شہید صحافی مولوی محمد باقر
معصوم مرادآبادی
1857کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے جن اولین مجاہدین آزادی کو سزائے موت دی، ان میں ’دہلی اردواخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی محمدباقر کا نام سب سے نمایاں ہے۔انھیں 16ستمبر 1857کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑادیا گیا تھا۔ ان کاقصور یہ تھا کہ انھوں نے پہلی جنگ آزادی میں باغی سپاہ اور بہادرشاہ ظفر کا ساتھ دیا تھا۔ مولوی محمدباقر ہندوستان کی جنگ آزادی میں شہید ہونے والے پہلے صحافی ہیں۔’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر اپنے عہد کے ایک جید عالم اور مفکر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے ایک ایسے دور میں صحافت کے مشن کو زندہ کیاجب سچ بولنا اور لکھنا سب سے بڑی آزمائش کا کام تھا۔
مئی 1857میں جب دہلی میں باغی سپاہیوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں آزادی کا صور پھونکا اورانگریز سامراج کی چولیں ہلنے لگیں تو جن لوگوں نے سپاہیوں کے حوصلوں اور امنگوں کو اپنی تحریروں سے جلا بخشی ان میں مولوی محمد باقر کانام سب سے نمایاں ہے۔ 1857کی جنگ کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے 77سال کی پیرانہ سالی میں مولوی محمدباقر کو کوئی مقدمہ چلائے بغیر توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑادیا ۔ اردو صحافت کے معروف محقق مولانا امداد صابری نے لکھا ہے :
”مولانا باقر، میدان جنگ میں دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے ساتھ باغیانہ مضمون اپنے اخبار میں چھپواتے تھے۔ چنانچہ 11مئی 1857کو دہلی میں مجاہدین نے انگریزی حکومت کا خاتمہ کرنے والا جو تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا اس کی جو رپورٹ 16مئی1857کے ’دہلی اردو اخبار‘ میں شائع ہوئی تھی، وہ مولانا باقر کی مرتب کردہ تھی اور باہمت بنانے والی جو نصیحتیں ’دہلی اردو اخبار‘ میں دوران جنگ چھپتی تھیں، وہ بھی مولانا باقر کی لکھی ہوئی تھیں اور خاص طورپر وہ اشتہار جو انگریزوں اور اس کے حامیوں نے دہلی کی جامع مسجد کی دیوار اور دیہاتوں کے تھانوں میں مجاہدین کے خلاف جہاد کو غیر شرعی ثابت کرنے کے لئے چسپاں کیا تھا اس کی نقل اور اس کا تفصیلی جواب5جولائی 1857کے ’دہلی اردو اخبار‘ میں شائع ہوا تھا، وہ بھی مولانا باقر کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔“
(اردو کے اخبار نویس جلد اول صفحہ156)
انقلاب کا آغاز 10 مئی کو میرٹھ کے سپاہیوں کی بغاوت سے ہوا۔ 11مئی کو یہ سپاہی دہلی پہنچے۔ جس کے بعد راجدھانی دہلی شورش و ہنگامے کی لپیٹ میں آگئی۔ 17 مئی کو ہفتہ وار ’دہلی اردو اخبار‘کا شمارہ منظر عام پر آیا تو اس کے صفحات انقلاب کی خبروں سے لبریز تھے۔ یہ اخبار جو متوازن اور بڑی حدتک محتاط لب و لہجہ کا حامل تھا، انقلاب کی فضاکے زیر اثر اس کی احتیاط اور لب و لہجہ کا توازن بگڑ گیا اور اب یہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا اخبار تھا۔ صفحہ اول پر انقلاب کی خبر کا عنوان اور اس کا ابتدائیہ قرآنی آیات سے شروع ہوا تھا۔ خبر کا عنوان تھا ”قل فاعتبروا یا اولی الا بصار“ (عبرت ہے دیکھنے والی آنکھ کے لیے) خبر کے آغاز میں جو قرآنی آیات درج تھیں اور بعد ازاں ایڈیٹر نے اپنی زبان میں جو تمہید باندھی تھی، اس میں خدا کی بزرگی اور برتری کے اعلان اور عزت و ذلت عطا کرنے میں اس کے بے پایاں اور لامحدود اختیارات کے اعتراف کے بعد انسانوں کی غفلت اور گمراہی کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور پھر انگریزوں کی حکومت و طاقت کے خلاف ہونے والے عظیم معرکے کو موضوع بنایا گیا تھا ملاحظہ ہو:
”وہ حکام ظاہر الاستحکام جن کے استقلال حکومت و انتظام کے زوال کا نہ ان کو خیال تھا اور نہ کسی غفال کو وہم و گمان کبھی آسکتا تھا ایک طرفتہ العین میں وہ نمایاں ہوگیا۔“
دہلی اردو اخبار نے اپنے صفحات پر نہایت ولولہ انگیز تقریریں شائع کیں،جو مجاہدین آزادی کے حوصلوں کو مہمیز کرنے والی تھیں۔ ایک ایسی ہی تقریر میں مجاہدین نے کہا تھا:
”یہ معرکہ تمہارا بھی تو اریخوں میں یاد رہے گا کہ کس بہادری اور جواں مردی سے تم نے ایسی اولوالعزم اور متکبر سلطنت کے کبر و غرور کو توڑا ہے اور ان کی نخوت فرعونی اور غرور شدادی کو یکسر خاک میں ملا دیا ہے اور ہندوستان کی سلطنت کو جس پر بڑے بڑے بادشاہوں کا دانت تھا اور ان سے (انگریزوں سے) نہ لے سکتے تھے۔ تم نے اون کے قبضہ اقتدار سے نکال لیا اور رعائے ہندوستان کو کہ بلائے ناگہانی میں آگئی تھی اس مصیبت سے نجات دی۔“(دہلی اردو اخبار: 21 جون 1857)
1857 میں ’دہلی اردو اخبار‘کے غیر معمولی کردار کے بارے میں مولانا امداد صابری رقم طراز ہیں:
”دہلی میں جب تک جنگ جاری رہی اس وقت تک دہلی اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات آزادی کو کامیاب کرنے کے لیے وقف کررکھے تھے۔ بلکہ اس کے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے جنگ لڑی اور جس وقت جنگ ناکام ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہوگئے تواخبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا محمد باقر انگریزوں کی گولی کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا۔“(روح صحافت ص 260)
مولوی محمد باقر کے پر نواسے آغا محمد باقر(نبیرہ محمد حسین آزاد) نے خاندانی روایت کے حوالے سے اپنے نانا کے آخری ایام کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔
”خاندانی روایت یہ ہے کہ مولانا آزاد (محمد حسین آزاد)سردار سکندر سنگھ کے پاس کشمیری دروازے چلے آئے اور سردار بہادر سے بصد منت سماجت التجا کی کہ میں اپنے شفیق باپ کی آخری بار زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ سردار بہادر نے جواب دیا۔ حالات بہت خطرناک ہیں آپ کا دہلی میں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن آزادا نہ مانے آخر سردار صاحب راضی ہو گئے۔ قرار پایا کہ آزاد ان کے ساتھ سائیں کا لباس پہن کر چلیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے اور آزاد سائیں کے لباس میں ان کے پیچھے بھاگے۔ دہلی دروازے کے پاس میدان میں ایک ہجوم نظر آیا۔ جو دن کی دھوپ سے نڈھال تھا فوجی پہرے میں وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے تھے۔ اس ہجوم میں ایک طر ف ایک مرد خدا نہایت خشوع و خضوع سے اپنے پروردگار کی عبادت میں محو تھا۔ وہ آزاد کے شفیق باپ مولوی محمد باقر تھے۔ آزاد گھوڑے کی باگ تھامے فاصلے پر کھڑے اور منتظر تھے کب آنکھیں چار ہوں۔ مولوی صاحب نے نماز ختم کرکے نظر اٹھائی تو سامنے اپنے پیارے بیٹے کو پایا۔ چہرے پر پریشانی کے آثارپیدا ہوئے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گذری۔ انہوں نے دعا کیلئے فوراً ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی اشارہ کیا کہ بس آخری ملاقات ہو چکی۔ اب رخصت۔ سردار صاحب نے اپنا گھوڑا موڑ لیا اور واپس چلے آئے۔“(مولوی محمدباقر، مطبوعہ ادبی دنیا،لاہور)
آغامحمد باقر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کو جنرل ہڈسن نے اس وقت گولی نہیں ماری تھی جب وہ پرنسپل ٹیلر کا سامان لے کر گئے تھے بلکہ مولوی محمد باقر کی شہادت کا واقعہ انہیں حراست میں لینے کے بعد کا ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ مولوی محمد باقر کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلا اور نہ ہی انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا بلکہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے انہیں 77سال کی کبر سنی میں نہایت سفاکی سے شہید کر دیا گیا۔