ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز )، ایک مطالعہ

اسلم رحمانی

ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) اظہر نیّر کی چھٹی کتاب ہے، اس کتاب میں ڈاکٹر عنوان چشتی، دہلی، ساگر سرحدی، ممبئی، رام پرکاش کپور، شام بارک پوری، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، حسن امام درد، پروفیسر اویس احمد دوراں، بلراج کومل،دہلی، رتن سنگھ، ڈاکٹر کرامت علی کرامت، ظہیر غازی پوری، ناوک حمزہ پوری، سلیم انصاری، ظفر ہاشمی، علقمہ شبلی، منیر سیفی، پٹنہ، عالم خورشید، تاج پیامی، شاہد کلیم، اختر نظمی، رؤف خیر، شکیل گوالیاری، ڈاکٹر عزیز اندوری اور سلیم احمد زخمی بالودوی وغیرہ کے انٹرویوز شامل ہیں۔ادبی انٹرویو کی روایت اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ روایت ادب کی تخلیقی دنیا کو قارئین کے سامنے لانے اور ادیبوں کی ذاتی زندگی، تخلیقی عمل، اور فکری دنیا کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ادبی انٹرویو میں سوالات کے ذریعے مصنف یا شاعر کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جیسے ان کی تحریریں، ان کی تخلیق کے پیچھے کے محرکات، اور ادبی نظریات سے قارئین کو روبرو ہونے کے موقع ملتا ہے۔ انٹرویو قارئین کو ادیب کی شخصیت اور اس کے کام کے بارے میں ایک نئی بصیرت فراہم کرتی ہے۔ انٹرویو کے ذریعے نہ صرف ادیب کی تخلیق کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں بلکہ اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ اس طرح انٹرویوز ادبی نقد و نظر، تنقید، اور تحقیق کے لیے اہم مواد فراہم کرتے ہیں اور ادب کی دنیا کو زیادہ جاندار اور ہم آہنگ بناتے ہیں۔

ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز )، ایک مطالعہ
ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز )، ایک مطالعہ

ریاست بہار کے دربھنگہ ضلع سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز ادیب اظہر نیر کی زیر تبصرہ کتاب ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس میں مشاہیر ادب سے ادبی مسائل پر فکرانگیز مکالمات پر مشتمل انٹرویوز ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں اظہر نیر خود لکھتے ہیں کہ:

"ترسیل عکس” ادبی انٹرویو(انٹرویوز) کا مجموعہ ہے۔ میں ملازمت کے سبب بھلائی درگ چھتیس گڑھ میں مقیم تھا،1982ء سے 1995ء کے درمیان اسی زمانے میں روبرو اور خط و کتابت کے ذریعہ ملک کے مختلف شہروں کے پچیس شعراء و ادباء سے ادبی انٹرویوز لیا تھا۔ یہ ادبی انٹرویوز ملک کے مختلف ادبی رسائل اور ہفتہ وار اخبار کے ادبی صفحوں پر شائع ہوئے۔ سب سے زیادہ انٹرویوز ہفتہ وار "پندار”(پٹنہ) میں شائع ہوئے۔ کئی انٹرویوز ملک کے رسائل جیسے ماہنامہ”شاعر"ممبئی، ماہنامہ "سہیل”گیا،سہ ماہی”توازن” مالیگاؤں، ماہنامہ "کتاب نما”دہلی، ماہنامہ”رنگ وبو”حیدرآباد، سہ ماہی "چشمہ اردو”رائے پور میں شائع ہوئے۔ یہ انٹرویوز کافی مقبول ہوئے اور ادبی حلقے میں پذیرائی ہوئی۔
(ص:6)

ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز )، ایک مطالعہ
ترسیل عکس ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز )، ایک مطالعہ

زیر تبصرہ کتاب ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) میں سب سے پہلا انٹرویو ڈاکٹر عنوان چشتی کا ہے،اس میں اظہر نیر کے سوال” قدیم اور جدید شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟” کا جواب دیتے ہوئے
عنوان چشتی کہتے ہیں کہ:
قدیم اور جدید شاعری کے سوال پر کئی طرح غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک تاریخی مناظر میں یعنی 1857ء سے قبل کی شاعری قدیم شاعری ہے اور 1857ء کے بعد کی شاعری جدید شاعری کہلاتی ہے۔ جدید شاعری کی تحریک انجمن پنجاب کے شاعروں سے شروع ہوتی تھی۔ جدید شاعری نے موضوع، مواد اور ہئیت کی سطح پر زبردست تبدیلیوں کو قبول کیا ہے۔دوسرے زندگی بصیرت کی روشنی میں یعنی وہ شاعری قدیم ہے جو آج بھی کلاسیکی دبستان شاعری کی روایتوں کی امین ہے۔ قدیم شاعری میں موضوع اور مواد کی اہمیت کم ہوگئی تھی اور زبان کی صحت عروض کی چابکدستی نیز بیان کے حسن پر ساری توجہ صرف کی جاتی تھی۔آج بھی ایسے شاعروں کی کمی نہیں اس کے برعکس وہ شاعری جدید ہے جو نئے دور کے افکار، فلسفوں اور اس عہد کے پورے آہنگ اور مزاج کو اپنے جلو میں جگہ دیتی ہے۔ قدیم و جدید کا ایک میکانیکی تصور ہے وہ یہ کہ پرانے زمانے کی شاعری قدیم ہے اور نئے زمانے کی شاعری جدید ہے۔ چاہے قدیم شاعری میں ابدی اقدار ہوں اور نئی شاعری میں مردہ روایتوں کی دیمک لگی ہو۔
(ص:15)

قدیم اور جدید شاعری کے متعلق عنوان چشتی کے درج بالا جواب سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قدیم اور جدید شاعری میں کئی پہلوؤں سے فرق پایا جاتا ہے۔ دونوں میں اظہارِ خیال کا طریقہ، اسلوب، موضوعات اور زبان میں واضح تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔

قدیم شاعری: قدیم شاعری میں اکثر روایتی موضوعات جیسے محبت، حسن، بہادری، جنگ، سیاست اور دین پر زور دیا جاتا تھا۔ اس شاعری کا اسلوب عمومی طور پر کلاسیکی ہوتا تھا، جہاں وزن، قافیہ اور ردیف پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔

جدید شاعری: جدید شاعری میں ان سب روایات کو نئی شکل دی گئی۔ اس دور میں شاعروں نے نہ صرف کلاسیکی موضوعات بلکہ جدید مسائل، سماجی تبدیلیوں، نفسیاتی اور فلسفیانہ موضوعات کو بھی اپنی شاعری میں شامل کیا۔ زبان سادہ اور عام فہم ہوئی، اور وزن و قافیہ کی سخت پابندیاں کم ہو گئیں۔ اس دور میں آزاد نظم (Free Verse) اور نثری شاعری کی مقبولیت بڑھی۔

(الف)موضوعات: قدیم شاعری میں زیادہ تر روایتی موضوعات پر بات کی جاتی تھی، جبکہ جدید شاعری میں معاشرتی، سیاسی، اور فلسفیانہ موضوعات پر بھی زور دیا گیا۔
(ب)اسلوب: قدیم شاعری میں رسمی، بلند زبان استعمال کی جاتی تھی، جب کہ جدید شاعری میں زبان کی سادگی اور قدرتی اظہار کو ترجیح دی گئی۔
(ت)اصناف: قدیم شاعری میں غزل، قصیدہ اور مثنوی اہم تھیں، جبکہ جدید شاعری میں آزاد نظم، نثری نظم وغیرہ شامل ہیں۔اس طرح، قدیم اور جدید شاعری کے درمیان فرق اسلوب اور موضوعات کے انتخاب میں بنیادی طور پر ظاہر ہوتا ہے، مگر دونوں کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔انسانی تجربات اور جذبات کا اظہار۔

زیر تبصرہ کتاب ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) میں شامل عنوان چشتی کا یہ انٹرویو ماہنامہ "سہیل”گیا،ماہ اگست 1982ء) میں شائع ہوا ہے، اکیس صفحے پر مشتمل اس انٹرویو میں اظہر نے عنوان چشتی سے کئی اہم سوالات کیے ہیں جو کہ لائق مطالعہ ہیں۔اس انٹرویو کے اختتام کے بعد دوسرا انٹرویو مشہور ڈراما نگار،فلم ساز ساگر سرحدی کا ہے، انٹرویو کا آغاز روایتی سوال: آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟ آپ کی تعلیم و تربیت کہاں ہوئی؟اور ادبی زندگی کا آغاز کب ہوا؟ سے ہوتا ہے۔ اس انٹرویو میں اظہر نیر نے مکالمے کی جامع اور مستند تعریف، فلمی مکالمے اور گفتگو میں بنیادی فرق کے متعلق ساگر سرحدی سے سوال کیا ہے کہ:مکالمے کی جامع اور مستند تعریف کیا ہے؟ فلمی اور گفتگو میں بنیادی فرق کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ساگر سرحدی گویا ہیں کہ: مکالمے کہانی اور کرادار کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔ مکالمے کا Time اور Space طے ہوتے ہیں اور پلاٹ میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ کرداروں کی نفسیات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔ گفتگو صرف بول چال کو کہتے ہیں۔ یہ دلچسپ بھی ہوسکتی ہے اور غیر دلچسپ بھی،لیکن گفتگو پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔اور وہ فلم کی خوبی میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتی۔ہاں نقصان پہنچا سکتی ہے۔
(ص:37-38)

زیر تبصرہ کتاب ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) میں صفحہ نمبر 73/ پر ساتواں انٹرویو "اردو کا نیا ادب اور تحریک” سے متعلق پروفیسر اویس احمد دوراں کا ہے، اس کے علاوہ بھی زیر تبصرہ کتاب میں شامل تمام انٹرویوز اہمیت کی حامل اور لائق مطالعہ ہیں۔ کتاب کا اختتام کوائف اظہر نیر اور اب تک انہوں نے جتنی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں ان کی فہرست پر ہوتا ہے۔

ترسیل عکس، ( مشاہیر ادب سے ادبی انٹرویوز ) اظہر نیر کی ایک بہترین کتاب ہے۔ اچھی کتاب کا اغلاط سے پاک ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اغلاط کتاب کی معیاری حیثیت کو متاثر کرتی ہیں اور قاری کے لئے پڑھنے کا تجربہ مشکل بنا دیتی ہیں۔ کتاب میں اغلاط سے قاری کی توجہ ٹوٹتی ہے اور اسے معلومات کا صحیح مطلب سمجھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے علاوہ، اغلاط کتاب کے مصنف اور ناشر کی ساکھ پر بھی اثر ڈالتی ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھاتی ہیں۔ اغلاط سے پاک کتاب میں مواد کی درستگی اور تسلسل کو بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے قاری کا اعتماد بڑھتا ہے اور اس کا مطالعہ ایک زیادہ فائدہ مند تجربہ بن جاتا ہے۔ خاص طور پر تاریخی، تحقیقی یا تنقید کتابوں میں اغلاط کی موجودگی، معلومات کی معتبریت کو متاثر کر سکتی ہے، اور اس کا اثر قاری کے علم پر پڑتا ہے۔ اس لئے کتاب کے مواد کی درستگی اور اغلاط سے پاک ہونے کی اہمیت انتہائی ضروری ہے۔ لیکن زیر تبصرہ کتاب میں بیشتر مقامات پر املے کی فاش غلطیاں ہیں۔ مثلاً:[صفحہ نمبر11 پر "توجیہہ” لکھا ہوا ہے جبکہ یہاں "توضیح” ہوگا] [صفحہ نمبر 14 پر ” دماغ کی تسکین فاہم کرتی ہو”] لکھا ہے جبکہ یہاں بھی درست جملہ "دماغ کو تسکین فراہم کرتی ہو” ہونا چاہیے۔ اس کتاب کی اشاعت میں محکمہ راج بھاشا اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار کا مالی تعاون شامل ہے۔ 224 صفحات پر مشتمل یہ کتاب،دربھنگہ ٹائمز پبلیکیشنز، دربھنگہ(بہار)سے 2024ء میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا سروق اچھا ہے۔ بیک کور پر اظہر نیر کی چھ کتابوں کی تصویر کے ساتھ ساتھ اظہر نیر کی بھی تصویر ہے۔ کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے۔ اس قلمی کاوش کو منظر عام پر لانے کے لئے اظہر نیر کو ڈھیروں مبارکباد۔ کتاب کےلئے مصنف کے درج ذیل موبائل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply