حضرت مولانا سید ابو اختر صاحب قاسمی : ایک با کمال شخصیت
از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
ممتاز علمی و دینی شخصیت حضرت مولانا سید ابو اختر صاحب قاسمی کا آج طویل علالت کے بعد تقریباً نوے (90) سال کی عمر میں وصال ہوگیا،

اللہ تعالٰی حضرت کی مغفرت فرمائے ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے… موصوف کا وطنی تعلق بیگوسرائے ضلع کے ایک قصبہ پپرول سے تھا.
بہار کی سرزمین عمومی طور پر مردم خیز ہے؛ البتہ اس کے بعض خطوں کی مردم خیزی خاص طور پر قابلِ ذکر اور باعث رشک ہے۔ ان قابل رشک خطوں میں ریاست بہار کی صنعتی راجدھانی کے نام سے مشہور شمالی بہار میں دریائے گنگا کے ٹٹ پر واقع ضلع بیگو سرائے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں دو پر گنہ ہیں۔ ایک پر گنہ بلیا دوسرا پر گنہ ملکی۔ پر گنہ ملکی ایک زمانے میں ترہت راج ( دربھنگہ ) کی عمل داری میں تھا۔ ہر زمانے میں اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے علم وفضل کے آفتاب و ماہتاب نے اپنی ضیا پاش کرنوں سے ایک دنیا کو منور کیا ۔ جن میں قطبِ دوران حضرت شاہ علاء الدین بخاری شطاری، شبلی زمان حضرت آدم بنوری کے خلیفہ شیخ سلطان لکھمنیا ویؒ ، حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے لائق و فائق
جانشیں حضرت مولانا یار علی برونوی اور” الیانع الجنی فی اسانید اشیخ عبدالغنی” کے مصنف، نابغہ روزگار محدث حضرت علامہ شیخ حسن بن یحییٰ خضری ترہتی مہاجر مدنی (پرکنہ ملکی کے ترہت راج کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسبت تربتی بہت مشہور ہوئی ، ) مجاہد آزادی حضرت مولا نا محمد اسحاق برونوی ، خلیفہ اجل حضرت قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری کے اسمائے گرامی کو خاص وقار و اعتبار اور عظمت و بزرگی حاصل ہے۔
ماضی قریب کی شخصیات میں مفسر قرآن استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد ادریس نیموی سابق مہتمم مدرسہ بدر الاسلام ، خطیب العصر حضرت مولانا قریش صاحب با روی، مختلف تحریکوں کے سپہ سالار حضرت مولا نا ضیاء صاحب بلواروی ، حدیث و تفسیر کی متعدد کتابوں کے مشہور شارح حضرت مولانا علامه شیخ عثمان غنی سابق شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپور اور "العلالۃ الناجحہ” کے مصنف حضرت مولانا عبد الاحد قاسمی ( قصبہ ) ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
حضرت مولانا عبد الاحد قاسمی بیگو سرائے ضلع کی ایک بستی قصبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے خاص شاگرد اور ان کے دست گرفتہ تھے۔ اپنے شیخ پر اس حد تک مرمٹ تھے کہ اپنی کتاب العلالۃ الناجحہ کی نسبت حضرت شیخ مدنی ہی کی طرف کی ہے ۔
العلالة النافعة درحقیقت اصول حدیث پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی تصنيف لطيف العجالة النافعه ( جو اصل میں فارسی زبان میں ہے ) کی تعریب ہے۔ اور حاشیہ پر اس کا اردو ترجمہ بھی مولانا کا کیا ہوا ہے ۔
حضرت کی یہ کتاب در حقیقت ایک ایسی با کمال تعریب ہے کہ طالب علم اصل کتاب سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ محدث عصر حضرت علامہ یوسف بنوری نے اس تعریب کی بڑی تعریف کی ہے، جو اس کتاب پر تقریظ کے طور پر شائع شدہ ہے۔ آپ کا عربیت اور انشاء پردازی پر عبوران کے اقران میں بھی مسلم تھا ۔ یہ صفت آپ کے اندر آپ کے استاذ شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی سے منتقل ہوئی تھی. مولانا نے اپنی علمی خدمات سے ایک دنیا کو سیراب کیا.
خاص طور پر جامعہ امداد به کشور سج بنگلہ دیش کے ایک زمانے تک صدر مدرس رہے اور بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے علمی حلقوں کو سیراب کرتے رہے۔ عمر کا آخری حصہ اپنے وطن میں گزارا ۔ ہمارے ممدوح حضرت مولانا سید ابو اختر صاحب حضرت مولانا عبد الاحمد صاحب کے بھانجہ و داماد ہیں اورعلمی وفکری طور پر انھیں کے پروردہ و پرداختہ ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوں پر چند سطور سپر قلم کرنا میرے لیے سعادت کی بات ہے۔ اس لیے کہ ” قدر مردم بعد مردن می شناشند“ کے مطابق موت کے بعد ثنا خوانی کا عام رواج ہے، لیکن اس کے بالمقابل عملی لحاظ سے زندہ رہتے ہوئے خوبیوں کو اجاگر کرنا زیادہ مناسب ہے تا کہ لوگوں کا ان کی طرف رجوع ہو سکے اور احترام کے ساتھ افادہ و استفادہ کی راہ آسان ہو سکے۔
آپ کی ولادت پپرول ضلع بیگوسرائے میں 23 ربیع الثانی سن 1355 مطابق یکم فروری1936 ء کو ہوئی، مولانا کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت مولانا سید رضی الدین کی سرپرستی میں مدرسہ فوقانیہ نور پور، بیگوسرائے میں ہوئی، متوسطات کی تعلیم کے لیے مدرسہ حمیدیہ گودنا ضلع سارن، اور مدرسہ عالیہ ڈھاکہ کا رخ کیا اخیر میں آتش شوق نے آپ کو دار العلوم دیوبند پہنچا دیا. حضرت نے 1957 میں دارالعلوم دیوبند کی فراغت حاصل کی.
حصول علم کے بعد حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی صاحب اپنے وطن بیگوسرائے تشریف لائے ۔ اس زمانے میں امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی دورس نگاہیں با صلاحیت افراد کی جستجو و تعاقب میں رہتی تھیں ۔ آپ کو بہار کی مرکزی دینی درس گاہ جامعہ رحمانی میں تدریس کی پیش کش کی گئی اور آپ نے مقامی قربت اور عظیم ہستی کی سر پرستی کے پیش نظر جامعہ رحمانی کی تدریس کو قبول کر لیا۔
یہاں بطور ایک سینئر استاذ دس سال تک قیام پذیر رہے اور ابتدائی درجات سے لے کر انتہائی درجات تک کی کل کتا بیں آپ کے زیر درس رہیں۔
یہاں آپ کو حضرت امیر شریعت رابع کی سر پرستی ، ان کی محبت و عنایت و شفقت سے بھر پور انداز میں بہرہ ور ہونے کے مواقع ملے۔
حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی جامعہ رحمانی خانقاہ رحمانی میں مولانا سید منت اللہ رحمانی کے دست راست اور علمی معاون رہے ۔ حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری نوراللہ مرقدہ قاضی شریعت امارت شرعیہ نے حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کے مکاتیب کا مجموعہ "مکاتیب رحمانی” کے نام سے مرتب کیا ہے۔ اس میں کئی مکاتیب کے جواب میں
حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے علمی تحقیقات کومولانا ابو اختر صاحب کے حوالہ کے ساتھ نقل کیا، جس سے آپ کی علمی پختگی اور علم حدیث سے آپ کے غیر معمولی شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔ امارت شرعیہ کا دار الافتاء پہلے خانقاہ رحمانی میں قائم تھا، اس زمانہ میں تدریس کے ساتھ آپ دار الافتاء امارت شرعیہ کے نائب مفتی کے طور پر فتاوی نویسی کے خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ اس وقت با ضابطہ امارت شرعیہ کے مفتی حضرت مفتی یحییٰ صاحب ہوا کرتے تھے۔ نائب مفتی کے طور پر فتاوی نویسی کرنا اور روز مرہ بہار اڈیشہ کے مختلف مقامات سے آنے والے سوالات کا جواب تحریر کرنا یقینا آپ کے تفقہ فی الدین کی دلیل اور آپ پر اکابر کے اعتماد کی علامت ہے۔
اس کے علاوہ جامعہ رحمانی میں قیام کے ابتدائی چار سالوں میں امارت شرعیہ کے ترجمان پندرہ روزہ اب ہفت روزہ "نقیب “ پھلواری شریف پٹنہ میں مستقل کالم لکھا کرتے تھے۔ یہ کالم درس حدیث یا” رسول اللہ کی باتیں“ کے عنوان سے شائع ہوا کرتا تھا۔ اس کالم کے لیے احادیث کے انتخاب میں وقتی ضرورتوں ، سماجی اصلاح، منکرات و فواحش کی روک تھام ، ایمان وعقیدے کی مضبوطی، حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہونے کی ترغیبات وغیرہ موضوعات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔
شرح حدیث میں آپ کی زبان ششتہ ، شائستہ اور شگفتہ ہوا کرتی تھی ۔ اور اس میں جو مضامین آتے تھے وہ سب مدلل ہوا کرتے تھے۔ ضرورت ہے کہ اس کالم کو نقیب کی قدیم فائلوں سے حاصل کر کے اسے کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔
بندہ راقم السطور نے حضرت مولانا کا نام بچپن ہی میں متعدد بار اپنے خال مکرم حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی بانی و مہتمم جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگو سرائے کی زبانی سنا تھا۔ جو حضرت مولانا کے خاص اہل محبت میں سے ہیں۔ جب جامعہ رشیدیہ میں یہ عاجز زیر تعلیم تھا، اس وقت متعدد اساتذہ کو آپ کی خطابت کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔ ایک آدھ بار بعض جلسوں میں ان کی تقریر سنے کا موقع ملا اور ان کی عظمت کے نقوش قائم ہوتے چلے گئے۔ لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کی خطیبانہ شخصیت کے پیچھے ایک جیدالاستعاد علمی شخصیت بھی پوشیده ہے۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب یہ عاجز دار العلوم امارت شرعیہ کے صدر مدرس کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ اسی زمانے میں پیرول میں امامت کے فرائض انجام دینے والے قاری قمر الحق در بھنگوی ۔ نمر الحق دربھنگوی نے اس عاجز سے پیرول میں منعقد ہونے والے اصلاح معاشرہ کا نفرنس میں شرکت کی خواہش ظاہر کی ۔ اور بتایا کہ انشاء اللہ اس اجلاس میں مولانا سید ابو اختر صاحب کی بھی شرکت ہوگی ۔ ہماری خواہش ہے کہ امارت شرعیہ سے آپ کے زیر قیادت ایک مؤقر وفد کی تشریف آوری ہو ۔ اس عاجز نے حضرت ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ، اور دیگر حضرات سے بات کی وہ حضرات شرکت کے لیے تیار ہو گئے۔ جب اس اجلاس کے بارے میں المعہد العالی کے کتب خانہ میں حضرت مولانا نور الحق رحمانی مدظلہ العالی استاذ المعہد العالی سے تذکرہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پپرول میرے استاذ گرامی قدر حضرت مولانا سید ابو اختر صاحب کا وطن ہے؛ لہذا میں بھی اس میں شرکت کروں گا تا کہ حضرت سے نیاز حاصل کرنے کے مواقع میسر آجائیں۔ پھر مولانا نور الحق رحمانی نے حضرت مولانا سید ابو اختر صاحب کے جامعہ رحمانی میں تدریسی عہد اور طلبہ واساتذہ کے مابین مقبولیت اور اکابر کا ان کی صلاحیت پر اعتماد کے واقعات کو کچھ اس جذباتی انداز میں بیان کیا کہ بندہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور سابق سے قائم حضرت مولانا سید ابو اختر کی عظمت و عقیدت میں مزید اضافہ ہوا۔
پپرول کے اس اجلاس میں حضرت سے باضابطہ پہلی بار تعارف ہوا۔ حضرت نے بڑی شفقت کا معاملہ فرمایا اور اس عاجز کی علمی و تدریسی سرگرمیوں سے واقف ہو کر خوب دعاؤں اور گراں قدر نصیحتوں سے نوازا۔
بعد میں مدرسہ اصلاح المسلمین منصور چک ، سجاد نگر لڑوآرہ و دیگر مقامات پر منعقد جلسوں میں اس عاجز کو حضرت کے ساتھ شرکت اور حضرت سے مستفید ہونے کے مواقع ملے۔
1970 ء میں آپ مونگیر سے دربھنگہ چلے آئے ۔ ایک مدت تک مدرسہ امداد یہ لہر یا سرائے دربھنگہ کے صدر مدرس رہے۔ صدر مدرسی کے اس عہد میں آپ کو دار القضاء امارت شرعیہ کا قاضی بنایا گیا۔ پانچ سال تک عہدہ قضا کو آپ نے رونق بخشی ۔ اس دار القضا کے افتتاح کے لیے حضرت مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ تعالی در بھنگہ تشریف لائے تھے۔ تدریس ، شرح حدیث ، فتاوی نویسی کے ساتھ قاضی شریعت کے طور پر امور قضا کو بھی آپ نے بہتر طور پر انجام دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ اس نے آپ کو تمام علمی شعبوں میں اپنی خدمات کے انمٹ نقوش ثبت کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ مدرسہ امدادیہ کے بعد آپ نے 1974ء میں شفیع مسلم ہائی اسکول دربھنگہ سے وابستگی اختیار کر لی اور مدرسہ اسلامیہ جھگڑوا کی نشاۃ ثانیہ کی اور ان درسگاہوں میں بھی تدریس کا تعلق جاری رہا، لیکن آپ کا اصل جو ہر تقریر و بیان اور وعظ و خطاب تھا۔ آپ کی ساحر البیانی کی دھوم اب بھی بہار کے ایک بڑے خطے میں قائم ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو قوت گفتار کے ساتھ جرات گفتار بھی عطا کیا تھا۔ کلمۂ حق بڑے سے بڑے حاکم کے سامنے بھی کہنے سے نہیں چوکتے تھے اور خوبصورت پیرا یہ میں کلمۂ حق کہہ ڈالتے تھے۔ ایک جلسہ میں اس وقت کے ہیلتھ منسٹر مہاویر پر شاد بھی مدعو تھے، دربھنگہ کے سوپول کے علاقے میں جلسہ تھا اور اتفاق سے وہی منسٹر صاحب کا حلقہ انتخاب بھی تھا۔ اس علاقے کی سڑکیں انتہائی خستہ حال تھیں ۔ حضرت نے دوران خطاب جنت و جہنم کے تذکرے کے ضمن میں فرمایا کہ بد عملی عام ہے اور ایسے ایسے کبائر کا ارتکاب ہو رہا ہے کہ جہنمی ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ لیکن اس حلقہ والوں کے لیے امید کی ایک کرن روشن ہے کہ اگر کسی کے لیے جہنم کا فیصلہ ہوا تو فرشتے کہیں گے خداوندا! یہ بندہ مہاویر پر شاد کے حلقہ میں تھا، پوری زندگی جہنم کی تکلیف اٹھا کر آیا ہے۔ اس لیے آخرت میں یہ راحت پانے کا مستحق ہے۔ چنانچہ اس طرح اس کو جہنم سے خلاصی مل سکتی ہے۔ مہاویر پر شاد کو سخت شرمندگی ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی مواقع پر بھی مولانا سید ابو اختر صاحب نے حدیث نبوی:* افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر "(افضل جہاد کلمۂ حق کہنا ہے ظالم حکم راں کے سامنے ) پر عمل کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ کتنے ہی بے عمل ہیں جنھوں نے آپ کے وعظ و خطاب کو سن کر گناہ کی زندگی سے تو بہ کر کے نیکی کی راہ اختیار کی۔ اور کتنے ہیں نیکو کار ہیں کہ حضرت مولانا کے خطاب نے اس کے لیے تازیانہ کا کام کیا اور ان کی عبادت کی رفتار فزوں تر ہوگئی ، یقینا یہ چیزیں اللہ کی بارگاہ میں مولانا کے حسنات میں اضافہ کا سبب بنیں گیں۔جمعیت علماء دربھنگہ کے صدر کی حیثیت سے بھی آپ نے بیش قیمت ملی سماجی خدمات انجام دیں.
اب جب کہ حضرت عمر کے آخری مراحل سے گذر ہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت کا سایہ عاطفت صحت و سلامتی کے ساتھ دراز فرمائے اور امت مسلمہ کو انا سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ حضرت کے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد ملک و بیرون ملک میں پھیلی ہوئی ہے، ان کی بھی ذمہ داری ہے کے حضرت کے علمی کارناموں کو آگے بڑھائیں۔
(آپ کی زندگی میں لکھا گیا مضمون)