شیر شاہ پر ایک علمی وتحقیقی کتاب کا مطالعہ

 طلحہ نعمت ندوی

شیر شاہ ہندوستان کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس سے کوئی انصاف پسند مورخ اعراض نہیں کرسکتا، اس نے مملکت کا جو نظم ونسق قائم کیا تھا وہ اس قدر بے نظیر تھا کہ مغل انگریز سب نے اسی کو باقی رکھتے ہوئے اس میں توسیع کی۔

شیر شاہ کے ان کمالات کا حق تھا کہ اس کی کوئی جامع تاریخ لکھی جائے۔

شیر شاہ پر ایک علمی وتحقیقی کتاب کا مطالعہ 
شیر شاہ پر ایک علمی وتحقیقی کتاب کا مطالعہ

اردو میں یوں تو شیر شاہ پر کئی اہم کام پہلے سے موجود تھے، اور قدیم فارسی مآخذ کے اردو ترجمے بھی ہوئے، البتہ بیسویں صدی کی جامع کتابوں میں سید مرتضی سرونجی کی صولت شیرشاہی بہت اہم تھی، اس کے علاوہ بھی اردو میں کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ لیکن ایک جامع کتاب کی ضرورت باقی تھی، یہ کام ایک ہندو فاضل کے قلم سے وجود میں آیا، یعنی مشہور بنگالی مورخ کالکا رنجن قانون گو، جو مشہور مورخ جادو ناتھ سرکار کے شاگرد تھے اور پٹنہ یونیورسٹی میں رہ چکے تھے۔

انہوں نے شیر شاہ اینڈ ہز ٹائمز کے عنوان سے بہت ہی عالمانہ اور ضخیم کتاب لکھی اور اب تک کے تمام کاموں اور تمام مآخذ کا بہت ہی عالمانہ جائزہ لیا۔ فارسی کے ساتھ اردو اور عربی سے بہ ظاہر وہ اچھی طرح واقف تھے ۔اس کا اردو ترجمہ بھی شیر شاہ اور اس کا عہد کے عنوان سے بہت پہلے منظر عام پر آیا اور بازار میں دستیاب ہے۔ قانون گو نے در اصل اپنی طالب علمی کے زمانہ میں یا اس کے فورا بعد شیر شاہ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی، لیکن ایک طویل عرصہ جو غالبا نصف صدی یا اس سے کچھ کم عرصہ تھا گذرنے کے بعد جب انہوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی تو اس کا عنوان بھی تبدیل کردیا اور اس میں بہت زیادہ ترمیم بھی کردی کہ خود ان کے بقول اب وہ پہلی کتاب نہیں رہی، اس لیے موجودہ کتاب کا مطالعہ کرنے والا پہلی کتاب کو پہلا ایڈیشن سمجھ کر اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ دیگر تصحیحات وترمیمات کے ساتھ انہوں نے اولین ایڈیشن کے دو اہم باب نکال دئے۔ ایک آخری باب جس میں شیر شاہ کے نظم ونسق پر بہت ہی تفصیلی روشنی ڈالی تھی اور دوسرے مآخذ کا جائزہ جو بہت عالمانہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دوسرے ایڈیشن کے وقت وہ پہلے کی طرح غیر جانب دار مورخ نہیں رہ گئے تھے، ان کے خیالات میں بہت تبدیلی آ چکی تھی، ملک آزاد ہوئے عرصہ ہوچکا تھا، اور وہ راجپوت کے ایک ترجمان کی حیثیت سے نمایاں ہوچکے تھے، راجپوت کی تاریخ پر ان کی تحقیقی کتاب شائع ہوچکی تھی۔ اس لیے دوسری کتاب میں ان کے افکار کی اس تبدیلی کی پوری جھلک موجود ہے۔

قانون گو کے بعد پھر طویل عرصہ تک شیرشاہ پر کوئی قابل ذکر تحقیق نہیں نظر آتی، کچھ مونوگرام قسم کی چیزیں ضرور لکھی گئیں۔

یہ اتفاق ہے کہ ایک طویل عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر ایک غیر مسلم فاضل نے ہی قلم کو جنبش دی، اور شیر شاہ کی بہار میں خدمات کو خاص طور پر موضوع بحث بنا کر اختصار اور جامعیت کے ساتھ اپنی تحقیق و مطالعہ کا خلاصہ پیش کیا۔

یہ Sher Sah and his Successors یعنی شیر شاہ اور اس کے جانشین کے مصنف سنیل کمار سنگھ ہیں۔ کالکا رنجن قانون گو نے تقسیم ہند سے پہلے اگر فارسی عربی مآخذ سے براہ راست استفادہ کیا تو اس قدر حیرت کی بات نہیں تھی، لیکن اس دور میں کسی ہندو اہل علم کی عربی فارسی اور اردو مآخذ پر ایسی عالمانہ نظر اور تاریخ کی تدوین میں ان سے استفادہ یقینا قابل تعریف ہے، جب کہ بیشتر مورخین قدیم انگریزی وہندی مآخذ پر انحصار کرلیتے ہیں، پھر مصنف نے دہلی یا علی گڑھ کے مسلم دانشگاہوں میں نہیں پڑھا ہے کہ وہ مسلم ثقافت سے واقف ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ انہوں نے بہار ہی میں تعلیم مکمل کی ہے۔ چنانچہ کتاب میں موجود ان کے تعارف کے مطابق وہ قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ کے سر کٹی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اور رام لکھن سنگھ یادو کالج اورنگ آباد بہار میں استاد رہے پھر مگدھ یونیورسٹی گیا کے شعبہ تاریخ میں منتقل ہوگئے۔

موصوف نے اس کتاب میں بھی تمام مآخذ کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے، اور فارسی کے ساتھ ہندی اور سنسکرت مآخذ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان سے استفادہ کیا ہے۔ قانون گو کی تصنیف کے بعد شیرشاہ سے متعلق سے بہت سے اہم مآخذ دریافت ہوئے جن میں دولت شیر شاہی اور سنسکرت میں اجین کی تاریخ بہت ہی اہم ہے، پیش نظر مورخ نے ان سب سے استفادہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ انہوں نے شہر شاہ کے عام حالات پیش کرکے بہار میں ان کی اور ان کے جانشینوں کی خدمات کے لیے ایک باب مختص کیا ہے۔ اور ایک باب میں اس کی پوری مملکت کی معاشی وتعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ اور بہت توازن کے ساتھ غیر جانبداری سے اپنی تحقیق پیش کی ہے۔

یہ کتاب 2006 میں پٹنہ میں تحقیقی وتاریخی کتاب کے مشہور ادارہ اشاعت جانکی پرکاشن اشوک راج پتھ پٹنہ نے شائع کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply