم:
اکرم نگینوی کی ابتدائی تعلیم نگینہ ضلع بجنور میں ہوئی جہاں انہوں نے 10 ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ ان کی رسمی تعلیم محدود تھی، لیکن مطالعے اور مشاہدے کی عادت نے ان کی فکر کو وسعت بخشی۔ 1971 میں احمدآباد، گجرات منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کیا، جہاں نہ صرف انہوں نے اپنی شاعری کو جِلا بخشی بلکہ گجرات کے مشاعروں اور ادبی محافل میں بھی نمایاں حیثیت حاصل کی۔
شاعری کا آغاز اور اثرات:شاعری کے میدان میں اکرم نگینوی کی رہنمائی گرگٹ احمدآبادی نے کی، جنہیں وہ اپنا استاد مانتے ہیں۔ ان کی شاعری کا پہلا دور داخلی تجربات اور ذاتی احساسات پر مبنی تھا، لیکن جلد ہی ان کی شاعری نے وسیع تر موضوعات کو شامل کیا، جیسے سماجی ناانصافی، انسانیت، اور مذہبی تفریق۔ وہ زندگی کے نشیب و فراز کو بڑی گہرائی سے بیان کرتے ہیں:
"وہ بے ثمر رہے تو یہ میرا نصیب ہے
میں نے شجر بنا دیا پودے کو پال کر”
یہ شعر ان کے صبر، محنت اور قربانی کی عمدہ مثال ہے، جو ان کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے۔
گجرات کی ادبی محافل میں مقام:احمدآباد منتقل ہونے کے بعد اکرم نگینوی نے گجرات کی ادبی محافل میں فعال کردار ادا کیا۔ ان کے اشعار میں گجرات کے آل انڈیا مشاعروں اور نشستوں کا رنگ جھلکتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی، خصوصاً انسانی تعلقات، مذہبی ہم آہنگی، اور معاشرتی مسائل پر۔ ان کا یہ شعر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ مسلکی اختلافات نے انسانی رشتوں کو کس طرح متاثر کیا ہے:
"زد میں آکے مسلکوں کی دوستو
ہو گئے تسبیح کے دانے الگ”
شاعری کے موضوعات اور اسلوب:
اکرم نگینوی کی شاعری کا انداز نہایت سادہ، لیکن دلکش ہے۔ وہ عام الفاظ میں گہرے مفاہیم بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات زندگی کے ہر پہلو کو چھوتے ہیں، چاہے وہ انسانی جذبات ہوں یا سماجی مسائل۔ ان کی یہ خصوصیت ان کی شاعری کو ہر خاص و عام کے لیے دلکش اور قابلِ فہم بناتی ہے۔ ان کے اشعار میں اصلاحی پہلو بھی موجود ہے، جو ان کی شاعری کو مزید مؤثر بناتا ہے:
> "زعم کی سیڑھی لگا کر چھو رہا تھا آفتاب
موم کے پتلے کو یہ کوشش بڑی مہنگی پڑی”
کتابی تصنیف:
‘اعتبارِ قلم’:اکرم نگینوی کی تخلیقات مختلف ادبی کتابوں اور رسائل میں شائع ہو چکی ہیں، لیکن ان کی کتاب "اعتبارِ قلم” ان کے ادبی کارناموں کا اہم سنگِ میل ہے۔ یہ کتاب ان کے فن، فکر، اور جذبات کا بہترین مجموعہ ہے، جو ان کے قاری کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے۔
خاندانی پس منظر اور اثرات:
اکرم نگینوی کے والد محمد یاسین انصاری کا اثر ان کی شخصیت اور شاعری میں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی تربیت اور اخلاقیات نے اکرم نگینوی کو نہ صرف ایک بہترین شاعر بنایا بلکہ ایک عمدہ انسان بھی۔ وہ خود کہتے ہیں:
"اس وقت میری زندگی سکتے میں آ گئی
میری برائی جب مرے بیٹے میں آ گئی”
یہ شعر ان کی داخل کیفیت اور خاندانی تعلقات کے بارے میں ان کے گہرے احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔
اکرم نگینوی کی شاعری نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ ایک آئینہ ہے جس میں سماج، انسانیت، اور تعلقات کے مختلف پہلو جھلکتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے قاری کو نہ صرف محظوظ کرتی ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ ان کی تخلیقات اردو ادب کے خزانے میں ایک قیمتی اضافہ ہیں اور آنے والے وقتوں میں بھی ان کا نام ادب کی دنیا میں روشن رہے گا۔
"آپ کے رخسار کو چھو کر لگا
آج میں نے چاند میلا کر دیا”