ساورکر کی معافی اور خلافت تحریک
سعید حمید
پہلے تو ساورکر کی معافی کا معاملہ سمجھ لیجئے ۔
ساورکر پہلے انقلابی بن رہا تھا ۔
پھر ہندوتوا وادی ہو گیا ۔
جب ساورکر انقلابی تھا ، تب کچھ کچھ ہمت دکھائی تھی ۔
لیکن ناسک کے ایک برٹش افسر کے قتل کیس کی سازش میں قاتل کو اسلحہ فراہم کرنے کے الزام میں وہ پھنس گیا ۔
وہ لندن میں تھا ، گرفتار ہو ا۔بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑا گیا ۔ اور اس کو پکڑکر ہندوستان لایا گیا ، جہاں مقدمہ چلا ۔

اس کو قتل کی ساش میں شریک ہونے اور آلۂ قتل فراہم کرنےکے الزام میں25=25 = 50 YEARS
یعنی پچاس سال کی کالا پانی ، انڈومان نکوبار جیل میں بامقشت سزا سنائی گئی ۔
اس نے معافی کی کئی درخواستیں برٹش سرکار کو دی ۔
اس نے مندرجہ ذیل مدت میں ( ۵) معافی نامہ پیش کیا،ان میں سے کچھ کی تاریخ یہ ہے :
(۱) ۱۹۱۱ ء (۲) ۱۹۱۳ ء (۳) ۱۹۱۴ ء ( ۴) ۱۹۱۸ ء
(۵) ۱۹۲۰ ء
اس نے کالا پانی کی سزا معاف کرنے اور کالا پانی ، انڈومان نکوبار جیل کی بجائے مہاراشٹر ، دکن کی کسی بھی جیل میں
منتقل کئے جانے کی کئی درخواستیں برٹش سرکار کو دی ۔
جون ۱۹۱۱ ء میں اس کو کالا پانی ، اندومان نکوبار کی جیل میں لایا گیا ۔
سزا کے مطابق اس کو پچاس برس تک کالا پانی میں رہنا چاہئے تھا ۔
یعنی : جون ۱۹۶۱ ء تک اس کو کالا پانی کی جیل میں مقید رہنا چاہئے تھا ۔
لیکن ۔ ۱۹۲۰ ء تک پانچ معافی کی درخواستوں کو مسترد کرنے کے بعد ۱۹۲۱ ء میں اس کو معافی کیسے مل گئی ؟
اس کو کالا پانی سے ۱۹۲۱ ء میں رہائی مل گئی ۔ کیوں ؟
۱۹۲۱ ء میں اسے پہلے یروڈا جیل ، پونہ لایا گیا ، اور پھر اس کے بعد رتناگیری ضلع میں کھلے طور پر ضلع نظر بند رکھا گیا،
یعنی وہ ضلع بھر میں گھوم سکتے تھے ، لیکن ضلع کے باہر نہیں جا سکتے تھے ۔
اور پھر ۱۹۳۷ ء میں اس پر جو تھوڑی بہت پابندیاں تھیں ،وہ سب کی سب ختم کردی گئیں ، اور سیاست میںشرکت کی بھی اسے اجازت دے دی گئی ، جو کہ مشروط رہائی کے بھی خاتمے کا گویا اعلان تھا ، اور ساورکر کی ساری سزا معاف کردی گئی ۔
وہ ہندو مہا سبھا کا صدر بن گیا ۔
اس کی پچاس برس کی کالا پانی میں قید بامشقت بمشکل دس برس ہی قائم رہی اور پھر اسے اچانک معافی کیوں مل گئی ؟
اس کا جواب خلافت تحریک میں تلاش کیا جا سکتا ہے، جو ۱۹۱۹ ء میں ہندو مسلم اتحاد کے عنوان سے شروع ہوئی ، اور اس کے تحت ۱۹۲۰ ء میں نان کو آپریشن تحریک بھی شروع کی گئی ، اور ۱۹۲۲ ء میں عدم تعاون و خلافت تحریک ختم ہو گئی ۔
یعنی تحریک خلافت بمشکل ہی ۳ ؍برس چلی اور پھر اس نے ملکی و بیرونی حالات کے سبب دم توڑ دیا ۔
اگر ہم ان تین چار برسوں کی سیاست کا غیر جذباتی اور سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ :
(۱) گاندھی جی نے کانگریس کے سیاسی مفاد کیلئے ہندو مسلم اتحاد کا کارڈ کھیلا ، اور اس کیلئے تحریک ِخلافت کو استعمال کیا ۔
(۲) اس کے جواب میں برٹش سرکار نے بھی ہندو مسلم انتشار کا سیاسی کارڈ کھیلا اور اس کیلئے ساورکر کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ۔
اسی لئے ، دس برس میںپانچ مرتبہ برٹش سرکار نے ساورکر کی درخواستوں کو ٹھکرایا ، اسے معاف نہیں کیا ۔
خلافت تحریک اور عدم تعاون تحریک کے عروج کے ساتھ ہی ساورکر کو کالا پانی سے نجات دے دی ،اور ۱۹۲۱ ء میں اسے رتناگیری کی اوپن جیل میں بھیج دیا ۔
بہر کیف ، رتناگیری میں بھی ساورکر برٹش حکومت کی حراست میں ہی تھا اور اس کو قید سے مکمل نجات نہیں ملی تھی ۔
۱۹۲۳ ء میں رتناگیری کی قید میں ہی اس نے نظریہ ٔ ہندوتوا پر اگر کتاب لکھ دی ، تو کیا اس میں برٹش سرکار کی بھی رضا مندی شامل نہیں تھی کہ اس نے قیدی کو لکھنے کی اجازت دی ؟
برٹش سرکار کے سزا یافتہ قیدی نمبر 32778 : ساورکر نے گورنر جنرل کی کونسل کے ہوم ممبر سر ریگینالڈ کریڈ ڈاک کو مورخہ ۴؍نومبر ۱۹۱۳ ء کو جو معافی نامہ لکھا تھا ، اس میں برٹش سرکار کو یہ پیش کش کی گئی تھی :
ـ’’میں برٹش سرکار کی کسی بھی خدمت کیلئے تیار ہو ، جو، ان کو درکار ہو ، کیونکہ میری یہ تبدیلی ایک ساؤدھانی سے اٹھایا گیا قدم ہے ۔
اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے مستقبل میں بھی طرز عمل ایسےہی ہونگے ۔مجھے جیل کے اندر رکھ کر کچھ نہیں ملے گا ، اس کے مقابلے یہ کہ اس کے برعکس جو کچھ ہو سکتا ہے ۔ کوئی طاقت ور ہی معاف کرنے کی استطاعت کرسکتا ہے ۔پھر ایک گمراہ بیٹا اپنے سرکار کے بزرگانہ دروازوں پر لوٹ جانےکے سوا اور کیا کر سکتا ہے ؟‘‘
جس ساورکر کو برٹش افسران یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ خطرناک شخص ہے اور اس کی یہ درخواست بھی مسترد کی جا رہی تھی کہ صرف کالا پانی کی جیل سے ہی اس کو نجات دی جائے ،بھلے وہ دکن ( مہاراشٹر ) کی کسی جیل میں ہی قید کیوں نہ ہو ۔لیکن ، برٹش افسران یہ بات بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔
ایک ، دو نہیں ، پانچ مرتبہ اس کی درخواست مسترد کی گئی ۔
پھر اچانک ۱۹۲۱ ء میں اسے کیوں کا لا پانی سے نجات مل گئی ؟
اس کا پس منظر خلافت تحریک ، تحریک عدم موالات اور ہندو مسلم اتحاد کی تحریک میں صاف نظر آتا ہے ۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی کی اس( ہندو ۔مسلم ایکتا کی ) سیاست( یا ہندو مسلم متحدہ عوامی طاقت کے برٹش ایمپائر کے خلاف ایجی ٹیشنل استعمال کی حکمت عملی ) کے خلاف برٹش سرکار نے بھی جواب کے طور پر ہندو مسلم انتشار ، اور ہندو مسلم پھوٹ کی حکمت عملی تیار کی ، جس میں ساورکر نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا ۔
ساورکر نے یہ کہا کہ نفرت کا استعمال بھی اتحاد کیلئے کیا جا سکتا ہے ، اور اس نے کسی حد تک یہ ثابت کردکھایا ۔
مسلمانوںسے نفرت کو کٹروادی ہنددٔوں کے اتحاد کیلئے استعمال کیا گیا اور اس کیلئے ہندوتوا کا نظریہ پہلی مرتبہساورکر نے پیش کیا ۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک ِخلافت ساورکر کیلئے تحفہ اور موقعہ ثابت ہوئی کہ دس سال میں ۵ ؍ مرتبہ معافی نامہ پیش کرنے کے بعد بھی جو برٹش سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی ، اس نے تحریک ِ خلافت شروع ہوتے ہی ایک سال میں ہی ساورکر کو کالا پانی سے نجات دے دی ۔
اس کے بعد ساورکر نے رتناگیری جیل میں بیٹھ کر کیا کیا ؟
معافی نامہ کے الفاظ دیکھ لیجیے !!!
اس نے کہا ’’ میں سرکار کی کوئی بھی خدمت کرنے کیلئے تیار ہوں ۔جو سرکار چاہے ۔‘‘
اور بھارت میں پھوٹ ڈالو ۔حکومت کرو DIVIDE AND RULE پر عمل کرنے والی
برٹش سرکار نے خلافت تحریک کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کا سیاسی کارڈ کھیلنے والے گاندھی جی کے مقابلہ کیلئے
ساورکر کے ہاتھوں میں قلم دیکر ہندوتوا کا کھیل شروع کیا ۔
سو سال بعد یہ کھیل اور ہندوتوا کا نظریہ بھارت کے مسلمانوں کیلئے پریشانی کا سبب بن چکا ہے ۔