ایک وضوء – ایسا بھی!
ڈاکٹر عبد الرحیم خان
میرا نام اشرف ولیمس (Ashraf Williams) ہے۔ میں ساؤتھ افریقہ کے جوہانس برگ میں رہتا ہوں۔ میری کہانی کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جب میری عمر کچھ ۲۳ برس کی تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ شاید میں لمبا نہ جی سکوں گا اگر میں شراب، لڑکیوں اور بری عادات کو جاری رکھوں گا۔ میں نے یہ سب چھوڑ دیا، پھر اچانک یہ بھی دماغ میں آیا کہ آخر اتنا اچھا بھی بن کے کیا فائدہ؟۔
میں ایک ایسے ماحول میں تھا جہاں اگر آپ خوبصورت نہ تھے تو مانو میرے کسی کام کے نہ تھے۔ میری عادت تھی کہ روز دن کے اخیر میں میں آفس کے دروازے پر آکر کھڑا ہوجاتا اور ان تمام لڑکیوں کو گُڈبائ کرکے رخصت کیا کرتا جو میرے ساتھ کام کرتی تھیں۔ جہاں تمام لڑکیاں کام کاج کے بعد دن کے آخر میں بالکل تھکی اور پریشان حال نظر آتی تھیں وہیں ایک خاتون ایسی بھی تھی کہ وہ شام میں بھی بالکل فریش نظر آتی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں پوچھ ہی بیٹھا۔۔۔۔۔ “تم کام کے بعد بھی اتنی فریش کیسے دکھتی ہو؟”۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔۔ “اپنے مذھب کی وجہ سے”۔ میں حیرت میں آگیا۔۔۔۔ “کیا۔۔۔۔؟ تمہارا مذھب تمہیں فریش رہنے کو بھی کہتا ہے؟”۔۔۔۔ خاتون نے جواب دیا ۔۔۔”نہیں، بلکہ میرا مذھب یہ بتاتا ہے کہ صاف ستھرا کیسے رہنا ہے”۔ ۔۔۔۔۔ میں نے پھر سوال کیا ۔۔۔ “اچھا، تو تمہارا مذھب یہ بھی بتاتا ہے کہ کب کیسے اور کیا کیا دھونا ہے خود کو صاف رکھنے کے لئے؟”۔۔۔۔ خاتون نے کہا ۔۔۔۔”ہاں، ان سب کی رہنمائی کرتا ہے میرا مذھب”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو میرے پاس یہ جاننے کے سوا کچھ اور نہیں رہ گیا تھا کہ “یہ کون سا مذھب ہے؟”۔ ۔۔۔۔ خاتون نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔”اسلام”۔
اس روز میں نے تہیہ کرلیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں جاننا ہے۔ میرے ہاتھ جو پہلی کتاب لگی وہ تھی احمد دیدات صاحب کی تقابل ادیان کی نسبت سے۔ میں نے اس میں تثلیث کے حوالے سے پڑھا تو، پر چونکہ میں ایک پکا کیتھولک تھا اور عیسائیت کو اپنی عمر کے اٹھارہ سالوں تک مسلسل پڑھا تھا اسلئے میرا ذہن کچھ مطمئن نہ ہوسکا اور کچھ وقت کے لئے میں خاموش ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد میں نے وہی کتاب دوبارہ پڑھی، اور کم از کم خدا کے صرف ایک ہونے تک کا آئیڈیا میرے دماغ میں آبیٹھا۔ اس کے بعد میں نے بہت سارے اسلامی لٹریچرز پڑھے، یہاں تک کہ کلمۂ شہادت تک سیکھ اور یاد کرلیا۔
تقریباً ایک سال بعد میں نے طے کیا کہ اب مناسب وقت آچکا ہے۔ پھر ایک دن میں نے شاور لیا، ایک ٹوپی اپنی جیب میں رکھی، کار میں بیٹھا اور ایک مسجد کی طرف نکل گیا۔ کم و بیش آدھے گھنٹے تک مسجد کے آس پاس بس چکر کاٹتا رہا، پھر خیال آیا کہ اگر اسی طرح صرف دیواروں اور عمارت کو دیکھوں گا پھر تو کام نہ ہو پائے گا۔ ہمت کرکے میں مسجد میں داخل ہوگیا اور دیکھا کہ کچھ بھائ وہاں بیٹھے تھے۔ انمیں سے ایک نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئ تعاون درکار ہے۔ میں نے کہا کہ “مجھے مسلمان بننا ہے”۔ پھر اس نے مجھے ایک جگہ کا پتہ دیا اور کہا کہ وہاں چلے جاؤ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ “نہیں، مجھے ابھی مسلم بننا ہے”۔ اسکے بعد میں نے شہادہ پڑھا جو میں نے پہلے سے ہی یاد کر رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ اور آج میں مسلمان ہوں، الحمدللہ!
اسلام لانے کے دو سال بعد میں نے اپنے ایک مسلمان دوست کی بہن سے شادی کرلی، ملک کے قانون کے چلتے شادی کے بعد کئ مزاحمتیں سامنے آئیں، لیکن الحمدللہ میں نے اپنی بیٹی کی بھی شادی ایک انڈین نزاد مسلم لڑکے سے کی اور آج میں اپنے ناتی گولڈن بوائے الطاف کا دادا ہونے کا فخر رکھتا ہوں۔
میری ماں مسلمان ہوکر کینسر سے فوت ہوگئ، بیماری کے دوران میری بیوی نے اس کی بڑی خدمت کی تھی۔ میری ماں کی خواہش تھی کہ انہیں میری بیوی کے کسی لمبے اسلامی کپڑے میں دفن کیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔ ہاں! ایک بات کا مجھے افسوس آج بھی ہے کہ میں اپنے والد کو اسلام کی طرف بلانے کی ہمت نہیں جٹا پایا۔ وہ پولیس میں تھے اور کیتھولک چرچ کے نظام سے بہت زیادہ غیر مطمئن رہا کرتے تھے، مرنے سے قبل سکون کی تلاش میں اس چرچ سے اس چرچ چکر کاٹا کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں اسلام میں سکون مل سکتا تھا، نمازوں سے پہلے وضوء اور کاندھے سے کاندھا ملاکر ایک سیدھی لائن میں کھڑے ہوکر عبادت کا طریقہ انکے اندر کے سپاہی / سولجر کو مطمئن کرسکتا تھا۔ مجھے بس اتنی تسلی ہے کہ وہ مرنے سے قبل میرے اسلام اور میری نئ زندگی سے خوش تھے۔
خلاصہ اینکہ، میں ایک عورت کے وضوء و طہارت سے متاثر ہوکر آج مسلمان ہوں۔ مجھے نومسلم کہا جاتا ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں، میں صرف مسلمان ہوں۔