تیسری مدت کار – کچھ نہیں بدلا؟
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مودی تیسری بار وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گیے ہیں، ان کی اپنی پارٹی چار سو (400)کیا پا ر کرتی، ڈھائی سو (250) تک بھی نہیں پہونچ سکی، این ڈی اے کی حلیف جماعتوں نے مل کر انہیں اقتدار تک پہونچا دیا، حلف لینے سے قبل ہی ان کے تیور بتا رہے تھے کہ عوام نے جو بھی رائے دی ہو، لیکن ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے، چنانچہ انہوں نے اسپیکر کے ذریعہ پارلیامنٹ میں ایمرجنسی کے مسئلہ پر اسپیکر اور صدر جمہوریہ کے ذریعہ کانگریس کو مطعون کرایا، دو منٹ کی خاموشی کی روایت بھی باقی رکھی، تاکہ عوام جو بات بھول چکی ہے اور پچاس سال اس پر گذر چکے ہیں، اسے زندہ کیا جائے، اور بتایا جائے کہ قانون کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والی پارٹی نے ایمرجنسی لگا کر کس طرح قانون کا گلہ گھونٹا تھا،مودی جی نے اتنے پر ہی بس نہیں کیابلکہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہر سال یوم قتل دستور (سنویدھان ہتھیا دیوس) منایا جائے گا، مودی جی بھاجپا لیڈروں کی جانب سے دستور بدلے جانے کی بات کہنے کا توڑ کرنا چاہتے ہیں، سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی اسٹینڈ بنایا گیا ہے، اور عوام سیاسی اسٹینڈ اور ہتھکنڈوں کو اب سمجھنے لگی ہے، اس لیے ہندوستانی عوام پر اس تجویز کا کوئی اثر نہیں ہوا، اس طرح دیکھیں تو سوائے پارلیامنٹ کے رکارڈ کے اس کا کوئی فائدہ حکمراں جماعت کوبھی نہیں ملا؛ بلکہ عوام تو اس سوال کا جواب چاہتی ہے کہ مودی جی نے جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی لگا رکھی ہے کیا یہ دستور ہند کا قتل نہیں ہے، اور کیا اس سے ہندوستان کے جمہوری نظام کو دھکہ نہیں لگ رہا ہے اور کیا ان کے رویہ سے آمریت کی بو نہیں آتی ہے؟
اوم برلا اسپیکر کے عہدہ پر ہیں، انہیں غیرجانبدار ہونا چاہیے، لیکن وہ سارا کچھ حکمراں طبقہ کے لیے کر رہے ہیں، پارلیامنٹ میں پہلے بھی حزب اختلاف کی آواز کو دبانے کے لیے ان کے مائیک بند کر دیے جاتے رہے ہیں، اس بار بھی پارلیامنٹ کے پہلے اجلاس سے ہی سابقہ رویہ دہرایا جانے لگا ہے، حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے جب نیٹ پیپر لیک معاملہ پر بات کرنی چاہی تو ان کا مائیک بند کر دیا گیا، حالاں کہ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ تھا، مودی جی کے دوسرے دور اقتدار میں پینسٹھ (65)بار پرچہ لیک ہو چکا ہے، اور گذشتہ دس سالوں میں ستر مقابلہ جاتی بحالی امتحان کے پرچے آؤٹ ہو چکے ہیں، اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ساری درخواستیں اس قضیہ کی یہاں طلب کر لی گئی ہیں، اوم برلا کا یہ کہنا کہ مائیک کا بٹن میرے پاس نہیں ہوتا کافی نہیں ہے، انہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اگر ان کے پاس نہیں ہوتا تو کس کے پاس ہوتا ہے؟ اور کس کے حکم اور اشارے سے مائیک بند کر دیا جاتا ہے، جمہوریت میں آواز دبانے کا یہ عمل آمریت کی طرف لے جانے والا ہے، اسپیکر کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ عمل ایمرجنسی ہی کی طرح ہے، ہم اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی کہہ سکتے ہیں، اور صرف یہ عمل ہی کیا، مودی جی کا گذشتہ پانچ سالوں میں جو رویہ رہا ہے وہ سب غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہی کی طرح رہا ہے۔
اصل میں اس بار مودی جی نفسیاتی طور پر احساس کمتری میں مبتلا ہیں، اور یہ احساس کم تری عوام کی سمجھ میں نہیں آئے، اس کے لیے کمزور حکومت میں بر تری کا رعب جما رہے یں، اور عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے، اب بھی ہم جو چاہیں گے وہیں ہوگا اور ہمیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ہماری حلیف جماعتیں کیا سوچتی ہیں اور وہ کس قدر ہمارا ساتھ دے سکتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ان کی حکومت حلیف جماعتوں کے بل پر ہی ٹکی ہوئی ہے، اگر ان کا یہی رویہ رہا تو این ڈی اے بکھر جائے گی اور بیساکھی پر ٹکی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، بی جے پی او رمودی جی کو ابھی یہ بات نہیں سمجھ میں آ رہی ہے، وقت انہیں جلد سمجھا دے گا، اور عوام کی جانب سے سمجھانے کا یہ عمل ریاستی ضمنی انتخاب سے شروع ہو چکا ہے، جس میں تیرہ سیٹوں میں سے صرف دو سیٹ اس کے قبضہ میں اور خالص ہندو مذہبی علاقہ بدری ناتھ اتراکھنڈ میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اجودھیا کے بعد یہ بی جے پی کی دوسری بڑی ہار ہے، اور انڈیا اتحا د نے دس نشستوں پر قبضہ جما کر یہ بتا دیا کہ ان میں دم ہے اور عوام کے رخ کو اپنی طرف کرنے میں وہ کامیاب ہیں۔