ایک جان باز مجاہد عبد القیوم انصاری
افروز عالم ساحل
جب ملک میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو بہار میں 14 سال کے ایک نوجوان نے بھی لبیک کہا اور ملک کی آزادی کی لڑائی میں کود پڑا۔ اس نوجوان کا نام تھا عبدالقیوم انصاری۔ آپ اسی عمر سے ہی انگریز حکومت مخالف تحریکوں میں سرگرم رہے۔
عبدالقیوم انصاری بہار کے سہسرام ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اسی دوران مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی خلافت تحریک کے سلسلے میں بہار کا دورہ کر رہے تھے، 1919 کے اسی دورہ میں عبدالقیوم انصاری کو بھی علی برادران سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ محمد علی کے محبت و شفقت سے کا متاثر ہوئے اور علی برادران ان کے قومی جذبے سے۔
کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم انصاری نے ان دنوں انگریز حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس سے انھوں نے علاحدگی اختیار کی اور خود اسکول قائم کر ڈالا۔ اس میں وہ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے جو گاندھی جی کے اعلان کے بعد سرکاری اسکولوں سے نکل گئے تھے اور اب تحریک عدم تعاون کا حصہ تھے۔
انھیں 1920 میں ڈہری آن سون خلافت کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ اسی سال یعنی ستمبر 1920 میں کلکتہ میں کانگریس کا اسپیشل سیشن بلایا گیا، تو نوجوان ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے عبدالقیوم انصاری اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ یہاں ان کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ہوئی۔ گاندھی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بتادیں کہ کانگریس کے اسی اسپیشل سیشن میں گاندھی جی کی پہل پر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے اور ترکی میں خلافت کی حفاظت کی خاطر تحریک عدم تعاون کا تاریخی قرار داد پاس کیا گیا تھا۔
عبدالقیوم انصاری خلافت تحریک میں اس قدر سرگرم ہوگئے کہ انھیں اس تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے فروری 1922 میں ڈہری آن سون میں گرفتار کر سہسرام جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ نومبر تک جیل میں رہے۔ اس سزا کے بعد بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا تھا، اس لیے جیل سے نکلتے ہی پھر سے سرگرم ہوگئے اور آگے بھی حکومت مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ دسمبر 1922 میں گیا میں منعقد کانگریس اجلاس میں ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت چترنجن داس کر رہے تھے۔
1928 میں کلکتہ کالج اسٹریٹ میں سائمن کمیشن کے مخالفت میں چل رہی طلبہ تحریک میں سب سے سرگرم تھے، اس میں انھیں برطانوی پولیس کے ظلم کا شکار ہونا پڑا تھا۔ انھوں نے 1937 میں بہار جمیعت المومن کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح سے ملک کی آزادی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے اور ہر تحریک میں سب سے آگے نظر آئے۔
سب سے کم عمر کے کابینہ وزیر
1946 میں منعقدہ بہار قانون ساز اسمبلی انتخابات میں رانچی کم سنگھ بھوم محمڈن دیہی حلقہ سے پہلے پہل ایم ایل اے منتخب ہوئے اور انھیں 14 اپریل 1946 کو شری کرشنا سنگھ کی وزرا کے کونسل میں کابینہ وزیر بنایا گیا۔ جو اس وقت سب سے کم عمر وزیر تھے۔ سچیدانند سنہا، راجیندر پرساد اور شری کرشنا کے ساتھ ان کا نام بھی آئین سبھا کے لیے بہار کے کانگریس امیدواروں میں بھی شامل تھا۔ 1946 کے آخر میں بہار فسادات کے بعد انھیں پنرواس محکمہ کا چارج سونپا گیا۔ اس دوران عبدالقیوم انصاری گاندھی سے رابطے میں رہے۔ ان کا تذکرہ ان دنوں گاندھی جی کے ذریعہ لکھے کئی خطوط میں ہوتا ہے۔ ایک خط میں گاندھی جی ان سے ناراض بھی نظر آتے ہیں۔
پنرواس کے کام کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے عبدالقیوم انصاری کے ذریعے تیار کردہ منصوبے کے بارے میں گاندھی جی نے ان سے کئی بار بات چیت بھی کی۔ بعد میں اپنے خیالات کو بطور تبصرہ ان کی رہنمائی کے لیے بھی لکھا۔ گاندھی جی نے یہ تبصرہ بہار چھوڑنے سے پہلے 24 مئی 1947 کو لکھا تھا۔
گاندھی جی نے 27 جون 1947 کو دیو پرکاش نیئر کو ایک خط لکھا تھا، جس میں گاندھی جی لکھتے ہیں ’انصاری صاحب کا بیان سن کر مجھے چوٹ لگتی ہے۔ جھڑیا وہ کیوں گئے؟‘ حالاں کہ عبدالقیوم انصاری کے کس بیان پر گاندھی جی کو چوٹ لگی یہ خود میں ایک ریسرچ کا موضوع ہے اور ابھی تک ان کا بیان میں تلاش نہیں کر سکا ہوں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان پر کاجی محدود کام ہوا ہے۔ ابھی کافی کچھ لکھا جانا باقی ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد گاندھی جی نے عبد القیوم انصاری صاحب کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں ، "بھائی انصاری، آپ کی بیماری کی بات منو بہن نے سنائی۔ میری نگاہ میں بیمار پڑنا خدمت گار کے لیے گناہ ہے۔۔۔‘‘
عبد القیوم انصاری کی علمی خدمات
عبد القیوم انصاری کی ابتدائی تعلیم ڈہری آن سون اور سہسرام ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، کلکتہ یونی ورسٹی اور الہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں آپ علمی و ادبی سرگرمیوں سے جڑے رہے۔
ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والے عبد القیوم انصاری ڈہری آن سون سے نکلنے والی ہفتہ وار میگزین ’الاصلاح‘ کی ایڈیٹنگ 1924 سے 1927 تک کی۔ اس کے بعد 1934 میں ماہانہ ’مساوات‘ کی ایڈیٹنگ کی ذمہ داری ادا کی۔ 1948 میں سہیل عظیم آبادی کے ساتھ مل کر انہوں نے روزنامہ ’ساتھی‘ اور 1952 میں ماہنامہ ’تہذیب‘ کا پبلیکیشن اور ایڈیٹنگ کا فرائض انجام دیا۔ ڈہری آن سون سے ایک ماہانہ میگزین ’حسن و عشق‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس کی تدوین عبد القیوم انصاری اور مولانا ابو محمد نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ عبد القیوم انصاری ‘انجمنِ ترقی اردو’ سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ 1940 سے 1951 تک وہ پٹنہ یونی ورسٹی کے سینیٹ فیلو اور 1952 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کورٹ کے ممبر رہے۔ انھوں نے ہمیشہ اقلیتی طبقہ کے فلاح و بہبود اور تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
عبدالقیوم انصاری کی پیدائش بہار کے روہتاس ضلع میں مقیم ڈہری آن سون میں 01 جولائی 1905 کو ہوئی۔ ان کے والد کا مولوی عبدالحق تھے اور والدہ کا نام صافیہ بیگم تھا۔
عبدالقیوم انصاری قومی اتحاد، سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبردست پیروکار تھے۔ وہ ایسے لیڈروں میں شامل تھے جنھوں نے مسلم لیگ کے علیحدہ مسلم ملک کے قیام سے متعلق نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی۔ بہار کا یہ عظیم لیڈر 18 جنوری 1973 کو اس دنیائے فانی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر چلا گیا۔