سوانح ہاجرہ نازلی
اِک آسماں، اِک کہکشاں
ایک مطـالعــہ

تبصرہ نگار: بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

راقم کو شروع سے ہی بڑوں کے حالات اور ان کی سوانح، بالخصوص خود نوشت سے دل چسپی رہی ہے، گزشتہ دنوں ’’سوانح ہاجرہ نازلی، اک آسماں اک کہکشاں‘‘ نامی کتاب نظر میں آئی جس کی مرتبہ شہناز کنول غازی صاحبہ ہیں۔ ہاجرہ نازلی صاحبہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کی صاحبزادی اور مشہور عالم دین مولانا حامد الانصاری غازی کی اہلیہ محترمہ ہیں، نیز اپنے وقت میں اردو ادب ، بالخصوص افسانہ نگاری میں نمایاں مرتبے پر فائز رہ چکی ہیں۔ان کی سوانح دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اور بڑی بےصبری کے ساتھ اس کا مطالعہ شروع کیا۔ کتاب کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد یہ تبصرہ تحریر کر رہا ہوں۔

کتاب کا تعارف

318 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہاجرہ نازلی کی بیٹی محترمہ شہناز کنول غازی صاحبہ کی مرتب کردہ ہے، جسے پانچ ابواب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا حصہ کتاب کی مرتبہ کی جانب سے اپنی والدہ کی شان میں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، جس میں انہوں نے بچپن کی معصوم شرارتوں، گھر کے عمدہ و دینی ماحول، بڑوں کے اندازِ تربیت، دیوبند کے کچھ قدیم و تاریخی مقامات، پرانی تہذیب و معاشرت ،لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والے واقعات اور آنکھوں کو پُرنم کرنے والے صبرآزما احوال سے لے کر صاحب ِ سوانح کے تقریباً تمام حالاتِ زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ حصہ 120 صفحات پرمشتمل ہے۔

اس کے بعد ’’شبنم افشانی‘‘ کے عنوان سے اس علمی و عملی خانوادے کے اکابر و اصاغر کے مضامین شاملِ کتاب ہیں۔

پھر ’’گوہر افشانی ‘‘ کے تحت چند مشہور علمی و ادبی شخصیات کی تحریریں ہیں،اس میں رفعت سروش کا مضمو ن بہت عمدہ ہے، اس کے بعد ’’حریمِ قلم‘‘ کے عنوان سے کتاب کی مرتبہ، محترمہ شہناز کنول غازی اور ان کے بھائی جناب محمد طارق غازی صاحب کے دو اہم مضامین ہیں۔

آخر الذکر نے ہاجرہ نازلی کے دو شاہکار و سدا بہار ناولوں کا بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ آخری باب ’’سخنے سخنے‘‘ کے عنوان سے ہاجرہ نازلی کے اُن ادبی شہ پاروں اور معاشرہ کے زخموں پر انگلی رکھنے والے منتخب قیمتی اقوال پر مشتمل ہے جنہیں اُن کے مشہورِ زمانہ مقبول ناول اور ادبی افسانوں سے چن چن کر جمع کیا گیا ہے۔

صفحہ 78 پر مشہور شاعر حفیظ جالندھری کا ایک خط بھی کتاب کا اہم حصہ ہے، جس میں انہوں نے اپنا کرب ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’تاجرانِ کتب جو خدا کے فضل و کرم سے مسلمان بھی ہیں اور لاکھوں روپیہ مسلمانوں کی جیب سے کما چکے ہیں، شاہنامہ اسلام کی چاروں جلدیں اور میری تمام دوسری کتابوں کو چوری سے چھاپ کر، چوری سے بھی زیادہ سینہ زوری سے چھاپ فروخت کر رہے ہیں اور مجھے میرے کاپی رائٹ کا ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں۔…………… میری حالت یہ ہے کہ روٹی کے لیے مارا مارا پھر رہا ہوں، مقدمہ بازی سے کچھ حاصل نہیں۔‘‘

یہ خط اُن لوگوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے جو مصنّفین کی اجازت کے بغیر اور اُن کو حق الخدمت دیے بغیر کتابیں شائع کرتے ہیں، اسی ظلم کی ڈیجیٹل شکل یہ بھی ہے کہ مصنّف و ناشر کی اجازت کے بغیر اس کی سوفٹ کاپی (پی ڈی ایف) شیئر کی جائے، ستم بالائے ستم کہ اکثر لوگ اس کو کارِ ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔

خصوصیات ہاجرہ نازلی

ہاجرہ نازلی صاحبہ عموماً باوضو رہتیں، نماز اوّلِ وقت میں پڑھ کر فارغ، جب تک نماز نہ پڑھ لیں تب تک ایک کرب و بےچینی میں مبتلا، نماز فجر کے بعد بآواز بلند تلاوت کا معمول،عشق نبوی سے سرشار کہ موت کی تمنّا اس مقصد سے کرتیں کہ قبر میں رسول اکرم ﷺ کی شبیہ دکھانے کا وعدہ ہے،اِسی عشق نبوی کا ایک مظہر کہ مدینہ منورہ میں بلند آواز سے تعمیری مشینوں کو زیر عمل دیکھا تو تڑپ اٹھیں کہ کہیں یہ شور رسول اکرمﷺ کے آرام میں خلل انداز نہ ہو اور اِسی لازوال عشق و محبت ِ نبوی میں غارِ حراء کی مشکل ترین بلندی کا عبور، زبانی جمع خرچ سے گریز، کچھ کہنے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا، بڑے گھر کی بیٹی، اونچے گھرانے کی بہو، لیکن اپنی شناخت خود قائم کرنے کا اتنا جذبہ کہ ’’قاسمی‘‘ یا ’’غازی‘‘ کی نسبت تک سے اجتناب، تربیت کے لیے بچوں پر کڑی نظر اور اس بات کی قائل کہ’’ انسان یا شوق سے سیکھتا ہے یا خوف سے‘‘، گویا شوق سے سیکھنے کی منزل تک پہنچنے سے قبل خوف سے سکھانے کی دھن، میکے کا دُکھڑا سسرال میں رونے کی سخت مخالف، تنگی اور عسرت کے دور میں بچوں کے لیے اپنی خواہشات اور لذتِ دہن پسِ پشت، اس عالم میں بھی کسی غیر کے سامنے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں، درزی سے زنانہ کپڑے سلوانا خلافِ غیرت، بچپن میں ’’باضابطہ‘‘ علم حاصل نہ کرپانے کا افسوس، لیکن اُس پر بڑوں پر طعن و تشنیع سے بچ کر حصولِ علم کی ’’دیگر‘‘ راہوں پر رواں دواں،حیاتِ مستعار کی ہر قیمتی بات اور ہر اہم واقعہ اُن کی ڈائریوں کا حصہ، بچوں کی دینی و ادبی تربیت اس طور پر کہ تاریخی واقعات بالخصوص شاہنامہ اسلام طرز میں سنانے کا معمول، بسا اوقات اس دوران رقت طاری،بچوں کی اخلاقِ حمیدہ سے آراستگی اور اخلاقِ رذیلہ بالخصوص جھوٹ، چغلی، غیبت وغیرہ سے دلوں میں نفرت پیدا کرنا اُن کا فرضِ منصبی، تعلیمی تاش کے ذریعہ بچوں کے ذہنوں کو نئے الفاظ سے مانوس کرانے کے لیے کوشاں، ساتھ ہی اقبال و غالب وغیرہ کے اشعار گنگنانا اُن کی زندگی کا حصہ، متواضع اور منکسر المزاج،نام و نمود سے دور، سادگی پسند لیکن سلیقہ مند، لکھنے کا انداز شستہ اور شگفتہ، تحریر نہایت پختہ اور خوب صورت، اردو پر اتنی قدرت کہ نو عمری میں فقط محاوروں پر مشتمل ’’الٹی گنگا‘‘ نامی افسانہ کی تخلیق، شادی کے بعد شوہر کی تحریک اور تائید پر ناول نگاری کا باقاعدہ آغاز، بایں طور کہ باورچی خانے میں ایک طرف ہانڈی چولہے پر، دوسری جانب قلم و کاغذ تیار، کبھی اِس پر توجہ توکبھی اُس پر، نہ یہ ناقص اور نہ اُس میں کوئی عیب، پھر اُن افسانوں اور ناولوں کی اتنی مقبولیت کہ ہندوستان میں تقریباً پچیس تو پاکستان میں تاجرانِ کتب کی کرم فرمائی سے پینتیس ناول منظر عام پر۔ دیوبند سے بجنور، بجنور سے ممبئی، قدرداں شوہر مولانا حامد الانصاری غازی کی وفات کے بعد امریکہ اور اخیر میں علی گڑھ ،وہیں علماء و دانشوران کے درمیان مدفون۔

باعزم خاتون کی پُرحوصلہ باتیں

یوں تو کتاب کے آخری باب میں ہاجرہ نازلی کے بہت سے قیمتی ادبی شہ پاروں کو جمع کیا گیا ہے، تاہم اُن کا تعلق اُن کے افسانوں اور ناولوں سے ہے، ذیل میں راقم اُن اقوال کا انتخاب پیش کرتا ہے جنہوں نے دورانِ مطالعہ دل پر دستک دی ، اصلاحی و تربیتی امور سے متعلق کچھ اقوال پیش خدمت ہیں:

  • مجھے موت کا صرف اس لیے شوق ہے کہ قبر میں جناب رسول اللہ ﷺ کی شبیہ دکھائی جاتی ہے۔
  • انسان شوق سے سیکھتا ہے یا خوف سے۔
  • زبانی جمع خرچ سے اثر نہیں ہوتا، کسی بھی معاملے میں عمل کا خانہ بھرپور ہوناچاہیے۔
  • میکہ جنم کا ساتھی ہوتا ہے، کرم کا نہیں۔ میکے میں اپنے مسئلے رونا عورت کی غیرت کے خلاف ہے، کمر ہمت باندھ کر حوصلوں سے جیو۔
  • رشتہ اور محبت اپنی جگہ ہوتاہے، بہت قیمتی اور پیارا، مگر غیرت کھوکر جینا میرے ہاں نہیں ہے۔
  • چیز کو اپنی جگہ پر رکھو کہ ضرورت پر اندھیرے میں بھی وہاں سے اٹھا لو۔
  • ماں اپنے بچے کو غلط بات پر ڈانٹتی ہے، مارتی ہے تو کہا جاتا ہے وہ تربیت کر رہی ہے، مگر یہی عمل جب سوتیلے بچے کے ساتھ ہوتا ہے تو ظلم کے زمرے میں آجاتا ہے۔
  • گھر میں عورت ہشاش بشاش رہے گی تو ماحول صحت مند رہے گا، ہر وقت اپنی بیماریوں کا رونا اپنی فطرت کا مذاق بنانا ہے، بلکہ عاقبت ناندیشی ہے، ایسے ہی مرد دل کا سکون باہر ڈھونڈتے ہیں۔
  • (غیرشادی شدہ لڑکیوں سے کہتی تھیں کہ) اپنے گھر کو جہنم بنانا ہے تو بے شک ساری دنیا میں ’’گھر کے پوتڑے دھویا کرو‘‘ لیکن دنیا میں عزت سے رہنا ہے تو کبھی اپنے گھر کی بات کسی دوسرے پر نہ کھولو، چاہے وہ تمہارے والدین ہی ہوں۔
  • (ان کے فرزند ارشد غازی صاحب نے وقتی طور پر اُس وقت کی مشہور شخصیت منوج کمار کے دفتر میں ملازمت کر لی تو اپنے بیٹے کو بس اتنا کہا)منوج کمار کے لیے یہ اعزاز ہو سکتا ہے کہ ارشد غازی اُن کے دفتر میں کام کرتے ہیں، ارشد غازی کے لیے وہاں کام کرنا کوئی اعزازنہیں ہے۔ (اس ایک جملے نے ارشد غازی کا زاویۂ فکر تبدیل کر دیا)
  • پہلے ہم سوچتے تھے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے، دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ کوئی کسی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں۔
  • تحریر اگر ذہن نہ بنائے، انسان کو انسان کے شرف سے متعارف نہ کرائے، اس کے اندر اپنی شناخت اور اپنے عرفان کا جوہر نہ پیدا کرے، اس کی کردارسازی نہ کرے تو وہ صرف وقت کا زیاں ہے۔

کچھ اہم اقتباسات

’’خانہ بدوشی کہیے یا متواتر مہاجرت کا عمل، ہمارا خاندان جگہ جگہ مقیم رہا، پر کبھی کسی ایک جگہ کا نہ ہوا، جہاں رہا اجنبی رہا، جیسے کسی سٹیشن پر کہیں اور جانے کے لیے کسی آنے والی نامعلوم ٹرین کے انتظار میں بکسے اور بستربند پر بیٹھے زندگی گزر رہی ہو، ابا جان نسب سے انصاری، یعنی ہر مہاجر کے لیے دل، در، دار ، سب وا کر دینے کی عادت کے اسیر، امی کا نام ہجرت کا عنوان، اسی کہکشاں میں گردش ہمارا نصیب۔‘‘ (شہناز کنول غازی، ص۱۰۰)

’’جہاں مرعویت ہے وہاں تعلیم ہے ترقی نہیں، ذہنی عروج نہیں، زبانیں سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں (آیات) ہیں، لیکن خود کو کمتر اور ارزاں سمجھنا احساسِ کمتری کی علامت ہے اور جس قوم میں یہ چیز آجائے وہ بلندی کی خواہاں نہیں رہتی، مرعوبیت انسان سے جوہر انسانیت چھین لیتی ہے۔‘‘(ایضاً، ص۱۰۳)

’’کہنے کو یہ (ابن صفی کے ناولس) جاسوسی ناول ہیں، مگر ان کے ذریعہ ابن صفی نے انسانی اعلیٰ اوصاف، فلسفہ اور رجائیت کو فروغ دیا، معاشرے کو اعلیٰ اقدار سے روشناس کرایا، عورت کی عزت، حرمت اور وقار کے ساتھ اس کے صحیح مقام کی نشاندہی کی، ان ناولوں نے عوامی طور پر مردوں کو عورت کا خیرخواہ بنایا، ایسی تحریروں نے عورت کو حیا دی اور مرد کو حیادار بنایا، حتی کہ مجرم عورتوں کو بھی راہِ راست دکھائی، جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے، ان کے قلم نے اس بات کو سچ کر دکھایا، یہ وہ دور تھا جب اردو کا بول بالا تھا۔ ہندو، مسلمان اور سکھ بہترین اردو جانتے تھے اور جو اردو جانتے تھے وہ ابن صفی کے جاسوسی ناول بھی پڑھتےتھے۔‘‘(ایضاً، ص۱۰۶)

’’آج کل تیز رفتار سفر کی سہولتوں اور پیسے کی فراوانی نے حج کی اعتقادی اور ایمانی اہمیت کو متأثر کر دیا ہے، لوگ پے بہ پے حج اور سال وار عمرہ پر عمرہ کرنے لگے کہ نہ حج کو جانے والوں کی وہ قدر رہی، نہ آنے والوں کا وہ اکرام جو کبھی معاشرے کا امتیاز تھا۔ ‘‘(ایضاً، ص۱۱۶)

’’دنیا میں کون ہے جس کا جیون سیدھا سپاٹ گزر گیا اور ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے زندگی کا سفر پورا ہو گیا ہو، ایسا جنّت میں ہو تو ہو، دنیا تو نام ہی اتار چڑھائو اور نشیب و فراز سے گزرنے کا ہے۔ یہ اتار چڑھائو نہ ہوتے تو کون کہانیاں لکھتا، ہجر و فراق اور قرب و ملاقات کے زمانے نہ ہوتے تو نہ داستانیں جنم لیتیں، نہ کسی زبان میں شاعری ہوتی، نہ لوک گیت گائے جاتے، نہ معاشرت اور معیشت ہوتی، نہ حرب و سیاست کے دائو پیچ ہوتے، نہ تاریخ کے خم و پیچ دنیا کے سامنے آتے۔‘‘ (ایضاً، ص۱۲۵)

’’قدم اٹھتے ہیں اور کشاں کشاں سادات منزل کی طرف جاتے ہیں، مگر گھر کا سناٹا صدا دیتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں۔‘‘ (منقول از خط: حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، ص۱۴۲)

’’ایک عام شکوہ ہے کہ علماء کے گھرانوں میں عورتوں کی باضابطہ تعلیم کا رواج نہیں تھا، اس صورت حال کے عمرانی اسباب پر آج تک کسی نے نظر نہیں کی، جس قوم پر اٹھارہویں صدی سے صدمات ٹوٹ رہے تھے، جس قوم نے ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ناقابلِ بیان مصائب جھیلے اور پھر زندہ بھی رہی، جس قوم نے ۱۸۷۰ سے ۱۹۴۳ء تک ۷۳ سال میں بارہ قحط بھگتے اور پھر ہڈیوں کے پنجرے سے تہذیب کی روح کو نہ نکلنے دیا ہو اس کے لیےتعلیم کو گالی بنادینا کون سی تہذیب ہے، اس زمانے میں تو مرد ہی پڑھ لے تو ہفت خواں کہلاتا تھا۔‘‘(محمد طارق غازی، ص۱۵۸)

’’شاہنامہ اسلام سنانے کے دوران امّی (ہاجرہ نازلی) جب بھی وہ نظم (صحرا کی دعا) ہمیں سناتی تھیں تو ان کی آنکھیں لبریز ہوجاتیں، آواز رُندھ جاتی، حلق میں پھندہ پڑ جاتا اور کچھ دیر شاہنامہ پڑھنے اور سننے میں توقف ہو جاتا۔‘‘(محمد طارق غازی، ص۱۷۲)

’’اس نئے دور نے اسبابِ راحت تو بہت پیدا کر لیے ، لیکن آرام وراحت غائب ہوگئے۔‘‘ (ملفوظ حکیم الاسلام قاری محمد طیب، ص۱۸۰)

’’امی (ہاجرہ نازلی) کے ہاں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا نام تعلیم نہیں تھا، بلکہ دین کی تعلیم کا تھا جو اصل تعلیم ہے، کالج اور یونیورسٹیوں میں انسان تعلیم حاصل نہیں کرتا، ہنر حاصل کرتا ہے، اصل تعلیم وہ ہے جو انسان کو ایک اچھا انسان بنائے اور یہ صرف اور صرف دینی تعلیم سے ہو سکتا ہے، کالج اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والوں میں نہ جانے کتنے جہالت سے آراستہ نطر آتے ہیں اور نہ جانے کتنے خود غرض اور سفاک بن کر ابھرتے ہیں، دینی تعلیم سے بہرہ ور ان عیوب سے عام طور پر پاک ہوتے ہیں اور مشعل راہ ہوتے ہیں۔‘‘ (محمد خالد غازی، ص۱۸۲)

’’جب کسی بڑی شخصیت پر کچھ لکھنے کو قلم اٹھائو تو اپنے فن کو اس ذات کی حد تک بلند کرو، ورنہ شخصیت سے انصاف نہیں کر پائوگے۔‘‘ (ملفوظ جالب مظاہری، ص۲۰۲)

’’(جنگ) اخبارکے مالک میر خلیل الرحمٰن خود بہ نفس نفیس ہندوستان آئے تھے کہ آپ (مولانا حامدالانصاری غازی) پاکستان چلیں، یہ ایک بہت بڑا آفر تھا، مگر والد گرامی نے یہ کہہ کر انہیں لوٹا دیا تھا کہ اس ملک کے مسلمانوں کو میری زیادہ ضرورت ہے، اس طرح انہوں نے ’’بے نامی جنگ‘‘ کے مقابلے ’’حقیقی جنگ‘‘ کو پسند کیا۔(ارشد منصور غازی، ص۲۱۱)

’’آج ان اعلیٰ اقدار کے اٹھ جانے کے سبب پورا معاشرہ ہی فکری زوال کو چھیل رہا ہے، کیو ںکہ نئی نسل نے اپنی زندگی کا محور خاندان کے بجائے اپنی ذات کو بنا لیا، عموماً لوگ اس کے لیے مغربی تہذیب کو ذمے دار ٹھہرا کر پلہ جھاڑ لیتے ہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مغربی اثرات قبول کرنے سے قبل بچہ ماں کے زیر تربیت ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتی ہے بچے کے مزاج کو ڈھال لیتی ہے۔‘‘ (عظمیٰ ناہید، ص۲۲۷)

’’میں ۱۸؍سال کی عمر میں شمالی امریکہ آگیا تھا، میں نے اس اثناء میں ہزاروں کو مغربی مادّیت کے سمندر میں بہتے ہوئے دیکھا ہے، اگر گھر کی تربیت اور بزرگوں سے روحانی تعلق نہ ہوتا تو شاید میں بھی اس سمندر میں غرق ہو چکا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا، یقیناً یہ اماں (ہاجرہ نازلی) کی دوراندیشی اور ان کی روحانیت کا اثر تھا۔‘‘ (محمد منصور غازی، ص۲۴۳)

’’فکشن کی ہماری تنقید میں ان ناولوں کو تو بہت اچھالا گیا جو بے راہ روی اور معاشرتی اچھل کود کی ترغیب دیتے ہیں یا جنسیات کے لذیذ مصالحوں میں لپیٹ کر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن جو ادب زندگی گزارنے کا فن سکھاتا ہے اُسے دقیانوسی اور غیردلچسپ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دراصل ہماری تنقید اپنے فرض سے مجرمانہ حد تک کوتاہی برت رہی ہے۔‘‘ (رفعت سروش، ص۲۵۴)

’’ہاجرہ نازلی کے افسانوں اور ناولوں کا مقصد مسلم لڑکیوں میںامانت و دیانت اور خیر و صلح کا بیج بونا بھی ہے، ان کا مقصد صدق و صفا، بڑوں کے لیے احترام اور چھوٹوں کے لیے محبت کے جذبات پروان چڑھانا ہے، جب کہ دوسرے ادبی حلقوں میں قلم کی حرمت ندارد۔‘‘ (محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ص۲۶۴)

’’انہوں (ہاجرہ نازلی) نے معاشرے کی کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی تو کی ہے، اس پر تنقید بھی کی ہے، مگر ان کے لب و لہجے میں نفرت اور حقارت نہیں ہے، بلکہ وہ ہمدردی اور دلسوزی صاف جھلکتی ہے جو ایک مربی مصلح کی شانِ امتیاز ہے۔‘‘(سیّد منصور آغا، ص۲۷۶)

’’ادب سے بھی اگر دین جدا ہو جائے تو چنگیزی رہ جاتی ہے، یہی آج کے اردو ادب کا منظرنامہ ہے، بیش تر چنگیزی اور بے راہ روی اور بداخلاقی۔ مستثنیات بھی ہوںگے۔ مگر تکلیف دہ صورت حال ہے، اردو ادب زوال پذیر ہے، ادیب دینی فریضہ انجام نہیں دے رہے ہیں، اور ادب وقت کے دھاروں کا رخ موڑ سکنے سے قاصر ہے۔‘‘(نجمہ محمود، ص۲۸۹)

کچھ خامیاں

۱-کتاب کا معیارِ طباعت وغیرہ عمدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، کاش کہ پروف ریڈنگ پر مزید توجّہ دی جاتی!! کمپوزنگ کی اغلاط کافی ہیں، اور سیٹنگ کی خطائیں اس پر مستزاد۔

۲- جب کسی ایسی شخصیت کے حالات قلم بند کیے جائیں جس کا تعلق ایک نہایت اونچے گھرانے اور خانوادے سے ہو، جس کی علمی و ادبی، دینی و تحریکی خدمات ہوں تو ضروری نہیں کہ اُس شخصیت کے ہر پہلو کو قلم بند کر دیا جائے، بعض باتیں ’’اپنوں‘‘ کے درمیان سینہ بہ سینہ ہی رہنی چاہئیں۔

۳- بعض مقالہ نگاروں کی جانب سے کچھ ایسی باتیں بھی درج ہیں جو تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں، مثلاً نجمہ محمود صاحبہ نے حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کا زمانۂ اہتمام بیس سال کا لکھا ہے، جب کہ یہ عرصہ پینتیس سال کا ہے۔ اس کے علاوہ مرتبۂ کتاب اور ہاجرہ نازلی کے بیٹے کی جانب سے اُن کی باحجاب زندگی کی کیفیت اور اس حوالے سے ایک مقالہ نگار کا بیانیہ بھی متضاد ہے۔ اس لیے ہر پہلو کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد مضمون میں معمولی حذف و اضافہ کیا جا سکتا تھا، اور اگر مضمون بعینہٖ باقی رکھنا لازم تھا تو حاشیہ میں اُس بات کی مناسب انداز میں توجیہ یا تردید ہونی چاہیےتھی ۔

غازی خانوادہ کی خدمت میں

راقم اوّلاً مرتبۂ کتاب محترمہ شہناز کنول غازی کی خدمت میں ہدیۂ شکر و سپاس پیش کرتا ہے کہ انہوں نے عظیم والدہ، صابر و شاکر اہلیہ، مخلص و وفا شعار ہم شیرہ اور مقبول قلم کار کے حالات یکجا کر دیے، جن سے نسل نو بالکل ناواقف تھی، اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت بخشے اور آنے والی نسل؛ بالخصوص خواتین اسلام کو آپ کی والدہ جیسی ہمت و حوصلہ اور زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ اپنی مشرقی تہذیب اور تعلیماتِ اسلام کو سینے سے لگانے کی توفیق عنایت فرمائے، البتہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہاجرہ نازلی جیسی عظیم مصنّفہ، معتبر و مستند مضمون نگاراور شاندار و لازوال قلم کار کی تحریریں آج کے دور میں نایاب ہیں، فقط لائبریریوں کی زینت بنانے سے کسی بھی تحریر یا صاحب ِ تحریر کا باقی رہنا ممکن نہیں، جب تک اُس کا تذکرہ، اُس کے مضامین و افسانے، ناول اور کتابیں نئی نسل کے ہاتھوں میں موجود نہ ہوں، اردو زبان و ادب کی کتابوں کی مارکیٹ کی ابتری سے بندہ کسی حد تک واقف ہے، تاہم اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی اردو زبان وادب کے شوقین موجود ہیں جو پرانے قلم کاروں کو پڑھنا چاہتے ہیں، اُن کی تحریروں میں معاشرے کی خامیاں اور اُن کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، اُن کے جیسا لکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہاجرہ نازلی کے علمی و نسلی وارثین سے میری درخواست ہے کہ اُن کی تحریریں رفتہ رفتہ شائع کی جائیں، ناول تو جدید کمپیوٹر کتابت کے بعد شائع ہوں، جب کہ دیگر چھوٹے بڑے افسانوں کا ایک مجموعہ تیار کر دیا جائے، مجھے امید ہے کہ دنیائے ادب میں اس کے قدرداں ضرور میسر آئیں گے۔

دوسری درخواست یہ کہ سوانح میں ہاجرہ نازلی کی جن ڈائریوں کا مبسوط تذکرہ ہے ، اُس کا انتخاب بھی شائع کیا جائے، یہ بھی ہو سکتاہے کہ تمام ڈائریاں کمپیوزنگ کے بعد بعینہٖ شائع کر دی جائیں، جہاں ضرورت ہو وہاں حاشیہ میں اُس واقعہ کا کچھ پس منظر ذکر کر دیا جائے، امید ہے کہ یہ بکھرے ہوئے ادبی موتی بھی مقبول ہوں گے۔

امت کی محسن خواتین کا تذکرہ ضروری ہے

بڑوں کا تذکرہ، تعلیم و تربیت کے حوالے سے اُن کی خدمات، علمی و عملی مشاغل، اشاعت دین میں بے لوث قربانیاں؛ یہ وہ عنوانات ہیں جن پر چھوٹی بڑی بے شمار کتابیں موجود ہیں، لیکن ’’کفر و ارتداد‘‘ کے اس دور میں بہت شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اکابرکی ان سوانحی کتب کے ساتھ ساتھ گھر میں دینی ماحول فراہم کرنے والی، بچوں کی اسلامی تربیت کرنے والی، امورِ خانہ داری کے ساتھ نونہالانِ اسلام کے دل میں ایمانی روح بیدار کرنے والی، خدمت دین کے لیے مطلوب پُرسکون زندگی کے ہر قدم پر ہمارے بڑوں کا ساتھ نبھانے والی اُن محسن خواتین کے تذکرے اور ان کے معمو لات پر مشتمل مضامین، مقالات، کتابچوں اور چھوٹی بڑی کتابوں کی اشاعت کی جانب بھی توجّہ دی جائے، جس سے آنے والی نسلوں میں غیرت مند مائیں، پُرعزم بہنیں اور مصائب و آلام پر صبر کرنے والی شریک ِ حیات جنم لے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply