ایم ایف حسین کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

”شہرہ آفاق ہندوستانی پینٹر ایم ایف حسین کا لندن میں انتقال“

9 جون 2011 کو

دہلی سے دبئی کی پرواز کے دوران جہاز کے چھوٹے سے اسکرین پر جب میری نظر بی بی سی کی اس سرخی پر پڑی تو میں اندر سے بے چین ہواٹھا۔ سوچا تھا اس بار سفر کی وجہ سے کالم کی غیر حاضری رہے گی لیکن مقبول فدا حسین کی موت نے یہاں بھی مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اگلی صبح دبئی کے انگریزی اور عربی اخبارات حسین کی خبروں اور تصاویر سے بھرے پڑے تھے۔ 2007 میں جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد حسین نے اپنا بیشتر وقت دبئی ہی میں گذارا۔ وہ دبئی کو اپنا وطن ثانی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے دبئی کے ڈیرہ علاقے میں واقع امارات ٹاور میں اپنا نہایت وسیع اسٹوڈیو بھی بنایا تھا اور یہی ان کی آخری یادگار بھی ہے۔

ایم ایف حسین کی یاد میں
ایم ایف حسین کی یاد میں

ایم ایف حسین نے لندن میں آخری سانس لی اور وہ وہیں کی خاک کا پیوند ہوئے۔ یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا کہ کس ملک کی مٹی انہیں نصیب ہوگی لیکن حسین کا خمیر ہندوستان کی سوندھی مٹی سے اٹھا تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستانی تہذیب اور اساطیر کی ترجمانی میں گذارا۔ یوں آپ کسی عظیم فن کار کو کسی ملک کی سرحدوں میں قید نہیں کرسکتے۔ حسین نے ہندوستانی آرٹ کو بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ ملک کے واحد فن کار تھے جن کے فن پارے عالمی بازار میں سب سے مہنگے داموں پر فروخت ہوئے۔

ایم ایف حسین کا پورا نام مقبول فدا حسین تھا۔ ان کا اپنا نام مقبول تھا لیکن وہ اپنے والد فداحسین کے نام کو اپنے نام سے منسلک رکھتے تھے۔ ان کی موت کے بعد اگر انہیں مقبول کے بجائے ’مقتول‘ لکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام جس ذہنی اذیت میں گذارے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا تصور کیجئے کہ جس عظیم فن کار نے ہندوستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اس کے لئے اپنے ہی وطن کی زمین اتنی تنگ کردی گئی کہ اسے مجبوری اورلاچاری میں ایک ایسے ملک کی شہریت اختیار کرنی پڑی جہاں نہ تو اس کی جڑیں تھیں اور نہ ہی تہذیب وتمدن کے نقوش۔ اگر قطر کی حکومت انہیں اپنی شہریت نہ دیتی تو شاید وہ یو نہی غریب الوطنی میں زندگی کے باقی ایام گذاردیتے۔بقول افتخار عارف:

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

گذشتہ سال فروری میں جب حسین نے دل پر پتھر رکھ کر اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس کیا تو بعض ہندوستانی دانشوروں نے کہا تھا کہ حسین کو ہندوستان واپس آکر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا جب کہ حسین پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ کچھ کم 100سال کی عمر میں میرے اعضاء اس قابل نہیں ہیں کہ میں عدالتوں کے چکر کاٹوں اور قانونی موشگافیوں کامقابلہ کروں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ چند دانشوروں اور صحافیوں کو چھوڑ کر بیشتر لوگوں نے ان حالات کے لئے حسین کو ہی ذمہ دار قراردیا اور ان انتہا پسندوں کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں دکھائی جنہوں نے حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام عائد کرکے ان پر ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات قائم کردیئے تھے۔ حسین کی جن قلمی تصویروں پر 1996میں واویلا مچا وہ انہوں نے 1970میں بنائی تھیں۔ تب ان تصویروں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ اچانک 1996میں ایک ہندی میگزین نے ان قلمی تصویروں کی بنیاد پرحسین کو ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کا ملزم گردانا اور منظم سازش کے تحت ان کے خلاف سینکڑوں مقدمات قائم کردئے گئے تاکہ وہ عدالتوں سے سرٹکراکر دم توڑدیں۔

1998میں ممبئی میں ان کے مکان پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا گیا اور کروڑوں روپوں کے قیمتی شہ پارے برباد کردیئے گئے۔ کسی فن کار کے لئے اس سے زیادہ کربناک منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خون جگر سے بنائی ہوئی اس کی پینٹنگز کو مذہبی جنونی اپنے پیروں تلے روند ڈالیں۔ شاید اسی واقعہ نے حسین کا دل توڑدیا اور انہوں نے ہندوستان کی شہریت چھوڑنے کافیصلہ کیا۔

یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جن لوگوں نے ہندی میگزین ”وچار ممانسا“ میں ’ایم ایف حسین،ایک پینٹر یا قصائی؟‘ کے عنوان سے انتہائی اشتعال انگیز مضمون شائع کردیا تھا وہ دراصل حسین کی بے پناہ مقبولیت سے خوفزدہ تھے۔ ان لوگوں میں ان ہندوستانی پینٹروں کاایک ایسا مایوس طبقہ پیش پیش تھا جو اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود حسین کے فن کی ہم سری کرنے میں ناکام رہا۔ اسی لئے حسین کے ہم عصربعض فن کار انہیں منظر سے ہٹاکر اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے۔ حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنانے کے الزام لگانے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اجنتا اور ایلورا کے غاروں سے لے کھجورا ہوکے مندروں کے درودیوار پر دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر ان کے دوغلے پن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ حسین نے دراصل انہی مجسموں سے متاثر ہوکر اپنی پینٹنگز بنائی تھیں۔ جس مذہب میں معبودوں کی عریاں تصاویر اور مجسمے بنانا عام ہو وہاں اس قسم کے لایعنی سوال اٹھانا شرانگیزی نہیں تو اورکیا ہے؟

17 ستمبر 1915میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونے والے مقبول فدا حسین کا گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔مادری زبان گجراتی تھی۔ مصوری کا شوق مدرسے میں پروان چڑھا۔مدرسے میں حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے ۔جس سے ان کی پڑھائی اور رہن سہن کا خرچہ نکل آتا تھا۔حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی طرف تھا۔ وہ دکان پر بیٹھتے تو بھی پنسل سے خاکے بناتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول کو گلے لگا لیا۔ مقبول چند دنوں بعد بیندرے صاحب (مشہور مصور) کو اپنے باپ سے ملانے لے گئے۔ بیندرے بھی اندور سے تعلق رکھتے تھے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare