جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

مولانا محمد منہاج عالم ندوی

ہر سال ہندوستان میں 5/ستمبر کویوم اساتذہ (Teachers dayکے طور پرمنایا جاتا ہے،جو درحقیقت ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن (5ستمبر 1888۔17اپریل 1975) کی پیدائش کا دن ہے،ان کے صدر جمہوریہ بننے کے بعد ان کے شاگردوں نے ان سے درخواست کی کہ آپ ہمیں اپنی تاریخ پیدائش کے دن کو بطور یادگار منانے کی اجازت مرحمت فرمادیں،تو انہوں نے کہا کہ اس سے بہتر ہے کہ آپ حضرات میری یوم پیدائش کو تمام اساتذہ کرام کے ادب و احترام اور ان کی عظمت کے طور پر منائیں،جس سے ذاتی طور پر مجھے خوشی ہوگی اور اس سے ایک اچھا پیغام بھی جائے گا۔اسی مناسبت سے ہر سال پورے ملک میں اس دن کویوم اساتذہ کے طور پرمنایا جاتا ہے؛ جس دن طلبہ وطالبات اپنے اساتذہ کے تئیں امتنان وتشکر کا اظہار کرتے ہیں اوراپنے جذبہئ احترام کو ظاہر کرنے کے لیے اساتذہ کی خدمت میں کچھ تحفے پیش کرتے ہیں،یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اساتذہ ہماری زندگی کی تعمیر وتشکیل اورہمارے مستقبل کو سنوارنے میں کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

استاذ کوئی بھی ہو، وہ معمار قوم ہوا کرتا ہے، اس کے ہاتھوں میں بچوں کا مستقبل پوشیدہ ہوا کرتا ہے، یقینا انسان کی زندگی میں اساتذہ کا رول سب سے اہم اور ان کی رہنمائی و رہبری کسی بھی طالب علم کے لیے سنگ میل ہوا کرتا ہے،ان کی محنت و کاوش کے نتیجہ میں علم میں پختگی، زبان و بیان میں شائستگی اور قلم و قرطاس پر مضبوطی حاصل ہوتی ہے، اور پھر کئی نسلوں کی مستقبل کا روشن ستارہ طلوع ہوتا ہے۔یہ رشتہ ایسا ہے کہ ایک استاد اپنے شاگردوں کی بلندی و ترقی کی نہ صرف یہ کہ فکر کرتا ہے بلکہ تحت الثریٰ سے ثریا تک پہونچانے میں اہم رول ادا کرتاہے اور پوری توانائی اس بات میں صرف کرتا ہے کہ میرا شاگردہونہار اور لائق و فائق کس طرح بنے، اور اپنے سینے کا نور اپنے طلباء کے اندر کیسے منتقل کرے؟اسے اس بات کی ہمیشہ فکر لگی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شاگرد کامیابی کے مراحل طے کرتاہے تو اس کے اساتذہ کرام دلی مسرت و شادمانی محسوس کرتے ہیں اور ان کا سر فخر سے بلند اور سینے چوڑے ہو جاتے ہیں اوران کے لیے دل سے دعائیں بھی نکلتی ہیں۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

اساتذہ کسی بھی ادارے،ا سکول،کالج،یونیورسٹی یا مدرسے کے ہوں، ابتدائی درجات کے ہوں یا علیا کے ہر زمانہ اور ہر وقت ان کی عزت اور ان کا ادب و احترام،تعظیم و تکریم کرنا ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے،جس میں کمی کوتاہی ہمارے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں،اکثر ہوتا یوں ہے کہ ہمارے وہ اساتذہ کرام جنہوں نے انگلی پکڑکر ہمیں ایک ایک حرف بتایا،پڑھایا،سکھایا اور آگے چل کر انہیں کی دعاء نیم شبی اورآہ سحر گاہی کی بدولت کچھ بن جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں سے ان کی قدر و منزلت اور عظمت و تقدس کوکھودیتے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر انہوں نے انگلی پکڑ کر پڑھنا، لکھنا نہیں سکھایا ہوتا تو کسی قابل نہیں رہتے۔اسی لیے اپنے استاذ کا ادب و احترام غایت درجہ میں ملحوظ رہنا چاہیے،یہی ایک کامیاب اورمثالی طالب علم کی نشانی ہے، بقول شاعر

ادب سے ہی انسان انسان ہے٭٭٭ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے

بلکہ برج نرائن چکبست نے کہا ہے کہ

ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا ٭٭٭وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں

اس لیے شاگرد کو چاہیے کہ ترقی کے بام عروج پر بھی پہونچ جائے تو اپنے استاذ کی عزت اور اور ان کے وقار کو کبھی فراموش نہ کرے،اسلام بھی ہمیں اسی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

اساتذہ کرام کی جدو جہد مسلم رہی ہے اور ان کی شخصیت بڑی خوبیوں کی حامل رہی ہے،اساتذہ کے ادب کاتمام مذاہب میں خاص خیال رکھا گیا ہے، اسلام میں اور بھی ان کی عزت واحترام کا خیال رکھا گیا ہے،ایسا اس وجہ سے بھی ہوا کیونکہ اسلام کی سب سے پہلی وحی  میں ہی پڑھنے پڑھانے کا ذکر ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،جبرئیل امین علیہ السلام کے درمیان استاد و شاگردی کا بے مثال رشتہ وہیں سے شروع ہوا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا اللہ کے محبوب پیغمبر سے کہنا ”اقرأ“ اور اس کے جواب میں بڑے پیار سے آپ کا فرمانا ”ما أنا بقارئی“کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں استاذکے ادب کو واضح کرتا ہے اسی طرح ایک موقع سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  ”انما بعثت معلما“کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں، آپ نے صحابہ کرام کو علوم و معارف سکھلا کر دنیا کے سامنے درس و تدریس کا ایک عمدہ نمونہ پیش کیا۔ہمارے سامنے اصحاب صفہ کی بہترین مثال موجود ہے جو آپ کے پاس ہی رہتے اور علم ومعرفت سیکھتے تھے۔

کسی بھی طالب علم کی زندگی میں استاد کا ایک اہم مقام ہوتا ہے۔ جہاں ماں باپ بچوں کی جسمانی نشو و نما میں حصہ لیتے ہیں وہیں استاد ان کی ذہنی ترقی میں اہم رول ادا کرتا ہے اور انہیں بہتر انسان بناتا ہے۔

   5/ستمبر کا دن خاص طور پر اساتذہ کی انہیں عنایتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے،عصری تعلیم گاہوں میں اس پر بڑی توجہ دی جاتی ہے؛مگر کیا سال میں صرف ایک دن کویوم اساتذہ (Teacher’s Day) کے طور پر منالینا کافی ہے؟نہیں؛بلکہ ان سے جو مخزن علم اور تربیت و اصلاح لی ہے اسے زندگی کے ہر موڑ پر نافذ کرنا اور ان سے حاصل کئے ہوئے علم کی لاج رکھنا اورپوری زندگی ان کی قدر کرناان کی ضروریات و حوائج کا بھی پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

  یوم اساتذہ کے اس حسین موقع پر میں نے بھی یہ چند سطور رقم کر دیئے اورآج میں بھی اپنے ان تمام اساتذہ کرام کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں؛ جنہوں نے مجھ جیسے سنگ ناتراش کو تراش کر چمکانے اور قیمتی بنانے میں کسی طرح کا بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا اور میری تعلیم وتربیت میں اپنی ساری توانائی صرف کردی، ان کی محنتوں،محبتوں اور کدو کاوش کا ہی نتیجہ اور ثمرہ ہے کہ آج زبان و قلم میں لکنت و کپکپاہٹ کے ساتھ ہی سہی کچھ لکھنے اور بولنے کا حوصلہ  پاتاہوں،وگرنہ۔۔۔

کہاں میں اور کہاں نکہت گل

نسیم   صبح  تیری  مہربانی

          اللہ رب العزت کی بارگاہ عالیہ میں دست بدعاء ہوں کہ اے اللہ! تو ہمارے ان بزرگ اور مخلص و خیرخواہ اساتذہ کرام کا سایہ ہم پر تادیر قائم و دائم رکھ اور انہیں دنیا و آخرت میں سرخروئی، بھلائی اور کامیابی و کامرانی عطا فرما!آمین

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک ٭٭٭ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

یہ بھی پڑھیں

One thought on “جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

Leave a Reply