شجاعت بخاری کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
آج بے باک اور بے خوف کشمیری صحافی سید شجاعت بخاری کا یوم شہادت ہے۔ انھیں 14جون 2018کو سری نگر میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولیوں سے بھون ڈالاتھا۔ اس حملے میں ان کے دومحافظ بھی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ وارادات سری نگر کے پریس انکلیو میں شجاعت کے دفتر کے باہر ہوئی تھی جہاں کشمیر سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات کے دفاتر ہیں۔ شجاعت کو دن کے اجالے میں موت کی نیند سلانے والے کون تھے، اس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ شجاعت نے اپنا کیریر انگریزی روزنامہ ”دی ہندو“ سے بطور نامہ نگار شروع کیا تھا۔ وہ کشمیر کے اہم صحافیوں میں شامل تھے۔ میں مسلسل ان کی رپورٹیں پڑھ رہا تھا، لیکن کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
010میں یوں ہوا کہ مجھے برطانوی سفارتخانے سے ایک خط ملا جس میں لندن میں منعقد والی’افغانستان کانفرنس‘میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے دعوت نامہ قبول کرلیا۔ اس سفر میں کئی دیگر صحافی بھی شامل تھے۔جب دہلی سے لندن کی پرواز میں سوار ہوا تو شجاعت بخاری بھی اس میں موجود تھے۔ ہم دونوں کی نشستیں بھی ساتھ ساتھ تھیں۔ یہ شجاعت سے میری پہلی ملاقات تھی۔ ہم دونوں ایک ہفتہ برطانیہ میں قیام کیا۔لندن کے علاوہ برمنگھم اور کارڈف کی بھی سیرکی۔ شجاعت کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ تحریر کے ساتھ ساتھ گفتگو کے بھی رسیا تھے۔ سفر کے دوران کئی ایسے مواقع آئے کہ ساتھی صحافیوں سے کشمیر کے سوال پر ان کی بحث چھڑ گئی۔ اس گروپ میں شجاعت اور میں دوہی مسلمان صحافی تھے۔باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ کشمیر اور ہندوستان کا قصہ چھڑتا تو شجاعت کی خواہش ہوتی کہ میں ان کی طرفداری کروں، مگر بعض موضوعات ایسے بھی تھے جہاں میں شجاعت کا ہم خیال نہیں تھا۔
بہرحال ہم نے ایک ہفتہ تک برطانیہ کی سیر کی اور لندن میں منعقدہ ’افغانستان کانفرنس‘ میں بھی شرکت کی، جہاں دنیا بھر کے صحافی شریک تھے۔ اس کانفرنس میں صحافیوں کے لیے لاجواب سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔سفر کے خاتمہ پر شجاعت بخاری لندن سے امریکہ چلے گئے اور ہم لوگ دہلی واپس آگئے۔ یہ ایک یادگار سفر تھا۔ شجاعت بخاری سے بے تکلف دوستی ہوگئی۔سرینگر اور دہلی میں ان سے اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں۔
مئی2015 میں جب میرا سرینگر جانا ہوا تو ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پریس انکلیو میں واقع اپنے دفتر بلالیا، جہاں سے وہ انگریزی روزنامہ ”رائزنگ کشمیر“ اور اردو روزنامے”بلند کشمیر“ کے علاوہ ایک اردو ہفتہ وار ”کشمیر پرچم“بھی شائع کررہے تھے۔ پورے اسٹاف سے مجھے ملوایا۔کافی دیرگفتگو رہی۔ میں چشمہ شاہی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ابھی اپنی قیام گاہ پہنچا ہی تھا کہ اطلاع ملی کے پریس انکلیو میں ایک صحافی کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہے۔ صحافی کا نام یاد نہیں رہا۔ میں چند منٹ پہلے وہاں سے واپس آیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کشمیر میں صحافت کرنا کتنا مشکل کام ہے۔شجاعت تو یوں بھی جنگجوؤں کے نشانے پر تھے اور پہلے بھی تین بار ان پر قاتلانہ حملہ ہوچکا تھا۔ لیکن وہ بے لاگ صحافت کے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے اور اسم بامسمٰی ہوکر پوری شجاعت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کررہے تھے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سچ پوچھئے تو شجاعت نے سچ بولتے رہنے کی قیمت اپنی جان دے کر چکائی۔
شجاعت بخاری کی پیدائش 25فروری 1968 کو بارہمولا میں ہوئی تھی۔انھوں نے منیلا یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔ 1997 سے 2012 تک وہ سری نگر میں انگریزی روزنامہ ”دی ہندو“ کے نامہ نگار رہے۔ اس کے بعد انھوں نے خود اپنا اخبار نکالا۔وہ صحافت کے علاوہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے بھی وابستہ تھے۔ وہ ادبی مرکز کامزار کے صدر تھے جو کشمیر کی ایک ثقافتی اور ادبی تنظیم ہے۔ انھوں نے کشمیر کے سوال پر کئی امن کانفرنسیں کروائیں۔ وہ ہندوپاک کے درمیان ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کا بھی حصہ تھے۔ انھوں نے انگریزی میں ”ڈرٹی واراِن کشمیر“کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔شجاعت بخاری کوایک بے باک، نڈر اور بے لاگ صحافی کے طورپر ہمیشہ یاد رکھے جائے گا۔