شاہی امام سید عبداللہ بخاری کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

شاہی امام سید عبداللہ بخاری کی وفات آج ہی کے دن 8 جولائی 2009 کودہلی میں ہوئی۔ ان کی پیدائش 1922میں ریاست راجستھان میں ہوئی تھی۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنی عمر کے سوبرس عبور کرچکے ہوتے۔ میری نظر میں شاہی امام سیدعبداللہ بخاری اس ملت کے محسن تھے اور جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں ان پر اللہ اپنے محسن اتارنا بندکردیتا ہے۔ آج اس مضمون کا محرک یہی خیال پریشاں ہے۔ یوں بھی جب سے ملت اسلامیہ ہند پر برا وقت پڑا ہے مجھے نہ جانے کیوں بار بار ان کی یادآرہی ہے۔ ان کا نہ تو سیاست سے کوئی ناطہ تھا اور نہ ہی وہ اس کے داؤ پیچ جانتے تھے۔ دراصل حالات نے انھیں مجبور کردیا تھا کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کریں۔ حالانکہ ان کا یہ تجربہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا، کیونکہ سیاست دانوں نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو وہ اکثر ایسے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں جو برے وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔

شاہی امام سید عبداللہ بخاری کی یاد میں

شاہی امام سید عبداللہ بخاری مرحوم دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے بارہویں امام تھے۔ دہلی کی جامع مسجد تعمیر کرنے کے بعد ان کے اجداد کو شاہجہاں نے بخارا سے خاص طورپر مسجد کی امامت کے لیے مدعو کیا تھا اور تب سے یہی خاندان اس منصب پر فائز ہے۔ انھیں خاندانی روایت کے مطابق 1946میں جامع مسجد کا نائب امام مقررکیا گیا اور 8 جولائی 1973کو انھوں نے اپنے والد سید حمید بخاری کی جگہ شاہی امامت کا منصب جلیلہ حاصل کیا۔ ان کا انتقال 8 جولائی 2009 کو 87 سال کی عمر میں ہوا۔

میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ درجنوں بار ان کے انٹریوزلئے اور سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ بارہا ان کے شاہی دسترخوان پرلذیذ مغلئی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملا۔ لیکن جس ادا نے مجھے ان کا گرویدہ بنایا تھا، وہ ان کی بے پناہ جرات اور بے باکی تھی۔ وہ خدا کی بادشاہت پر یقین کامل رکھتے تھے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد لاکھوں فرزندان توحید کے درمیان اس یقین کو یوں دوہراتے تھے۔ ”ہم صرف ایک ہی اللہ کی بادشاہی اور اس کی سربلندی پر ایمان اوریقین محکم رکھتے ہیں۔ اسی کے آگے اپنا سرنیاز جھکاتے ہیں اور اسی در پہ سجدہ ریز ہوتے ہیں“ واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ان الفاظ کو اپنی گرجدار آواز میں منبر سے دوہراتے تھے تو نمازیوں کے بدن میں ایک عجیب حرارت پیدا ہوتی تھی اور خدا پر یقین مضبوط ہوتا چلاجاتا تھا۔

آج ہندوستان میں مسلمانوں کو جن مسائل و مصائب کا سامنا ہے، ان میں مجھے دوردور تک شاہی امام جیسی جرات اور ہمت والا قائد نظر نہیں آتا۔ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے مگر ان کا شخصی جاہ وجلال اور وجاہت ایسی تھی کہ ان سے ہرکوئی مرعوب تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھیونڈی کے فسادزدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے وہ بمبئی پہنچے تو سانتا کروزہوائی اڈے پر جہاز کے تمام ہی مسافر ان کی ایک جھلک پانے کے لیے قطارمیں کھڑے ہوئے تھے۔سرخی مائل گول چہرہ، چوڑی پیشانی، سرپرخاص قسم کی چوکور ٹوپی، آنکھوں پر کالا چشمہ ان کی خاص پہچان تھی۔وہ ہمیشہ عربی توپ پہنتے تھے کہ اس میں ان کا بھاری بھرکم وجود سماجاتا تھا۔ آپ ان کے جذباتی طرز عمل اور فکر پرتنقید کرسکتے ہیں، لیکن ان کے اخلاص اور نیک نیتی پر انگلی نہیں اٹھاسکتے۔ انھوں نے پوری زندگی ملت کے نام وقف کی تھی اور وہ حکمرانوں سے برابری کی سطح پر مسلم مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔

انھوں نے پوری زندگی عام انسانوں کی طرح گزاری۔وہ وی آئی پی کلچر کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی مخصوص لوگوں کی محفلوں میں اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ عام لوگوں کے درمیان بالکل عام انسانوں کی طرح رہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا اصل ظہور ایمرجنسی کا دوران ہوا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف وہ اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے۔ اس دوران ایک مرتبہ جب آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کررہی تھیں تو ان کے مدمقابل شاہی امام جامع مسجد کے منبر سے دوبدو ان کی باتوں کو جھٹلارہے تھے۔ اس دوران انتظامیہ نے جب مسجد کی بجلی کاٹ دی وہ تب بھی لاؤڈاسپیکر سے یہ کام کرتے رہے۔ اندرا گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والوں میں وہ سرفہرست تھے، کیونکہ انھوں نے جنتا پارٹی کی تحریک کے دوران اپوزیشن لیڈروں کے شانہ بشانہ انتخابی مہم چلائی تھی۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ 1977 میں جنتا پارٹی سرکار بننے کے بعد جب وزیراعظم مرارجی ڈیسائی نے انھیں نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ پیش کیاتو انھوں نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا تھا۔ اس کے بعد1989میں وی پی سنگھ کی قیادت والی جنتادل سرکار بنوانے میں بھی انھوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آنجہانی وی پی سنگھ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے شاہی امام سے آشیرواد لینے جامع مسجد کے اسی حجرے میں آئے تھے، جو ہرخاص وعام کے لیے کھلا ہوا تھا۔

ایمرجنسی کے بعدشاہی امام نے جے پرکاش نرائن، بابو جگجیون رام، چندرشیکھر، راج نارائن اور چودھری چرن سنگھ کے ساتھ درجنوں انتخابی جلسوں کو خطاب کیا اور ملک کے اندرسیاسی بیداری پیدا کی۔ مجھے یاد ہے کہ جنتا پارٹی حکومت کا پہلا عوامی جلسہ رام لیلا گراؤنڈ میں منعقد ہوا تو شاہی امام پہلی صف میں بیٹھے تھے اور انھوں نے اس حکومت کو اپنا’عصا ئے شاہی‘دکھاتے ہوئے اپنی گرجدار آواز میں للکارتے ہوئے خبردارکیا تھا کہ ”اگر یہ حکومت بھی اپنی راہ سے بھٹکتی ہے اور جبر وتشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اسے بھی عوامی طاقت کے ذریعہ اقتدار سے ایسے ہی بے دخل کیا جائے گا، جیسا کہ اندرا سرکار کو کیا گیا تھا “ میں اس عوامی جلسے کا عینی گواہ ہوں۔

کہنے کو وہ شاہی امام تھے اور اسی خاندان کے چشم وچراغ بھی تھے جسے شاہجہاں نے جامع مسجد کی تعمیر کے بعد امامت کے لیے بخارہ سے طلب کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے تو محل میں بھی رہ سکتے تھے۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے سے حجرے میں بیٹھ کر ضرورت مندوں کی مددکیا کرتے تھے۔

آج ملک میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے ان میں مجھے ان جیسا کوئی بے لوث مسلم قائد نظر نہیں آتاجو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ آج کی مسلم قیادت مصلحت کے حصاروں میں قید ہے اور اسے ملک وملت سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر لاحق ہے۔ شاہی امام کی خوبی یہ تھی کہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔ نہ تو انھیں دولت کی چاہ تھی اور نہ ہی اقتدار سے انھیں کوئی سروکار تھا۔ ان کا پسندیدہ اخبار روزنامہ ’پرتاپ‘ تھا جو اس دور میں اپنے تیکھے اداریوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ یہ ادارئیے اکثر مسلمانوں پر تنقید سے لبریز ہوتے تھے۔ میں نے ’پرتاپ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا اخبار ان کے ہاں نہیں دیکھا۔حالانکہ اس دور میں ’دعوت‘، الجمعیۃ‘ اور ’قومی آواز‘ جیسے اخبار بھی شائع ہوتے تھے، لیکن وہ ’پرتاپ‘ ہی شوق سے پڑھتے تھے۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ مسلمانوں نے اپنے مخلص قائدین کی قدر نہیں کی اور انھیں موت کے بعد فراموش کردیا۔ میں ان مخلص قائدین میں ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی، ابراہیم سلیمان سیٹھ، غلام محمود بنات والا، سلطان صلاح الدین اویسی اور سید شہاب الدین کو بھی شمارکرتا ہوں، جو آج ہماری یادداشت سے محو ہوچکے ہیں۔ خدا ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply