اگر اب بھی نہیں جاگے تو ؟

تکلف برطرف : سعید حمید

اگر بیدار نہیں ہے قوم، تو کم از کم ا یسے مواقع پر اسے ضرور جاگ جانا چاہئے ، آنکھیں وقتی طور پر بھی بند نہیں کرنی چاہئے ،

خاص طور جب ان کا ملک خطرے میں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور تب بھی جب ان کی قوم کو سنگین خطرات لاحق ہوں ، ان کی قومی املاک ، اثاثہ ، ورثے اور شناخت کو خطرہ لاحق ہو ۔

اگر اب بھی نہیں جاگے تو ؟
اگر اب بھی نہیں جاگے تو ؟

ہمارے اکابرین نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے لئے ملک عزیز ترین ہے ،

اور ملت بھی اسی قدر عزیز ترین ۔۔۔۔ اسلئے جب ملک پر وقت آن پڑے تو ہم برادران وطن کے ساتھ متحد ہو کر دشمن طاقتوں کے سامنے ڈٹ کھڑے ہوں ، یہ ہمارا قومی فرض ہے ، اور سارا ملک دیکھ رہا ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنا یہ قومی فرض بخوبی ادا کر رہے ہیں ۔

بحران کے وقت میں ملت کی ایک بیٹی ملک کا چہرہ بن چکی ہے ۔

آج اگر باہر کے دشمن نے ہمیں للکارا ہے ، تو ہم نے اپنے تمام اختلافات بازو کر دئیے ۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی تحریک بھی ملتوی کردی ہے ۔

سارا ملک ایک آواز بن کر بیرونی دشمن سے لڑ رہا ہے ۔

لیکن ، آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نفرت کی دکانوں پر کوئی فرق نہیں پڑا ، جو اپنے کاروبار میں مصروف ہیں ۔

یہ بھی تو دیش کے دشمن ہیں ، اگر وہ لوگ جو اپنے ہی دیش واسیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ، اور ان کی تباہی و بربادی

کے منصوبوں پر عمل کرتے رہتے ہیں ، تو وہ دیش بھکت کیسے ہوگئے ؟

وہ بھی دیش کے دشمن ہیں ، اور ایک بات بڑی اہم یہ ہے کہ بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک اندرونی دشمن ہو ا کرتا ہے ،

اس لئے پاکستان سے نفرت کا رخ بھارت کے مسلمانوں کی جانب کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں

کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی ۔اسلئے ہمیں بیدار رہنا ہے ،

عرصہ ٔ دراز سےنفرت کے تاجر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں ، نفرت کو اپنی دکانیں چمکانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں ۔

ان میں سیاسی جماعتیں ، سیاسی افراد اور میڈیا کے لوگ پیش پیش ہیں ۔

نفرت کو سیاسی دکان داری کیلئے کیسے استعمال کیا جائے ؟

یہ سبق انہوں نے ہٹلر سے سیکھا اور اس کو بھارت میں دیسی رنگ دیا ۔

مسلمانوں ، عیسائیوں ، دلتوں کے خلاف نفرت کو انتہا پسند ہندوتوا وادی عوام کے اتحاد کیلئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

اسی پلان پر وہ عمل کر رہے ہیں ۔نفرت سے بھی اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے ، یہ بات ہندوتوا وادیوں سے ساورکر نے کہی تھی ، اور نفرت انگیز ایجنڈا مرتب کیا ،جسے انہوں نے ہندوتوا کا نام دیا ۔

یہ وہ زمانہ تھا جب گاندھی جی نے محبت کی دکان کھولی تھی ۔

ہندو مسلم اتحاد کی بات وہ زور و شور سے کر رہے تھے ۔

ان کا مقصد تھا ، ملک کی آزادی ، اور ہندو مسلم اتحاد کی طاقت کا برٹش کے خلاف استعمال ۔

ساورکر گاندھی جی کے سخت مخالف تھے ۔

ان کو برٹش سرکار نے کالا پانی کی سزا دی تھی ، اور انڈو مان نکوبار جیل میں انہیں رکھا۔

وہاں سے رہائی کیلئے ساورکر نے کئی مرتبہ رحم کی درخواست لکھی ۔

متعدد مرتبہ وہ مسترد ہوئی ، لیکن جب گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد کا مشن بڑھایا ،

اور خلافت تحریک کی حمایت کی ، ترک تعاون تحریک کی حمایت کی ۔

علی برادران کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملایا ،

اور ملک بھر میں ہندو مسلم اتحاد کا برٹش مخالف ایسا طوفان بپا ہوا ،

کہ برٹش سرکار بھی کچھ عرصہ کیلئے لرز کر رہ گئی ۔

یہی وہ دور تھا کہ جس ساورکر کو معافی نہیں دی جا رہی تھی ، اسے خاموشی سےکالا پانی کی سزا سے آزادی دے دی گئی ، اور رتناگیری جیل میں

۱۹۲۳ ء میں نظر بندی کے ایام میںساورکر نے ہندوتوا کا فلسفہ پیش کیا ۔برٹش سرکار نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے فلسفہ پر جو

مسلم مخالف جھوٹی تاریخ لکھی تھی اور لکھوائی تھی ، اسی کو آگے بڑھانے کا کام ساورکر نے کرتے ہوئے کٹر وادیوں کو سمجھایا ،مسلم مخالف ، دلت مخالف ، عیسائی مخالف نفرت سے بھی کٹر وادی ہندوؤں میں اتحاد قائم کیا جاسکتا ہے ، ووٹ بنک بنایا جاسکتا ہے ،

اور اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

آج برٹش سرکار نہیں ہے !!! پھر بھی اسی فارمولہ پر عمل جا ری ہے ۔

کیوں ؟ اسلئے کہ اس فارمولہ سے فرقہ پرست طاقتوں کا مسلسل فائدہ ہوتارہا ہے ، جذبات بھڑکا کر انہوں نے اقتدار حاصل کیا ، جذبات بھڑکا کر اقتدار قائم رکھا اور اب پھر الیکشن جیتنے اور اقتدار کو مزید قائم رکھنے کیلئے جذبات سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔

جب جب الیکشن قریب آتا ہے ، فاشسٹ طاقتیں اپنا کھیل شروع کردیتی ہیں !!!

اسلئے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو صرف جذباتی معاملات پر سیاست کرتے رہے ہیں،وہ الیکشن کے قریب آتے آتے اسی طرح کی فاشسٹ حرکت کر رہے ہیں یا اس کی سر پرستی کررہے ہیں ، جو ہٹلری روایت کا اشارہ دیتی ہے !!!

ظالم اپنا کام کر رہا ہے ، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے ؟

جی نہیں !!! خطرے کی گھنٹی نہیں ، گھنٹیاں بج رہی ہیں ،

ہر دن ایک نیا واقعہ خطرے کی ایک نئی گھنٹی کی طرح سامنے آتا ہے ،

مظلوم عوام کیلئے یہ روزانہ کے تشویش ناک واقعات اشارہ ہیں، کہ جاگ جاؤ !!!

آپس میں مل بیٹھو ، سوچ وچار کرو ، اتحاد کی رسی ّ کو مضبوطی سے پکڑ لو ،کیا مسلمان ، عیسائی ، دلت اور دیگر مظلوم اقوام روازانہ کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے مدنظر سنجیدگی سے ایسا کچھ کام کر رہے ہیں ؟یا صرف خانہ پُری کی جا رہی ہے ؟ جس طرح کے چیلنج ک سامنا ہے ،

اور جس طرح اس کے خلاف جوابی اقدام کی ضرورت و عمل کا تقاضہ ہے ،

سچ تو یہ ہے کہ وہ تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں !!!

اس لئے ظالم بے خطر ہے کہ مظلوموں کی جانب سے کوئی اقدام موثر نہیں ہے !!

اب تک تو نہیں ۔۔۔۔ ان تک تو کچھ بھی نہیں ۔۔سوائے بیان بازی کے ۔

اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا قوم سو رہی ہے ؟ کھلی آنکھ کی نیند ؟

بیدار قومیں تو اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کرتی ہیں !!!

تباہ کن طوفان دروازے پر دستک دے رہا ہے ،

اور ہم شائد یہی سوچ رہے ہیں ، کہ ہم تو ابھی محفوظ ہیں ؟

شائد نہیں ۔۔۔یہ سوچ درست نہیں ۔۔ ۔۔۔۔کہیں بلڈوزر چلیں گے ، کہیں لاؤڈ اسپیکر اتارے جائیں گے ،

کہیں ہاکرس ہٹائے جائیں گے ، کہیں دکاندار بھگائے جائیں گے ۔۔۔۔

اب تو لگتا ہے کوئی علاقہ ، کوئی شہر ، کوئی راستہ ، کوئی سڑک ،کوئی بس ، کوئی ٹرین محفوظ نہیں ، کہ جہاں جنونی غنڈوں کا ٹولہ کہیں ایک دو مسلمان کو دیکھ اپنی شیطانی حرکت کو انجام دینے کیلئے ان پر ٹوٹ نا پڑے ، کیونکہ ان کی برسہا برس سے حوصلہ افزائی ہو تی رہی ہے ۔

اور پھر کیا ہم نے نفرت کے زہر کو وردی پوش افراد کے سروں پر بھی سوار ہوتے نہیں دیکھا ؟

جئے پور ایکسپریس میں سوار تین با ریش مسلمانوں کو کیا پتہ تھا کہ وہ ایک باوردی دہشت گرد جوآر پی ایف کی جانب سے مسافروں کی حفاظت کیلئے تعینات کیا گیا تھا ، کی دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گے ؟

یہ واقعہ بڑا ہی سنسی خیز تھا ، یہ واقعہ انتہائی اہم تھا !!

اس نے تو ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں اور خاص طور پر داڑھی والے مسلمانوں اور برقعہ پوش مسلم عورتوں نیز ان کے ساتھ سفر کرنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کی سیکوریٹی کیلئے سوال کھڑا کرد ئیے تھے !!!

کیا اس کو سزا ملی ؟ کہ جس نے نام پوچھ پوچھ کر اور حلیہ دیکھ دیکھ کر مسلمانوں کو مارا تھا ۔

اسکو تو دہششت گرد بھی قرار نہیں دیا گیا ، اسے دہشت گردی مخالف کیس میں بھی نامزد نہیں کیا گیا ۔

اس کے بارے میں یہی کہا گیا کہ وہ تو ذہنی طور پر متاثرہ شخص ہے ،

Mentally Disturbed ۔۔۔۔۔ یعنی کلین چٹ ، آزادی کا پروانہ ۔۔

ملک کو بیرونی دشمن کا تو کبھی کبھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے ، اور ہر مقابلہ میں دیش کی فتح ہو ئی ہے ۔

لیکن اندر کے دشمنوں سے روزانہ کی جنگ ہے ، جس میں مسلمان ، دلت ، اقلیت اور کمزور نشانہ بنتے ہیں۔

ملک تب صحیح معنوں میں مضبوط ہوگا جب بیرونی دشمنوں ہی نہیں بلکہ اندرونی دشمنوں کو بھی مات دی جائے ۔

جنہوں نے نفرت وادی قلعہ ملک میں جگہ جگہ بنا رکھے ہیں ، ان نفرت وادی قلعوں

کو بھی اتحاد و یکجہتی کے میزائیلوں کا نشانہ بنایا جائے ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare