ذکر ایک جاں باز کا : یوسف علی مہر کا
افروز عالم ساحل
1942 کی ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کے 82 سال بعد ہمارے ملک کے چند ویب سائٹس نے اس تحریک پر اسٹوری کی ہے۔ ایک ویب سائٹ نے تو اس تحریک کے آغاز کے دوران مہاتما گاندھی کے اثر انگیز تقریروں پر نظرثانی بھی کی ہے۔ لیکن یہ سب لوگ بھول گئے کہ مجاہد آزادی یوسف مہر علی کا ذکر کئے بغیر ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی بات ہی نہیں کی جا سکتی۔
دراصل، ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کی پوری تحریک یوسف مہر علی کے ذہن کی پیداوار تھی۔ اس تحریک پر جسٹس ویکینڈین (Justice Wickenden) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بامبے سے مدراس جاتے ہوئے گاندھی جی دھارواڑ اترے۔ یہاں انہوں نے یوسف مہر علی سے انہوں نے جو سیکھا تھا اسے لوگوں کو بتایا۔ انہوں نے کانگریس کے رہنماؤں کو ان کے خیالات کو اپنانے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ اپنی ذمہ داری پر ایک مہم چلانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے ان کے تحریک میں کانگریس شامل ہو یا نہ ہو۔ بہرحال گاندھی کے ضد کے آگے کانگریس یوسف مہر علی کے آئیڈیا کو ماننے کو مجبور ہوئی۔ گزشتہ تمام مہم کی طرح اس مہم میں بھی Quit India کا نعرہ یوسف مہر علی نے ہی دیا۔ اس نعرے نے آزادی کی تحریک میں روح پھونک دی تھی۔
جسٹس ویکینڈین (Justice Wickenden) کی رپورٹ صاف طور پر بتاتی ہے کہ ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ کے عنوان سے جو ایک پرچہ ان دنوں لکھا گیا تھا، اس کے لیے یوسف مہر علی ذمہ دار تھے۔ یہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ یوسف مہر علی بھلے ہی کانگریس سوشلسٹ تھے لیکن وہ اب بھی ایک کانگریسی ہی ہیں اور ابتدا ہی سے گاندھی کی ہر تحریک کی راہ ہموار کرنے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ یوسف مہر علی ملک کے الگ الگ حصوں میں جاکر اپنے لوگوں کو اس تحریک میں جوڑ رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق مہر علی نے جون کے پہلے ہفتے میں بہار کے بیدول میں آل انڈیا کسان سبھا کی ایک میٹنگ میں حصہ لیا۔ اس میٹنگ میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی کہ عوامی جدوجہد کے آغاز کی صورت میں کانگریس کو مکمل حمایت فراہم کی جائے، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔
مہر علی نے 25 جولائی 1942 کو پونا کے فرگسن کالج میں سوشلسٹ کارکنوں اور طلباء کے خفیہ کیمپ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’ملک کو غلامی سے آزاد کرنے کے لیے ہر وہ کام کریں چاہے وہ خانہ جنگی، انارکی اور انقلاب ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اس نام نہاد خفیہ کیمپ میں ان کے ذریعے کی گئی تمام اہم باتوں کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یکم اگست 1942 کو بھی مہر علی نے بامبے میں اس تحریک کی حمایت میں اشتعال انگیز تقریر کی۔ 8 اگست کو مہرعلی بنگال میں بھی ایسی ہی تقریر کر رہے تھے۔ جس میں انہوں نے برٹش حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے کی بات کہی۔
اسی مہم کے دوران یوسف مہر علی نے ایک اور نعرہ دیا جسے شاید ہی ہم سب جانتے ہوں۔ یہ نعرہ تھا، ’ہر آدمی کانگریس کا آدمی، ہر گھر کانگریس کا گھر‘ (Every man, a Congressman, every house, a Congress house) یہ نعرہ اس دور میں کافی مشہور ہوا اور اس کا فائدہ کانگریس کو خوب ملا۔
غور طلب رہے کہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے بانیوں میں شامل رہے یوسف مہر علی آزادی کی تحریک میں اس وقت کے مجاہدین آزادی کو نعرہ دیئے جانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت اس سے کہیں آگے ہے۔ یوسٖف مہر علی نے نہ صرف ’سائمن واپس جاؤ‘ (Simon Go Back) کا نعرہ دیا بلکہ خود قلیوں کا لباس پہن کر بامبے بندرگاہ پر کالے جھنڈے کو لہراتے ہوئے خود یہ نعرہ بھی بلند کیا۔