تذکرہ شعرائے مدھوبنی، بہار ایک تجزیہ
از۔خلیق الزماں نصرت ممبئی
مشہور اشعار گمنام شاعر اور برمحل اشعار اور ان کے ماخذ جیسی لازوال کتابوں کے مصنف مشہورومعروف محقق شاعر اور ادیب محترم جناب خلیق الزماں نصرت صاحب کا ایماندارانہ تجزیہ
تذکرہ ایک دستاویز ہے جس میں شعرا ادباء کے حالات اور واقعات لکھے جاتے ہیں جن میں ادبی خدمات کا مختصر حال بھی ہوتا ہے بیشتر شعرا کے شعری مجموعے شائع نہیں ہوتے ان کے لیے بھی کار آمد ہوتا ہے ورنہ یہ دفن کئے بغیر قبروں میں چلے جاتے ہیں۔پھر انہیں قبروں سے نکالا جا سکتا ہے یہ کام ہر کوئی نہیں کر سکتا بہت مشکل کام ہے یہ اگر نہیں ہوتا تو بے شمار شعراء کسی طرح دفنا دیے جاتے ہیں مگر تذکرہ نگار ان کو زندہ کرتا ہے۔تذکرے ابتدا میں بہت کم لکھے گئے ہیں۔انہیں ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں میر کا تذکرہ تو نہایت ہی مختصر ہے اب چونکہ یہ میر کا لکھا ہوا ہے اس لیے اس کو اہمیت دی جا سکتی ہے باقی استادوں نے بھی تذکرئے لکھے ہیں وہ بھی مختصر ہیں مقامی طور پر تذکرے لکھنے کی ہے کبھی کبھی تو صرف ان کے تخلص کو ہی ہم جان پاتے ہیں- شمالی بہار کا تذکرہ تذکرہ شمال کافی اہم ہے ۔یہ شاداں فاروقی کا کار نامہ ہے 1980 تک جن شعرا کی موت ہو گئی ان کا تذکرہ ہے

بے حد معلوماتی ہے۔اس سے قبل ایسا تذکرہ نہیں لکھا گیا اس میں کچھ بہت ہی گمنام شعرا کا بھی ذکر آ یا ہے بہت پہلے ایک تزکرہ دربھنگا کا لکھا گیا تھا اس میں کم ہی شاعروں کو شامل کیا گیا لیکن یہ ابتدائی کام تھا اس لیے اس کی بڑی اہمیت ہے اج کے شعرا ادباء اس تذکرے سے استفادہ کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ابھی حال میں مشہور افسانہ نگار مشتاق شمشی نے بہار کے شعرا کے فن اور ان کی شاعری پر بہت اچھی کتاب لکھی ہے لیکن اسے مقبولیت نہیں مل سکی مشتاق شمسی نے اس کی اشاعت پہ تو دھیان دیا لیکن اس کو عوام تک کیسے پہنچایا جائے اس پر دھیان نہیں دیا حالانکہ وہ تذکرہ نہ ہو کر شاعروں کا جائزہ ہے ان کے حالات بھی ہیں اور ان کی غزلوں اور شعروں کا انتخاب بھی ہے موجودہ کتاب جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے تذکرہ شعرائے مدھوبنی اول ہے یہ انہی تذکروں کی ایک کڑی ہے مدھوبنی جب دربھنگا سے الگ ہو گیا تو اس کی ادبی حیثیت کم ہو گئی کیونکہ یہ علاقہ میتھلی کا علاقہ مانا جاتا ہے اب تو وہاں مشاعرے اور عربی محفلیں بہت کم منعقد ہوتی ہیں ایسی حالت میں شائق یا نے اس تذکرے کو کیسے مکمل کیا ہوگا اپ ہم سمجھ سکتے ہیں یہ علاقہ چونکہ دربھنگہ میں شامل تھا اس لیے ان شعرا کو بھی شامل کیا گیا ہے جو پہلے دربھنگا میں اتے تھے مثلا م
قاصر مکرم پوری مہر شکروی جو ش شکروی جگر شکری وغیرہ یہ لوگ دربھنگہ کے تذکرے میں خاصہ نمایاں مقام رکھتے تھے موجودہ تذکرہ ریزہ ریزہ کر کے جمع اور تحریر کیا گیا ہے اس میں بعض زمانی و مکانی کی تلاش فضول ہے حروف تہجی کے حساب سے ایک فہرست بنا لی گئی ہے اور یکے بعد دیگرے ان حروف کے مطابق شعراء کے حالات زندگی اور کلام کی تلاش شروع کی گئی یہ ہم یہ ایک ہما وقتی کام تھا جسے ہم فل ٹائم جاب بھی کہہ سکتے ہیں
لائے ہم اس طرح دل سد پارہ کر کے
جمع دیکھا جہاں پڑا کوئی ٹکڑا اٹھا لیا
اس ریزہ چینی میں طرح طرح کے تلخ وشیریں تجربات ہوئے ہوں گے کسی شاعر صاحب کو اپنے قریب ترین افراد خاندان مثلا ماں باپ بھائی بہن کے نام معلوم نہ تھے بیشتر حضرات کو اپنی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کا پتہ نہ ہوگا کچھ صاحبان اپنے تعلیمی مراحل یا اپنے اساتذہ کے بارے میں ذرہ برابر معلومات فراہم کرنے سے یا اکثر معذور ملے ہوں گے اپنے عیبوں کو چھپایا ہوگا کچھ تو اتنے لاپرواہ ہوں گے کہ انہوں نے کچھ بھی مواد نہیں دیا ہوگا جس سے تذکرہ نگار لکھ سکے اور جب یہ تذکرہ چھپ گیا تو وہ سب سے پہلے شکایت کے لیے اگے بڑھے ہوں گے یہ سب تجربہ مجھ کو ہے کیونکہ میرا یہ میدان ہے سچ تو یہ ہے کہ شعرا کے حالات اور کوائف نہیں ملتے ہیں ہاں شعرا کی غزلیں مل جاتی ہیں آنے والے وقت میں جب دنیا نہیں رہے گی آپ زندہ رہیں گے کیونکہ اولاد سے دو پشت تک ہی پہچانے جا سکتے ہیں کسی شخص کے بارے میں یہی کہتے سنا ہے کہ وہ فلاں صاحب کے پوتے ہیں زیادہ سے زیادہ اس کے پردادا کے بارے میں جانا جاتا ہے یا حوالے میں آتا ہے مگر شاعر اور ادیب کے حوالے جب تک دنیا رہے گی دیے جائیں گے آنے والی نسل فخر سے کہے گی کہ فلاں شاعر فلاں صاحب ہمارے جد امجد تھے اس لیے بھی لوگوں کو تذکرے میں شامل ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا ہے لوگ بڑی لاپرواہی برتتے ہیں کچھ تو اپنے حالات لکھ نہیں پاتے کچھ تو اپنے حالات چھپانا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے پاس تو کوئی واقعہ ہوتا ہی نہیں ہے ان کے واقعے جب دوسرے سنائیں گے تو ہی واقعہ بنے گا مگر شاعر کی زندگی میں اس کی تعریف بہت کم ہوتی ہے ہر شاعر یہ سوچتا ہے کہ میں جس کی تعریف کروں گا وہ مجھ سے بڑا ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہے لکھنے والا اور ممدوح دونوں ہی مقبول ہوتے ہیں اگر اس تحریر میں دم ہوتا ہے ایسی حالت میں جو لوگ شاعر نہیں ہوتے اور با شعور ہوتے ہیں ان کی رائے لی جائے ان سے واقعات سنے جائیں ۔ چند بڑے شاعر تو ایسے ہوتے ہیں جن کو خوش فہمی زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنا کوئی واقعہ بتانا یا لکھ کے دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کچھ مشاعرہ باز شاعر ہوتے ہیں جو دوسروں سے لکھوا کے پڑھتے ہیں ان کو یہ ڈر لگتا ہے کہ ان کا کلام نقادوں کے سامنے آجانے پر ان پر تنقید شروع ہو جائے اس طرح کی لاپرواہیوں سے ان کا ہی نقصان ہوتا ہے ایسے ہی شعرا بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ ان کی قدر نہیں کی گئی میں نے سرسری طور پر اس کا مطالعہ کیا ہے شائق صاحب نے کئی لوگوں کے تذکرے میں بڑی محنت کی ہے مگر کئی ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں انہیں بہت کم معلومات تھی تو انہوں نے ان کا مختصر تعارف کرا دیا ہے اور چند اشعار شامل کر لیے ہیں حالانکہ شائق صاحب کو چاہیے تھا کہ جو اس علاقے کے بزرگ شاعر ہیں دربھنگہ یا اس کے قرب و جوار میں جو شعراء ابھی تک عمر دراز ہیں اور حیات سے ہیں ان سے پوچھنا چاہیے تھا اور تب تحریر کرتے تو تذکرے میں زیادہ جان آجاتی ہے بہرحال یہ ان کی پہلی کوشش ہے حصہ دوم میں وہ اس بات کا دھیان دیں بہت سارے لوگ بزرگ ہیں اور ان کے پاس یہاں کے شعرا کی معلومات ہیں میرے استادمہر شكروی استاد تھے ان کے بارے میں بھی بہت مختصر تعارف پیش کیا گیاہے وہ علامہ کی حثیت رکھتے تھے۔اس زمانے میں ان سے ملنے جلنے والے تقریباً سبھی ان کی باتیں سنتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے بہت سے بڑے شعرا ادباء بھی انہیں اپنی غزلیں اور نظمیں سناکر مطمئن ہوتے تھے۔یہ بھی ایک استفادہ ہے۔مثال کے طور پر ش۔م۔عارف کا نام لیا جاتا ہے پتا نہیں لوگوں نے ان کے استاد مہر شکروي تھے یہ لکھا ہے کہ نہیں۔ان کے سیکڑوں شاگرد تھے جو ہندستان اور پاکستان میں بسے ہوئے تھے۔مجھ کو اکثر ان کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ان کے زمانے کے اردو کے بڑے عہدوں پر فائز پروفیسران بھی ان سے مشورہ کرتے تھے مگر چھپا تے تھے۔ کیوں کہ مہر صاحب بہت غریب شاعر تھے کبھی خود کو بڑا نہیں سمجھتے تھے۔میں نے ایک تجزیاتی مضمون لکھا تھا وہ آواز نو لوام میں شائع ہوا تھا اس رسالے کی کچھ کاپیاں میرے اور مشتاق شمسی سندرپور کھروا کے پاس ہونگی۔
مہر شکروی صاحب اہل زبان تھے دہلی لکھنو اور پٹنہ سے دور رہ کر بھی اپنا ایک شعری اسکول قائم کیے ہوئے تھے وہ بڑے وسیع المشرب اور فراخ دل تھے۔چھوٹو بڑوں سے ایک جیسا ملتے تھے
یہ تذکرہ مدھونی کے شاعروں کا بسیط اورجامع تذکرہ تو ہے مگر اس میں اضافے کی گنجائش ہے۔وجہ آپ کی علمی قابلیت اور تاریخ ادب سے دلچسپی ہے ہمیں پورا یقین ہے کہ اس کے مکمل ہونے کے بعد بھی آپ کی تشنگی برقرار رہی ہوگی آپ اسی موضوع پہ بار بار بات کرتے ہوں گے اس عمل کے دوران چند ایسے اشعار سامنے آگئے جن میں استادانہ رنگ ہے جنہیں پڑھ کر ہم محظوظ ہو سکتے ہیں جس طرح ادب و احترام کے ساتھ قدما سے لے کر معاصرین تک سب کا نام شامل کیا گیا ہے اس بات کو تو لوگ تسلیم کریں گے لیکن ذرا وقت لگے گا آپ کی عبارت بھی سلیس فصیح متین اور سنجیدہ ہے جس نے مذاق نثر کو بڑھا کے حسن سخن دو بالا کر دیا ہے۔کسی شاعر کے کلام کا حسن بیان کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہے یہ بڑے دل والوں کا کام ہے شعرا جن کو نہ کبھی دیکھا ہو نہ سنا ہو ان کے بارے میں لکھنا اسان بات نہیں ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ آپ اس پل صراط سے گزر چکے ہیں ایسی تحریر کے لیے حالات زندگی اور اشعار اکٹھا کرنا آرام کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں ہلانے اور قلم چلانے سے ممکن نہیں تھا آپ کو دردر بھٹکنا پڑا ہوگا یہ بڑی تگ ودو کا کام ہے۔معمولی فروگذاشت کو قارئین درگزر کریں تو بہتر ہوگا۔شعرائے بھیونڈی تذکرہ جب میں نے لکھا تو سیتامڑھی کے ایک مشہور ناقد اور شاعر جو بمبئی میں بسے ہوئے تھے ان کا نام عبداللہ کمال تھا جب علمائے ادب نے کہا کہ تذکرے میں تنقید نہیں ہوتی ہے تو انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اچھے شعروں کا انتخاب بھی ایک تنقید ہے اور میں بھی یہی جانتا تھا چونکہ میں نے اپنے طالب علمی کے دور میں ایک مضمون تذکرے میں تنقید شائع کروایا تھا غالبا ابھی بھی میرے پاس موجود ہونا چاہیے تنقید کے تعلق سے یہ لوگوں میں غلط فہمی ہے کہ تنقید عیب نکالنے کا کام ہے مگر ایسا نہیں ہے ڈرائیڈین (Dryden) کہتا ہے:
” لوگ تنقید کی حقیقت نہیں سمجھتے جن کا یہ خیال ہے کہ اس کا خاص منصب حروہ گیری ہے۔ تنقید کا موجد ارسطو ہے۔ اس کا مقصد تھا کہ کلام کی خوبیاں ذہن نشین کرنے کا ایک معیار قائم ہو جائے ۔ جس کا فرض اولین ہو کہ کلام کے محاسن پڑھنے والوں پر آئینہ ہو جائیں اور موجب انبساط ہوں۔ اگر کسی نظم کی ترتیب تخیل اور انداز بیان اچھے ہیں جو ایک اچھے شاعر کے طرہ امتیاز ہیں۔ تو نقاد کو چاہیے کہ مصنف کے موافق رائے قائم کرے۔ معمولی اغلاط پر ناک بھوں چڑھانا خباثت نفس اور نامردی کی دلیل ہے۔ کیوں کہ ایسے تسامحات سے ” ورجل (Vergil) کا کلام بھی پاک نہیں ۔ ہاریس (Horace) تسلیم کرتا ہے کہ مستعد اور کیل کانٹے سے لیس ہومر (Homer) بھی بعض اوقات اونگھ جاتا ہے۔ اس کی نظم کی ہر سطر خوبیوں سے لبریز نہیں ہے۔“ بحوالہ وامق جونپوری، عرشی جو ن پوری کے شعری مجموعے سے”
آپ کے تذکرے میں بھی ایک جگہ میں نے اس طرح کا جملہ دیکھا ہے۔تذکرے میں تمام صنفوں کا عکس ملتا ہے۔خاکہ ان میں خاص ہے۔دربھنگه میں اردو بہت چھپا تھا اس لیے اس کے بعد کے بہت سے لوگ شامل نہیں ہو سکے تھے خیر بہت سے شعراء کو آپ نے شامل کر لیا برداہا ، یکہتہ ململ شکری ابتدا سے ہی علم و ادب کا بڑا مرکز رہا اس لیے یہاں شعرا بھی زیادہ ہیں ان میں کئی علاقوں کی شعری حثیت کو میں جانتا ہوں مگر وہاں کچھ شاعروں تک ہی میری معلومات تھی مگر اس کتاب کے بعد بہت سے شعراء کے بارے میں جان گیا یہ خدمات بغیر کسی فائدے کی ہیں اس لیے اس کا ثواب آپ کو ملے گا۔
مطالعے کے دوران چند اشعار میری پسند کی پڑھنے لیں جو نئے اورجدید کا عصری اور زمانی معیار مقرر کیے بغیر ہیں کیونکہ حالات جب اپنی کینچلی اتارتے ہیں نئے علوم اکتشافا ت نو بہ نوسے جب امکانات کے دائرے پھیلنے اور سکڑنے لگتے ہیں اس وقت انسانی فکر میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں فکر و نظر کے زاوئے بدل جاتے ہیں اور جگر کے لفظوں میں ہر لحظ نیا طور نںي برق تجلی سے انسان روشناس ہوتا ہے۔امید ہے اپ کو بھی پسند آئیں گے
مہر شکروی
وہ ایک تو ہے کہ ڈالی نہ بھول کر بھی نظر
وہ ایک میں ہوں کہ چوکھٹ سے تیری ٹل نہ سکا
مدعا کہتے ہیں جب اس بت بے پیر سے ہم
اپنی تقدیر کو ٹکراتے ہیں تدبیر سے ہم
اس شعر میں تقدیر کو تکبیر سے ٹکرانے کی بات بہت نئی ہے جو شاید اب بھی کسی نے ایسا نہیں کہا ہے
کھکن بابو عرف ہوش شکروی
وہ مڑ کے دیکھے نہ دیکھے ہماری قسمت ہے
پڑے ہوئے سر رہ گزرا ہم بھی ہیں
کھکن بابو صرف زمیندار ہی نہیں تھے بڑے ہمدرد بھی تھے انہوں نے دین کا بہت کام کیا ہے اس کا بھی ذکر آنا چاہیے اشعار بڑی کوشش کے بعد ملتے ہیں خاص کر جن کے وارث دھیان نہیں دیتے ائندہ ان سے مل کر ان کی غزلیں حاصل کی جا سکتی ہیں یا پھر دیگر رسالوں سے جو اس زمانے میں شائع ہوتی تھیں خصوصا دربھنگہ اور اطراف میں
نیاز احمد نیاز
نہ آئی نیند بھلا خواب دیکھتا کیسے
سرک گئی جو زمیں پاؤں ٹیکتا کیسے
سلطان شمسی
کہانی کس کو سنائیں ہم اپنی اے شمسی
مری زبان کہاں میر کی زباں کی طرح
بڑھتا ہوا ظلم ان کا مٹا دے گا خود ان کو
مظلوموں پہ بے وجہ جو بیدادکریں گے
ڈاکٹر غلام قدوس فہمی
وہ شہر جس کی گلیوں میں ہو نفرتوں کی آگ
آباد کون ہوگا وہاں گھر خرید کر
حیدر وارثي
کوئی نہ ملا ایسا جو موڑ لے منہ اپنا
تکرار کہاں کوئی جھگڑا ہے کہاں کوئی
کلیم اللہ کلیم
عمر دراز مانگنا اچھا نہیں لگا
سورج ڈھلا تو شام کو گھر لوٹنا پڑا
ان حضرات کے علاوہ بھی بہت سے شعراء ہیں جن کے اشعار کوٹ کیے جا سکتے ہیں مگر اپ انہی پر اکتفا کیجئے ۔
اس کتاب میں صاحب کتاب کے بعد پہلے سراہنے والوں میں مشہور و معروف ناقد حقانی القاسمی کا پیش لفظ بڑی دلجمی سے لکھا گیا ہے جن اشاروں کا انتخاب انہوں نے کیا ہے یہ بھی ایک تنقید کا حصہ ہے جیسا میں پہلے بتا چکا ہوں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے لیے بہت وقت دیا ہے یہ مضمون اس کتاب کی پسندیدگی میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔میں ان باتوں کی جگالی نہیں کر سکتا۔مدھوبنی کی ایک خاص خوبی ودیا پتی ہے جن کے نام سے یہ کتاب منسوب کی گئی ہے اس عمل سےشائق یکتوی کی کی فراخ دلی کا پتہ چلتا ہے زبان چاہے جو بھی ہو اس کے فنکاروں کی عزت کرنی چاہیے۔دوسری بات یہ کتاب جن خوبیوں کی جامع ہے ان کا صحیح اندازہ کتاب کے بالاستعياب مطالعہ ہی سے ہو سکتا ہے۔