دیوبند کے قدیم ترین ناشر
جناب مختار علی مرحومؒ

مالک کتب خانہ امدادیہ، دیوبند

تحریر: بدرالاسلام قاسمی

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

دارالعلوم : مکتب سے عالمی ادارے تک

تین دن قبل مؤرخہ۲۴؍مئی ۲۰۲۴ء بروز جمعہ دیوبند کی ایسی شخصیت نے اس دنیا کو الوداع کہا جن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ان کا بر صغیر کے ہزاروں مدارس اور ان کے بے شمار فضلاء سے خاص تعلق تھا، بلکہ وہ کسی نہ کسی واسطے سے ان کے محسن تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ دیوبند کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام و مرتبہ علمی دنیا میں عطا فرمایا ہے بلاشبہ اس کا اوّلین سبب دارالعلوم دیوبند ہے، ایک چھوٹے سے مکتب کی شکل میں شروع ہوا یہ تاریخی ادارہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، بانیان کے اخلاص، اساتذہ کرام کی شبانہ روز جدوجہد اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار طلبہ عزیز کے نتیجے میں پہلے ملک بھر میں متعارف ہوا، پھر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ کے زریں دور اہتمام اور شبانہ روز سفر و حضر کی گفتگو میں مسلک دیوبند کی ’’معتدل فکر‘‘ کا موضوع کچھ یوں حاوی رہا کہ رفتہ رفتہ یہ ادارہ عالمی شہرت کی بلندیوں کو پہنچا۔

دیوبند کے قدیم ترین ناشر جناب مختار علی مرحومؒ
دیوبند کے قدیم ترین ناشر جناب مختار علی مرحومؒ

دیوبند کے قدیم کتب خانے

ظاہر ہے کہ اب دارالعلوم دیوبند کی جانب طلبہ کا رجوع بڑھ رہا تھا، ان کی علمی و عملی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیوبند رفتہ رفتہ قریہ سے قصبہ بلکہ اب تو شہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بہر حال طلبہ کی اولین ضرورت درسی کتب اور ان کی متعلقات ہوتی ہیں، یوں دیوبند میں کتب خانوں کا آغاز ہوا، معروف قلم کار ڈاکٹر عبید اقبال عاصم اپنی کتاب ’’دیوبند، تاریخ و تہذیب کے آئینے کے صفحہ ۱۲۰ پر لکھتے ہیں:

’’دیوبند میں پرنٹنگ پریس کے ساتھ ہی کتب خانوں کا وجود بھی عمل میں آیا۔ چناںچہ سب سے پہلا کتب خانہ ۱۹۱۱ء میں ’’کتب خانہ قاسمی‘‘ کے نام سے قائم ہوا، کتب خانہ قاسمی سے چھپنے والی کتابیں کتابت و طباعت، کاغذ کی عمدگی اور صحت کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔آہستہ آہستہ دیوبند میں کتابوں کی اشاعت اور کتب خانے قائم کرنے کا رواج بڑھتا گیا۔دیوبند کے قدیم کتب خانوں میں مولانا محمدا سحاق صاحب مرحوم کا کتب خانہ رحیمیہ، مولانا سیّد احمد مرحوم کا کتب خانہ اعزازیہ، دفتری محمد علی صاحب مرحوم کا کتب خانہ امدادیہ، مولانا راشد حسن عثمانی مرحوم کا راشد کمپنی ………… وغیرہ بہت سے وہ کتب خانے ہیںجنہوں نے قرآن کریم، دینی کتب، درسِ نظامی سے متعلق کتب، ان کی شروحات و حواشی، اردو ادب و تاریخ کی کتب کی اشاعت کے علاوہ بہت سی علمی کتابوں کو عوام و خواص تک پہنچایا۔‘‘

اس پیراگراف میں مذکور ’’کتب خانہ امدادیہ‘‘ دراصل جناب مختار علی صاحب کے والد جناب محمد علی صاحب مرحوم نے قائم کیا تھا جو میرٹھ سے دیوبند آئے اور یہاں دارالعلوم کے شعبۂ دارالصنائع میں بھی خدمت انجام دی تھی، اس کا ذکر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ نے اپنی کتاب ’’مجالسِ حکیم الاسلام‘‘ میں بھی کیا ہے۔

جناب مختار علی: ولادت سے تجارت تک

مختار علی مرحوم کی ولادت ۱۹۳۲ءمیں ہوئی، فارسی کی مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی، کچھ سال عربی درجات بھی پڑھے، پھر والد صاحب کے قائم کردہ ادارے کو فروغ دینے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے، چنانچہ اس دور میں بیشتر درسی کتابوں کی دستی کتابت کا اہتمام کرایا، کئی عمدہ و مستند شروحات باقاعدہ لکھوائیں، آج کے اس دور میں جب کمپیوٹر کے چند کلک، کی بورڈ پر سرپٹ دوڑتی انگلیاں اور گوگل پر موجود بے شمار علمی مواد کے ذریعہ ضخیم سے ضخیم کتاب چند دنوں میں تیار ہو جاتی ہے اور اعلیٰ معیار طباعت کے ساتھ بہت قلیل مدت میں قارئین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اِس برق رفتاری میں آنکھیں کھولنے والی نسل زمانۂ قدیم کی طباعتی جدوجہد، بسا اوقات کاتبوں کے نخروں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کا اندازہ کر ہی نہیں سکتی۔

اہم ترین علمی کتاب: تفسیر کمالین

سن۱۹۶۲ء میں حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندی علیہ الرحمہ کی تحریر کردہ ’’تفسیر کمالین شرح جلالین‘‘ کی اشاعت اسی مکتبہ سے ہوئی۔ اُس زمانے میں مطول اور کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں کی طباعت کا انداز اجزاء در اجزاء شائع کرنے کا تھا، چناںچہ اس کی اشاعت بھی اُسی انداز میں شروع ہوئی، اس طرزِ طباعت کا تذکرہ مشہور مؤرخ محترم جناب سیّد محبوب علی رضوی صاحب نے اپنی کتاب ’’تاریخِ دیوبند‘‘ کے صفحہ ۲۵۴ پر بھی کیا ہے۔

باوجودیکہ یہ شرح نہایت عمدہ ہے اور مصنف علیہ الرحمہ کے اعلیٰ تفسیری و تحقیقی ذوق کی غماز بھی، جو تفسیری ذوق ان کے ۱۲؍جلدوں پر مشتمل دوسرے علمی شاہکار ’’تفسیر انوارالقرآن‘‘ میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم اس کتاب میں لمبی لمبی عبارتوں کا یکجا ہونا جو بسا اوقات ایک ایک رُبع تک ہوجاتا ہے، طلبہ و طالبات کے لیے اسے صعب الاستفادہ بنادیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ایک ایک رُبع کا ترجمہ ملا نا، پھر مسلسل کئی صفحات میں اپنی مطلوبہ تشریح تلاش کرنا ایک مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ چند سالوں قبل جناب شاہد علی صاحب (مالک مختار پریس) راقم کو اپنے والد گرامی مولوی مختار علی صاحب کے پاس لے گئے تھے، اس مجلس میں انہوں نے ’’تفسیر کمالین‘‘ کو ایڈٹ بلکہ اپڈیٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی،تاکہ یہ جلالین کی عبارت، ترجمہ اور تشریح رکوع بہ رکوع تقسیم ہو سکیں،یہ تقریباً آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے، اس وقت ان کی عمر پچاسی سال کے آس پاس رہی ہوگی، لیکن وہ اپنی گفتگو، کتاب کی طباعت کے تعلق سے اپنے عزم اور اشاعتی خدمت میں مکمل طور پر متحرک نظر آئے۔ چوں کہ راقم اُس وقت ’’تفسیر معارف القرآن‘‘ پر ’’آسان لغات القرآن‘‘ (مطبوعہ زکریا بک ڈپو دیوبند) کے اضافے میں مصروف تھا، اس لیے یہ خدمت انجام نہ دے سکا۔

علماء سے ربط

جناب مختار علی صاحب مرحوم اپنے والد صاحب کی طرح تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اہل علم سے مربوط بھی رہے، چناںچہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ کی بعد عصر ہونے والی مجلس میں عام طور پر ان کے والد شریک رہتے۔ یہ مجالس کتنی علمی ہوتی تھیں اس کا اندازہ ’’مجالس حکیم الاسلام‘‘ (مرتبہ : مولانا حبیب اللہ قاسمی چشتی) کے مطالعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کی سطر سطر علوم و معارف سے لبریز ہے۔ افسوس کہ یہ علمی ذخیرہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

علاوہ ازیں ابن علامہ انور شاہ کشمیری، مدیر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر اور ابن حکیم الاسلام، مترجم سیرت حلبیہ، سابق صدر المدرسین دارالعلوم وقف حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی علیہ الرحمہ سے ان کی طویل رفاقت رہی، بے تکلفانہ مجلس کے علاوہ وہاں ہونے والے مشورے مکتبہ کی علمی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوئے۔

اولاد اور اشاعتی خدمات

اللہ تعالیٰ نے جناب مختار علی مرحوم صاحب کو۱۱؍اولاد سے نوازا، جن میں ۸؍بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے، ایک بیٹے جناب انوار علی صاحب کی چند سال قبل رحلت ہو چکی، دو بیٹیاں بچپن میں انتقال کر گئیں، بقیہ سب حیات ہیں اور بحمداللہ خوش حال بھی!

دینی کتب کی اشاعت کا جو شجر مختار علی صاحب کے والد گرامی نے لگایا تھا اسی کو ان کی اولاد و احفاد نے نسلاً بعد نسلٍ شاخ در شاخ فروغ دیا۔اکثر بیٹوں نے اشاعتی لائن میں ہی اپنے قدم جمائے اور آج ان سب کی اپنی شناخت ہے اور سب کا بڑا تجارتی حلقہ بھی، چنانچہ مکتبہ تھانوی،دارالقرآن، نورانی بکڈپو، مختار پرنٹنگ پریس، مکتبہ اشرفیہ، نبراس بکڈپو اور زکریا بکڈپو ان ہی کی اولاد کے قائم کردہ اشاعتی ادارے ہیں جن میں بیشتر عربی و اردو تفاسیر، احادیث اور فقہی مراجع کی اعلیٰ طباعت کے حوالے سے ’’حسب ِ مراتب‘‘ جانے جاتے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں سے جناب مختار علی صاحبِ فراش تھے، کتب خانہ امدادیہ کی بیشتر ذمہ سرگرمیاں نبراس بکڈپو سے انجام دی جا رہی تھیں۔

نام زندہ رہے گا!

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی وجہ سے اگرچہ آج کا طباعتی معیار بہت بلند ہو گیا ہے، درسی کتابوں میں بھی کمپیوٹر سے تحریر کردہ کتابوں نے اپنا حلقہ بنا لیا ہے، سیاہ روشنائی کے ساتھ رنگین متن بھی نظر آنے لگے ہیں، ان سب کے باوجود زمانۂ قدیم میں اشاعت علم کی خاطر کی جانے والی جد و جہد اور نمایاں خدمات کے حوالے سے مختار علی مرحوم کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کی شائع کردہ کتابوں سے علمی فیض حاصل کرنے والے ان کے لیے ابدی صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللہ

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare