عابد رضا بیدار کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

خدابخش لائبریری کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی رحلت گزشتہ 28 مارچ 2025کو علی گڑھ میں ہوئی ۔ یہ جمعۃ الوداع کا وہ دن تھا جس میں مرنے کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔ انتقال کے وقت ڈاکٹر بیدار کی عمر 92 برس تھی۔ وہ اپنی بیماری سے کچھ عرصے پہلے تک نہایت سرگرم زندگی بسر کررہے تھے۔ ان کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا محور علم وادب کی خدمت تھا۔ کسی نام ونمود کی خواہش کے بغیر انھوں نے ایسی غیر معمولی علمی وادبی خدمات انجام دیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ وہ شخصی طور پر بھی بہترین اوصاف کے حامل تھے اور علمی وادبی حلقوں میں ایک باوقار اور بلنداخلاق انسان طور پر مقبول تھے۔ انھوں نے مدتوں طالبان علم کی بے لوث رہنمائی کی۔ وہ سیمیناروں میں طلباء کو پہلی صف میں جگہ دیتے تھے۔ وہ بہت ہی اچھے منتظم اور اپنی منصبی ذمہ داریوں کے تئیں انتہائی سنجیدہ شخصیت تھے۔

عابد رضا بیدار کی یاد میں
عابد رضا بیدار کی یاد میں

یوں تو انھوں نے کئی اداروں میں خدمات انجام دیں، لیکن پٹنہ کی خدابخش لائبریری کو انھوں نے جس مقام تک پہنچایا، اس کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے ذریعہ انھوں نے اس لائبریری کو عالمی شناخت عطا کی۔ لائبریری کے درودیوار آج بھی ان کی خدمات کے گواہ ہیں۔ وہ جب اپنی سبکدوشی کے بعد پٹنہ چھوڑ کر رامپور منتقل ہوئے تو لائبریری ایک عرصے تک ماتم کدہ بنی رہی۔ حالانکہ وہاں ان کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں، لیکن تمام آزمائشوں کے بعد وہ سرخرو ہوکر نکلے۔ وہ علم وادب اور تحقیق کے شہسوار اور مختلف علوم کے جامع تھے۔ مطالعہ اور رقم طرازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ اردو زبان وادب کو ان پر ہمیشہ ناز رہے گا۔

ڈاکٹر بیدار نے اپنی عمر کا آخری حصہ علی گڑھ میں گزارا،جہاں وہ اپنی بیٹی ڈاکٹر شائستہ بیدار کی تیمارداری میں رہے۔پچھلے دنوں ڈاکٹر شائستہ بیدار نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ وہ اپنے ابا پر ایک کتاب مرتب کررہی ہیں اوراسے ان کی زندگی ہی میں شائع کرانا چاہتی ہیں۔افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔کیونکہ ان کے متعلقین نے بار بار کی یاددہانی کے باوجود مضامین فراہم نہیں کئے۔ اب ان کے انتقال کے بعد لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ یہ ہمارا عجیب مزاج ہے کہ کسی قابل قدر علمی اور ادبی شخصیت کو اس کی زندگی میں یاد نہیں کیا جاتا اور مرنے کے بعد لوگ اس کا ماتم کرتے ہیں۔کاش ڈاکٹر بیدار کی بیش بہا علمی وادبی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جاتا۔

میری محرومی یہ ہے کہ ڈاکٹر عابد رضا بیدار سے میری کبھی باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی۔ انھیں کئی بار سیمیناروں اور ادبی تقریبات میں دیکھنے اورسننے کا موقع ضرور ملا اور ہربار ان کی علمی لیاقت اور دانشوری نے مجھے اپنی طرف کھینچا، مگر اس بلند رتبے کے انسان کے قریب جاتے ہوئے مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ستاتا رہا۔ کاش میں اپنی اس جھجک کو توڑ کر ان سے ملتا اور باتیں کرتا تو اس مضمون میں کچھ اورچاشنی ہوتی۔ پٹنہ کی شہرہ آفاق خدا بخش اورنیٹل لائبریری میں ان کے عظیم الشان کارناموں کے بارے میں بارہاسنتا اور پڑھتا رہا اور یہ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ میرے پڑوسی وطن رامپور کا ایک فرزند ایسا بھی ہے جس نے علم وتحقیق کی دنیا میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔رامپور میرا وطن نہ سہی میرے اجداد کا وطن ضرور ہے۔ میرے والد اور دادا کی پیدائش اسی شہر میں ہوئی اور آج بھی میرے سیکڑوں رشتے دار وہاں رہتے ہیں۔ جب کبھی رامپور جاتا ہوں تو اپنے رشتہ داروں سے ملنے ملانے کے ساتھ ساتھ رضالائبریری کا دیدار ضرور کرتا ہوں۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور مجھ میں ایک مماثلت ضرور تھی کہ وہ بھی میری طرح روہیلہ پٹھان تھے اور ان کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے تھا۔ان کے آباواجداد کسی زمانے میں سرحدی علاقہ سے رامپور آکر آباد ہوئے تھے۔عابد رضا بیدار ان کی پانچویں پیڑھی کے فرد تھے۔ ان کے والد رامپور ریاست میں رینٹ کلیکشن کے شعبہ میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر بیدار کی پیدائش 12 اگست1933کو اسی مردم خیز خطے رامپور میں ہوئی اور یہیں کی مشہور زمانہ لائبریری سے 1959 میں انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغازکیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں برصغیر ہندوپاک میں ان کے پایہ کا ایک بھی عالم موجود نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں جو بیش بہا علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں، ان کی ہمسری کوئی نہیں کرسکا۔مطالعات اسلامی، فارسی ادب، ہندوستان کی ثقافتی تاریخ، عربی و فارسی مخطوطے، مغربی ایشیاء،وسطی ایشیاء اور اردو ادب ان کی تحقیق کے میدان تھے۔انھوں نے اپنی سرگرم زندگی میں اردو، فارسی، انگریزی، عربی اور ہندی میں چالیس کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اسلام، ہندوازم، مخطوطہ شناسی، تحریک آزادی، فارسی اور اردو ادب، ہندوستانی تاریخ و ثقافت اور ہندوستان میں اسلام جیسے موضوعات پر دوسوسے زیادہ کتابیں مرتب کیں۔

ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی عملی زندگی کا سب سے قیمتی عرصہ پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں گزرا جو رضا لائبریری کی طرح مشرقی علوم کا ایک اہم مرکز ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمت پچیس سال اس لائبریری کو دئیے اور خدا بخش لائبریری کو ایک بہترین علمی اور تحقیقی ادارے میں بدل دیا۔ کتابوں کی اشاعت اور علمی وادبی امور میں یہاں ان کی خدمات بے مثال ہیں۔ان کے اندر کام کرنے کا ایسا جنون تھا کہ انھوں نے اپنی صحت، تندرستی اور آنکھیں سب کچھ اس لائبریری کی نذر کردیں۔ آج یہ لائبریری جس مقام پر ہے، اگر ڈاکٹر بیدار وہاں نہ ہوتے تو اسے یہ مقام ہرگز حاصل نہیں ہوتا۔ انھوں نے عام سرکاری ملازموں کی طرح یہاں محض نوکری نہیں بجائی بلکہ اسے اپنے نجی ادارے کی طرح سجایا اور سنوارا۔ وہ1972سے 1995تک اس لائبریری کے ڈائریکٹر رہے۔یہ دور خدابخش لائبریری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔خدا بخش لائبریری کو عالمی سطح کا ادارہ بنانے کے لیے انھوں نے انتھک جدوجہد کی۔ جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے انھوں نے آڈیو ویژول، آڈیو کلیکشن اور ویڈیو لائبریری نظام کو متعارف کرایا۔ انھوں نے لائبریری کو الیکٹرانک وسائل سے مالامال کیا۔ آج یہ لائبریری ان تمام جدید سائنسی اور تکنیکی سہولتوں سے لیس ہے، جو مغربی دنیا کے کتب خانوں کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر بیدار اردو زبان وادب کے بھی سب سے بڑے محسن تھے۔ اردو زبان وادب کے فروغ میں ان کے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے پورادفتر چاہئے۔ اردو میں ان کی اہم کتابوں میں ’مقدمہ طلسم ہوشربا‘، رتن ناتھ سرشار کی تصنیف ’قندیل حرم‘ کا تنقیدی جائزہ، نوبت رائے نظر کے ماہنامہ ’ادیب‘ کی منتخب تحریریں، قاضی عبدالودود کے معیار تحقیق کا تنقیدی جائزہ، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا مودودی، رتن ناتھ سرشار، محمد حسین آزاد اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مشاہیر کے اولین صحیفوں کی اشاعت، اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار، جدید اردو غزل گو شعراء کا تذکرہ اور انتخاب کلام،غالب کی شخصیت اور شاعری پر دوکتابیں، ’نئے اور پرانے چراغ‘کے عنوان سے تنقیدی مضامین کا مجموعہ جیسی تصنیفات انھیں اردو کے معتبر نقادوں کی صف میں شامل کرتی ہیں۔’اردو نثر کا حسن‘عنوان سے شائع شدہ کتاب میں انھوں نے اردو کے نابغہ روزگار نثرنگاروں کی تحریریں اس انداز میں جمع کردی ہیں کہ اردو نثر کا ساراحسن بیک وقت قاری کے ذہن میں سماجاتا ہے۔

ڈاکٹر بیدار کی ابتدائی تعلیم ان کے وطن رامپور میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے انھوں نے اسلامی مطالعات میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے علاوہ اردو ادب میں بھی ماسٹر کیا۔ لائبریری سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسلامی قوانین کی بھی تعلیم حاصل کی اور بین الاقوامی امور میں ڈپلومہ بھی کیا۔علم کی طلب اور تڑپ ان کے اندر شروع سے موجود تھی اور وہ جہاں بھی رہے اپنا ہنر جگاتے رہے۔ خدابخش لائبریری سے سبکدوشی کے بعد وہ رامپور آگئے اور وہاں چاہتے تو آرام کی زندگی بسر کرسکتے تھے، لیکن یہاں بھی انھوں نے علم کی ترسیل کا کام جاری رکھا۔

1996میں رامپور میں انھوں نے فارسی زبان وادب کی ترویج واشاعت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ بے شمار اسکالروں کو گائڈ کیا اور انھیں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تیاری کرائی۔ المیہ یہ ہے کہ تیاری ڈاکٹر بیدار کراتے تھے اور اس پر ٹھپہ علی گڑھ یا جامعہ کے کسی پروفیسر کا لگتا تھا۔ ڈاکٹر بیدار کو شہرت اور دولت سے ہمیشہ گریز رہا۔ علم وادب کی بے لوث خدمت کے جس مشن کو انھوں نے ابتدائی زندگی میں اپنایا تھا، وہ آخری عمر تک اس سے سرشار رہے۔صارفیت کے موجودہ دور میں ایسے اہل علم کا تصور ہی محال ہے۔ وہ صحیح معنوں میں عالم باعمل تھے اورانھوں نے پوری زندگی اس کی پیروی کی۔انھوں نے سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھی کام کیا اور بین المذاہب مفاہمت کا ایک ادارہ قائم کیا۔

ڈاکٹربیدار کے قدردانوں میں ایک شخصیت جامعہ ہمدرد کے بانی حکیم عبدالحمید کی تھی، جو ان کی خدمات سے جامعہ ہمدرد کو فیض یاب کرنا چاہتے تھے۔ ان کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب سید حامد یونیورسٹی کے چانسلر بنے۔ انھوں نے ڈاکٹر عابد رضا بیدار کو یونیورسٹی سے بطور وزیٹنگ پروفیسر وابستہ کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے جامعہ ہمدرد سے وابستگی کے دوران اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا اور یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران کھانے پینے اور رہنے کا خرچ اپنی جیب خاص سے برداشت کرتے رہے۔ وہ چاہتے تھے تو یونیورسٹی سے ماہانہ رقم وصول کرکے اپنا بینک بیلنس بڑھا سکتے تھے مگر دولت کشید کرنا ان کا مقصد حیات نہیں تھا۔ جامعہ ہمدرد میں انھوں نے حکیم عبدالحمید کی خدمات پر کئی جلدیں تیار کیں ۔

ابتدائی دور میں انھوں نے 1964سے1972 تک جے این یو کے انڈین اسکول برائے انٹر نیشنل اسٹڈیز میں لکچرر کی خدمات انجام دیں۔ یہیں سے خدا بخش لائبریری میں بطور ڈائریکٹر ان کا تقرر اور ان کے تحقیقی وتصنیفی کاموں کا باقاعدہ آغازہوا۔ اسلامی علوم میں ماسٹر کرنے سے پہلے سے ہی انھیں اسلامیات، فارسی زبان وادب، ہندوستان کی تہذیبی تاریخ اور اسلامی سلطنتوں کے تاریخ وتمدن سے خاص دلچسپی تھی۔ اردو زبان ادب اور تہذیب سے تو انھیں پیدائشی لگاؤ تھا۔ انھوں نے دوران تعلیم عربی، فارسی،انگریزی اور ہندی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل کی۔ انھوں نے اپنی دلچسپی سے فرنچ کی شدبد بھی حاصل کرلی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام موضوعات پر ان کے لیے مطالعہ وتحقیق کاکام آسان ہوگیا، جن سے انھیں شروع سے دلچسپی تھی۔بطور ڈائریکٹر خدابخش لایبریری میں انھوں نے عالمی سطح کے بڑے بڑے سمینار منعقد کئے جن کے وجہ سے وہ دنیا بھر کے علمی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ اپنے تحقیقی امور کے لیے انھوں نے کراچی، استنبول، پیرس، اصفہان، شیراز، تہران، دبئی، لندن، آکسفورڈ، کیمبرج،ماسکو اور قاہرہ جیسے شہروں کا سفر کیا اور عالمی سطح کی علمی مجلسوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی درس گاہوں اور کتب خانوں کا جائزہ لے کر اہم علمی مواد بھی اکٹھا کیا۔ ڈاکٹر بیدار نے اردو کا تحقیقی اور تخلیقی معیار بلند کیا اور اسے نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ انھوں نے ” ہندوستان میں اسلام“ جیسے موضوع پر بیس کتابیں، ہندوازم پر ایک درجن کتابوں کے علاوہ جین مت، بدھ ازم اور سکھ مذہب پر بھی کتابیں تخلیق کیں۔انھوں نے کثیر تعداد میں نادر ونایاب قدیم مخطوطات کی دریافت اور ان کی عصری معیار پر تدوین میں نمایاں کردار اداکیا۔ انھیں قدیم مخطوطات کا ماہر تصور کیا جاتا تھا۔ہندوستان کی تاریخ آزادی کی دستاویزوں پر مبنی چھ کتب کے علاوہ انھوں نے اردو، فارسی اور عربی مخطوطوں کی بیس فہرستیں مدون کیں۔ پانچ اہم شخصیات کی سوانح عمریوں کے علاوہ پروفیسر حسن عسکری اور قاضی عبدلودود کے ریسرچ پیپرز پر مبنی بارہ جلدیں، ہندوستانی مذاہب، ادب وتہذیب پر پچیس کتابیں،دیا نرائن نگم کے مشہور عالم جریدے’زمانہ‘ سے منتخب کرکے شائع کیں۔انھوں نے علامہ اقبال، مولانا آزاد اور سرسید کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد کتابیں تصنیف کیں۔غرض یہ کہ ڈاکٹر عابدرضا بیدار کی علمی، ادبی اور تحقیقی کاوشیں اتنی ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لیے پورا دفتر چاہئے۔ وہ علم وادب کے ایسے شہسوار تھے، جن پر زمانہ ہمیشہ ناز کرے گا۔

(بشکریہ ماہنامہ "آجکل ” جولائی 2025 )

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare